"پرامن مذہبى بقائے باہمى" اسلام کا ايک بنيادى نظريہ ہے اور قرآان مجيد کى متعدد آيات نے اس نظريہ کى گوناگون صورتوں ميں اور صراحت کے ساتھـ تاکيد کى ہے ـ قرآن مجيد کے مطابق، مذہبى جنگ اور عقائد ميں اختلافات کى وجہ سے لڑنے کا کوئى معنى نہيں ہے،
جب کہ بعض دوسرے مذاہب ميں اس چيزکا مشاہدہ ہوتا ہے،جيسے عيسا يئوں کى صليبى جنگيں ـ اسلام ميں دوسرے اديان کے پيروکاروں کے بارے ميں کينہ و دشمنى رکھنے کى ممانعت کى گئى ہے اور دوسروں کے ساتھـ تو ہين آميز سلوک کرنا غير دينى طرز عمل ہے ـ قرآن مجيد نے پر امن بقائے باہمى کے لئے مختلف راہيں بيان کى ہيں، جن ميں سے چند اہم راہيں حسب ذيل ہيں:
1ـ عقيدہ اور فکر کى آزادى
2ـ مشترک اصولوں پر توجہ کرنا
3ـ نسل پرستى کى مذمت ـ
4ـ پرامن گفتگو
5ـ صلح و امن کى تجويز کا استقبال کرنا
6ـ اقليتوں کے حقوق کو قبول کرنا
7ـ انبياء (ع) اور آسمانى کتابوں کو باقاعدہ طور پر قبول کرنا
8ـ بين الاقوامى امن
9ـ دوسرے اديان کى برترى جوئى کے تو ہمات سے مبارزہ و مجاہدت کرنا
10ـ بين الاقوامى مسائل ميں تعاون کرنا ـ
تفصیلی جواب
پر امن مذہبى بقائے باہمى"، اسلام کا ايک بنيادى نظريہ ہے اور قرآن مجيد کى متعدد آيات ميں مختلف صورتوں ميں اس کى صراحت کے ساتھـ تاکيد کى گئى ہے، جبکہ چودہ سو سال پہلے انسان کے لئے "بقائے باہمى" کا مفہوم مکمل طور پر قابل فہم نہيں تھا ـ
قرآن مجيد کے مطابق مذہبى جنگ اور عقيدہ ميں اختلاف کى وجہ سے لڑائى کا کوئى معنى نہيں ہے، جبکہ بعض اديان اور مذاہب ميں، اس قسم کى جنگوں کا مشاہدہ کيا جاتا ہے، جيسے، عيسايئوں کى صليبى جنگيں ـ اسلام ميں دوسرے اديان کے پيروں کے بارے ميں کينہ اور دشمنى رکھنے کي ممانعت کى گئى ہے اور دوسروں کے ساتھـ توہين آميز سلوک کرنا غير دينى طرز عمل قرار ديا گيا ہے ـ
قرآن مجيد عيسايئوں اور يہوديوں کے ايک گروہ کى طرف اشارہ کرتا ہے جنہوںنے ايک دوسرے کے خلاف مذاق اڑانے اور کفر کا الزام لگانے کا طرز عمل اختيار کيا تھا اورايک دوسرے کى توہين کرتے ہوئے اور ايک دوسرے کے انسانى حقوق پامال کرتے ہوئے، مسلسل اختلافات اور جنگ کے شعلوں کو بھڑکاتے تھے:" اور يہودى کہتے ہيں کہ نصارىٰ کا مذہب کچھـ نہيں ہے اور نصارىٰ کہتے ہيں کہ يہوديوں کى کوئى بنياد نہيں ہے حالانکہ دونوں ہى کتاب الہىٰ کى تلاوت کرتے ہيں اور اس کے پہلے جاہل مشرکين عرب بھى يہى کہا کرتے تھے ـ خداان سب کے درميان روزقيامت فيصلہ کرنے والا ہے ـ[1]"
قرآن مجيد نے "پرامن بقائے باہمى" کى ضمانت کے لئے مختلف راہيں بيان کى ہيں، جن ميں سے چندا ہم راہيں حسب ذيل ہيں:
1ـ عقيدہ اور فکر کى آزادى:
قرآن مجيد کى بعض آيات ميں "عقيدہ کى آزادى" کے اصول پر تاکيد کى گئى ہے، يعنى بنيادى طور پر قلبى اعتقادات اور ضمير کے مسائل کى فطرت اس طرح ہے کہ ان ميں جبر واکراہ کى کوئى گنجائش نہيں ہے ـ اس سلسلہ ميں قرآن مجيد ميں حسب ذيل ارشاد ہوا ہے:
" دين ميں کسى طرح کا جبر نہيں ہے ـ ہدايت گمراہى سے الگ اور واضح ہو چکى ہے ـ"[2]
"اور اگر خدا چاہتا تو روئے زمين پر رہنے والے سب ايمان لے آتے تو کيا آپ لوگوں پر جبر کريں گےکہ سب مومن بن جايئں ـ"[3]
پيغمبر، دستورات الہىٰ کو پہنچا نے پر مامور ہيں، خواہ مخالفين ايمان لايئں يا نہ لايئں اس سلسلہ ميں ارشاد الہىٰ ہے: "اور کہدو کہ حق تمھارے پروردگار کى طرف سے ہے، اب جس کا جى چاہے ايمان لے آئے اور جس کا جى چاہے کافر ہو جائے ـ"[4]
" اور اگر خدا چاہتا تو يہ شرک ہى نہ کرسکتے اور ہم نے آپ کو ان کا نگہبان نہيں بنايا ہے اور نہ آپ ان کے ذمہ دار ہيں ـ"[5]
خدا پرايمان اور اسلام کے اصول کسى بھى وقت جبرى نہيں ہوسکتے ہيں، بلکہ فکروروۤح ميں ان کے نفوذ کى تنہا راہ، منطق واستدلال ہے ـ اہميت اس بات کى ہے کہ حقائق اور الہىٰ دستورات بيان کئے جائيں تاکہ لوگ انھيں ادراک کريں اور اپنے ارادہ واختيار سے انھيں قبول کريں ـ
آزادى کا ايک دوسرا پہلو" فکر و انديشہ کى آزادى"ہے ـ قرآن مجيد نے متعدد آيات ميں عالم ہستى ميں تعقل، تدبر اور فکر و انديشہ کى دعوت دى ہے اور چاہتا ہے کہ انسان اپنى عقل کى طاقت سے اپنے نفع و نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کى پليدى اور گمراہى کى قيد و بند سے اپنے آپ کو ازاد کر کے کمال کى طرف گامزان ہو جائے ـ ارشاد الہىٰ ہے:
" ہم عنقريب اپنى نشانيوں کو تمام اطراف عالم ميں اور خودان کے نفس کے اندر دکھلايئں گے تاکہ ان پر يہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کيا پروردگار کے لئے يہ بات کافى نہيں کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا ديکھنے والا ہے؟"[6]
" اور زمين ميں يقين کرنے والوں کے لئے بہت سى نشانياں پائى جاتى ہيں ـ اور خود تمھارے اندر بھى ـ کيا تم نہيں ديکھـ رہے ہو؟"[7]
مشترک اصولوں پر توجہ کرنا:
اسلام ايک ايسا دين ہے، جس نے اپنى پيدائش کے زمانہ سے " پرامن بقائے باہمى " کے نعرہ کے ضمن ميں اپنى دعوت کو دنيا والوں کے سامنے پيش کيا ہے اور يہ دين اہل کتاب سے مخاطب ہو کر يوں کہتا ہے:
"اے پيغمبر آپ کہديں کہ اہل کتاب; آو ايک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرليں کہ خدا کے علاوہ کسى کى عبادت نہ کريں، کسى کو اس کا شريک نہ بنايئں، آپس ميں ايک دوسرے کو خدائى کا درجہ نہ ديں ، اور اس کے بعد بھى يہ لوگ منھـ موڑيں تو کہديجئے کہ تم لوگ بھى گواہ رہناہم لوگ حقيقى مسلمان اور اطاعت گزار ہيں ـ"[8]
مذکورہ آيہ شريفہ ان اہم آيات ميں سے ہے جو اہل کتاب کو وحدت اوراتحاد کى طرف دعوت ديتى ہيں ـ اس آيت ميں بيان کيا گيا استدلال سابقہ آيات کے استدلال سے فرق رکھتا ہے ـ سابقہ آيات نے اس آيت کى بنا پر، بلا واسطہ اسلام کى دعوت دى ہے، ليکن اس آيہ شريفہ ميں "اسلام" اور "اہل کتاب" کے درميان مشترک نقاط پر توجہ کى گئى ہے ـ
قرآن مجيد مسلمانوں کو تعليم ديتا ہے کہ اگر دوسرے (اديان کے) لوگ آپ کے تمام مقدس مقاصدميں آپ کے ساتھـ تعاون کرنے پر آمادہ نہ ہوئے، تو آپ ہمت نہ ہارنا بلکہ کوشش کرنا کہ کم از کم ان مقاصد کے سلسلہ ميں ان کے تعاون کو حاصل کريں جن ميںوہ آپ کے ساتھـ مشترک ہيں اور اس چيز کو اپنے مقدس مقاصد کو آگے بڑھانے کى بنياد قرار دينا ـ[9]
3ـ نسل پرستى کى مذمت:
قرآن مجيد نسل پرستى پر مبنى ہر قسم کے نظريہ کى مذمت کرتا ہے اور تمام انسانوں کو ايک ماں باپ کے فرند اور ہر قسم کى نسلى، قومى اور مذہبى برترى سے منزہ و پاک جانتا ہے ـ اوراس سلسلہ ميں ارشاد الہىٰ ہے:
"انسانو! ہم نے تم کو ايک مرد اور ايک عورت سے پيدا کيا ہے اور پھر تم ميں شاخيں اور قبيلے قراردئے ہيں تاکہ آپس ميں ايک دوسرے کو پہچان سکو، بيشک تم ميں سے خدا کے نزديک زيادہ محترم وہى ہے جو زيادہ پرہيزگار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے ـ"[10]
پرامن بقائے باہمى کا ايک اہم اصول، انسانوں کے آپس ميں مساوى اور برابر ہونا ہے، کيونکہ نسل پرستى، احساس برترى اور دوسرے اقوام و مذاہب کى حقارت کرنا، انسانى معاشرہ ميں گوناگون مشکلات پيدا ہونے کا سبب بن جاتا ہے ـ پہلى اور دوسرى عالمى جنگيں اس قسم کى مشکلات کا نماياں نمونہ ہيں ـ
رنگ، نسل اور قوم ميں فرق جيسے مسائل کسى کے کسى دوسرے پر فضيلت کا سبب نہيں بن سکتے ہيں ـ قرآن مجيد کے مطابق زبانوں اور رنگوں ميں فرق خداوند متعال کى آيات و نشانياں ہيں اوريہ جيزيں افراد اور شخاص کو ايک دوسرے سے پہچاننے کے وسيلے ہيں ـ اگر تمام انسان ايک ہى شکل، ايک ہى رنگ اور ايک ہى قد کے ہوتے تو انسانى زندگى مشکلات اور افراتفرى سے دوچارہوتى ـ
قرآن مجيد کے مطابق، تقوىٰ اور پرہيزگارى کے علاوہ کسى اور وجہ سے انسانوں کى ايک دوسرے پر فضيلت نہيں ہے اور انسانوں کا مجموعہ،"انسانى خاندان" اور "امت واحد" کو تشکيل ديتا ہے:
"سارے انسان (فطرى عتبار سے) ايک قوم تھے ـ پھر اللہ نے بشارت دينے والے اور ڈرانے والے انبياء بھيجے اور ان کے ساتھـ بر حق کتاب نازل کى تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فيصلہ کريں...."[11]
قرآن مجيد کى بہت سى آيات تمام بشريت سے مخاطب ہيں، جيسے:" يا بنى آدم"[12] اور" يا ايھاالناس"[13] ـ ان خطابوں اور تعبيرات ميں اس بات کا اشارہ پايا جاتا ہے کہ زمين پر سکونت کرنے والے انسانوں کے درميان انسانيت ايک مشترک معنى ہے ـ مختلف علاقوں کے انسان، انسانيت کے لحاظ سے آپس ميں کوئى فرق نہيں رکھتے ہيں ـ انسان، پورى تاريخ ميں زبان، رنگ اورنسل وغيرہ کے لحاظ سے آپس ميں مختلف تھے، ليکن اسلام کے مطابق تمام انسان ايک ہى ماں باپ (آدم اور حوا) کے فرزند ہيں اور يہ تفاوت انسان کى انسانيت ميں کوئى خدشہ پيدا نہيں کرسکتے ہيں ـ[14]
4ـ پرامن گفتگو:
قرآن مجيد مسلمانوں کو" جدل احسن کا " دستور ديتا ہے اور حکم ديتا ہے کہ " پرامن گفتگو" کے ذريعہ اہل کتاب کے ساتھـ بات کريں اور اپنے روابط کو " مشترک اصولوں" کى بنياد پر قرار ديں ـ اس سلسلہ ميں ارشاد الہىٰ ہے:
" اور اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترين انداز ہے علاوہ ان کے جوان ميں سے ظالم ہيں اور يہ کہو کہ ہم اس پر ايمان لائے ہيں جو ہمارى اور تمھارى دونوں کى طرف نازل ہوا ہے اور ہمارا اور تمھارا خدا ايک ہى ہے اور ہم سب اس کے اطاعت گزار ہيں ـ"[15]
گزشتہ آيات ميں، ہٹ دھرم اور جاہل "بت پرستون" کا مسئلہ تھا، کہ حالات کے مطابق ان سے بات کى جاتى تھى، ليکن اس آيت ميں " اہل کتاب" سے نرم لہجے ميں مجادلہ کرنے کى بات کى گئى ہے، کيونکہ انہوں نے کم از کم انبياء اور آسمانى کتابوں کے دستورات کے ايک حصہ کو سنا تھا اور آيات الہىٰ کو سننے کى زيادہ آمادگى رکھتے تھے.
قرآن مجيد مسلمانوں کو حکم ديتا ہے کہ کافروں اور بت پرستوں کو د شنام دينے سے پرہيز کريں ، کيونکہ وہ مقابل ميں يہى کام انجام ديں گے:
" اور خبردار تم لوگ انھيں برا بھلا نہ کہو جن کو يہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہيں کہ اس طرح يہ دشمنى ميں بغير سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہيں گے، ہم نے اس طرح ہر قوم کے لئے اس کے عمل کو آراستہ کر ديا ہے اس کے بعد سب کى بازگشت پروردگار کى ہى بارگاہ ميں ہے اور وہى سب کوان کے اعمال کے بارے ميں باخبر کرے گا (اور پاداش و کيفر دے گا)"[16]
چونکہ اسلامى دستورات کا بيان، منطق، استدلال اور پرامن طريقہ پر مبنى ہے، اس لئے بعض مومنين، جو "بت پرستى کے مسئلہ" کے بارے ميں شديد ناراحتى کى وجہ سے مشرکين کے بتوں کو دشنام ديتے تھے، اسلام انھيں تاکيد کے ساتھـ سفارش کرتا ہے کہ دشنام دينے سے پرہيز کريں ـ اسلام ، بيان ميں ادب، عفت اور نزاکت کے اصول کى رعايت کرنے کو، حتى خرافى ترين اور بد ترين اديان کے مقابلے ميں بھى ضرورى جانتاہے، کيونکہ ہر گروہ و قوم اپنے عقائد و اعمال کے بارے ميں تعصب رکھتے ہيں ـ دشنام دينا اور تشدد آميز برتاو کرنا اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ وہ اپنے عقائد ميں راسخ تر ہو جايئں ـ
5ـ صلح و امن کى تجويز کا استقبال کرنا:
قرآن مجيد ميں ارشاد الہىٰ ہے:".... لہذا اگروہ تم سے الگ رہيں اور جنگ نہ کريں اور صلح کا بيغام ديں، تو خدا نے تمھارے لئے ان کے اوپر کوئى راہ نہيں قراردى ہے ـ"[17]
عرب قبائل ميں " بنى ضمرہ " اور " اشجع " نام کے دو قبيلے تھے ـ قبيلہ " بنى ضمرہ " نے مسلمانوں کے ساتھـ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کيا تھا اور قبيلہ " اشجع " کا بھى " بنى ضمرہ" کے ساتھـ معاہدہ تھا ـ
ايک مدت کے بعد مسلمانوں کو اطلاح ملى کہ مسعودبن رجيلہ کى سرکرد گى ميں قبيلہ " اشجع" کے سات سو افراد پر مشتمل ايک گروہ مدينہ کے نزديک پہنچ گئے ہيں ـ پيغمبر اکرم(ص) نے اپنے چند نما يندے ان کے پاس بھيجدئے، تاکہ ان کے مدينہ کى طرف آنے کا مقصد معلوم کرسکيں ـ انہوں نے اظہار کيا کہ :" ہم محمد (ص) سے " جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کے لئے آ ئے ہيں ـ پيغمبر اکرم (ص) کو جب يہ معلوم ہوا تو آپ(ص) نے حکم ديا کہ کھجور کى ايک بڑى مقدار ان کے لئے تحفہ کے طور پر بھيج دى جائے، اس کے بعد ان کے ساتھـ رابطہ بر قرار کيا اور انھوں نے اظہار کيا کہ : ہم نہ آپ کے دشمنوں کے ساتھـ لڑنے کى طاقت رکھتے ہيں، کيونکہ ہمارى تعداد کم ہے، اور نہ آپ سے لڑنے کى طاقت اورارادہ رکھتے ہيں ، کيونکہ ہمارا علاقہ آپ کے نزديک ہے، لہذا ہم آپ سے " جنگ نہ کرنے کا معاہدہ " کرنے کے لئے آئے ہيں ـ اس وقت مذکورہ آيات نازل ہويئں اور اس سلسلہ ميں مسلمانوں کو ضرورى دستورات دئے گئے ـ[18]
6ـ اقليتوں کے حقوق کو قبول کرنا:
اسلام کے برابر کوئى بھى دين اقليتوں کى آزادى کا ضامن اور ان کى عزت اور قومى حقوق کو تحفظ بحشنے والا نہيں ہے ـ اسلام، ايک اسلامى مملکت ميں نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ مذہب، نسل، زبان اور رنگ ميں اختلافات پائے جانے کے باوجود اس ملک کے تمام باشندوں کے لئے سماجى انصاف کى ضمانت ديتا ہے، اور يہ عالم انسانيت کا ايک بڑا نصب العين ہے، جس کو اسلام کے علاوہ کوئى بھى مذہب اور قانون عملى جامہ نہيں پہنا سکتا ہے ـ
اسلامى حکومت ميں ، مذہبى اقليتيں " عہد نامہ ذمہ " منعقد کرنے اور اس ملک کى شہريت حاصل کرنے کے بعد ملک ميں آزادى کے ساتھـ زندگى کرسکتے ہيں اور مسلمانوں کے مانند سماجى انصاف اور داخلى و خارجى امن و سلامتى سے بہرہ مند ہوسکتے ہيں ـ
قرآن مجيد نے تمام اقوام اور مذاہب کے حقوق کى رعايت کرنے کے بارے ميں اسلام کى کلى سياست کو، صراحت کے ساتھـ يوں بيان کيا ہے:
"وہ تمھيں ان لوگوں کے بارے ميں، جنھوں نے تم سے دين کے معاملہ ميں جنگ نہيں کى ہے اور تمھيں وطن سے نہيں نکالا ہے ـ اس بات سے نہيں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھـ نيکى اور انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ـ"[19]
پس اسلام اس بات کى اجازت ديتا ہے کہ مذہبى اقليتيں اور اسلام کے مخالفين، اسلامى معاشرہ ميں زندگى کريں اور انسان حقوق سے استفادہ کريں، بشرطيکہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے مزاحمت ايجاد نہ کريں، اور ان کے خلاف کوئى سازش نہ کريں ـ
ايک دوسرى آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:" خدا وند متعال تمھيں صرف ان لوگوں سے دوستى کرنے سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دين ميں جنگ کى ہے اور تمھيں وطن سے نکال باہر کيا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں کى مدد کى ہے، جو ان سے دوستى کرے گا وہ يقيناً ظالم ہوگا ـ"[20]
مذکورہ دوآيتوں کے پيش نظر، مذہبى اقليتوں اور اسلام کے مخالفين کے بارے ميں اسلام کى کلى سياست يہ ہے کہ: جب تک اقليتيۤں مسلمانوں کے حقوق پر ہاتھـ نہ ڈاليں، اور اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کوئى سازش نہ کريں، وہ اسلامى مملکت ميں مکمل طور پر آزاد ہيں اور مسلمانوں کى ذمہ دارى ہے کہ ان کے ساتھـ عدل و انصاف اور نيکى کے ساتھـ برتاو کريں ـ ليکن اگر اسلام و مسلمين کے خلاف دوسرے ممالک کے ساتھـ تعاون کريں گے، تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کى سرگرميوں کو روک ليں اور ہرگز انھيں اپنا دوست نہ سمجھيں ـ
اسلام ميں، مذہبى اقليتوں کى اس قدرآزادى اور احترام ہے کہ اگر " اہل ذمہ " ميں سے کوئى شخص ايک ايسا کام انجام دے جو اس کے دين ميں جائز ہو ليکن شرع اسلام ميںحرام ہو، جيسے شراب پينا، تو کوئى اس کو روک نہيں سکتا ہے، بشرطيکہ وہ اس فعل کا کھلم کھلا مظاہرہ نہ کرے ـ اگر اس نے اس فعل کو کھلے عام انجام ديا تو " قانون تحت الحمايہ " کى خلاف ورزى کے جرم ميں اس کے خلاف قانونى کاروائى کى جائے گى اور اگر کوئى ايسا کام انجام دے، جو اس کے دين ميں بھى حرام شمار ہوتا ہو، جيسے زنا، لواط وغيرہ، تو قانونى لحاظ سے مسلمانوں کے ساتھـ اس کا کوئى فرق نہيں ہے اور جج کو حق ہے کہ اس پر " حد " جارى کرے اور قاضى اسے اپنى قوم کے حوالہ بھى کرسکتا ہے تاکہ اسے اپنے مذہب کے قوانين کے مطابق سزادى جائے ـ[21]
اسلامى فقہ کے مطابق اگر اہل ذمہ ميں سے دو شخض اپنا مقدمہ کسى مسلمان قاضى کے پاس لے جايئں، توقاضى کو اختيار ہے کہ اسلام کے حکم کے مطابق فيصلہ سنادے يا اعراض کرے ـ قرآن مجيد ميں اس سلسلہ ميں ارشاد الہىٰ ہے:
".... اگر آپ کے پاس مقدمہ لے کر آيئں تو آپ کو اختيار ہے کہ فيصلہ کرديں يا اعراض کرليں..."[22]
البتہ اس کا مراد يہ نہيں ہے کہ پيغمبر (ص) ان دو ميں سے ايک کو انتخاب کرنے ميں اپنے ذاتى رجحانات سے کام ليں، بلکہ مراد يہ ہے کہ حالات اور شرائط کو مد نظر رکھـ کر فيصلہ سنائے ـ يعنى اگر مصلحت تھى تو مداخلت کرکے فيصلہ سنائے اور اگر مصلحت نہ تھى تو فيصلہ کو نظر انداز کرے ـ [23] اس سلسلہ ميں ايک مصلحت اہل کتاب کے مسلمانوں کے ساتھـ لين دين اور روابط کى رعايت ہوسکتى ہے ـ اس آيت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کى اہل کتاب کے ساتھـ پرامن مذہبى بقائے باہمى اس قدر تھى کہ وہ اپنے مقدموں کے فيصلہ کے لئے پيغمبر اکرم(ص) کى خدمت ميں آتے تھے ـ ہميشہ اور ہر گروہ کے ساتھـ انصاف کى ايک قدر و منزلت ہے ـ اگر اسلامى حاکم يا حکومت کو فيصلہ دينے يا ثالثى کے لئے منتخب کيا جائے تو عدل و انصاف کى رعايت کى جانى چاہئے اور فيصلہ دينے ميں نسلى، علاقائى، گروہى تعصبات، ذاتى رجحانات اور دھمکياں وغيرہ جيسے مسائل اثر انداز نہيں ہونے چاہئے ـ
7ـ انبياء (ع) اور آسمانى کتابوں کو با ضابطہ طور پر قبول کرنا:
بنيادى طور پر تمام آسمانى کتابيں مسائل کے اصول ميں آپس ميں ہم آہنگ ہيں اور ايک ہى مقصد (انسان کى تربيت وکمال) رکھتے ہيں، اگر چہ فروعى مسائل ميں تدريجى کمال کے قانون کے مطابق آپس ميں کچھـ اختلافات رکھتے ہيں اور ہر نيا دين ايک بلند تر مرحلہ طے کرتا ہے اور جامع تر پروگرام کاحامل ہوتا ہے ـ قرآن مجيد ، سابقہ انبياء عليہم اسلام اور آسمانى کتابوں کى تعظيم و احترام کے ضمن ميں، ان کى تصديق کرتا ہے:
" اور اے پيغمبر ! ہم نے آپ کى طرف کتاب نازل کى ہے جو اپنے پہلے کى توريت اور انجيل کى مصدق اور محافظ ہے، لہذا آپ ان کے درميان تنزيل خدا کے مطابق فيصلہ کريں.."[24]
اس کے علاوہ قرآن مجيد کى تقريباً مزيد بيس دوسرى آيتيں بھى توريت و انجيل کى تائيد اور تصديق ميں نازل ہوئى ہيں ـ[25] بنيادى طور پر يہ سنت الہىٰ ہے کہ ہر پيغمبر سابقہ پيغمبر کى تائيد کرتا ہے اور ہر آسمانى کتاب سابقہ آسمانى کتاب کى تصديق کرتى ہے ـ خداوند متعال حضرت موسى عليہ اسلام اور توريت کى ان کے بعد آنے والے بيغمبر اور آسمانى کتاب يعنى حضرت عيسى عليہ اسلام اور انجيل کے ذريعہ تايئد کرتے ہوئے يوں ارشاد فرماتا ہے:
" اور ہم نے انھيں انبياء کے نقش قدم پر عيسى بن مريم کو چلا ديا جو اپنے سامنے کى توريت کى تصيق کرنے والے تھے اور ہم نے انھيں انجيل ديدى جس ميں ہدايت اور نور تھا اور وہ اپنے سامنے کى توريت کى تصديق کرنے والى اور ہدايت تھى اور صاحبان تقوىٰ کے لئے نصيحت تھى ـ"[26]
8ـ بين الاقومين امن و صلع:
اسلام نے ابتداء ميں ہى صلح و امن کى بنياد ڈالى ہے اور اس طريقہ سے، بين الاقوامى سطح پر امن و امان کے ساتھـ باہم رہنے کى راہ کو ہموار کيا ہے ـ اس سلسلہ ميں کافى ہے کہ ہم جان ليں کہ صلح، اسلام کى روح ہے ـ جيسا کہ بيان ہوا کہ لفظ اسلام مادہ "سلم " سے ليا گيا ہے اور اس لحاظ سے اس کے معنى سلامتى اور آرام ہيں، لہذا قرآن مجيد حکم ديتا ہے کہ تمام لوگ " سلم و صلع " کے دائرہ ميں داخل ہو جايئں:
" ايمان والو تم سب مکمل طريقہ سے اسلام ميں داخل ہو جاو...."[27] "صلح " کى بہ نسبت "سلم " بہت ہى عالى ترا اور پائدار تر ہے، کيونکہ اس کے معنى سلامت و امن ہيں اوراس کى صورت ايک عارضى اور ظاہرى صلح کى جيسى نہيں ہے ـ خداوند متعال اپنے بيغمبر اکرم (ص) کو حکم ديتا ہے کہ اگر آپ کے دشمن صلح کے دروازہ سے داخل ہو جايئں اور اس کى طرف تمايل پيدا کريں ، تو آپ بھى موقع سے فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھـ موافقت کرنا:
"اور اگر وہ ( دشمن) صلح کى طرف مائل ہوں تو تم بھى جھک جاوـ"[28]
انسانوں کے درميان صلح کے بارے ميں اسلام کى اس قدر اہميت ہے، کہ با ايمان افراد کو نويد ديتا ہے کہ شائد مسلمانوں کے صلح آميز برتاو کے نتيجہ ميں، ان کے اور ان کے دشمنوں کے درميان دوستى کا رابطہ قائم ہو جائے:
"قريب ہے کہ خدا تمھارے اور جن سے تم نے دشمنى کى ہے ان کے درميان دوستى قرار ديدے کہ وہ صاحب قدرت ہے اور بہت بڑا بخسنے والا اور مہربان ہے"ـ[29]
غير مسلمان دو حصوں ميں تقسيم ہوتے ہيں:
پہلا گروہ، وہ افراد تھے جو مسلمانوں کے مقابلے ميں کھڑے ہوئے، ان پر تلوار کھينچى، انھيں اپنے گھروں سے زبردستى نکال باہر کيا اور مختصر يہ کہ اسلام و مسلمين کے خلاف اپنى عداوت و دشمنى کو قول و فعل سے ظاہرکيا ـ اس گروہ کے ساتھـ مسلمانوں کا فريضہ يہ ہے کہ ان کے ستھـ ہر قسم کے رابطہ، محبت اور دوستى برقرار کرنے سے پرہيز کريں ـ اس کى واضح مثال اور مصداق مکہ کے مشرکين خاص کرقريش کے سردار تھے، ان ميں سے بعض لوگوں نے باقاعدہ ايسا کام انجام ديا تھا اور دوسرے افراد نے ان کى مدد کى تھى ـ
دوسرا گروہ، وہ افراد تھے، جن کا کفر و شرک کے باوجود مسلمانوں کے ساتھـ کوئى سورکار نہ تھا ـ نہ مسلمانوں کے ساتھـ عداوت کرتے تھے اور نہ جنگ اور نہ انھيں گھروں اور شہروں سے نکال باہر کرنے کا اقدام کرتے تھے، يہاں تک کہ ان ميں سے بعض گروہوں نے مسلمانوں کے ساتھـ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ بھى کيا تھا ـ اس گروہ کے ساتھـ مسلمانوں کو وعدہ وفاکرناچاہئے اور ان کے ساتھـ عدل و انصاف کے ساتھـ سلوک کرنے کى کوشش کرنى چاہئے ـ اس گروہ کا مصداق قبيلہ خزاعہ تھا، جنھون نے مسلمانوں کے ساتھـ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کيا تھا ـ[30]
مختصر يہ کہ خارجى سياست ميں صلح اور پرامن باہمى زندگى کى طرفدارى، عقل مند ترين اور ترقى يافتہ ترين طرز عمل ہے اور اسلام نے بھى اس پروگرام کو اپنا يا ہے، اور دفاع کے لئے افراد کو تقويت بخشنا اضطرارى مواقع پر ضرورى جانا ہے ـ
اسلام، صلح اور پر امن زندگى کا اس قدر قائل ہے کہ حتى چھوٹے اجتماعات اور خاندانى اختلافات ميں بھى صلح و آشتى کا دستور ديتا ہے " والصلح خير "
9ـ دوسرے اديان کى برترى جوئى کے توہمات سے مبارزہ و مجاہدت کرنا:
قرآن مجيد کى بعض آيات، دوسرے اديان کے تند اور تعصب آميز عقائد سے مبارزہ کرنے کے بارے ميں ہيں ـايسے غلط عقائد جو دوسرے مذاہب کے پيروں کے ساتھـ کينہ اور دشمنى کا سبب بنے ہيں ـ ہمارى آسمانى کتاب يعنى قرآن مجيد، اپنے پيروں کو مذہبى روادارى اور دوسرے مذاہب کے پيروکاروں کے ساتھـ مہربانى سے پيش آنے کى تاکيد کرنے کے بعد، دوسرے اديان کے غلط اور توہمات پر مبنى افکارو عقائد کو کچل کر رکہديتا ہے ـ
يہوديوں اور عيسايئوں کا اعتقاد تھا کہ وہ خدا وند متعال کے منتخب شدہ ملت ہيں، اور صرف انہوں نے خداوند متعال سےلازوال رابطہ قائم کيا ہے، خدا کى بہشت ان سے مخصوص ہے اور دوسرے اديان کے پيرواس سے بہرہ مند ہونے کى لياقت نہيں رکھتے ہيں، صرف يہودو نصاراى ہيں کہ بہر حال سبوں سے برتر و بالاتر اور ہر قسم کے احترام کے لائق ہيں اور سبوں کو ان دوقوموں کے سامنے سر تسليم خم ہونا چاہئے:[31]
" اور يہوديوں نے يہ کہنا شروع کرديا کہ ہم اللہ کے فرزند اور اس کے دوست ہيں تو پيغمبر آپ کہد يجئے کہ پھر خدا تم پر تمھارے گناہوں کى بنا پر عذاب کيوں کرتا ہے ـ بلکہ تم اس کى مخلوقات ميں سے بشر ہو اور وہ جس کو چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جس پر چاہتا ہے عذاب کرتا ہے اور اس کے لئے زمين و آسمان اور ان کے درميان کى کائنات ہے اور اسى کى طرف سب کى بازگشت ہے"ـ[32]
اور ايک دوسرى آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:" يہ يہودى کہتے ہيں کہ جنت ميں يہوديوں اور عيسايئوں کے علاوہ کوئى داخل نہيں ہوگا ـ يہ صرف ان کى اميديں ہيں ـ ان سے کہد يجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئى دليل لے آوـ نہيں جو شخص اپنا رخ خدا کى طرف کردے گا اور نيک عمل کرے گا اس کے لئے پروردگار کے يہاں اجرہے اور نہ کوئى خوف ہے نہ حزن ـ"[33] اس بنا پر خدا کى بہشت کسى گروہ سے مخصوس نہيں ہے ـ
اس طرح، قرآن مجيد ان دوقوموں (يہودونصارىٰ) کے غرور آميز تعصيات پر مبنى، خطرناک اور جنگجوانہ افکار کے ساتھـ مبارزہ کرتا ہے، اور استدلال کے ساتھـ ان کے ان افکار کے کھو کھلے اور غير منطقى ہونے کو آشکار کرتا ہے ـ
واضح ہے کہ، جب اس قسم کے غلط اور خطرناک افکار کسى قوم اور معاشرہ پر حکم فرما ہوں تو عالمى صلح اور مذہبى روادارى کے ساتھـ دوسروں کے ساتھـ زندگى کرنا ناممکن بن جائے گى ـ غلط تعصبات، احساس برترى اور نسل پرستى کو ختم کرنا دنيا کے مختلف اديان و قوموں کے لئے پرامن بقائے باہمى کا ماحول پيدا کرنے کا مقدمہ ہے ـ
قرآن مجيد کے مطابق، کوئى قوم منتخبہ نہيں ہے اور کسى کا خداوند متعال سے خصوص رابطہ نہيں ـ برترى و عظمت، ان افراد سے مخصوص ہے جو صرف حقيقت کے سامنے تسليم ہوتے ہيں اور کسى قسم کا غلط تعصب انھيں حقيقت کو قبول کرنے سے نہيں روک سکتا ہے ـ
10ـ بين الاقوامى مسائل ميں تعاون کرنا:
سماجى زندگى کى ضروريات ميں سے ايک ہمکارى اور تعاون ہے ـ سماجى زندگى اور بين الاقوامى نظام، مختلف سياسى، اقتصادى، اجتماعى اور ثقافتى العباد ميں تعاون اور ہمکارى کے بغير ممکن نہيں ہے ـ عالمى سطح پرپيدا ہونے والے روزمرہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے، شراکت،اور تعاون کے علاوہ کوئى چارہ نہيں ہے ـ
قرآن مجيد، تعاون اور شراکت، جو ايک معقول اصل ہے، کى تايئد اور سفارش کرتا ہے اور اس کى راہ کو نيکى و تقوىٰ پر قرار ديتا ہے اور گناہ و ظلم ميں تعاون کرنے کى ممانعت کرتا ہے:
'نيکى اور تقوىٰ پر ايک دوسرے کى مدد کرو اور گناہ اور تعدى پر آپس ميں تعاون نہ کرنا....."[34]
عالمى اندازوں کے مطابق، عدل وانصاف، برابرى، صلح، امن و سلامتى اور ترقى " نيکى " کے مصاديق ہيں اور تسلط، استحصال، نسل پرستي سے مبارزہ اور عالمي سطح پر ظلم کے جڑوں کو اکھاڑنے کے لئے کوشش کرنا، قوموں کے تقويٰ اور خدا کے ارادہ اور مرضى ک نزديک ہونے کے لئے کوشش کرنا شمار ہوتا ہے، اور اس راہ ميں ہر قسم کے ايسے تعاون سے پرہيز کرنى چاہئے جو فساد، تباہي اور ظلم کا سبب بنے ـ [35]
جس قدر مشترک اصولوں کي طرف زيادہ توجہ کى جائے، بين الاقوامى تفاہم زيادہ بہتر ہوتاہے، نتيجہ کے طور پر عالمى صلح و امن کو ضمانت ملتي ہے ـ قرآن مجيد مشترک اصولوں کو اپنانے کى تاکيد کرنے کے علاوہ: "قل يا اھل الکتاب تعالوا" کے فرمان سے، مسلمانوں کو تقوىٰ و نيکى کى سفارش کرتا ہے اور انھيں اجازت دى ہے تا کہ ان کے ساتھـ اقتصادى لين دين و غيرہ بھى کريں اور شراب او سور کے گوشت کے علاوہ ان کى غذا کھانى چاہئے ـ
واضح ہے کہ اہل کتاب کے ساتھـ اقتصادي لين دين اور ان کى غذا کھانے کى اجازت، تعاون اور ہم کارى اور ايک ساتھـ پر امن زندگي کرنے کاسبب ہوگا ـ اسلام کے مطابق، تعاون ايک دينى فريضہ ہونے کے علاوہ، ايک انساني ضرورت شمار ہوتا ہے ـ بہر حال خداوند متعال کى پيدا کى گئى زمين اور اس ميں قراردي گئى دولت کو ہمکارى اور تعاون کے بغير حاصل نہيں کيا جا سکتا ہے ـ
سرانجام، اگر چہ مذکورہ آيہ شريفہ ميں تعاون اور ہمکارى کا واضح طور پر نام نہيں ليا گيا ہے، ليکن اس ميں اہل کتاب کے ساتھـ لين دين اور تعاون کا ايک مصداق بيان کيا گيا ہے اور وہ شراب اور سور کے گوشت کے علاوہ اہل کتاب کى غذا سے استفادہ کرنا ہے ـ حقيقت ميں اہل کتاب کى غذا کو کھانے کى اجازت ... تعاون اور ہم کارى اور ايک ساتھـ پر امن زندگى کر نے کا ايک سبب شمار ہوتا ہے ـ
[1] «و قالت الیهود لیست النصاری علی شیء و قالت النصاری لیست الیهود علی شیء و هم یتلون الکتاب کذلک قال الذین لایعلمون مثل قولهم فالله یحکم بینهم یوم القیامة فیما کانوا فیه یختلفون»بقره، 113.
[2] «لا اکراه فی الدین قد تبین الرشد من الغی»، بقره، 256.
[3] «ولو شاء ربک لامن من فی الارض کلهم جمیعاً أفانت تکره الناس حتی یکونوا مؤمنین»، یونس، 99.
[4] «و قل الحق من ربکم فمن شاء فلیومن و من شاء فلیفکر»، کهف، 29.
[5] «ولو شاء الله ما اشرکوا و ما جعلناک علیهم حفیظاً و ما انت علیهم بوکیل»، انعام، 107.
[6] «سنریهم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق أو لم یکف بربک انه علی کل شیء شهید»، فصلت، 53.
[7] «و فی الارض آیات للموقنین * و فی انفسکم أفلا تبصرون»، ذاریات، 20-21.
[8] «قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا الله و لا نشرک به شیئاً و لا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون»، آل عمران، 64.
[9] ملاحظه ہو: ناصر مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونه، ج 2، ص 450.
10] «یا ایها الناس انا خلقناکم من ذکر و أنثی و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا إن اکرمکم عند الله أتقاکم إن الله علیم خبیر»، حجرات، 13.
[11] «کان الناس امة واحدة فبعث الله النبیین مبشرین و منذرین و أنزل معهم الكتاب بالحق لیحكم بین الناس فیما اختلفوا فیه و ما اختلف فیه ....»، بقره، 213.
[12] تعبیر «بنی آدم» در چند آیه، از جمله: آیات 26، 27، 35 و 171 سوره ی اعراف و آیه 70 سوره ی اسراء به كار رفته است.
[13] انفطار، 6؛ انشقاق، 6 و حدود 60 آیه ی دیگر.
[14] ملاحظه ہو: یاسر ابو شبانه، النظام الدولی الجدید بین الواقع الحالی و التصور الاسلامی، ص 542 – 543.
[15] «و لا تجادلوا أهل الكتاب إلا بالتی هی أحسن الا الذین ظلموا منهم و قولوا آمنا بالذی أنزل إلینا و أنزل إلیكم و إلهنا و إلهكم واحد و نحن له مسلمون»؛ عنكبوت، 46.
[16] «و لا تسبوا الذین یدعون من دون الله فیسبوا الله عدوا بغیر علم كذلك زینا لكل أمة عملهم ثم الی ربهم مرجعهم فینبئهم بما كانوا یعملون»؛ انعام، 108.
[17] «... فان اعتزلوكم فلم یقاتلوكم و ألقوا إلیكم السلم فما جعل الله لكم علیهم سبیلاً»؛ نساء، 90.
[18] ناصر مكارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونه، ج 4، ص 54.
[19] «لا ینهاكم الله عن الدین لم یقاتلوكم فی الدین و لم یخرجوكم من دیاركم أن تبروهم و تقسطوا إلیهم إن الله یحب المقسطین»؛ ممتحنه، 8.
[20] «انما ینهاكم الله عن الذین قاتلوكم فی الدین و أخرجوكم من دیارك و ظاهروا علی إخراجکم أن تولوهم و من یقولهم فأولبك هم الظالمون»، ممتحنه، 9.
[21] جعفر سبحانی، مبانی حكومت اسلام، ترجمه و نگارش داود الهامی، ص 526 ـ 530.
[22] «فان جاوك فاحكم بینهم أو أعرض عنهم»؛ مائده، 42.
[23] تفسر نمونه، ج 4، ص 386.
[24] «و أنزلنا إلیك الكتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه من الكتاب و مهیمنا علیه فاحكم بینهم بما أنزل الله»؛ مائده، 48.
[25] بعض آيات عبارت ہيں: آل عمران، 50 « و مصدقا ما بین یدی من التوراة ....». نساء، 47: «یا أیها الذین اوتوا الكتاب بما نزلنا مصدقا لما معكم». مائده، 46: «فیه هدی و نور و مصدقا لما بین یدیه من التوراة ...». صف، 6: «انی رسول الله الیكم مصداقا لما بین یدی من التوراة». بقره، 89: «و لما جاءهم كتاب من عندالله مصدق لما معهم». بقره، 101: «و لما جاءهم رسول من عند الله مصدق لما معهم».
[26] «و قفینا علی اثارهم بعیسی ابن مریم مصدقا لما بین یدیه من التوراة و آتیناه الانجیل فیه هدی و نور و مصدقا لما بین یدیه من التوراة و هدی و موضوعة للمتقین»؛ مائده، 46.
[27] «یا أیها الذین آمنوا ادخلوا فی السلم كافة...»؛ بقره، 208.
[28] «و أن جنحوا للسلم فاجنح لها...»، انفال، 61.
[29] «عسی الله أن یجعل بینكم و بین الذین عادیتم منهم مودة و الله قدیر و الله غفور رحیم»؛ ممتحنه، 7.
[30] تفسیر نمونه، ج 22، ص 31 ـ 32.
[31] ملاحظہ ہو: محمد مجتهد شبستری، «هم زیستی مذهبی»، مكتب اسلام، سال 7، ش 3، ص 37.
[32] «و قال الیهود و النصاری نحن أبناء الله و أحباوه قل فلم یعذبكم بذنوبكم بل أنتم بشر ممن خلق یغفر لمن یشاء و یعذب من یشاء و لله ملك السماوات و الأرض و ما بینهما و إلیه المصیر»؛ مائده 18.
[33] «و قالوا لن یدخل الجنة الا من كان هودا او نصاری تلك أمانیهم قل هاتوا برهانكم إن كنتم صادقین بلی من أسلم وجهه لله و هو محسن فله آجره عند ربه و لا خوف علیهم و لا هم یحزنون»؛ بقره، 111 ـ 112.
[34] «تعاونوا علی البر و التقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان»؛ مائده، 2.
[35] ملاحظہ ہو: عباس عمید زنجانی، فقه سیاسی، ج 3، ص 441 ـ 461.
source : http://rizvia.net