بسم الله الرحمٰن الرحیم
لقد من الله علی المومنین اذ بعث رسولامنهم یتلواعلیهم آیاته ویزکیهم ویعلم هم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلٰل مبین۔
روایات میں مقام عالم وطالب علم بھت عظیم بیان کیاگیاھے اوران جملہ خطابات میں جھاں مقام علم وعالم ذکرکیاگیاھے علماء اورطلبا ء کے فخرکیلئے یھی کافی ھے کہ ”العلماء ورثة الانبیاء “علماء وارث انبیاء ھیں ۔اگرچہ سب علماء ایک مرتبے اورایک درجے کے نھیں ھیں ،معصوم سے لیکر ایک معمولی طالب علم تک سب مصداق عالم ھیں لیکن مرتبہ ایک جیسا نھیں ھے ،ذات خدابھی عالم ھے اورانسان بھی لیکن مرتبھٴ علم ایک نھیں ھے جیسے علم ایک نھیں ھے ویسے ھی حفظ مراتب علم بھی ایک نھیں ھے۔ واضح ھے کہ میراث انبیاء مال و منال نھیں ھے اورتنھاچیز جوانبیاء کے پاس بھت کم نظرآتی ھے وہ یھی مال دنیاھے
۔مال دنیا میں سے ان کے پاس کچھ تھا ھی نھیں کہ کسی کے لئے چھوڑتے ۔انبیاء کے پاس جو اختصاصی شئی تھی وہ معارف دینی ودین الٰھی اورقانون الٰھی وآئین خداوندی ھے ۔پس اگرانبیاء سے کوئی چیز بعنوان ورثہ ھم تک پھونچی ھے تو وہ دین ھے اورعلم ۔علاوہ از ایں،وارث بھی اس کو نھیں کھتے جوفقط ترکہ وصول کرلے بلکہ وارث ایک امین کوکھتے ھیں جواگلی نسل کیلئے اس ترکہ کومحفوظ رکھتاھے ۔اس لئے ایک اورحدیث میں منقول ھے”العلماء امناء الرسل “علماء انبیاء کے امانت دارھیں ۔انبیاء خداکے امین ھیں اورعلماء انبیاء کے امین ھیں یعنی اس امانت کے امین ھیں جو ذات حق تعالیٰ نے جیرئیل امین کے ذریعے انبیاء کے سپرد کی تھی ۔خدا وند عالم نے ایک فرشتھٴ امین کے ذریعہ اپنی یہ امانت انسان کو عطا کی ھے ۔جبرئیل امین اوررسول امین پریہ دین نازل ھوا۔بعثت سے قبل رسول اللہ کوجس لقب سے یاد کیاجاتاتھاوہ علی الاطلاق محمد امین تھا،مکہ میں اگرکوئی اس نام سے کسی کو پکارتاتھا توسب کاذھن حضرت کی طرف منتقل ھوجاتاتھا یعنی محمدابن عبداللہ یادیگرالقابات کے بجائے اگر فقط امین کھہ دیاجاتا تھا تومکہ میں سب کو معلوم ھوجاتاتھاکہ مقصود کون ھے ۔پس امانت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایاں وواضح صفت تھی ۔یہ امانت صرف یہ نھیں تھی کہ لوگ روزمرہ چیزیں یامال دنیاآپ کے پاس بطورامانت رکھتے تھے اور آپ لوٹادیتے تھے۔ اس سے کوئی امین نھیں بنتاچونکہ ساری دنیابھی اگرکسی کے پاس بطور امانت رکھدی جائے توبھی اس امانت عظمیٰ کا مصداق نھیں بن سکتی جس کیلئے خداوندتبارک وتعالیٰ نے بطورخصوصی انسان کو ممتاز قراردیاھے کہ ھم نے اپنی امانت پیش کی ”علی السمٰوٰات والارض والجبال فابین ان یحملنٰها“”اناعرضناالامانة “ھم نے اپنی امانت پور ے عالم ھستی کو پیش کی
۔قرآن مجید میں جھاں بھی ”سماوات والارض “ایک ساتھ آئے ھیں وھاں مقصود کل ھستی ھے فقط زمین وآسمان یاایک بلندی وپستی نھیں ھے۔
مادی ومجرد ،فرشتہ وجن ،نباتات وجمادات ا ورسب کچھ”ومافیھا“ یعنی پورے جھان ھستی پرھم نے اپنی امانت پیش کی ۔خصوصیت کیساتھ جبل کاذکر کیاچونکہ جبل ، انسان کیلئے ایک الگ حیثیت رکھتاھے ۔ اس تقامت ،پائداری ،قدرت، توانائی جیسے الفاظ و صفات پھاڑ سے اخذ کئے گئے ھیں حتیٰ کہ انسان نے ھرزبان میں پائداری واس تقامت کامحاورہ اورمثل بھی جبل سے مشتق کی ھے پھاڑ کی طرح اس توارصفت کو انسان کی جبلت کو اس ی وجہ سے کھاجاتاھے کہ وہ راس خ ھوتی ھے ۔راس خ وھی شئی ھوتی ھے جو نفس میں مانند کوہ راس خ ھو۔ فطری چیزوں کوجبلی کھاجاتاھے ،جبلی یعنی پھاڑ کی طرح راس خ ۔پس پھاڑانسان کیلئے رسوخ ،اس تقامت ،پائداری ،مقاومت ،اس تقامت کاایک مظھرھے ،انسان کو شناختہ شدہ جھان میں پھاڑ سب سے زیادہ باعظمت لگتاھے۔ درحالیکہ پھاڑ زمین کا جزء ھے پھربھی قرآن کریم نے بڑی خصوصیات کے ساتھ اس کا ذکر کیا ھے ۔ خدا وند تبارک و تعالیٰ فرماتا ھے کہ ھم نے اپنی امانت اس پر بھی پیش کی لیکن یہ امانت الٰھی کامتحمل نھیں ھو سکا”فابین ان یحملنٰھاواشفقن منھا“ھماری امانت سے ڈرگئے ۔امانت ایک مقام ایساھے جھاں انسان لرزہ براندام ھوجاتا ھے ۔ امانت کا منظر بھت وحشت ناک ودھشت آمیز منظرھوتا ھے، نھیں اٹھائی انھوں نے امانت ”وحملھاالانسان “لیکن انسان نے امانت الٰھی کے اٹھانے کاوعدہ کرلیالھذا قرآن کی رو سے انسان پورے عالم ھستی پر ممتاز ھے ۔
امانت
امانت کے کئی مراحل ھیں ۔ علاوہ از ایں امانت کے مقابل ایک اور واضح مفھوم ھے بنام خیانت ۔ جسکو ھم متقابلین کی صورت میں اس تعمال کرتے ھیں ۔ جتنے درجات امانت کے ھوتے ھیں اتنے ھی خیانت کے ۔ھم امانت کے بس ایک مرحلے اوررتبے سے آشناھیں اورکثرت سے اس کواس تعمال بھی کرتے ھیں اور وہ یہ کہ اگرکوئی ھمیں کوئی چیز بعنوان ودیعہ وامانت سونپ دے اور اگرھم اس کونہ لوٹائیں تواس کوخیانت کھتے ھیں اوراگرلوٹادیں توامانت کھتے ھیں ۔امانت کے تین مرتبے ھیں :
(۱) حمل امانت
( ۲)حفظ امانت
( ۳)ادائے امانت
مرحلہ اول
سب سے پھلاکام امانتیں اٹھاناھیں ۔ حمل امانت سب سے اھم مرتبہ ھے۔ امانت اس شئی کوکھتے ھیں کہ اگراس ے حفظ نہ کیاجائے تو وہ ضائع ھوجا ئے۔امانت کو امانت اس ی وجہ سے کھتے ھیں کہ امنیت کے بغیر باقی نھیں رھتی اس کے لئے امن فراھم کرناضروری ھوتا ھے ۔ ایمان ،امانت ،امین سب ایک ھی مادہ سے ھیں یعنی امن۔ وھی امن جسکو قرآن نے قریش کیلئے ایک نعمت عظمیٰ کے طورپر ذکر کیاھے ”لایلاف قریش ایلٰفھم رحلة الشتاء والصیف “ھم نے قریش کوجونعمتیں عطاکیں ان میں سے ایک” امن من الخوف“ خوف سے امنیت عطاکی ۔مومن کو مومن اس ی وجہ سے کھاجاتاھے کہ مومن ایک ایسے اعتقاد اورایمان کا حامل ھوتا ھے جسکی بنا پر وہ عذاب الٰھی سے محفوظ ھوجاتا ھے۔ایمان بھی درحقیقت ایک دفاعی حصار کانام ھے جسمیں داخل ھوجانے سے مومن محفوظ ھوجاتا ھے”کلمة لاالٰہ حصنی“ ایمان حصن یعنی قلعہ ھے۔ اس کے اندرجوآجائے ”امن من عذابی “ وہ مومن ھوجاتاھے یعنی عذاب الٰھی سے محفوظ ھوجاتاھے ۔یا”ولایة علی ابن ابی طالب (ع) حصنی “ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام حصن ھے قلعہ ھے جو اس ولایت میں داخل ھوجائے وہ مومن ھوجاتاھے ۔بھرحال پھلا مرحلہ تحمل امانت ھے یعنی ایسی اشیاء کہ اگرانھیں امنیت نہ دی جائے تو ضائع ھوجائیں گی۔ پھلا مرحلہ حمل امانت ھے یعنی اپنے ذمے لینا۔انبیاء علیھم السلام کاس ب سے بڑامقام اس ی وجہ سے ھے کہ انھوںنے خود بڑہ کریہ امور اپنے ذمے لئے ۔”العلماء ورثة الانبیاء “ واقعا دشوار ترین میراث بشریت میں یھی میراث انبیاء علیھم السلام ھے اوریھیں پر اس کے مقابلے میں مفھوم خیانت پایا جاتاھے ۔
اگرکوئی اس کائنات میں خدا وند عالم کی خلق کردہ اشیاء کو بکھرا ھوا اور غیر محفوظ دیکھے اور انھیں محفوظ نہ کرے تو وہ خائن ھے ۔ مفھوم اخص امانت میں خیانت کار،انسان ھے اورخداکو خیانت کاروں کاعلم ھے ”خائنة الدین “ اور”خائنة القلوب “ خائنین کون ھیں ؟خیانت کار کون ھے؟خائن وہ ھےں جنھوں نے اللہ کی امانتیںنھیں اٹھائیں۔ بسااوقات ھم اپنے آپ کو یاھم جیسے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ھیں کہ ھم نے تو کچھ ذمہ نھیں لیا تھا لھذا ھم ذمہ دار بھی نھیں ھیں ۔یھیں سے یہ مفھوم بھی واضح ھوجاتاھے کہ اپنے ذمے امانت خداکالے لیناانسا ن کو امین بناتاھے اورغیر ذمہ داربننا، اپنے ذمے کچھ نہ لینا، خیانت کامصداق ھے۔ غیر ذمہ دار انسان اس لا م کی روسے خیانت کار ھے جس نے اللہ کی امانتوں کو تحفظ نھیں دیا ھے خداکی امانتیں کیاکیاھیں ،وہ کون سی چیزیں ھیں جو بغیر تحفظ کے ضائع ھوجاتی ھیں ؟ ھرچیز کوتحفظ کی ضرورت ھے ، اعتقاد کو تحفظ کی ضرورت ھے ۔تفکر کوتحفظ کی ضرورت ھے ،قرآن کوتحفظ کی ضرورت ھے ،اھلبیت (ع) کو تحفظ کی ضرورت ھے ،مراکز دینیہ کوتحفظ کی ضرورت ھے ، شخصیات دینی کوتحفظ کی ضرورت ھے ،ھرچیز بنام دین محتاج تحفظ ھے۔ جب خداوند تبارک وتعالیٰ نے جناب موسیٰ (ع)کو فرعون کے پاس بھیجا کہ جاکر فرعون کودعوت حق دو۔آپ نے جاکر فرمایاکہ ”ارسل معی بنی اس رائیل “ یعنی یہ بنی اس رائیل جو تیرے غلام ھیں ان کو میرے حوالے کردے ۔ایک دوسرے مقام پر ھے”ارسل معی عباداللہ “ان بندگان خداکومیرے سپرد کردے ،یعنی حتیٰ امت ،مومنین ،مسلمین امانت خداھیں ۔ فرعون جیسوں کے چنگل میں ھوں او ر ایک نبی بیٹہ کر تماشادیکھتارھے یہ ایک نبی کے شایان شایان نھیں ھے ،موسی (ع) کے شایان شان نھیں ھے کہ بنی اس رائیل کی بندگی برداشت کرسکےں ۔لھذا جاکر امانت خداکی واپسی کا تقاضاکیاکہ یہ امانت میرے حوالے کردے ،میں امین خدا ھوں ۔
اس کو اقتدار پرستی نھیں کھتے، ریاس ت طلبی نھیں کھتے بلکہ اس کوامانت داری کھتے ھیں ۔اس ی وجہ سے خدا نے ان خائنین کو قرآن میں جابجارسواکیاھے۔
مرتبھٴ اول امانت کے مقابلے میں جوخائن ھیں بارھاقرآن نے ان کے چھرے سے نقاب اتاری ھے اوروہ جو اس مرحلے میں امانت دارھیں قرآن نے ان کو بھت سراھاھے مرحلہ اول کے امین قرآن کی زبان میں ،اللہ کی زبان میں وصف مردانگی وشجاعت کے حامل ھیں ”ومن المونین رجال صدقوا“بھت ھی ظرافت ولطافت کے ساتھ مطلب بیان ھورھا ھے۔”مومنین ومن الناس ،مومنون “ لوگوں میں سے کچھ مومن ھیں ”من“ تبعیضیھھے یعنی کچھ مومن ھیں کچھ غیر مومن ھیں ”ومن الناس مومنون “یعنی وہ مرحلہ آیت بیان نھیں کیاوہ محفوظ ھے، تقدیر میں ھے۔ تقسیم در تقسیم ھے۔ لوگوں میں سے کچھ مومن ھیں کچھ کافرھیں ۔”ومن المومنین رجال“مومنوں میں سے کچھ مرد ھیں ۔اس کا مطلب یہ نھیں کہ کچھ عورتیں ھیں ، کچھ مومنات ھیں بلکہ انھیں مذکروں میں سے کچھ مرد ھیں ۔یہ مردانگی جسمانی مردانگی نھیں ھے بلکہ یہ روح کی مردانگی ھے۔ اس کو مرو ت کھتے ھیں ۔کون ھیں یھ؟ یہ وہ لو گ ھیں کھ” صدقوا“ انھوں نے سچ کردکھایاھے ،اورتصدیق کردی ھے ”ماعهد الله علیه “اس عھد کی جوخداکے ساتھ کیاتھایعنی یہ ایک متعھد طبقہ ھے ۔عھدیعنی اپنے ذمے کچھ لے لینا،یعنی امانت۔
مرحلہ دوم
دوسرا مرحلہ حفظ امانت کاھے اب جبکہ امانت الٰھی اٹھالی اپنے ذمے لے لی اورمتعھد بن گئے تواب اس عھد کوباقی رکھنا ھے۔اس عھد کو حفظ کرناھے ۔حفظ امانت سنخ امانت ھی سے ھے جس طرح امانت ھوگی اس ی طرح اس کا تحفظ۔ اگرامانت ایک مادی چیز ھے مثلاپیسہ اس کی حفاظت یہ ھے کہ بینک میں رکھدیں اگرآپ کے پاس کسی کے زیورات ھیں تواس کی امانت یہ ھے کہ کسی تجوری میں اس کو بند کردیں ۔ اگرآپ کے پاس امانت کسی کا راز ھے تووہ بینک میں رکھنے کی چیز نھیں ھے ۔بعض امانتیں ایک خاص قسم کا تحفظ مانگتی ھیں ۔انکے تحفظ کیلئے انسان کوکچھ اوراھتمام کرناپڑتاھے ۔ دوسرامرحلہ حفظ امانت ھے ۔مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے فقط اتنا ھی ۔
مرحلہ سوم
تیسرامرحلہ ادائے امانت ھے ۔دین ھرنسل کے پاس ایک امانت خداھے ۔ جس طرح جبرئیل امین کے پاس ایک امانت الٰھی ھے ،انبیاء علیھم السلام کے پاس ایک امانت الٰھی ھے اوراس ی طرح معاصر نسلوں کے پاس بھی یہ دین ایک امانت ھے ۔ اول انھیں تینوں مرحلوں میں امین ھوناچاھئے تھا،حمل امانت بھی کرتے ،حفظ امانت بھی ان کا فریضہ تھا ،ادائے امانت بھی ان کی ذمہ داری تھی،ادائے امانت یعنی اگلی نسل کو یہ دین اس ی طرح پھونچاناجس طرح جبرئیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پھونچایا۔کس طرح تحفظ کیا جبرئیل نے ؟حمل کیا ،حفظ کیا اور اداکیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حمل کیا ،حفظ کیا اور اداکیا۔آئمھٴ ھدیٰ (ع)بھی اس ی طرح ۔ آج ھمارے پاس یہ مکتب تشیع ،اس لام حقیقی ، کیوں موجود ھے ؟ یہ یہ اس لئے ھے کیونکہ کچھ امانتداروںنے،حفظ امانت ،اورادائے امانت کالحاظ رکھا ۔ سوال یہ ھے کہ یہ کام کون کرے ؟یہ کون لوگ ھیں ؟ان کی علامت کیا ھے جوامین ھوتے ھیں ، یایہ کہ آخر انبیاء علیھم السلام تما م انسانوں میں سے کیوں حفظ امین قرارپائے اورکیوں علماء کوتما م بشریت سے الگ کرکے انتخاب کیاگیا ۔دوخصوصیتیں ھیں ایک انبیاء میں ھے ایک علماء میں ۔ علماء کی خصوصیت قرآن مجید نے ذکر کی ھے ”انما یخشی الله من عباده العلماء “ خوف خدا،یہ علامت ھے۔ اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ علماء خداس ے ڈرتے ھیں تاکہ جو بھی عالم کے لبادے میں ھو ھم کھیں کہ خوف خدارکھتاھے بلکہ برعکس ھے جو بھی خوف خدارکھتاھے وہ عالم ھے”العلم نور یخذفہ اللہ فی قلبہ من یشاء “روایت کی زبان میں علم نورھے اور نورانی دل میں اترتاھے
۔قرآن کی زبان میں عالم وہ ھے جسکے دل میں خوف خداھواورانبیاء (ع)کیلئے جو صفت قرآن نے بیان کی ھے وہ یھی عنوان بعثت ھے ۔
خوف خداکیا ھے؟ خوف خداکی کیا علامت ھے ؟خوف خدا کی علامت یہ ھے کہ جس کے دل میں خوف خداھووہ غیر اللہ سے نھیں ڈرتا ”الذین یبلغون رسٰلٰت الله “وہ لوگ حامل پیغام خداومبلغ پیغام خداھیں ان کی خصوصیت یہ ھے کہ وہ فقط خداس ے ڈرتے ھیں وغیر از خداکسی سے نھیں ڈرتے ”یخشونه ولایخشون احداالااللّه “ فقط خداس ے ڈرتے ھیں اورخداس ے ڈرنے کی علامت یہ ھے کہ غیر اللہ سے نھیں ڈرتے چونکہ خوف خدامیں ھی موحّدانہ خوف ھے ۔خوف خداتوحیدی خوف ھے یعنی یوں نھیں ھوسکتاکہ دو چیزوں سے ڈریں خداس ے بھی اورغیر خداس ے بھی ۔ اگرکوئی خداس ے ڈرتاھے تو غیر اللہ سے نھیں ڈرتا اورخصوصاًلوگوں سے ۔اس لئے انبیاء لوگوں سے نھیں ڈرتے تھے۔لوگ سخت بیزار رھتے تھے لیکن انھوں نے لوگوں کی بیزاری کی پرواہ نھیں کی کیونکہ خوف خداتھا ، خوف خدالوگوں سے ڈرنے کی گنجائش نھیں چھوڑتا ۔جناب موسیٰ (ع) اس ی لئے بھت شجاع تھے چونکہ خداس ے ڈرتے تھے کسی اورسے نھیں ،فرعون سے نھیں ڈرے ،اس کے لشکر سے نھیں ڈرے۔ انبیاء (ع) کونہ صر ف یہ کہ عوام نے دعوت نھیں دی ،اس تقبا ل نھیں کیابلکہ بیزاری کااعلان کیا،اذیتیں دیں ،ستایااورطرح طرح کی مشکلات اورمصائب وآلام میں مبتلاء کیااس حد تک کہ بسااوقات بھت ھی صابر انبیاء حتی حضرت نوح (ع) جیسے صابرنبی کو اس قدر ان کی امت نے ستایا کہ آخر کاربارگاہ خدامیں جاکر آرزو کربیٹھے کہ مجھے اس قوم سے جدا کردے
۔ مرحلہ اول امانتداری میں انسان منتظر دعوت نھیں ھوتا ۔جب دیکھتاھے کہ امانت خداپڑی ھوئی ھے توجاکراٹھا لیتاھے ۔اگر آپ کو انبیاء کے واقعات پڑھنا ھےں تو اس کے لئے قران میں قصے ھیں ، قصص الانبیاء ھیں ، اگر آپ کو انبیاء سے متعلق آیات پڑھنا ھیں توقران میں ھیں ، اگر تاریخ انبیاء پڑھنا ھے تو اس کے لئے تاریخ سے متعلق کتابیںتلاش کرنا ھونگی، اگر صفات انبیاء پھچاننا ھیں تو علم کلام میں جستجو کرنا ھوگی ، اگر احکام انبیاء ملاحظہ فرمانا ھیں توفقہ کے میدان میں داخل ھونا پڑےگا اور اگر انبیاے کرام کے صفات مجسم شکل و صورت میں دیکھنا ھوںتو دور حاضر حاضر کی عظیم الشان شخصیت امام خمینی کی جانب نظر اٹھانا پڑے گی ۔
امام خمینی ۺ کوکس نے دعوت دی کہ آئیے آپ امانت خدا،دین خداکاتحفظ کیجئے۔ پھلے یہ امانت اپنے ذمہ لیںپھر خدا،دین خدا، آئین الٰھی کی حفاظت کریں پھراس کونافذ کریں اوراس کو اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔کسی نے دعوت نھیں دی تھی بلکہ اپنے اور غیروں نے سخت بیزاری اور نفرت کا اظھار کیاتھا ۔پھلے مرحلے میں امانتداری بھت اھم ھے ۔یھی نکتہ ھے کہ کون سی چیز ان کو اکساتی ھے کہ یہ کسی کے کھے بغیر ،کسی کے اکسائے بغیر، کسی کے ڈرائے بغیر میدان میں اترپڑتے ھیں ۔یہ طبقھٴ انبیاء نھایت فوق العادہ طبقہ ھے۔اس طبقے کی خصوصیات جو قرآن نے ذکر کیں ھیں انسان انھیں پڑہ کر حیران و سرگردان ھوجاتا ھے ۔کیالوگ تھے!کیاانسان تھے یھ!! کیاھواتھاانھیں ؟ ! سب اپنے گھروں میں آرام سے رہ رھے ھیں کھا،پی رھے ھیں لیکن یہ بازاروں میں پتھر کھارھے ھیں ، منبروںسے لعن وطعن سن رھے ھیں ، معبدوں میں مورد نفرین واقع ھورھے ھیں ، جلاوطن کئے جار ھے ھیں اور مختلف میادین میں شھید ھورھے ھیں ،قتل ھورھے ھیں ۔کیاانھیں عام لوگوں کی طرح ایک آسودہ زندگی بسرکرنے کاڈھنگ نھیں آتاتھا؟ انھیں چین اورسکہ نھیں چاھئے تھااپنی زندگی میں !! ان کواھل وعیال کی آسائش نھیں چاھئے تھی یا یہ لوگ اس روش زندگی سے آشنا ھی نھیں تھے ۔کیا مشکل تھی ان لوگوں کےساتھ؟ مشکل یھی مسئلہ بعثت تھا ۔ جب ھمارے سامنے پوری امت ھو ،ایک بھت بڑاملک ھو فرض کریں پاکستان یا ھندوستان جیسا ایک ملک ھو اورجسمیں اس لام و مسلمین اورتشیع کی موجودہ صورت حال ھو تو اس موجودہ صورت حال میں کون آئے اورآکراللہ کی یہ امانتیں اپنے ذمے لے۔ کیاچاھئے اس کیلئے ؟آیاعلم کافی ھے؟ ممکن ھے ھم میں سے بعض خوش فھم افراد بصورت غلط فھمی یا بد فھمی یہ سمجھ بیٹھیں کہ پڑہ لکہ کر انسان اس مقام تک رسائی حاصل کر لیتا ھے ۔پڑھنے لکھنے سے انسان امین نھیں بن جاتا۔ کتناھی بڑاپڑہ لکہ جائے، عالم دوراں بن جائے امین نھیں بنتا۔امین الٰھی کب بنتاھے ؟وارث انبیاء (ع) کب بنتاھے ؟اس کیلئے ھمیں انبیاء کی ذاتی روش کو دکھنا ھوگا کہ آخر انبیاء نے اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کئے۔ انبیاء (ع) کوخداوندتبارک وتعالیٰ نے مبعوث کیاھے ۔بعث عربی زبان کالفظ ھے۔
بعثت فرشتہ ھونے کو نھیں کھتے ، رسالت ملنے کو بعثت نھیں کھتے ، نبوت ملنے کو بھی بعثت نھیں کھتے
۔بعثت کے لغوی معنی ٰ اکسانا،ابھارنا ، بھڑکانایا برانگیختہ کرنے کے ھیں اور یہ ایک ایسا فعل ھے کہ جسکو ھم اپنی روز مرہ زندگی میں عام طور پر انجام دیتے ھیں ۔
مثلا کسی کو کسی مومن کے خلاف بھڑکانا یا اکسانا لیکن مذکورہ صورت میں اکسانا ایک برا فعل ھے
۔ علاوہ ازایں ھم کسی کو اکسانے یا بھڑکانے کے لئے ایسے موارد تلاش کرتے ھیں جنکے ذریعہ مفروضہ شخص کو بھڑکاس کیں یعنی جستجو کرتے ھیں کہ آخر وہ کون سی شیٴ ھے جس سے متعلق وہ شخص حساس ھے اور اس ی شیٴ کے ذریعہ اس کو بھڑکا دیتے ھیں اور وہ کیونکہ اس شیٴ کی نسبت حساس ھوتا ھے بھڑک جاتا ھے ۔ برانگیختہ لوگوں کی خصوصیت یہ ھوتی ھے کہ یہ مصلحت اندیشی چھوڑ دیتے ھیں ۔ اکسائے ھوئے لوگوںکوکبھی کھتے سناھے کہ ابھی حالات مناس ب نھیں ھیں ۔آپ کسی آدمی کو بٹھائیںاورخوب بھڑکائیں ،خوب اکسائیںاور اس کو عام زبان میں کھتے ھیں لال پیلاکردیں۔غصے میں بھڑکاھوایہ انسان باھرجاکر کیاتقریریں کرے گا، تالیفات کرے گا،تدریس کرے گا،غصے میں بھڑکا ھوا یہ انسان آخر کیا کریگا ۔بپھراھوایہ ایک انسان سو آدمیوں سے بھی ٹکراجاتاھے اورھرگز زبان پر یہ کلمہ نھیں لاتاکہ ابھی حالات مناس ب نھیں ھیں حالات کی طرف اس کی اصلاًتوجہ ھی نھیں ھوتی ھے۔ حالات یعنی چھ؟ اس کو کسی شیٴ کی پرواہ نھیں ھوتی ھے ۔کیوں؟ اس لئے کہ یہ غلبھ، احساس ات کاغلبہ ھے ، برانگیختگی غالب آگئی ھے ۔ جتنے مصلحت کوش شعبہ تھے وہ سب بند کردئے گئے ھیں ۔برانگیختگی ایک ایسی شیٴ ھے جو بھت سے انسانی شعبے بند کردیتی ھے۔بعض افراد ایسے ھوتے ھیں کہ جنکوبھوک لگی ھوتی ھے اور آپ ان کے سامنے بڑے لطیف انداز میں مثلا بریانی کا تذکرہ کر دیتے ھیں یعنی آپ انکو بھڑکا دیتے، آپ انکی بھوک کو بھڑکا دیتے ھیں ۔ اب ایسے شخص چین سے نھیں بیٹہ سکتے آپ لاکہ سمجھائیے کہ مھمان بیٹھے ھوئے ھیں تھوڑا صبر کر لیجئے ۔ کیا مجال کہ وہ دو منٹ بھی سکون سے بیٹہ سکیں ایسے شخص بپھرے ھوئے اور بر انگیختہ ھو جاتے ھیں ۔ ایسے انسان آپے سے باھر ھو جاتے ھیں حتی غیرت سے باھر ھو جاتے ھیں ۔ ایسے اشخاص کو روکنا پڑتا ھے نہ کہ دشمن سے لڑنے کی ترغیب دی جاتی ھے ۔ کچھ لوگ جنکو ھزارجتن کرکے خدانے بھی دیندار ی سکھائی ھے ،خداکوبھی کئی جتن کرنے پڑے ۔اس قدربے حس ، بے غیرت ھوتے ھیں کہ خدا نے کبھی انھیں جنت کی لالچ دلائی کبھی باغات کی ،کبھی شھد کے بارے میں بیان فرمایا تو کبھی دودہ کے بارے میں ۔ آخر انکو کچھ تو اچھا لگتا ھوگا ۔
خداکے ھاتھوں اگرکوئی بھڑک جائے تو خدااس کی فطرت کوابھاردیتاھے۔ اس کے فطری تقاضوں کو ابھار دیتاھے۔ اس کی خداخواھی کو،اس کی محبت وحب ومودت و عشق کوبھڑکادیتاھے ۔کبھی بھڑکاھواعشق دیکھاھے ؟ھم نے بھڑکی ھوئی شھوتیں اور غیظ و غضب دیکھے ھیں لیکن بھڑکاھوعشق نھیں دیکھا ۔بپھرا ھو ا عشق دیکھاکبھی ؟بپھراھواعشق کربلامیں نظر آتاھے ،خداکے بر انگیختہ افرادجن کو اللہ نے اکسادیا۔ ساری دنیاروکتی رھی نہ جاوٴ۔سب کھتے رھے نہ جاوٴ۔شب عاشورا،یہ واقعہ بھت اھم اور قابل غورواقعہ ھے۔ سید الشھدا علیہ السلام نے اپنے صحابیوں کو کربلا سے چلے جانے کا شرعی جوازدے دیاتھالیکن ھم ھیں کہ ھمیں اپنی جان چھڑانے کے لئے فقط ایک فتوائے فقیہ کافی ھوتا ھے چاھے اصلاً فقیہ کی فقاھت ھی کیوں نہ مشکوک ھو ۔ لیکن ھم جان چھڑانے کیلئے ایک مشکوک فقیہ کا مشکوک فتوی بھی کافی سمجھتے ھیں کہ یہ ھمارا وظیفہ شرعیہ نھیں ھے ،یہ ھم پرعائد نھیں ھوتا،چونکہ ھمارے فقیہ نے کھہ دیا لھذا یہ ھمارا شرعی وظیفہ نھیں ھے ۔ سید الشھداعلیہ السلام فقیہ نھیں تھے، ایک مجتھد نھیں تھے بلکہ خوداصل منبع شرعیت تھے ، خودمقام شارعیت اس لام پرتھے ،تشریع دین کا منبع تھے ۔خودتشریع دین تھے ۔شریعت کھہ رھی ھے کہ آپ چلے جائیں ۔ ھمارے جیسے ایک فتوی کے جواز پر اپنی ذمہ داری سے پھلو تھی کرنے والے اگر کربلا میں ھوتے تو فتووں کا سھارالیکر نہ جانے کتنی ذمہ داریوں کو خدا حافظ کھہ دیتے ۔ کربلا میں ھر صحابی نے اٹھکر کھا تھا کہ ھم جان بچانے نھیں بلکہ جان دینے آئے ھیں ۔یہ کون لوگ تھے ؟ انھیں کیا ھوگیا تھا ؟ جب سب جان بچانے کی فکر میں تھے یہ جان دینے کی فکر میں تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو بپھرے ھوئے تھے ، برانگیختہ تھے ۔ کربلا میں ایسے واقعات ملتے نھیں جھاں سید الشھداء علیہ السلام نے بذات خود بعض صحابیوں کو برانگیختہ کیا تھا ، اکسایا تھا جنمیں سے ایک وھب کلبی بھی ھیں ۔
انبیاء (ع) کوخدانے مبعوث کیاھے نہ کہ صرف ارسال کیاھے، روانہ کیا ھے۔”ارسل“ کامطلب اعزام نھیں ھے ۔مبعوث کیاھے یعنی خدانے ان کو دین اور معارف دینی پر ایسا برانگیختہ کیاھے کہ اب ان انبیاء (ع) کوکوئی روک نھیں سکتا۔یھاں دعوت کی ضرورت نھیں ھے۔ بے شک لوگ نھیں مانتے نہ مانیں ۔ ایک برانگیختہ شخص کولوگوں کی پرواہ نھیں ھوتی ۔ لوگوں کی پرواہ اس کو ھوتی ھے جسکو لوگوں نے دعوت دی ھو لیکن جسکو خدانے بر انگیختہ کیاھواس کوان چیزوں کی پرواہ قطعاً نھیں ھوتی
۔جیسا کہ گزر چکا ھے برانگیختگی کی ایک علامت ھے کہ اس کو روکنا پڑتاھے ” یا ایهاالمزمل قم اللیل الاقلیلا “ ھمیں حدیثیں پڑہ پڑہ کے سنائی جاتی ھیں کہ نماز شب بھی پڑھاکرو ، مستحبات بھی اداکیا کرو ، نماز واجب اپنے وقت پر پڑھا کرو ، درس میں بھی آیاکرو،ھمیں سدھارنے کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے درس اخلاق رکھے جاتے ھیں لیکن کیا ھوتا ھے ، کچھ بھی نھیں ۔ خدا کا اکسایاھواانسان وہ ھے کہ اس قدر نمازی ھے کہ خود خدا کوروکنا پڑتاھے کہ ”قم اللیل الا قلیلا “ تھوڑی نمازپڑھو ،تھوڑی عبادت کرو ۔امانت خدایعنی بندگان خدا ۔اِن کو ھدایت کرناھے، یہ بھی امانت ھے ،دین امانت خداھے مخلوق بھی امانت خدا ھیں ۔یہ امانت ا س امانت تک پھونچانی ھے”لعلک باخع نفسک“اے رسول ! آپ نے توان لوگوں کی ھدایت کی خاطر اپنے نفس کوھی پریشانی میں ڈال دیا ھے ۔ھم نے یہ قرآن اس لئے آپ پرنازل نھیں کیاکہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔دیکھئے خدا کو روکناپڑا۔کچھ لوگ ایسے ھوتے ھیں کہ ان کوروکناپڑتاھے کہ تھوڑاکام کرو۔کچھ ھم جیسے ھوتے ھیں جنکو ھزار زحمتوں سے اکسانا پڑتا ھے تب کھیں جاکر ایک دوکام کرتے ھیں ، پھراتراتے ھیں کہ واھ!کیادین کی خدمت کردی ! اگروارث نبی بنناھے تو سب سے پھلے بعثت کو سمجھنا ھوگا ۔ سب سے پھلے برانگیختگی پیداکرنی ھوگی اوریہ برانگیختگی !انسان اگرآئے اورتھوڑاس ا قرآن سے آشناھوتو قرآن خود برانگیختہ کردیتاھے ،قرآن یہ شعلہ انسان کے اندر پیدا کر دیتاھے اوراھلبیت(ع) خصوصاکربلا،کربلا بعثت ابدی کا نام ھے ،تما م انسانوں کومبعوث کرنے کیلئے عنصرکربلابھت اھم عنصرھے ۔ھمارے معاشرے محتاج بعثت ھیں ۔یقین کیجئے ھماری یہ رسمی تعلیم اور مروجہ تعلیمی نظام ھمیں کھیں نھیں لے جا سکتا بلکہ اس سے تو ھماری حالت مغلوبہ قوم جیسی ھوگئی ھے
۔ بر صغیر بلکہ ساری دنیا میں ایسا ھی ھورھا ھے ھم اپنے معاشرے کی بات کریں کیونکہ ھم اس سے زیادہ قریب اور مانوس ھیں ۔ وقت معینہ پر آنا ، پڑھنا ، پڑہ کر چلے جانا ، کوئی عھدہ یا منصب سنبھال لینا ، یہ سب اس کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے کہ ھم اپنے دل کو تسلی دے لیں کہ ھم بھی خدمت دین کر رھے ھیں ۔ دین کے اوپر بار بننا کچھ اور ھے اور برانگیختہ ھوکر دین کی،مخلوق خدا و خلق کی خدمت کرناکچھ اور ھے ۔خصوصااُس معاشرے میں جھاں ضلال مبین ھو”ھوالذی بعث فی الامیین رسولا“ایسے معاشرے میں رسول پیداکیاکھ”وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین “ خصوصاجھاںکھلم کھلاوعینی وآشکارگمراھی ھو ۔ ھمارامعاشرہ سو فی صد اس ی کامصداق ھے۔ عقیدتی گمراھیاں، اخلاقی گمراھیاں ،تھذیبی گمراھیاں ،تاریخی گمراھیاں اور نہ جانے کون سی گمراھیاں ۔ان ساری گمراھیوں کو، اس ضلال مبین کو،اس کھلی ھوئی گمراھی کو فقط یھی مذکورہ بعثت قابو میں کرسکتی ھے ،ختم کرسکتی ھے ۔ نمونہ موجود ھے۔ مکہ سے زیادہ گمراھی اور کھاں تھی کہ جھاں کی گمراھی ، جھاں کی جھالت ساری دنیا میں ضرب المثل تھی۔ اگربعثت ، مکہ کی جھالت ختم کرکے اس کی جگہ آئین خدا نافذ کرسکتی ھے توھندوپاک کی سرزمین پربھی کیوں نھیں ! اگرمبعوث علماء آجائیںیعنی برانگیختہ علماء جو خدا کی طرف سے قرآن کریم اور اھلبیت علیھم السلام کی جانب برانگیختہ ھوں تو یقینا ھمارے یھاں بھی قرآنی اور اس لامی قوانین و احکام نافذ ھو سکتے ھیں ۔ انشاء الله تعالی