جناب فاطمہ حزام کلابیہ کی بیٹی تھیں ۔ جو بعد میں ام البنین کے نام سے معروف ہوگئیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) نے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا : تو عرب کےنسب شناس ہو؛ میں اپنے بیٹے حسین کی حفاظت کیلئے ایک اپنا نائب چاہتا ہوں ،جو حسین کی مدد کرے ۔ بھائی عقیل ! کسی بہادر گھرانے کی کوئی خاتون تلاش کرو۔ ام البنین(ع) کا نام پیش کیا گیا جو شرافت و پاکدامنی اور زہد و تقوی کے اعتبار سے مشہور تھیں ۔ امیرا لمومنین(ع) نے منظور فرمایا ۔ عقد ہوا ، ام البنین علی (ع) کے گھر تشریف لائیں ، حسن وحسین (ع) تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ ام البنین (س) نے ہاتھ جوڑ کر کہا : شہزادو! میں ماں بن کے نہیں ،بلکہ میں تو کنیز بن کر آئی ہوں ۔
جناب ام البنین (س)کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے عباس،عبداللہ ، جعفر اورعثمان تھے (4-5-6) ۔ ایک پوتا تھا ،پانچ قربانیاں ایک گھر سے ۔مروان بن حکم کہتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی ۔ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہے ۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو بین کے الفاظ یہ تھے۔ عباس !اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین (ع) نہ مارے جاتے(7)۔
یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجے اور اپنے ساتھ مدینے میں ایک بھی نہیں رکھے۔اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہرا(س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔
:(8)فلما نعی الیها الاربعة ، قالت : قد قطعت نیاط قلبی ۔ اولادی ومن تحت الخضراء کلهم فداء لابی عبدالله الحسین(ع) ۔ اخبرنی عن الحسین(ع)۔ جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا:اس خبر سے کیا مراد ہے؟ مجھے اباعبداللہ (ع) کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبردے دی تو کہا : میرا دل پھٹ گیا ، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہیں سب اباعبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہوں ،مجھے اباعبد اللہ الحسین(ع) کے بارے میں بتائیں۔
...........