بشر کا تعلق رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے صحابی حضرت ابوایوب انصاری (رہ) کی نسل سے ھے
ھے بشر حضرت امام ھادی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابیوں میںسے تھے پیشہ کے اعتبار سے بشر بن سلیمان غلام اور کنیز وغیرہ کی خریدوفروش کا کام کیا کرتے تھے ۔
ایک رات سامرہ میں بشر بن سلیمان اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ دروازہ پر دستک ھوئی تو پتہ چلا کہ امام ھادی علیہ السلام کا خادم کافور آیا ھے اور کہتا ھے کہ فوراً چلو! حضرت امام علیہ السلام نے بلایا ھے ۔ بشر بن سلیمان بھی جلدی سے تیار ھو کر حضرت امام علیہ السلام کی خدمت میں پہچے ۔ انھوں نے دیکھا کے امام ھادی علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند امام حسن عسکری علیہ السلام سے گفتگو میں مشغول ھیں۔
امام ھادی علیہ السلام نے بشربن سلیما ن سے فرمایا :
” اے بشر تم انصاری کی نسل سے ھو ۔ھماری محبت ھمیشہ سے تمھارے دلوں میں رہتی آرھی ھے تمھاری ھر نسل نے ھماری محبت کو ارث میں حاصل کیااور اب میں چاہتا ھوں کہ ایک راز تم پر آشکار کروں اور تمھیں ایک اھم کام کی ذمہ داری سو نپوں ۔یہ کام تمھارے لیے با عث فضیلت ھو گا اس طرح سے کہ تم سارے شیعوں میں اس فضیلت میں پھل کروگے۔ “
اسکے بعد امام ھادی علیہ السلام نے رومی زبان میں ایک خط لکھا اور اپنی مھر مبارک لگا کر بشر کو دیا اور اس کے ساتھ ایک بٹوا بھی دیا ۔ جس میں دوسو بیس(۲۲۰)دینار تھے ۔یہ دونوں چیز تھمانے کے بعد فرمایا !” یہ دونوں چیزیں لیکر بغداد کی جانب روانہ ھوجاؤ فلاں دن ظھرسے پھلے فرات کے راستے میں پھنچ جاؤ ۔ جب غلاموں اور کنیزوں کی کشتیاں
وھاں پھنچیں اس جگہ پر بہت سے لوگ خریداری کی غرض سے آ ئے ھوئے ھوں گے کچھ لوگ عباسی عھداروں کی طرف سے ھونگے جبکہ تھوڑے بہت جوانان عرب بھی دکھائی دینگے تم اس دن دور سے دیکھتے رھنا اور ایک کنیز وغلام بیچنے والا بنام عمربن یزید کے پاس جانا اور تم دیکھو گے کہ اسکے پاس ایک کنیز ھوگی جس نے رنگین ریشمی کپڑے پھنے ھوئے ھونگے ۔اور جب کوئی اسکی بولی لگائے گا تو وہ کسی کے لیے بھی اپنا نقاب نھیں اٹھائے گی ۔
اسی دوران خریداروں کے ہجوم میںایک سےاہ شخص آگے بڑھ کر تین سو(۳۰۰) دینار میںاس کنیزکو خریدنا چاھے گا ۔جس پر یہ کنیز اس شخص کی غلامی میں جانے سے انکار کر دے گی اور کھے گی کہ:
”اگر مجھے کوئی رئیس زادہ بھی آکرکیوںنہ خریدنے کی کوشش کرے مجھے اس سے کوئی دلچسپی نھیں ھو گی لہٰذا تم اپنا پیسہ ضائع مت کرو “
اس موقع تم اٹھکر عمروبن یزید سے کھنا ! میرے پاس اشراف عرب میں سے ایک کا خط ھے جو رومی زبان میں لکھا ھوا ھے یہ اس کنیز کو دےدواگر یہ راضی ھو جائے تو مجھے اپنے موکّل کی طرف سے اجازت ھے کہ ان کے لیے کنیز خریدلوں کنیزنے خط لیکر پڑھا اور عمروبن یزید سے کھا کہ مجھے اس خط کے لکھنے والے کے لیے بیچو ورنہ میں اپنے آپ کو ھلاک کر لوں گی اس موقع پر بشربن سلیمان اور عمروبن یزید میں مزاکرہ شروع ھوا اور یہ سودا دوسوبیس(۲۲۰)دینار پر آکر ختم ھوا ۔
پھر بشربن سلیمان کنیز کو لےکر گھر آیا تو دیکھا کہ وہ خط کوھاتھ میں لیکر چومتی جارھی ھے ۔بشربن سلیمان نے حیرت سے سوال کیا کہ ! تم ایسے خط کو چوم رھی ھو جس کے لکھنے والے کو جانتی تک نھیں ھو ۔جس پر اس خاتون نے جواب دیا :غور سے سنو !میںملےکہ بنت یشوعا بن قیصر رو م ھوں میری ماں کا نسب شمعون علیہ السلام سے ملتا ھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وصی تھے اب میں تمھیں بہت حیرت انگیزواقعہ سنانے جارھی ھوں ۔
جب میری عمرتیرہ سال کی ھوئی تو میرے دادا قیصر روم نے اپنے بھتیجے سے میری شادی کرنے کا فیصلہ کیا ۔محفل منعقد کی گئی تین سو راھب اور سات سوپادری وھاں موجود تھے نیز چارہزار فوجی سردار ،شرفاء اور معززین بھی اس محفل میںشریک تھے ۔تخت وتاج شھنشاھی کو جواھرات سے سجایاھواتھا جیسے ھی میرے دادا کا بھتیجا تخت پر بیٹھا اور صلیب کواسکے گرد گھما یا جانے لگا سب تعظیم میں کھڑے ھوگئے اور انجیل کے صفحات کو کھولا گیا۔
جس وقت شادی کی رسم شروع کی جانے لگی ایک مرتبہ ساری صلیبیں الٹ کر گرگئیں ۔تخت وتاج لرزنے لگے وہ جوان جو شادی کی غرض سے آیا تھا بیھوش ھو کر گر پڑا سب کے چھروں سے رنگ اڑ گیا راھبو ں کے بزرگ نے میرے داداسے کھا ! اس نحوست والے عمل کو چھو ڑدو کہ جس کی وجہ سے مسیحیت نابودھوتی ھوئی نظر آرھی ھے ۔ میرے داداقیصرروم نے جواب میںکھا کہ صلیبوںکو اپنی جگہ نصب کرو ۔ ساری چیزوںکو اسکی جگہ پر رکھو پھر اپنے دوسرے نمبر کے بھتیجے کو بلایا تا کہ میری شادی اس سے کر دی جائے دوبارہ سے دربار کو سجایا گیا اور محفل جمائی گئی جیسے ھی رسم شادی شروع کرنے کی بات کی گئی دو بارہ وھی حادثہ پیش آیا اور سب کچھ درھم برھم ھوگیا میرے دادا افسردہ ھوکر اپنے حر م سرا میں چلے گئے۔
میں نے اس رات ایک خواب دیکھاکہ جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ۔میں نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ، شمعون اور حواریوں کا ایک گروہ میر ے دادا کے محل میں جمع ھے اور ایک نور سے بناھوامنبر عین اسی مقام پر نصب ھے کہ جھان میرے دادا کا تخت ھوتا ھے ۔اسی وقت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنے وصی اور دامادامیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام اور ان کی اولادمیں سے ایک گروہ کے ھمراہ تشریف لائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر حضرت محمد (ص)کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔ اس وقت حضرت محمد (ص)نے حضرت عیسیٰ سے فرمایا !میں تمھارے وصی شمعون کی بیٹی ملیکہ کا رشتہ اپنے بیٹے ابومحمد علیہ السلام کے لیے ما نگنے آیا ھوں ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت شمعون علیہ السلام کو مخاطب کرکے فر مایا! اے شمعون علیہ السلام تمھاری قسمت جاگ اٹھی ھے شر افت اور فضیلت تمھیں نصیب ھو رھی ھے اپنے خاندان کا آل محمدعلیھم السلام کے خاندان سے رشتہ جوڑ لو ۔
شمعون نے جواب دیا !اطاعت ھوگی ۔اس وقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)منبر پر تشریف لائے اور خطبہ نکاح پڑھکر میرا ابومحمد سے عقد کر دیا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، انکے حواری اور آل محمدعلیھم السلام ھمارے نکاح کے گواہ ھیں ۔
جب اس سنھرے خواب سے میری آنکھ کھلی تو میں ڈر گئی کہ اگر اس خواب کو اپنے دادا کو سنایا تو وہ مجھے قتل کردیں گے لہٰذا اس خواب کو ایک راز کی طرح اپنے سینے میں رکھا لیکن اس خواب نے مجھے اتنا بدل دیا تھا کہ ھر وقت ابو محمد علیہ السلام کی محبت کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اور کھانے پینے کی طرف سے بالکل توجہ ہٹ گئی تھی یھاں تک کہ میں مریض ھوگئی ۔
پوری مملکت روم میں کوئی ایسا طبیب نہ تھا جس نے میرا علاج نہ کیا ھو مگر سب کا سب بے فائدہ رھا میرے دادا نے مایوس ھوکر مجھ سے سوال کیا ! میری بیٹی ! کیا تمھارے دل میں کوئی خواہش ھے کہ جو اس دنیا میں تمھارے لئے پوری کروں۔
میں نے جواب دیا ! داداجان اگر آپ حکم کریں کہ جتنے بھی مسلمان آپکی قید میں ھیں انکی زنجیروں کو کھول دیا جائے اور انکو اذیت کرنا بند کردیا جائے اور ان پر احسان کرکے ان کو آزاد کردیا جائے تو مجھے امید ھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انکی والدہ حضرت مریم علیھا السلام میرے لیے سلامتی اور رحمت کے دروازے کھول دیں ۔
کیوںکہ میرے دادا نے میری خواہش پوری کردی تھی میں بھی کوشش میں لگی رھی کہ اپنے آپ کو صحتمند دکھاؤں لہٰذا تھوڑا بہت کھانا پینا شروع کردیا میرے دادا نے خوش ھو کر اسیروں کو مزید رعایت دیدی ۔
پھلے خواب کے چودہ روز بعد دوبارہ خواب دیکھا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاتشریف لائی ھیں اور حضرت مریم سلام اللہ علیھابھی انکے ھمراہ ھیں جبکہ ایک ہزار کنیزیں بھی انکے ھمراہ ھیں حضرت مریم سلام اللہ علیھانے مجھ سے مخاطب ھوکرفرمایا ! یہ خاتون جنت سلام اللہ علیھا اور تمھارے شوھر ابو محمد علیہ السلام کی والدہ ھیں ۔ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دامن میں سر رکھ کر رونے لگی اور ابو محمد علیہ السلام کے میرے پاس نہ آنے کا شکوہ کیا ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا ! جب تک تم مشرک رھو گی ابو محمد علیہ السلام تمھارا دیدار کر نے نھیں آئیں گے یہ میری بھن مریم بنت عمران ھیںکہ جو بارگاہ الٰھی میں تمھارے دین سے اظھار برائت اور دوری کرتی ھیںاب اگر تم خدا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم سلام اللہ علیھاکی خوشنودی چاہتی ھو اور ابو محمد علیہ السلام سے ملنے کی خواہش بھی رکھتی ھو تو بو لو:
اشهد ان لا اله ا لّا اللّه واشهد انّ محمد اًرسول اللّه ۔
جیسے ھی میں نے کلمہ شھادتیں اپنی زبان پر جاری کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے مجھے سینے سے لگا کر فرمایا:
اب ابومحمد علیہ السلام کے انتظار میںرھنا تمھاری جلدی ھی ان سے ملاقات ھو جائے گی۔
نیند سے اٹھکر ابو محمد علیہ السلام کے دیدار کے لئے لمحہ شماری کرتی رھی اس کے بعد والی رات کو خواب میں ابومحمد علیہ السلام کی زیارت کی اور اس کے بعد سے آج تک ھر رات ان کو خوا ب میں دیکھتی آرھی ھوں ۔
بشر بن سلیمان نے سوال کیا کہ: پھر اسیر کس طرح ھوئیں ؟
جناب نرجس خاتون علیھا السلام نے جواب دیا :ایک رات ابو محمد علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تو انھوں نے فرمایا ! ابھی کچھ دنوں میں تمھارے دادا مسلمانوں سے جنگ کرنے کی غرض سے ایک لشکر لے کر چلیں گے تم بھی نوکرانیوں کے لباس میں چھپ کر انکے ساتھ مل جانامیں نے ان کے فرمان کی اطاعت کی اور یھی ھوا کہ مسلمانوں نے حملہ کیا اور میں اسیر ھو گئی اور ابھی تک کسی کو معلوم نھیں کہ میں روم کے بادشاہ کی پوتی ھوں بشربن سلیمان نے سوال کیا کہ یہ فصیح و بلیغ عربی کھاں سے سیکھی ؟ تو خاتون علیھا السلام نے جواب دیا کہ میرے داداکو پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق ھے اوران کی خواہش تھی کہ میںمختلف قوموں کی زبان اوران کے ادب وآداب سیکھوں اسی بنا پر انھوں نے ایک خاتون کو حکم دیا کہ وہ مجھے صبح وشام عربی سکھائے ۔
اور یہ پورا قصّہ تھاکہ اس طرح سے حضرت نرجس خاتون علیھا السلام روم سے سامراء پھنچیں ۔اس کے بعد حضرت امام ھادی علیہ السلام نے اپنی بھن حکیمہ علیھا السلام کو بلا کر میری جانب اشارہ کرکے فرمایا یہ وھی خاتون ھیں کہ جن کا انتظار تھا اور ان سے کھا کہ مجھے احکام دین اور اسلامی آداب سیکھائیں۔