بےشک ہر آغاز کا ايک سرانجام بھي ہے اور ہر شروع کا ايک اختتام؛ سوائے ذات باري تعالي کے جو آغاز بھي ہے اور انجام بھي؛ اور وقت بھي اسي نے پيدا کيا ہے اور اس قانون سے خارج نہيں ہے چنانچہ زمين ميں کتاب زندگي کے آخري اوراق کو آخرالزمان کہتے ہيں- (1)
قرآن کريم نے متعدد آيات ميں دورہ آخرالزمان کي طرف اشارہ کيا ہے اور اسلامي معارف ميں بھي بارہا "آخر الزمان" کي اصطلاح کو دو معاني ميں استعمال کيا گيا ہے (2):
1- وہ زمانہ جو پيغمبر خدا (ص) کي ولادت سے شروع ہوکر عظيم رستاخيز يا آخرت کے آغاز پر اختتام پذير ہوگا، اسي بنا پر رسول اللہ (ص) کو نبي آخر الزمان کا لقب ملا ہے-
2- وہ زمانہ جو حضرت مہدي (عج) کے ظہور سے شروع ہوتا ہے اور عصر غيبت و ظہور کے تمام واقعات کو اپنے بطن ميں لے کر، قيامت کے آغاز پر اختتام پذير ہوتا ہے- اور اس زمانے ميں "آخرالزمان" سے يہي مراد لي جاتي ہے اور اس لفظ کے يہي معني ہيں؛ آخرالزمان کي اس قسم کے بھي دو مرحلے ہيں:
الف- پہلا دور، جب انسان اخلاقي زوال کے آخري مراحل تک پہنچتا ہے، اخلاقي برائياں اور ظلم و ستم تمام انساني معاشروں ميں پھيل جاتا ہے اور بروايتے دنيا ظلم و جور سے بھر جاتي ہے-
ب- دوسرا دور، جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا اور نجات دہندہ ظہور کريں گے اور عالمي حکومت تشکيل ديں گے اور کفر و ظلم کے خلاف جدوجہد کريں گے اور عالم وجود کو عدل و انصاف سے مالامال کريں گے- امام رضا (ع) فرماتے ہيں:
"خداوند متعال قائم (عج) کے ہاتھوں سے زمين کو ہر ظلم و ستم سے پاک کرے گا اور لوگوں کے درميان ميزان عدل رکھيں گے"- (3)
وقت کا يہ حصہ ـ جو آخرالزمان کہلاتا ہے ـ بعض علائم اور نشانيوں کا حامل ہے جن ميں سے بعض کي طرف اشارہ کريں گے-
حوالہ جات:
1- آسماني اور غيرآسماني اديان نے بھي آخرالزمان کي پيشن گوئياں کي ہيں: انجيل ميں ہے کہ "--- اور جان لو کہ آخرالزمان ميں دشوار حالات آئيں گے کيونکہ وہ لوگ خودپرست، زرپرست، مغرور و متکبر، کفر گو، والدين کے نافرمان، حق ناشناس اور بےدين ہونگے ..."- كتاب مقدس، حواري پولس کا خط پوپ سوئم تيموئيوس، کے نام-
2- دايرة المعارف بزرگ اسلامي، ج2، ص 134ـ136-
3- كمال الدين وتمام النعمة (مجلد واحد) ص 372-