۲۳۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟
کیا انسانی معاشرہ کسی ایک جگہ پر رُک سکتا ہے؟ کیا انسان کے کمال اور ترقی کے لئے کوئی حد معین ہے؟ کیا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج کا انسان گزشتہ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے؟
ان حالات کے پیش نظر یہ کس طرح ممکن ہے کہ دفتر نبوت بالکل ہی بند ہوجائے اور انسان اس ترقی کے زمانہ میں اپنے کسی نئے رہبر اور نبی سے محروم ہوجائے؟
اس سوال کا جواب ایک نکتہ پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ ہے کہ: انسان فکر و ثقافت کے مرحلہ میں اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ وہ پیغمبر خاتم (ص) کے بتائے ہوئے اصول اور تعلیمات کے پیش نظر کسی نئی شریعت کے بغیر اپنی ترقی کے مراحل کو طے کرسکتاہے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے انسان کو تعلیم کے ہر مرحلہ میں ایک نئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ تعلیم کے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھ سکے، لیکن جب انسان ڈاکٹر بن جاتا ہے یا کسی دوسرے علم میں صاحب نظر بن جاتا ہے تو پھر انسان کسی نئے استاد سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے گزشتہ اساتذہ خصوصاً آخری استاد سے حاصل کئے ہوئے مطالب پر بحث و تحقیق کرتا ہے اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھتا جاتاہے نئی نئی تحقیق اور نئے نئے نظریات پیش کرتا ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اپنے گزشتہ اساتذہ کے بتائے ہوئے عام اصول کی بنا پر راستے کی مشکلات کو حل کر تاہے․ لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ کوئی نیا دین اور نیا مذہب وجود میں آئے۔ (غور فرمائےے گا)
بالفاظِ دیگر: روحانی اور معنوی ترقی کی راہ میں موجود نشیب و فر از کے سلسلہ میں گزشتہ انبیاء نے باری باری انسان کی ہدایت کے لئے نقشہ پیش کیا تاکہ انسان میں اتنی صلاحیت پیدا ہوجائے کہ اس راستہ کا جامع اور کلی نقشہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر آخرالزمان (ص) پیش فرمادیں۔
یہ بات واضح ہے کہ جامع اور کلی نقشہ حاصل کرنے کے بعد پھر کسی نقشہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، اور یہ حقیقت خاتمیت کے سلسلہ میں بیان ہوئی احادیث میں موجود ہے، اور پیغمبر اکرم کو رسالت کی آخری اینٹ یا خوبصورت محل کی آخری اینٹ رکھنے والے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
یہ تمام چیزیں کسی نئے دین و مذہب کی ضرورت نہ ہونے کے لئے کافی ہیں، (یعنی مذکورہ باتوں کے پیش نظر اب کسی نئے دین کی ضرورت نہیں ہے) لیکن رہبری اور امامت کا مسئلہ انھیں کلی اصول و قوانین پر عمل در آمد ہونے پر نظارت اور اس راہ میں پیچھے رہ جانے والوں کو امداد پہنچانے کے عنوان سے ہے،البتہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کبھی بھی ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہمیشہ امام اور رہبر کی ضرورت رہے گی، اس دلیل کی بنا پر سلسلہٴ نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سلسلہ امامت بھی ختم ہوجائے، کیونکہ ”ان اصول کی وضاحت “، ”ان کا بیان کرنا“ اور ”ان کو عملی جامہ پہنانا“ بغیر کسی معصوم رہبرکے ممکن نہیں ہے۔(1)
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۵․
۲۴۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمان و مکان کے لحاظ سے ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ انسان کی ضرورت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، حالانکہ خاتم النبین کی شریعت ثابت اور غیر قابل تبدیل ہے، کیا یہ ثابت شریعت زمانہ کے لحاظ سے مختلف ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔؟
اگر اسلام کے تمام قوانین جزئی اور انفرادی ہوتے اور ہر موضوع کا حکم مکمل طور پر معین، مشخص اور جزئی ہوتا تو اس سوال کی گنجائش ہوتی، لیکن کیونکہ اسلام کے احکام و قوانین بہت وسیع اور کلی اصول پر مبنی ہیں جن پر ہر زمانہ کی مختلف ضرورتوں کو منطبق کیا جاسکتا ہے، اور اس کے لحاظ سے جواب دیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس طرح کے سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، مثال کے طور پر عصر حاضر میں مختلف معاملات انسانی معاشرہ کی ضرورت بنتے جارہے ہیں جب صدر اسلام میں ایسے معاملات نہیں تھے جیسے ”بیمہ“ یا اس کی مختلف شاخیں، جو اس زمانہ میں نہیں تھیں،(1)اسی طرح آج کل کی
(1) البتہ اسلام میں ”بیمہ“ سے مشابہ موضوعات موجود ہیں لیکن خاص محدودیت کے ساتھ جیسے ”ضمان الجریرہ“ یا “تعلق دیہ خطاء محض بہ عاقلہ“ لیکن یہ مسائل صرف شباہت کی حد تک ہیں․
ضرورت کے تحت بڑی بڑی کمپنیاں بنائی جاتی ہیں ، ان تمام چیزوں کے لئے اسلام میں ایک کلی اصل موجود ہے، جو سورہ مائدہ کے شروع میں بیان ہوئی ہے جسے ”وفائے عہد “ کہا جاتا ہے، ارشاد ہوتا ہے: <یَا اٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ >(1) ”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے اپنے معاملات میںوفائے عہد کرو“۔
ہم ان تمام معاملات کو اس کے تحت قرار دے سکتے ہیں، البتہ بعض قیود اور شرائط اس اصل میں بیان ہوئی ہیں، جن پر توجہ رکھنا ضروری ہے، لہٰذا یہ عام قانون اس سلسلہ میں موجود ہے، اگرچہ اس کے مصادیق بدلتے رہتے ہیں اور ہرروزاس کا ایک نیا مصداق پیدا ہوتا رہتا ہے۔
دوسری مثال: ہمیں اسلام میں ایک مسلّم اور ثابت قانون ملتا ہے جو ”قانونِ لاضرر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے(یعنی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے) جس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ میں کسی بھی طرح کے نقصان کے سلسلہ میں حکم لگایا جاسکتا ہے، اور اس کے تحت معاشرہ کی بہت سی مشکلوں کو حل کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ”معاشرہ کا تخفظ “، ”مقدمہٴ واجب کا واجب ہونا“اور”اہم و مہم“ جیسے مسائل کے ذریعہ بھی بہت سی مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے، ان تمام چیزوں کے علاوہ اسلامی حکومت میں ”ولی فقیہ“ بہت سے اختیارات اور امکانات ہوتے ہیں اسلامی کلی اصول کے تحت بہت سی مشکلات کوحل کیا جاسکتا ہے ، البتہ ان تمام امور کے بیان کے لئے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ضرورت ہے خصوصاً جب کہ ”باب اجتہاد“(۲) کھلا ہے ، جس کی تفصیل بیان کرنے کایہ موقع نہیں ہے، لیکن جن چیزوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ مذکورہ اعتراض کے جواب کے لئے کا فی ہیں۔(۳)
(1) سورہ مائدہ ،آیت ۱․ (۲) اجتہاد یعنی اسلامی منابع و مآخذ کے ذریعہ الٰہی احکام حاصل کرنا․
(۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۶․
۲۵۔ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم کی بشارت دی گئی ہے؟
جیسا کہ ہم سورہ اعراف میں پڑھتے ہیں: <الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْاٴُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ>(1) ”جو لوگ ہمارے رسول نبیِّ امی کا اتباع کرتے ہیں جس (کی بشارت ) کو وہ اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔
مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا توریت اور انجیل میں پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے؟
اگرچہ یقینی قرائن اور اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں دور حاضر کی موجودہ ”مقدس کتابوں “ (توریت و انجیل) کے مطالب اس بات پر یہ دونوں گواہ ہیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی یہ دونوں کتابیں اصل نہیں ہیں ، بلکہ ان میں بہت زیادہ تبدیلی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ بعض تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے، اور جو کچھ اس وقت کی موجودہ مقدس کتابوں میں موجود ہے وہ انسانی فکر اور بعض خدا کی طرف سے موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام پر نازل ہونے والے مطالب کا ایک مرکب مجموعہ ہے، جس کو ان کے بعض شاگردوں نے جمع کیا ہے۔(۲)
(1) سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷․
(۲) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے کتاب ”رہبر سعادت یا دین محمد“ اور کتاب ”قرآن و آخرین پیامبر“ کو ملاحظہ فرمائیں․
اس بنا پر؛ ان مو جودہ کتا بوں میں اگر کوئی ایسا جملہ نہ ملے جس میں صراحت کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت دی گئی ہو ، تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
لیکن تحریف کے باوجود بھی ان کتابوں میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور کی بشارت پردلالت کرتے ہیں، جن کو مسلمان دانشوروں نے اپنی کتابوں اور مضا مین میں تحریر کیا ہے،چونکہ ان تمام مطالب کو ذکر کرنااس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا نمونہ کے طور پر چند چیزوں کو بیان کرتے ہیں:
۱۔ توریت کے سِفْر تکوین فصل ۱۷،نمبر ۱۷ سے۲۰ تک میں اس طرح مر قوم ہے:
”اور ابراہیم نے خداوندعالم سے فرمایا :کہ اے کاش !اسماعیل تیرے حضور میں زندگی کرتا․․․ اور اسماعیل کے حق میں تیری دعاکو سنا، اس وجہ سے اس کو صاحب برکت قرار دیا اور اس کو پھل دار بنادیا ہے، اور آخر کا راس کی اولاد کو کثیر قرار دیا، اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور اس کو ایک عظیم امت قرار دوں گا“۔
۲۔ سِفْر پیدائش باب ۴۹، نمبر ۱۰ میں وارد ہوا ہے:
عصای سلطنت یہودا سے اور ایک فرمان روا اس کے پیروں کے آگے سے قیام کرے گا تااینکہ ”شیلوہ“ آجائے کہ اس پر تمام امتیں اکٹھا ہوجائیں گی۔
یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیلوہ کے ایک معنی ”رسول“ یا ”رسول اللہ“ کے ہیں، جیسا کہ مسٹر ہاکس نے کتاب ”قاموس مقدس“ میں بیان کیا ہے۔
۳۔ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۴ ،نمبر ۱۵، ۱۶ میں یوں بیان ہوا ہے:
”اگر تم لوگ مجھے دوست رکھتے ہو تو میرے احکام کی رعایت کرو، میں پدر سے درخواست کروں گا وہ تمہیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا“۔
۴۔اسی طرح مذکورہ کتاب انجیل یوحنا، باب ۱۵ ،نمبر ۲۶ میں اس طرح وارد ہوا ہے:
”جب وہ تسلی دینے والا آجائے گا جس کو میں پدر کی طرف سے بھجواؤں گا یعنی وہ سچی روح جو پدر کی طرف سے آئے گی، وہ میرے بارے میں شہادت دی گی“۔
۵۔ نیز اسی انجیل یوحنا باب ۱۶ ،نمبر ۱۷ کے بعد میں وارد ہوا ہے:
”لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر میں تمہارے درمیان سے چلاجاؤں تویہ تمہارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو تمہارے پاس وہ تسلی دینے والا نہیں آئے گا، اور اگر میں چلا گیا تو اس کو تمہارے لئے بھیج دوں گا ․․․ لیکن جب وہ سچی روح تمہارے پاس آجائے گی تو تمہیں تمام سچائیوں کی طرف ہدایت کردے گی، کیونکہ وہ اپنی طرف سے کچھ کلام نہیں کرے گا بلکہ جو کچھ اس کو سنائی دے گا وہی کہے گا، اور تمہیں آئندہ کے بارے میں خبر(بھی) دے گا“(1)
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ فارسی انجیل میں ”تسلی دینے والے “ کی جگہ عربی انجیل مطبوعہ لندن ( ویلیام وٹس پریس ، ۱۸۵۷ءء) میں اس کی جگہ ”فارقلیطا“ ذکر ہوا ہے۔ (۲)
ایک اور زندہ گواہ
”فخر الاسلام “جو کتاب ”انیس الاعلام “کے موٴلف ہیںپہلے عیسا ئی عالم تھے ،انھوں نے اپنی تعلیم عیسائی پادریوں میں مکمل کی تھی اور ان کے درمیان ایک بلند مقام حاصل کر لیاتھا وہ انیس الا علام کے مقدمہ میں اپنے مسلمان ہونے کے عجیب و غریب واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
”․․․․بڑی جستجو ،زحمتوں اور کئی ایک شہر وں میں گردش کے بعد میں ایک عظیم پادری کے پاس پہنچا جو زہد و تقویٰ میں ممتاز تھا ، ”کیتھولک‘ فرقہ کے بادشاہ و غیرہ اپنے مسائل میں اس کی طرف رجوع
(1) مذکورہ تمام تحریریں، جن کو عہد قدیم اور عہد جدید سے نقل کیا گیا ہے ، اس فارسی ترجمہ سے ہے جو ۱۸۷۸ءء میں لندن سے عیسائی مترجمین کے ذریعہ عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے ․
(۲)تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۳․
کرتے تھے ،ایک مدت تک میں اس کے پاس نصاریٰ کے مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرتا رہا ،اس کے بہت سے شاگر د تھے لیکن اتفاقاً مجھ سے اسے کچھ خاص ہی لگاوٴ تھا ،اس کے گھر کی تمام کنجیاں میرے ہاتھ میں تھیں، صرف ایک صندوق خانے کی کنجی اس کے پاس ہوا کرتی تھی ۔
اس دوران وہ پادری بیمار ہو گیا تواس نے مجھ سے کہا کہ شاگردوں سے جاکر کہہ دو کہ آج میں درس نہیں دے سکتا ،جب میں طالب علموں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ سب بحث و مباحثے میں مصروف ہیں یہ بحث سریانی کے لفظ ”فارقلیطا“ اور یونانی زبان کے لفظ ”پریکلتوس “کے معنی تک جاپہنچی اور وہ کافی دیر تک جھگڑتے رہے ،ہر ایک کی الگ رائے تھی ،واپس آنے پر استاد نے مجھ سے پوچھا تم لوگوں نے آج کیا بحث کی ہے؟تو میں نے لفظ فارقلیطا کا اختلاف اس کے سامنے بیان کیا وہ کہنے لگا :تونے ان میں کس قول کا انتخاب کیا ہے ،میں نے کہا کہ فلاں مفسرکے قول کوپسند کیا ہے ۔
استاد پادری کہنے لگا :تونے کوتاہی تو نہیں کی لیکن حق و حقیقت ان تمام اقوال کے خلاف ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو ” رَاسِخُونَ فِي العِلمِ“کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے اور ان میں سے بھی بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہیں ،میں نے اصرار کیا کہ اس کے معنی مجھے بتائےے، وہ بہت رویا اور کہنے لگا:میں کوئی چیز تم سے نہیں چھپاتا ،لیکن اس نام کے معنی معلوم ہو جانے کا نتیجہ تو بہت سخت ہوگا کیونکہ اس کے معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اور تمہیں قتل کر دیا جائے گا،اب اگر تم وعدہ کرو کہ کسی سے نہیں کہو گے تو میں اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔
میں نے تمام مقدسات مذہبی کی قسم کھائی کہ اسے فاش نہیں کروں گا تو اس نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے پیغمبر کے ناموں میںسے ایک نام ہے اور اس کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ہیں ۔
اس کے بعد اس نے اس چھوٹے کمرے کی کنجی مجھے دی اور کہا کہ فلاں صندوق کا دروازہ کھولو اور فلاں فلاں کتاب لے آوٴ ، چنا نچہ میںوہ کتابیں اس کے پاس لے آیا ، یہ دونوں کتابیں رسول اسلام (ص) کے ظہور سے پہلے کی تھیں اور چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں۔
دونوں کتابوں میں لفظ ”فارقلیطا“کا ترجمہ ”احمد“اور” محمد“کیا گیا تھا اس کے بعد استاد نے مزید کہا کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے علمائے نصاریٰ میں کوئی اختلاف نہ تھا کہ فارقلیطا کے معنی احمد و محمد ہیں، لیکن ظہور محمد( (ص))کے بعد اپنی سرداری اور مادی فوائد کی بقا کے لئے اس کی تاویل کر دی اور اس کے لئے دوسرے معنی گڑھ لئے حالانکہ صا حب انجیل کی مراد وہ معنی یقینا نہیں ہیں۔
میں نے سوال کیا کہ دین ِنصاریٰ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ،اس نے کہا دین اسلام کے آنے سے منسوخ ہوگیا ہے اس جملہ کی اس نے تین مرتبہ تکرار کی ۔
پس میں نے کہا کہ اس زمانہ میں طریقِ نجات اور صراطِ مستقیم ،کونساراستہ ہے ؟۔
اس نے کہا :مختصر یہ ہے کہ محمد (ص) کی پیروی و اتباع کرو ۔
میں نے کہا :کیا اس کی پیروی کرنے والے اہل نجات ہیں ؟ اس نے کہا :ہاں !خدا کی قسم (اور تین مرتبہ قسم کھائی )
پھر استاد نے گریہ کیا اور میں بھی بہت رویا اور اس نے کہا : اگر آخرت اور نجات چاہتے ہوتودین حق ضرور قبول کر لو،میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا کروں گا اس شرط کے ساتھ کہ قیامت کے دن گواہی دو کہ میں باطن میں مسلمان اور حضرت محمد (ص) کا پیروکار ہوں اور علمائے نصاریٰ کے ایک گروہ کی باطن میں مجھ جیسی حالت ہے اور ظاہراً میری طرح اپنے دنیاوی مقام سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے ورنہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دین خدا دین اسلام ہی ہے ۔“!!(1)
آپ دیکھیں کہ علمائے اہل کتاب نے پیامبراسلام (ص)کے ظہور کے بعد اپنے ذاتی مفاد کے لئے آنحضرت (ص) کے نام اور نشانیوں کو بدل ڈالا ۔!!(۲)
(1) اقتباس از کتاب ہدایت دوم ،مقدمہ کتاب انیس الاعلام، اختصار کے ساتھ․
(۲) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۲۱۱․