والدین کی نافرمانی کےدنیامیں منفی اثرات
گذشتہ سطروں میں ہم نے والدین کی نافرمانی کے بعض اخروی اثرات ذکر کئے ہیں اورشایدان میں سے خاص خاص یہ تھے خدا تعالی کی ناراضگی،طاعات وعبادات کاقبول نہ ہوناوغیرہ اوراس بارے میں میں اہلبیت کی کثیر احادیث موجودہیں۔ اب اس کے دنیاوی منفی اثرات ذکرکرتے ہیں انہیں مندرجہ ذیل صورت میں بیان کیاجاسکتاہے ۔
اول : فقروفاقہ کاشکارہوجانا
امام صادق فرماتے ہیں :
ایما رجلدعاعلی ولدہ اورثہ الفقر
والدین کی بددعا اولاد کوفقروفاقے سے دوچار کردیتی ہے [35]۔
دوم : برائی کابدلہ برائی سے ملنا
جوبچہ اپنے ماں باپ کے ساتھ براسلوک کرتاہے اس کی اولاد اس کے ساتھ بھی ویساہی سلوک کرتی ہے اوراس کے بڑھاپے میں اسے اہمیت نہیں دیتی ۔
امام صادق اس حقیقت پرزوردیتے ہوئے فرماتے ہیں :
برواآبائکم ،یبرکم ابناؤکم [36]۔
”اپنے والدین کے ساتھ نیکی کروتاکہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے“۔
اورعملی تجربات بھی اس حقیقت کوثابت کرتے ہیں اوراس بارے میں گذشتہ نسلوں کے کئی ایک عبرت ناک واقعات بھی نگاہوں سے گذرے ہیں۔
سوم : نافرمانی ذلت اورپستی کاسببہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جوشخص والدین کانافرمان ہوتاہے اسے معاشرہ ناپسندیدگی اورذلت کی نگاہ سے دیکھتاہے اوراس طرح وہ معاشرتی سطح پرقابل تنفر اورمزموم خیال کیاجاتاہے جس قدروہ عذرخواہی کے ذریعے سے اپنے عیوب پرپردہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے لوگ اس کی بدبختی کواورزیادہ اچھالتے ہیں۔
امام ہادی فرماتے ہیں :
العقوق یعقب القلة ویودی الی الذلة۔
”والدین کی نافرمانی انسان کوقلت اورذلت میں مبتلاکردیتی ہے“۔
ہوسکتاہے قلت سے مراد فقط مالی قلت نہ ہوبلکہ معنوی اورمعاشرتی قلت بھی ہویعنی دوستوں کاکم ہوجاناکیونکہ جوشخص اپنے قریب ترین یعنی والدین کانافرمان ہوناہے تولوگ اس پراعتماد نہیں کرتے اوردوست اس سے محبت کرناچھوڑدیتے ہیں۔
تیسری بحث: بہترین نمونہ
لوگوں کے قلوب میں جگہ بنانا اوران کے دلوں میں گھرکرناتنگ سوراخ میں داخل ہونے سے کہیں زیادہ مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ فکری،مزاجی اورثقافتی لحاظ سے بہت زیادہ مختلف ہیں لہذا ان پرمؤثرہونابہت دشوارہے اوراس کے لئے ان خاص عنایات کی ضرورت ہے جوصبرکے ساتھ متمسک اورحقائق سے آگاہ لوگوں کوحاصل ہوتی ہیں
اہل بیت اپنے بہترین کردارکی وجہ سے لوگوں کوجذب کرنے اوران پرحکمرانی کرنے میں سب سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اوران کی عقول کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کیونکہ عام طورپرلوگ زبان کی بجائے کردارسے زیادہ متاثرہوتے ہیں اورحقوق والدین کے سلسلے میں آئمہ کے عمدہ کردار اورلوگوں کے اس سے متاثرہونے کی دلیل کے طورپریہی کافی ہے کہ امام سجاد اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کرکھانانہیں کھاتے تھے اوراس چیزنے آپ کے اصحاب کی نظروں کوخاص طورسے اپنی طرف متوجہ کرلیا اورانہوں نے بڑے تعجب سے پوچھاکہ باوجود اس کے کہ آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی اورحسن سلوک کرنے والے ہیں آپ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کرکھانے نہیں کھاتے؟ توآپ نے فرمایا:
انی اکرہان تسبق یدی الی ماسبقت الیہ عینھا فاکون قد عققتھا۔
”مجھے پسند نہیں ہے کہ جس چیزکی طرف میری ماں کی نظرسبقت کرچکی ہواس کی طرف میراہاتھ بڑھ جائے اوریوں میں اپنی ماں کانافرمان بن جاؤں [37]۔
واقعایہ بات قابل قدر ہے اورمکتب اہل بیت کے پیروکاروں کے لئے بہت ہی دقیق اورناقابل فراموش درس ہے اورآپ والدین کی عظمت کوبیان کرتے ہوئے ان کے حق میں دعافرمایاکرتے تھے :
یاالھی این طول شغلھما بتربیتی؟ واین شدة تعبھافی حراستی؟ واین اقتارھما علی انفسھماللتوسعة علی؟ ھیھات مایستوفیان منی حقھما ولاادرک مایجب علی لھما، ولا انا بقاض وظیفتہ خدمتھما [38]۔
”خدایاانہوں نے کتنے لمبے عرصے تک میری تربیت کی ہے اورمیری حفاظت کے لئے کس قدر سختیاں برداشت کی ہیں اورمیرے آرام کے لئے کس قدر تکلیفیں جھیلیں ہیں میں میں زندگی بھران کا حق ادانہیں کرسکتا اوران کے حقوق کاتصوربھی نہیں کرسکتا اورنہ ان کی خدمت کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکتاہوں“۔
صحیفہ سجادیہ کی ایک اوردعامیں فرمایاہے :
اللھم اجعلنی اھابھما ھیبة السلطان العسوف وابرھما برالام الرؤوف، اجعل طاعتی لوالدی وبری بھما اقرلعینی من رقدة الوسنان، واثلج لصدری من شربة الظمآن حتی اوثرعلی ھوای ھواھما۔
”میرے اللہ میرے دل میں والدین کی ایسی ہیبت پیداکردے جیسی ظالم بادشاہ کی ہوتی ہے، ان سے نرم دل ماں جیسا حسن سلوک کروں اور ان کی اطاعت اوران کے ساتھ حسن سلوک کومیری آنکھ کے لئے نیندسے زیادہ شیرین اورسوزش جگرکے لئے شربت سے زیادہ ٹھنڈاقراردے تاکہ میں اپنی خواہشات پران کی خواہشات کی ترجیح دوں“ [39]۔
اوردوسرے اماموں نے بھی یہی روش اپنائی اورہراس کام سے پرہیز کیاجس میں والدین کی ہتک حرمت کاپہلونکلتاہو۔
ابراہیم بن مہزم سے روایت ہے وہ کہے ہیں ”امام صادق سے ملنے کے بعد میں شام کومدینہ میں اپنے گھرآیااورمیری ماں بھی میرے ساتھ تھی میرے اوراس کے درمیان توتومیں میں شروع ہوگئی اورمیرے لہجے میں سختی آگئی اگلی صبح نمازادا کرنے کے بعد جب میں امام کی خدمت میں پہنچاتوآپ نے فورا کہا:
یاابامھزم، مالک ولخالدة اغلظت فی کلامھا البارحة؟اما علمت ان بطنھامنزل قدسکنتہ، وان حجرھا مھدقدغمزتہ، ثدیھا وعاو قدشربتہ؟ قال: قلت: بلی قال: فلاتغلظ لھا۔
”ابومہزم تمہارے اوروالدہ کے مابین کیاہواتھا کہ گذشتہ شب تواس سے سخت لہجے میں گفتگوکررہاتھا کیاتجھے نہیں معلوم کہ اس کاشکم تیراگھررہاہے، اس کی آغوش تیرے لئے گہوراہ رہ چکی ہے اوراس کاپستان تیرے پینے کابرتن رہاہے۔ ابن مہزم کہتے ہیں میں نے عرض کیاہاں مولاایساہی ہے توامام نے فرمایا پِ اس کے ساتھ سخت لہجہ میں باتیں مت کرو“ [40]۔
ان کلمات نے بیٹے پرجادوکاسااثرکیا اوراس نے فورا جاکرماں سے معافی مانگی لیکن افسوس کہ آج کے جوان غلط تربیت، منحرف روش یانام نہاد ترقی یافتہ ثقافت کی وجہ سے والدین کوگندی ترین گالیاں دیتے ہیں، ان پرلعن طعن کرتے ہیں اوران پراپنا جام غضب انڈیلتے ہیں جب کہ والدین انہیں مخلصانہ نصیحت کرتے ہیں اس چیزکاوالدین پربہت برااثرہوتاہے اوروہ تلخ ناکامی کاشکارہوجاتے ہیں لیکن آئمہ والدین کے ساتھ ان کے مقام ومرتبہ کے مطابق شیرین اورمہذہب عبارات کے ساتھ بات کرنے کاحکم دیتے ہیں اوریہ کہ ان کے سامنے آوازبلند نہ کی جائے۔
حکم سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیامیرے والدنے مجھے ایک گھرصدقہ میں دیاتھا پھراس کی رای تبدیل ہوگئی اوراس نے وہ گھرمجھ سے واپس لے لیا، اب قاضی میرے حق میں فیصلہ دیتے ہیں توآپ نے فرمایا:
نعم ما قضت بہ قضاتکم، وبئس ماصنع والدک انماالصدقة للہ عزوجل فماجعل للہ عزوجل فلارجعة لہ فیہ، فان انت خاصمتہ فلاترفع علیہ صوتک، وان رفع صوتہ فاخفض انت صوتک۔
”قاضیوں کافیصلہ صحیح ہے اورتیراباپ اس معاملے میں غلطی پرہے کیونکہ صدقہ اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہے اورجوچیزاللہ کے لئے مخصوص ہوجائے وہ واپس نہیں ہوتی لیکن تجھے چاہئے کہ اس معاملے میں اپنے باپ کی آوازپراپنی آوازبلندنہ کرے اوراگروہ اپنی آوازبلندبھی کرے تب بھی تواس سے نرم وآہستہ لہجے میں گفتگوکر“ [41]۔
خلاصہ یہ کہ والدین کے حقوق بہت عظیم اوربلندہیں اوراللہ تعالی نے ان کے حق کواپنے حق کے ساتھ ذکرکیاہے اگرچہ دونوں کے مرتبے مختلف وجداگانہ ہیں حق خدااس کی عبادت ہے حق والدین ان کے ساتھ حسن سلوک ہے اورقرآن کریم نے ماں کی بیشتر قربانیوں کی وجہ سے اسے اوربڑاحق دیاہے اورسیرت نبویہ میں اس مسئلے کوخاص اہمیت حاصل ہے اوروالدین کی نافرمانی کوایک عظیم گناہ تصورکیاگیاہے اورآئمہ نے امت کی رہبری کرتے ہوئے والدین کے مقام کومحفوظ کرنے کے لئے کئی ایک نہج سے کام کیاہے چنانچہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی آیات کی تفسیرکی، اخلاقی اوروجدانی ماحول میں اس کوپرکھا اس کے لئے حکم شرعی کومعین کیاپھروالدین کے حقوق کوتفصیل کے ساتھ بیان کیااوران کی نافرمانی کے اثرات کودنیوی واخروی لحاظ سے پیش کیااوروالدین کے ساتھ اپنی روش کوآئندہ نسلوں کے لئے بہترین نمونے کی حیثیت دی۔
چوتھی بحث
اولاد کے حقوق
اسلام نے اولاد کوباپ کی صلب اورماںکے رحم میں بھی ایک بنیادی حق کی ضمانت دی ہے اوروہ حق وجودہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات نے نسل بڑھانے اوراولادحاصل کرنے کے سلسلے میں انسان کی حوصلہ افزائی کی ہے نیز کثرت اولاد کے لئے اس کی طبیعت کوبرانگیختہ کیاہے اوراس کی محدودیت کوناپسند جاناہے حتی کہ قرآن کریم اولاد کودنیاوی زندگی کی زینت شمارکرتے ہوئے فرماتاہے :
المال والبنون زینة الحیاة الدنیا… [42]۔
”مال اوراولاد دنیاوی زندگی کے لئے زینت ہیں“۔
اورہماری رہنمائی کے لئے انبیاء، کے واقعات نقل کرتاہے کہ وہ اپنی دعاؤں میں صالح اولاد کی تمناکرتے تھے۔ مثلا حضرت ابراہیم کی دعا اوراس کی قبولیت کویوں بیان کرتاہے :
رب ھب لی من الصالحین فبشرناہ بغلام حلیم …۔
”اے میرے رب، صالح اولادعطافرماپس ہم نے اسے ایک بردبارلڑکے کی بشارت دی“ [43]۔
اورجب حضرت زکریانے نے حضرت مریم کے پاس معجزاتی طورپررزق کے سلسلے میں خداتعالی کی قدرت کاکرشمہ دیکھا توانہوں نے بھی اولاد کی خوہش اوردعاکی جسے قرآن نے یوں نقل کیا:
ھنالک دعازکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعاء
”وہاں پرزکریانے اپنے رب سے دعاکی اورعرض کی کہ اے میرے پالنے والے مجھے اپنی طرف سے پاک وپاکیزہ اولاد عطافرما بیشک تودعاکوسب سے زیاہ سننے والاہے“ [44]۔
جب زکریاکے دل میں شوق اولادنے کروٹ لی اورانہیں تنہارہ جانے کاخوف محسوس ہونے لگاکہ جس کے متعلق قرآن نے اپنے فصیح وبلیغ انداز میں یوں ذکر کیاہے:
وزکریااذ نادی ربہ رب لاتذرنی فردا وانت خیرالوارثین۔
”اس وقت کویاد کروجب زکریانے اپنے رب کوندادی اے میرے پروردگار مجھے تنہا نہ چھوڑنا اورتو بہترین وارث ہے“ [45]۔
اوراللہ تعالی نے بھی اہلبیت کی بناپرآپ کی دعاکوشرف قبولیت عطاکیاان الفاظ میں کہ :
فاستجبنا لہ ووھبنالہ یحیی واصلحنا لہ زوجہ انھم کانوا یسارعون فی الخیرات ویدعوننا رغبا ورھبا وکانوا لناخاشعین [46]۔
”ہم نے اس کی دعاقبول کرلی اوراسے یحیی جیسابیٹا عطاکیا اورہم نے اس کے لئے اس کی بیوی میں اہلیت پیداکردی بیشک یہ سب لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اورہم کو بڑی رغبت اورخوف کے ساتھ پکاراکرتے تھے اورہمارے آگے گڑاگڑاتے تھے“۔
اس کے ذریعے ہمیں اشارہ کیاجارہے ہے کہ ہم بھی صالح اولاد کے لئے دعاکیاکریں مزید برآن سنت نبوی قولی اورعملی اعتبارسے ہمیں عقدکرنے پربہت زور دیتی ہے کہ جوباپ بننے کاشرعی اورعرفی ذریعہ ہے اورغیرشادی شدہ رہنے اورتارک الدنیا بننے کوسخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
چنانچہ پیغمبر فرماتے ہیں :شرارموتاکم العزاب [47]۔
”تم میں سے سب سے زیادہ برے مردوہ ہیں جوغیرشادی شدہ ہوں“۔
اورپیغمبر قیامت کے دن اپنی امت کے سب سے زیادہ ہونے کی خواہش کایوں اظہار کرتے ہیں :
تناکحوا تکثروا،فانی اباھی بکم الامم یوم القیامة حتی بالسقط
”نکاح کرواورزیادہ ہوجاؤروزقیامت میں تمہارے ذریعے دوسری امتوں پرفخرومباہات کروں گاحتی کہ سقط شدہ بچے کے ذریعے بھی“ [48]۔
اوراہل بیت کی احادیث کامطالعہ کرنے سے پتاچلتاہے کہ الہی مکتب نے اولاد کے حقوق کوبڑا مقام دیاہے اورحقوق اولاد کے سلسلے میں ایسی احادیث ملتی ہیں کہ جوباپ بننے کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔