اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

اسلام ميں معاشرتي حقوق-2

اور استاد کا حق شاگرد پر بيان کرتے هوئے فرماتے هيں :

وحق سائسک بالعلم التعظيم له، والتوقيرلمجلسه وحسن الاستماع اليه، والاقبال عليه، وان لاترفع عليه صوتک، ولاتجيب احديساله عن شى حتى يکون هوالذى يجيب، ولاتحدث قس مجلسه احدا، ولاتغتاب عنده احدا،وان تدفع عنه اذا ذکربسوء، وان تسترعيوبه، وتظهرمناقبه، ولاتجالس له عدواولاتعادى له وليا، فاذا فعلت ذلک شهدلک ملائکة الله بانک قصدته وتعلمت علمه لله جل اسمه لاللناس

”شاگرد کو چاهئے که وه استاد کى تعظيم و توقير کرے، اس کى بات غور سے سنے، اس کے سامنے آواز بلند نه کرے اگر استاد سے کوئى سوال کرے تو خود جواب نه دے بلکه استاد کو جواب دينے دے، اس کے سامنے کسى سے بات نه کرے اس کے پاس کسى کى غيبت نه کرے، اگرکسى جگه اس کى برائى کى جائے تواس کا دفاع کرے، اسکے عيوب پر پرده ڈالے، اس کے فضائل کو ظاهر کرے اس کے دشمن کا هم نشين نه بنے اور اس کے کسى دوست سے عدوات نه رکهے اگر تو نے ان حقوق پر عمل کيا تو فرشتے گواهى ديں گے که تونے الله کے لئے، علم حاصل کيا تها نه لوگوں کے لئے اور تيرا هدف صرف خدا تها [15]ـ

چهارم  :  فکر و راى کو ظاهر کرنے کا حق

يه بات واضح هے که اسلام نے تفکر کو فريضه قرار ديا هے اگر آپ قرآن کريم کا مطالعه کريں تو آپ کو دسيوں ايسى آيات مليں گى جو انسان کو خود اپنے اندر اور کائنات ميں تفکر اور تدبر کا حکم ديتى هيں اور اسلام نے حقيقت کے متلاشى فکر سليم کى حرکت پر پابندياں عائد نهيں کيں اور يهى فکرسليم هے جو شک سے ترقى کرکے يقين کى متز ل تک پهنچتى هےـ

اور پيغمبر(ص) نےجاهليت کے پهندے سےفکر کو اس طرح آزاد کر ديا هےکه اب يه محسوسات سے گزر کر ان عوالم غيب کى سير کر سکتى هے جنهيں نه هى کسى آنکه  نے ديکها هے اورنه هى کسى انسان کے دل ميں اس کا خيال آيا هےـ

اور مکتب اهل بيت نے حق و صداقت تک رسائى کى غرض کے لئے آزادى فکر کى ضمانت لى هے چنانچه انهوں نے دشمنوں کے ساته مناظروں کا اهتمام کيا اور مختلف پروگراموں ميں اپنى آرا کا اظهار کيا، مثال کے طور پر دوسرى صدى هجرى کے پهلے نصف ميں امام باقر اور امام صادق(عليهما السلام) نے جب فکرى اور ثقافتى آزادى کو محسوس کيا تو آپ نے ملحد و زنديق اور ديگر مذاهب کے علما کے ساته مناظرے کئے اور مذهب اهل بيت کے يهاں آزادى فکر کى سب سے بڑى دليل يه هے که على اور آل على کے سخت ترين دشمن خوارج کے ساته بهى مناظرے کئے جب که خوارج نے اپنے لئے ايک تندفکر اور معاندانه سياست تشکيل دے رکهى تهى چنانچه جنگ نهروان کے شروع هونے سے پهلے جب انهوں نے اپنا معروف نعره بلند کيا که حکم کا حق فقط خدا کو هے تو حضرت على  نے خود ان کے ساته مناظرے کئے اور فرمايا يه کلمه حق هے ليکن اس سے ان کى مراد باطل هے اور اس کا مقصد حضرت على  کے امام برحق هونے کى حقيقت سے انکار کرنا هےـ

چنانچه امام نے انهيں اپنے ضمير کى آواز کو بلند کرنے کى آزادى دى ليکن انهوں نے تلوار اور جنگ کا راسته اپنا کر اس حق سے دست بردار هونے کا اعلان کردياـ

تو قارئين آپ نے ملاحظه فرمايا که آئمه نے هميشه اپنے دشمنوں کے ساته گفتگو اور منطق کا راسته اپنانے کى سعى کى ليکن دشمنوں نے سرکشى کا مظاهره کياـ مشهور مورخ محمد بن طبرى (متوفاى 310ه) نے نقل کياهے که :

”جب على کوفه ميں داخل هوئے توبهت سے خوارج آپ کے همراه تهے جو نخيله وغيره کے مقام پرآپ سے جداهوگئے اس کے بعد خوارج کے دوسردار ”حرقوص بن زهير سعدي“اور”زرعة بن برج طائي“ على کے پاس آئے اورحرقوص نے کها آپ اپنى غلطى سے توبه کر ليں توهممعاويه کے مقابلے ميں جهاد کے لئے آماده هيں. آپ نے فرماياميں نے تمهيں حاکم بنانے والے معاملے ميں منع کياتها ليکن تم نے انکار کيااور اب تم اسے گناه شمارکررهے هوـ اس پرزرعه نے کها قسم بخدا اگرآپ نے توبه نهيں کى توميں آپ کوقتل کرکے الله تعالى کى رضاحاصل کروں گاـ اس کے جواب ميں آپ نے فرماياخداتيراحشربرا کرے توکتنا بدبخت هے ميں تجهے گردوغبارميں اٹاهوامقتول ديکه رها هوں اس پر زرعه نے کها مجهے يهى پسند هے [16]ـ

اس کے بعد خوارج نے گفتگوکادروازه بندکرديا اور”عبدالله بن جناب“ کو جو اپنى گردن ميں قرآن لٹکائے هوئے تهاقتل کرديا. اس وقت حضرت على بهى ان کے خلاف قوت استعمال کرنے پرمجبور هوگئے کيونکه وه گمراهى اوربدعت کے نتيجه ميں حق سے خارج هوگئے تهےـ

پنجم  :  حق امنيت

هرانسان کو امن سے استفاده کرنے کا فطرى حق حاصل هے، لهذا کسى دوسرے کو يه حق نهيں پهنچتا که اس کى صاف ستهرى زندگى کو گندا کرے اور اس کى جان، مال اورعزت کو خطرے سے دوچار کر کے اسى پريشانيوں ميں اسير کرے اور اگر ايک انسان دوسرے کے ساته امن کا معاهده کر لے تو يه حق اور زياده هو جاتا هےـ چنانچه قرآن کريم نے مسلمانوں کو کافروں کے ساته بهى کئے گئے امن معاهدوں کاپاس و لحاظ کرنے کا حکم ديا هےـ جيسے که اس آيت ميں هے :

فان تولوا فخذوهم واقتلوهم حيث وجدتموهم وتتخذوا منهم ولياونصيراالاالذين يصلون الى قوم بينکم وبينهم ميثاق [17]ـ

”پس اگر وه اس سے منه موڑ ليں تو انهيں گرفتار کرو اورجهاں پاؤ قتل کردو اور ان ميں سے کسى کو نه اپنا دوست بناؤ نه مدد ميں (صلح کا) عهد و پيمان هو چکا هو“ـ

پيغمبر نے اس بنيادى انسانى حق کا خيال رکهنے کى دعوت ديتے هوئے فرمايا هے:

من قتل معاهدا لم يررائحة الجنة، وان ريحهاليوجدمن مسيرة اربعين عاما [18]

”جوشخص اپنے سے معاهده کرنے والے کو قتل کرے وه جنت کى خوشبونهيں سونگه سکتا باوجوداس کے که جنت کى خوشبوچاليس سال کى مسافت تک آتى هے“ـ

اورايک دوسرى حديث ميں هے :

المسلمون اخوة تتکافى دماؤهم يسعى بذمتهم ادناهم، وهم يدعلى سواهم [19]ـ

”مسلمان آپس ميں بهائى بهائى هيں ان کاخون برابرکاحق رکهتاهے ان کاادنى بهى اپنے عهد کوپوراکرنے کى کوشش کرتا هے اور يه غيروں کے خلاف ايک هاته کى مانند هوتے هيں“ـ

امام صادق(ع) سے پيغمبر کے اس جملے :

”ان ميں سے ادنى بهى اپنے عهد کو پورا کرنے کى کوشش کرتا هے کا معنى پوچها گيا تو آپنے فرمايا:

لوان جيشامن المسلمين حاصرواقوما من المشرکين، فاشرف رجل منهم،فقال : اعطونى الامان حتى القى صاحبکم اناظره،فاعطاه ادناهم الامان وجب على افضلهم الوفاء به [20]ـ

”اگرمسلمانوں کا ايک لشکر، مشرکين کا محاصره کرلے پهر مشرکين ميں سے کوئى شخص امان کا مطالبه کرے تاکه وه مسلمانوں کے سردار کے ساته گفتگو کرسکے اور مسلمانوں ميں سے کوئى ادنى سا شخص اسے امان ديدے تو مسلمانوں کے اعلى شخص پر اس کى پاسدارى ضرورى هے“ـ

حضرت على نے مالک اشتر کى طرف لکهے گئے اپنے عهد نامے ميں پيغمبر کے اس اصول کى مزيد تاکيد فرمائى تهى که :

وان عقدت بينک وبين عدوک عقدة، اوالبسته منک ذمة، فحظ عهدک بالوفاء، وارع ذمتک بالامانةـ

”اگر تيرے اور تيرے دشمن کے درميان کوئى معاهده طے پا جاتا هے يا تو اسے قبول کر ليتا هے تو اپنے عهد کو وفا کر اور اپنى ذمه دارى کو پورا کر“[21]ـ

حقيقت يه هے که اسلام نے اپنے معاشرے کومثالى امن فراهم کيا هے اور معاهده کرنے والوں کے لئے اطمينان کى فضا قائم کى هے اور ان کے ساته وفا کرنے کو ضرورى قرار ديا هےـ جيسے که حکومت اسلامى ميں رهنے والے اهل کتاب کے لئے بهى امن و امان کى فضا مهيا کى گئى هے اور مسلمانوں کو اجازت نهيں دى که انهيں قتل کريں يا ان کا مال غصب کريں يا انهيں کسى قسم کا گزند پهنچائيں اور جس نے ايسا کيا اس نے الله اور رسول  کے عهد کے خلاف عمل کياـ

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔

 
user comment