همارے علاقه کے لوگ سوره یٰسں پڑھتے وقت، جب لفظ یٰسں سنتے هیں تو "صلی الله علیه وآله وسلم" پڑھتے هیں- اسی طرح سوره یٰسں کی بارھویں آیت کی تلاوت کے بعد "صلی الله علی امام مبین" پڑھتے هیں- کیا یه عمل صحیح هے اور کیا اس سلسله میں کوئی دلیل پائی جاتی هے؟
ایک مختصر
روایتوں میں آیا هے که جب بھی رسول خدا{ص} کا اسم گرامی زبان پر جاری هو جائے آپ {ص} پر صلوٰۃ بھیجنی چاهئیے- روایت میں آیا هے که رسول خدا{ص} کے دس نام هیں، ان میں سے پانچ نام قرآن مجید میں آئے هیں- ان میں سے ایک نام یٰس هے- اهل بیت {ع} بھی آل یاسین هیں اسی لحاظ سے سوره یٰس اس کی پهلی آیت "یٰس و القران الحکیم" سے شروع هوتا هے- اس کے بعد صلوات بھیجنا ایک پسندیده فعل هے، اگرچه اس سلسله میں کوئی خاص دلیل یا حدیث بیان نهیں هوئی هے- اسی طرح بعض روایتوں میں سوره یٰس کی بارھویں آیت میں "امام مبین" کی تفسیر امام علی {ع} هوئی هے- اس لحاظ سے آپ {ع} پر درود بھیجنا بھی ایک پسندیده عمل هے-
تفصیلی جوابات
قرآن مجید، پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے احترام کی حفاظت کرتے هوئے ارشاد فرماتا هے: " انّ الله و ملٰئکتھ یصلون علی النبی یا ایھا الذین آمنو صلّو علیھ وسلموا تسلیما[1]" " بیشک الله اور اس کے ملائکه رسول پر صلوات بھیجتے هیں تو اے صاحبان ایمان؛ تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رهو اور سلام کرتے رهو-"
اس آیه شریفه سے معلوم هوتا هے که رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا خداوندمتعال کے هاں ایسا بلند مقام هے که خداوندمتعال اور اس کے فرشتے آنحضرت {ص} پر درود بھیجتے هیں، اور خداوندمتعال حکم دیتا هے که دوسرے لوگ بھی ان سے هم آهنگ هوتے هوئے آپ {ص} پر درود و سلام بھیجیں-
روایتوں میں صلوات کے لیے کافی آثار و برکات شمار کیے گئے هیں، امام باقر علیه السلام امام صادق{ع} سے نقل کر کے فرماتے هیں: قیامت کے دن میزان {عمل کی ترازو میں } میں محمد و آل محمد پر صلوات سے بھاری کوئی چیز نهیں هے اور اس دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اس کے اعمال کو ترازو میں رکھا جائے گا، لیکن اس کے اعمال هلکے هوں گے، اس کے بعد صلواتوں کے اجر بھی اس میں اضافه کر کے ترازو میں رکھے جائیں گے اس کے بعد اس کے اعمال کا پلڑا بھاری هوگا[2]-"
معصومین{ع} کی روایتوں میں اس بات کی تاکید کی گئی هے که جب بھی پیغمبراکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا نام مبارک زبان پر لیا جائے گا، آپ {ص} پر صلوات بھیجنی چاهئیے- یهاں تک که بیان کیا گیا هے که اگر نماز کے بیچ میں بھی کوئی شخص پیغمبراکرم {ص} کا اسم مبارک سنے، مستحب هے آپ{ص} پر صلوات بھیجے-
ایک حدیث میں امام باقر علیه السلام سے روایت کی گئی هے : " بیشک رسول اکرم{ص} کے دس نام مبارک هیں، که ان میں پانچ نام مبارک قرآن مجید میں ذکر هوئے هیں، یعنی: محمد، احمد، عبدالله، یٰس اور نون اور باقی پانچ نام قرآن مجید میں نهیں هیں، یعنی: فاتح، خاتم، کافی، مقفی اور حاشر[3]-"
اس لحاظ سے اهل بیت اطهار علیهم السلام کے ناموں میں سے ایک "آل یٰس" هے- دعا کی کتابوں میں "آل یاسین" نامی ایک زیارت بھی ذکر هوئی هے جو حضرت امام مھدی {عج} کی توقیعات میں سے هے[4]-
سوره صافات کی آیت نمبر ۱۳۰ بھی ایک قرات کے مطابق " آل یاسین" قرائت" کی گئی هے- " سلام علیٰ آل یاسیں" کی ایک آیت کے ذیل میں امام صادق علیه السلام اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے هیں که حضرت علی علیه السلام نے فرمایا هے: " محمد {ص} یاسین هیں اور هم آل یاسین هیں[5]-"
امام رضا علیه السلام فرماتے هیں: "خداوندمتعال نے محمد{ص} و آل محمد{ص} کو ایسی فضیلت عطا کی هے که کوئی اس کی حقیقت تک نهیں پهنچ سکتا هے، مگر یه که وه اهل معرفت و عقل هو اور وه حقیقت یه هے که خداوندمتعال اپنے انبیاء پر سلام بھیجتے هوئے فرماتا هے: " دنیا والوں میں نوح پر سلام هو[6]،" اور "سلام هو ابراھیم پر" اور "سلام هو موسی اور هارون پر" اور نهیں فرماتا هے "آل نوح یا آل ابراھیم پر سلام هو۔۔۔" لیکن یه فرماتا هے که "آل یاسین پر سلام هو، یعنی آل محمد{ص} پر ۔۔ ۔ ۔ ۔ [7]"
مذکوره شواهد اور دلائل کی بنا پر، یاسین ، رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ناموں میں سے ایک نام هے اور رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ناموں میں سے کسی نام کو سننے کے بعد ، صلوات بھیجنا مستحب هے، اگرچه سوره "یٰس" کی پهلی آیت کے بارے میں کوئی خاص حدیث بیان نهیں کی گئی هے اور اس آیت کی تلاوت کے بعد صلوات بھیجنے کے سلسله میں کوئی خاص سفارش نهیں کی گئی هے- لیکن مذکوره عام دلالت کی بنا پر ، اس آیت کی تلاوت کے بعد ذکر صلوات ایک نیک عمل هے-
بعض روایتوں میں ، سوره یٰس کی ۱۲ویں آیت میں ذکر شده "امام مبین" کی امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام سے تفسیر کی گئی هے- امام باقر علیه السلام سے نقل کی گئی ایک حدیث میں بیان کیا گیا هے که آپ{ع} نے فرمایا هے که: " جس وقت یه آیت نازل هوئی، ابوبکر اور عمر اٹھے اور عرض کی: اے پیغمبر؛ کیا اس سے مراد توریٰت هے؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: نهیں- عرض کی گئی: کیا اس سے مراد انجیل هے؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: نهیں- عرض کی گئی : کیا اس سے مراد قرآن مجید هے؟ انهوں نے فرمایا: نهیں، اسی حالت میں حضرت علی علیه السلام رسول الله کی خدمت میں حاضر هوئے، جب ان پر رسول خدا صلی الله کی نظر پڑی تو آپ {ص} نے فرمایا: امام مبین یه مرد هے اور یه وه امام هے، که جس کو خداوندمتعال نے تمام چیزوں کا علم عطا کیا هے[8]-"
ان روایات کے مطابق اس آیت کی تلاوت کے بعد امیرالمومنین {ع} کی یاد کرنا اور ان پر درود و سلام بھیجنا ایک پسندیده عمل هے اگرچه اس سلسله میں کوئی روایت یا حدیث نقل نهیں کی گئی هے که اس آیت کی قرائت کے بعد امیرالمومنین پر درود و سلام بھیجنا چاهئیے-
[1]. احزاب، 56.
[2]. کلینی، کافی، ج 2، ص 494، باب الصلاة علی النبی و اهل بیته (ع)، ح 15، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365.
[3]. صدوق، الخصال، ج 2، ص 426، انتشارات جامعه مدرسین قم، 1403 هـ ق.
[4]. شیخ طبرسی، احتجاج، ج 2، ص 316، دار النعمان، النجف الاشرف، 1386 ق.
[5]. طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج 17، ص 165، چاپ پنجم، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1375ش.
[6]. صافات، 79.
[7]. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (ع)، ج 1، ص 236، جهان، 1378 ق.
[8]. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 18، ص 335، دار الکتب الاسلامیة، تهران، بی تا؛ و المیزان، ج 17، ص 72.