اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

معرفت خدا

معرفت خدا

معرفت خدا

 

۱۔ خدا کی معرفت کیوں ضروری ہے؟

جب یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی فعل بغیر علت کے نہیں ہوتا تو پھر اس دنیا کے خالق کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ہونا چاہئے، چنانچہ فلاسفہ اور دانشوروں نے خدا شناسی کے لئے تین بنیادی وجہیں اور علتیں بیان کی ہیں،جن پر قرآن کریم نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے:

۱۔ عقلی علت ۔

۲۔ فطری علت ۔

۳۔ عاطفی علت ۔

عقلی علت :

انسان کمال کا عاشق ہوتا ہے، اور یہ عشق تمام انسانوں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے، انسان جس چیز میں اپنا کمال دیکھتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے،البتہ یہ بات علیحدہ ہے کہ بعض لوگ خیالی اور بےہودہ چیزوں ہی کو کمال اور حقیقت تصور کربیٹھتے ہیں۔

کبھی اس چیز کو ”منافع حاصل کرنے اور نقصان سے روکنے والی طاقت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انسان اسی طاقت کی بنا پر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ جس چیز میں اس کا فائدہ یا نقصان ہو اس پر خاص توجہ دے۔

انسان کی اس طاقت کو ”غریزہ“ کا نام دینا بہت مشکل ہے کیونکہ معمولاً غریزہ اس اندرونی رجحان کو کہا جاتا ہے جو انسان اور دیگر جانداروں کی زندگی میں بغیر غور و فکر کے اثر انداز ہوتا ہے اسی وجہ سے حیوانات کے یہاں بھی غریزہ پایا جاتا ہے۔

لہٰذا بہتر ہے کہ اس طاقت کو ”عالی رجحانات“کے نام سے یاد کیا جائے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا تذکرہ بھی کیاہے۔

بہر حال انسان کمال دوست ہوتا ہے اور ہر مادی و معنوی نفع کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے ضررو نقصان سے پرہیز کرتا ہے چنانچہ اگر انسان کو نفع یا نقصان کا احتمال بھی ہو تو اس چیز پر توجہ دیتا ہے اور جس قدر یہ احتمال قوی تر ہوجاتا ہے اسی اعتبار سے اس کی توجہ بھی بڑھتی جاتی ہے، لہٰذایہ ناممکن ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کو اہم و موثر مانے لیکن اس سلسلہ میں تحقیق و کوشش نہ کرے۔

خدا پر ایمان اور مذہب کا مسئلہ بھی انھیں مسائل میں سے ہے کیونکہ مذہب کا تعلق انسان کی زندگی سے ہوتا ہے اور اسی سے انسان کی سعادت اور خوشبختی یا شقاوت اور بدبختی کا تعلق ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعہ انسان سعادت مند ہوتا ہے یا بدبخت ہوجاتا ہے،اور ان دونوں میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔

 اس بات کو واضح کرنے کے لئے بعض علمامثال بیان کرتے ہیں: فرض کیجئے ہم کسی کو ایک ایسی جگہ دیکھیں جہاں سے دوراستے نکلتے ہوں ، اور وہ کہے کہ یہاں پر رکنا بہت خطرناک ہے اور (ایک راستہ کی طرف اشارہ کرکے )کہے کہ یہ راستہ بھی یقینی طور پر خطرناک ہے لیکن دوسرا راستہ ”راہ نجات“ ہے اور پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ شواہد و قرائن بیان کرے، تو ایسے موقع پر گزرنے والا مسافر اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ میں تحقیق و جستجو کرے ،ایسے موقع پر بے توجہی کرنا عقل کے برخلاف ہے۔(1)

جیسا کہ ”دفعِ ضررِمحتمل “(احتمالی نقصان سے بچنا) ایک مشہور و معروف قاعدہ ہے جس کی بنیاد عقل ہے، قرآن کریم نے پیغمبر اکرم  (ص) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

< قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہِ مَنْ اٴَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ >(۲)

آپ کہہ دیجئے کہ کیا تمہیں یہ خیال ہے اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا تو اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا“۔

البتہ یہ بات ان لوگوں کے سلسلہ میں ہے جن کے یہاں کوئی دلیل و منطق قبول نہیں کی جاتی ، در حقیقت وہ آخری بات جو متعصب، مغرور اور ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے : اگر تم لوگ قرآن، توحید اور وجود خدا کی حقانیت کو سوفی صد نہیں مانتے تو یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس کے بر خلاف بھی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، لہٰذا یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ قرآنی دعوت اور قیامت واقعیت رکھتے ہوں تو اس موقع پر تم لوگ سوچ سکتے ہو کہ دین خدا سے گمراہی اور شدید مخالفت کی وجہ سے تمہاری زندگی کس قدر تاریکی اور اندھیرے میں ہوگی۔

اس بات کو ائمہ علیہم السلام نے ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے آخری بات کے عنوان سے کی ہے،جیسا کہ اصول کافی میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے ملحد و منکر خدا ”ابن ابی العوجاء“ سے متعدد مرتبہ بحث و گفتگو فرمائی ہے،اور اس گفتگو کاآخری سلسلہ حج کے موسم میں ہوئی ملاقات پر تمام ہواجب امام علیہ السلام کے بعض اصحاب نے

                                

(1) تفسیر پیام قرآن ،جلد ۲، ص۲۴

(۲) سورہ فصلت آیت۵۲

آپ سے کہا: کیا ”ابن ابی العوجاء“ مسلمان ہوگیا ہے؟!تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا دل کہیں زیادہ اندھا ہے یہ ہرگز مسلمان نہیں ہوگا، لیکن جس وقت اس کی نظر امام علیہ السلام پر پڑی تو اس نے کہا: اے میرے مولا و آقا!

امام علیہ السلام نے فرمایا:  ”ماجاءَ بِکَ إلیٰ ہذَا المَوضِع“ (تو یہاں کیا کررہا ہے؟)

تو اس نے عرض کی:  ”عادة الجسد، و سنة البلد، و لننظر ما الناس فیہ من الجنون و الحلق و رمی الحجارة!“ (کیونکہ بدن کو عادت ہوگئی ہے اور ماحول اس طرح کا بن گیا ہے ، اس کے علاوہ لوگوں کا دیوانہ پن، ان کا سرمنڈانا اور رمی ِجمرہ دیکھنے کے لئے آگیا ہوں!!)

امام علیہ السلام نے فرمایا: اٴَنْتَ بعدُ علیٰ عتوک و ضلالک یا عبدَ الکریم! (اے عبد الکریم!تو ابھی بھی اپنے ضلالت و گمراہی پر باقی ہے )(1)

اس نے امام علیہ السلام سے گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے کہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لا جدال فی الحج“(حج، جنگ و جدال کی جگہ نہیں ہے) اورامام علیہ السلام نے اس کے ہاتھ سے اپنی عبا کو کھینچتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ”ان یکن الامر کما تقول۔ ولیس کما تقول۔ نجونا ونجوت ۔ وان یکن الامر کما نقول ۔وھو کمانقول۔نجونا وھلکت“!:

اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے تو کہتا ہے کہ (خدا اورقیامت کا کوئی وجود نہیں ہے) جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے، تو ہم بھی اہل نجات ہیں اور تو بھی، لیکن اگر ہمارا عقیدہ ہے ،جب کہ حق بھی یہی ہے تو ہم اہل نجات ہیں اور تو ہلاک ہوجائے گا“۔

                                 

(1)عبد الکریم “ کا اصلی نام ”ابن ابی العوجاء“ تھا،کیونکہ وہ منکر خدا تھا لہٰذا امام نے خاص طور سے اس کواس نام سے پکارا تاکہ وہ شرمندہ ہوجائے

ابن ابی العوجاء“ نے اپنے ساتھی کی طرف رخ کیا اور کہا: ”وجدت فی قلبی حزازة فردونی،فردوہ فمات“ (میں اپنے دل میں درد کا احساس کررہا ہوں، مجھے واپس لے چلو، چنانچہ جیسے ہی اس کو لے کر چلے تو تھوڑی ہی دیر بعدوہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔(1) (۲) 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا اسلام سے پہلے لفظ " اللہ" کا استعمال ہوتا ...
افسانه غرانیق کیا هے؟
کیا شب قدر اختیار کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟
جناب قمر بنی ہاشم کے لیے بجائے ولادت کے طلوع کا ...
آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...

 
user comment