علیکم السلاماسلامی شریعت کی نگاہ میں اسلامی بنکوں میں فکس اماونٹ کے عنوان سے پیسہ رکھنا تاکہ اس پر سود ملے جائز نہیں ہے جبکہ غیر اسلامی بنکوں میں یہ کام جائز ہے۔لیکن سود پر قرضہ لینا چاہے وہ اسلامی بنکوں سے ہو یا غیر اسلامی بنکوں سے جائز نہیں ہے الا تین صورتوں کے:۱: سود پر قرض لینے پر مجبور ہو اور اس کی روزگار زندگی اسی قرضے پر موقوف ہو اور کوئی دوسرا چارہ کار نہ ہو۔۲: قرضہ اس عنوان سے بنک سے لے کہ وہ اس سے کاروبار کرے گا اور بنک کو اپنے کاروبار میں ایک پاٹنر کے عنوان سے شریک کرے اور اپنے کام کے سود و زیان میں اسے حصہ دار سمجھے اسی صورت میں جب بنک اس کے کاروبار میں ایک پاٹنر کے عنوان سے شریک ہو گی تو جو فائدہ اسے حاصل ہو گا بنک کو قرضہ کے علاوہ لوٹایا جانے والا پیسہ کاروبار کے اس پرافٹ سے ہو گا اور یہ شرعی طور پر جائز ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔۳: بنک سے قرضہ لینے والا شخص بنک کو اصلی رقم قرضہ کے عنوان سے واپس لوٹائے اور جو اضافی رقم ہے وہ بنک کو سود کے عنوان سے نہ دیا جائے بلکہ ہدیہ کے عنوان سے دیا جائے کہ بنک نے مشکل وقت اس کی مدد کی اب اس کو مازاد ہدیہ کے طور پر لوٹا رہا رہے اس صورت میں حرام کام سے بچا جا سکتا ہے۔(استفتائات مقام معظم کی روشنی میں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۲
source : www.abna.ir