مقدمہ :
خدا کے نام سے مذہبی مسائل میں بحث و نظر، اسلامی تعلیم و ثقافت کی ایک اہم خصوصیت ہے، یہاں اسلامی تعلیم سے مراد اس کی اصل اور حقیقی تعلیم ہے ورنہ اسلامی معاشرہ و سوسائٹی میں ایسے افراد بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں جیسے اشاعرہ جو یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ شارع کے ظاہر کلام سے استفادہ ہوتا ہے اسے تعبدی طور پر قبول کرنا چاہیے اگرچہ وہ عقل کے صریح حکم کے خلاف ہی کیوں نہ ہوکیونکہ عقل خوبی و بدی کو تشخیص کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس نظریہ کے مطابق وہ ہر قسم کی رائے کی آزادی، اظہارِ فکر و نظر کی حریت کو معاشرہ سے چھین لیتے ہیں، جب ہم اس فکر و نظر کی آزادی کا سراغ پانا چاہتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخِ اسلام کی تقریبًا دس صدیوں گزرنے کے بعد اور افکار کے نسبی رشد پر مختلف ممالک مثلًا فرانس، اٹلی، پرتگال میں کوئی شخص کیتھولک مذہب کے فروعی مسائل پر بھی اعتراض کامعمولی سا حق نہیں رکھتا تھا۔ اصول مذہب پر معمولی سا اعتراض اور اظہار نظر ہی کافی تھا کہ اعتراض کرنے والے موت کی سزا کا مستحق قرار دے دے۔
برونو اٹلی کے کشیش و پادری نے آخر کیا گناہ کیا تھا کہ کلیسا کے حکم کے مطابق ان کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔
کہتے ہیں وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا کام، بے نواؤں کی مدد، بیماروں کے علاج کے وسائل کی فراہمی تھا ان کے گھر کا دروازہ حتی کہ رات کو بھی حاجتمندوں کے لئے کھلا رہتا تھا۔ جو شخص بھی رات کو جس وقت بھی ان سے کوئی رکھتا ان سے مل سکتا تھا، اور جو کام بھی ان سے انجام پا سکتا تھا وہ اسے انجام دیتے تھے ان کی سب بڑی خوشی یہ تھی کہ دوسروں کے رنج و محن کو گھٹانے کے لئے خود کو محنت و تکلیف میں رکھیں۔
وہ ۱۶۰۰ ء میں مسیحیت کی تفتیش عقیدہ کی ایک عدالت میں ایک نظریہ کے اظہار کے جرم میں جلا دینے کی سزا کے مستحق قرار پائے۔ وہ کہتے تھے :
ہر شخص عقل کے مرحلہ کو پہنچنے کے بعد، دنیا اور اس کی زندگی کے بارے میں اپنی عقل و فکر، اپنی فہم و فراست و استنباط کے مطابق عقیدہ پیدا کرتا ہے۔
یہی سادہ سا اعتقاد اس کا سبب بنا کہ ” برونو “ پھانسی پانے کا مستحق قرار پایا کیونکہ تفتیش عقیدہ کے محکمہ و ادارہ نے ان کے اس نظریہ کو مسیحیت کے مذہب کی مخالفت کی دلیل قرار دیا اور اس طرح فیصلہ دیا :
ہر مسیحی کو مرحلہْ عقل پر پہنچنے کے بعد دنیا کے براے میں اس طرح فیصلہ کرنا چاہیے جس طرح کتابِ مقدس میں لکھا گیا ہے نہ کہ اپنی عقل و استنباط کے مطابق اور چونکہ ” برونو “ نے کہا ہے انسان دنیا کے بارے میں اپنی فکر و نظر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے یہ کہنے سے وہ دین سے برگشتہ ہو گیاہے اور دین سے اس کے برگشتہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے اس کے جسم میں حلول کیا ہے اس لئے اس کو جلا دینا چاہیے تاکہ شیطان اس کے بدن سے نکل جائے۔
عدالت کے حکم کے اجراء کا مرحلہ قریب آ گیا ” برونو “ کو لایا گیا ایک ستون جو ایندھن کے ڈھیر کے درمیان نظر آ رہا تھا، اس پر اسے باندھ دیا گیا، تماشائی رونے لگ گئے، جلّاد نے ایندھن کے اس ڈھیر کو جو ” برونو “ کو اس بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا، فضا جلتے ہوئے گوشت کی سڑانڈ کی بو سے بھر گئی برونو نے ہولناک فریادوں کے ساتھ جان دے دی۔ (مغز متفکر جہان شیعہ ص ۱۴۴)
اور بالآخر یہ لعنتی عدالت اس نوبت تک پہنچ گئی کہ ایک نقل کے مطابق اس نے ۳۰۰۰۰۰۰ علماء و دانشوروں کو نیست و نابود کر دیا، تختہ دار لٹکا دیا اور ۳۳۰۰۰ کو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کر دیا۔ اگرچہ تاریخ اس نوع کے مظالم کا دوسرے مکاتبِ فکر میں نشان نہیں دیتی کہ انہوں نے عوام کے افکار کی تفتیش کے لئے ایسی عدالت تشکیل دی ہو، لیکن ہم بڑی جرات کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی آئین و مکتبِ فکر میں اسلام جتنی عقیدہ، فکر و نظر کی آزادی وجود نہیں رکھتی کہ اس کے مخالفین حتی اسلام کے رہبروں کے سامنے اظہارِ عقیدہ کریں اور ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کریں اور اس میں رد و قبول کرنے میں اتنے آزاد ہوں۔
پیغمبر اسلام ٌ اور اس طرح تشیع کے آئمہ علیہم السلام کی تاریخ زندگی میں بہت سے ایسے مواقع پائے جاتے ہیں کہ اسلام کے مخالفین ان کے ساتھ بحث و نظر، مباحثہ مناظرہ کرتے تھے، وہ اسلام کے اصول و فروع کے بارے مطیں جو اعتراض رکھتے انتہائی آزادی و صراحت کے ساتھ بیان کرتے تھے اور بغیر اس کے کہ وہ معمولی سے اہانت کا سامنا کریں ان کے اعتراضات کو تحقیق و نظر کا موضوع قرار دیا جاتا۔
نمونہ کے طور پر ابن ابی العوجاء ان لوگوں میں سے تھا جو بڑی صراحت کے ساتھ خدا کا انکار کرتا تھا اس نے کئی بار امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ مسئلہ وجودِ خدا اور دوسرے مذہبی مسائل کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ اس کے باوجود کہ وہ بارہا عجیب لجاجت و ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا تھا، بہت سے موقعوں پر مغلوب ہونے کے باوجود اپنے عقیدہ سے ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا وہ بڑی آزادی کے ساتھ اسلامی معاشرہ میں زندگی بسر کرتا تھا کوئی اس کا مزاحم نہیں ہوتا تھا۔
ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک صحابی مفضل بن عمر نامی نے اس کو پیغمبر اسلام کی قبر کے قریب بیٹھے ہوئے دیکھا وہ اپنے ایک ارادت مند کے سامنے موجودات کی پیدائش کی کیفیت کی تشریح کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ موجودات خود بخود بغیر خالق و مدّبر کے پیدا ہوئے ہیں، دنیائے ہستی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ مفضل ان گستاخی کی باتوں کو سن کر بھڑک اٹھے، بڑی تندی اور غصہ میں بھر کر اسے کہا :
اے دشمنِ خدا تو کافر ہو گیا ہے تو نے اس خالق و آفریدگار کا انکار کر دیا ہے جن نے نجھے بہترین استعدادوں اور صلاحیتوں اور کامل ترین شکلوں میں پیدا کیا ہے مختلف حالات سے گزار کر موجودہ حالت تک پہنچایا ہے اگر تو اپنے تخلیقی نظآم پر گہری نظر کرے تو وجودِ خھا پر تو کافی و روشن دلائل پائے گا۔
ابن ابی العوجاء نے جن کے لئے اسلامی سوسائٹی میں اس نوع کی بحث و گفتگو بالکل نء تھی، مفضل کی طرف نظر کی اور کہا :تو اس طرح کیوں گفتگو کرتا ہے اگر تو اہل بحث ہے تو ہم تیرے ساتھ بحث کرتے ہیں اگر تو نے ثابت کر دیا تو میں تیری پیروی کرونگا، اگر تو اہل بحث میں سے نہیں ہے تو بات ہی نہ کر، اگر تو جعفر بن محمد کے اصحاب میں سے، وہ تو ہمارے ساتھ اس لب و لہجہ و انداز میں بحث نہیں کرتے، تیرے انداز پر ہمارے ساتھ مناظرہ نہیں کرتے، انہوں نے تجھ سے زیادہ سخت باتیں ہم سے سنی ہیں لیکن ہمارے ساتھ گفتگو میں کبھی تلخی نہیں دکھا ئی، بن زبانی نہیں فرمائی سوائے ہماری باتوں کے جواب کے، کوئی اہانت آمیز بات نہ فرمائی وہ بڑی متانت، سنجیدگی اور بردباری کے ساتھ ہماری باتوں کو سنتے ہیں ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدہ پر جو دلیل بھی رکھتے ہیں اسے بڑی آزادی سے پیش کریں اس کے بعد جب ہماری باتیں تمام ہو جائیں اور ہم اپنے زعم میں ان کو لاجواب و مغلوب پاتے تو وہ اپنی گفتگو کا آغاز کرتے اور چند مختصر جملوں کے ساتھ ہماری گفتگو کو ہمارے تمام دلائل کو رد کر دیتے ہیں، اپنے متین و سنجیدہ دلائل سے ہر نوع کی بہانہ جوئی کی راہوں کو ہم پر بند کر دیتے ہیں اس طرح کہ ان کے دلائل کو ہم ردّ نہیں کر سکتے ہیں، اگر تو بھی ان کے اصحاب میں سے ہے تو ہمارے ساتھ اسی انداز میں بحث کر۔ (بحارالانوار، ج ۲، ص ۵۷، ۵۸)
یہ تھا ایک نمونہ اسلامی معاشرہ میں آزادی فکر و نظر، بحث و تمحیص کا۔ اس کے دوسرے نمونوں سے آپ اس کتاب کے متن کے مطالعہ سے آگاہ ہونگے۔
ایک عرصہ پہلے، میں مطالعہ کے دوران میں چند ایسے واقعات سے دوچار ہوا جن میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ان چند بحثوں کا تذکرہ تھا، جو آپ نے چند مذہبی و غیر مذہبی علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف دینی و مذہبی مسائل میں کی تھیں۔ یہ بحثیں بہت جالب اور سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت طویل اور تھکا دینے والی تھیں، مجھے یہ خیال آیا کہ اگر ان بحثوں کو منظم و مرتب کر کے سادہ تر الفاظ میں ان کا خلاصہ کر دیا جائے تو تمام کے لئے بہت مفید و سود مند ہوں گی کیونکہ ان بحثوں میں اعتقای مسائل، مذہبی گوناگوں شبہات کو سوال و جواب کی صورت میں اور ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے جو عوام کے لئے جالبِ توجہ و جاذبِ نظر ہے۔
علاوہ اس کے کہ یہ اسلام میں فکر و نظر کی آزادی ہی کا روشن نمونہ ہیں مذہبی بزرگوں کی علمی برتری کے لئے ایک قاطع سند بھی ہیں اور کتنے ہی زیادہ ان بحثوں کے درمیان ایسے مسائل نظر آئے جو زمانہ کے حالات پر نظر کرتے ہوئے اسالم کے رہبروں کے علمی اعجاز کو ثابت کرتے ہیں۔
یہ کتاب بارہ علمی داستانیں اپنے دامن میں رکھتی ہے، سوائے دو دستانوں کے باقی سب داستانیں مؤلف کے ذریعہ سے عربی سے فارسی میں ترجمہ ہوئی البتہ کیونکہ ہمارا مقصد حتی المقدور سادہ نویسی تھا اس لئے بہت سے موارد میں متن عربی سے مؤلف کے استنباط کے مطابق ترجمہ ہوا ہے۔
۱۲/۱ /۱۳۵۷ محمدّی ری شھری
باب :۱
مسئلہ شناخت پر امام جعفر صادق علیہ السلام اور طبیبِ ہندی کے درمیان گفتگو
امام جعفر صادق علیہ السلام کے صمیمی اصحاب میں سے ایک صحابی مفضل نامی نے خدمتِ امام میں ایک خط لکھا اس مضمون کا کہ آخر ہمارے معاشرہ میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو خدا کے وجود کے منکر ہیں اس بارے میں وہ لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ہیں اس ضمن میں اس نے امام سے درخواست کی کہ ان کے شبہات کی رد میں ایک کتاب تالیف فرمائیں۔
امام نے اس کے جواب میں لکھا :
خدا نے انسان کو جو نعمتیں عنایت فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو خدا شناسی کی فطرت پر پیدا کیا ہے اور (اس بنیاد پر) اپنی معرفت و شناخت کا اعتراف کرایا، ا کے لئے ایک کتاب بھیجی ہے جو تمام کے تمام شبہات اور وسوسوں کا علاج ہے۔
مجھے اپنی جان کی قسم کہ خدا نے اپنی پہچان کرانے میں، ان نادان لوگوں کو اپنے سے روشناس کرانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے کیونکہ وہ اپنی تخلیق کے دقیق و حیرت انگیز اور آسمانوں کے محیر العقول نظام کو مشاہدہ کرتے ہیں جو روشن اور آشکارا طور پر ان کے نظم دینے والے کے وجود پر دلالت کرتا ہے۔
اس قسم کے لوگوں کو چاہیے، انکارِ خدا کے فلسفہ کو اپنے وجود میں تلاش کریں کیونکہ وہ فاسد لوگ ہیں ہو طرح طرح کے گناہوں، پلیدیوں اور ہوس رانیوں کے مرتکب ہیں وہ ایسے افراد ہیں جنہوں نے گناہ و آلودگی کو عادت بنا رکھا ہے، اپنے ان میلانات و رجحانات کے زیر اثر انہوں نے اختیار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں سے دے دی ہے انہوں نے حد سے زیادہ ظلم کیا ہے شیطان ان پر غالب ہو گیا ہے اس طرح خدا حقیقت کو قبول کرنے کی شائستگی ایسے افراد سے سلب کر لیتا ہے۔
تعجب ہے اس مخلوق فرد پر جو یہ خیال کرتا ہے کہ خدا، شناخت کے لائق نہیں ہے حالالکہ مصنوع ہونے کی نشانیاں وہ اپنے اندر دیکھ رہا ہے، اپنے وجود میں ایک دقیق نظام کو دیکھتا ہے جو اس کی عقل کو حیران اور اس کے انکار کو باطل کر دیتا ہے۔ مجھے اپنی جان کی قسم ! اگر یہ افراد تخلیق و آفرنیش اور موجودات کے پیدا ہونے کے باعظمت نظام کے بارے میں ان کے ایک حقیقت سے دوسری حقیقت سے تکامل ایک شکل سے دوسری شکل میں آنے پر گہری نظر کریں تو وہ خالقِ کائنات، جہاں ہستی کے نظآ دینے والے کے وجود کا سراغ پا لیتے ہیں کیونکہ ہر مخلوق و موجود ایک خاص ترکیب و نظام کا مکلک ہے جو اس کے تدبر و حکیم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تیرا خط مجھے پہنچا، جو کچھ تو نے مجھ سے چاہا تھا اور بعض منکرین ِ خدا سے جو میں نے بحث و گفتگو کی ہے اس کی داستان تجھے لکھ رہا ہوں :
داستان :
ایک طبیب جو ہندوستان کے شہروں میں سے کسی شہر کا باشندہ تھا میرے پاس اکثر آیا کرتا تھا اور ہمیشہ اپنے عقیدہ کے بارے میں مجھ سے بحث کرتا تھا۔
ایک روز اس حالت میں جب وہ دوا تیار رکنے کے لئے ” ہلیلہ “ کوٹنے میں مشغول تھا اس نے سابقہ باتوں کا آغاز کرتے ہوئے کہا :
جہان ہمیشہ تھا اور ہمیشہ رہے گا، ایک درخت اگتا ہے، دوسرا چلا جاتا ہے، ایک آدمی متولد ہوتاہے دوسرا مر جاتا ہے۔
اس نے اس طرح خیال کیا کہ، کسی قسم کی دلیل میرے شناختِ خدا کے دعویٰ کی تائید نہیں کرتی ہے، یہ عقیدہ ایک سنت ہے جو پہلوں سے ہمیں وراثت میں پہنچا ہے، چھوٹوں نے اسے بڑوں کی تقلید میں یاد کیا ہے، طرح طرح کے موجودات کی شناخت کی واحد راہ حواسِ خمسہ ہیں۔
اس کے بعد اس نے کہا اس نے کہا ” اس پر نظر کرتے ہوئے کہ واحد شناخت کی راہ حس ہے آپ کس راہ سے خدا کی شناخت کے لئے استفادہ کرتے ہیں؟
امام : عقل کی راہ سے اور عقلی دلائل سے
طبیب : عقل بغیر پانچ حواس کے کسی چیز کا ادراک نہیں کر سکتی، اس بنا پر کیا آپ کی عقل نے خدا کو آنکھوں سے دیکھا، یا کانوں کے ذریعہ اس کی آواز کو سنا یا دوسرے حواس کے ذریعہ سے اس کو درک کیا ہے؟
امام : اس سے پہلے ہم بحث شروع کریں، میں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں :
چونکہ تو خدا کا منکر ہے اور میں اس کے وجود کا معترف۔ اس لئے حقیقت میں ہم میں ایک درست کہتا ہے دوسرا غلط کیا اس کے علاوہ بھی کوئی فرض ہے؟
طبیب : نہ
امام : اگر حقیقت میں تیرا عقیدہ درست ہو تو میں کوئی خطرہ سامنے رکھتا ہوں؟طبیب : نہیں تو
امام : اگر واقعی میرا عقیدہ درست ہو کیا اس طرح نہیں ہے کہ میں قطعًا کوئی خطرہ سامنے نہیں رکھتا اور انکارِ خدا پر ہلاکت و بدبختی تجھے دامنگیر ہو گی؟
طبیب : آپ، لیکن آپ کا خدا کے وجود پر عقیدہ دعویٰ و شک کی بنیاد پر ہے لیکن خدا کے نہ ہونے پر میرا عقیدہ علم و یقین کی اساس پر استوار ہے کیونکہ ہر وہ چیز جو حواسِ خمسہ سے درک نہ ہو وجود نہیں رکھتی، خدا کسی ایک بھی حسّ سے نہیں پہچانا جا سکتا نہ وہ حواس سے قابلِ ادراک ہے۔
امام : تو جب خدا کا حواس خمسہ سے ادراک نہیں کر پاتا تو اس کے وجود کا انکار کرتا ہے لیکن میں جب حواسِ خمسہ سے خدا کا ادراک نہیں کر پاتا تو اس کے جود کا انکار کرتا ہے، لیکن میں جب حواسِ خمسہ سے خدا ادراک نہیں کر پاتا تو اس کے وجود کا اعتراف کرتا ہوں۔
طبیب : کس طرح؟
امام : اس لئے کہ جو چیز حواسِ خمسہ سے قابلِ درک ہو (مثلًا اجسام، رنگ، آوازیں) وہ تغیر پذیر و فانی ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ خالق بھی اپنی مخلوق کی مانند قابل زوال و تغیر ہو۔
طبیب : یہ ایک بات تو ہے لیکن وجود ِ خدا کی دلیل نہیں ہو سکتی، کیونکہ میں معتقد ہوں کہ شناخت کا واحد راستہ حس ہے اور بغیر حس کے ممکن نہیں ہے عقل کس چیز کو درک کرے؟
طبیب : کس طرح میں نہیں سمجھا؟
امام : تو نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ خدا کے وجود کا میرا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے یہ اعتراض تجھ پر بھی وارد ہے، کیونکہ تو خدا کے نہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں رکھتا، بالفرض اگر تیرا عقیدہ درست ہو کہ ہر وہ چیز جس کو حس درک نہ رکے وجود نہیں رکھتی، کا تو نے ساری دنیا میں تلاش کیا ہے اور خدا کو نہیں پایا ہے کہ تو کہتا کہ چونکہ میں اس کا احساس نہیں کرتا اس لئے وہ وجود نہیں رکھتا۔
طبیب : نہیں میں نے ایسی کوئی جستجو نہیں کی ہے۔
امام : اس بنا پر تو کیا جانتا ہے؟ شاید یہ چیز جس کا تیری عقل انکار کر رہی ہے ان بعض مواقع پر جن کو تیرے حواس نے درک نہیں کیا اور تو ان مقامات پر علمی احاطہ نہیں رکھتا، وجود رکھتی ہے؟
طبیب : میں نہیں جانتا شاید وہاں کوئی مدبر وجود رکھتا ہو یا کوئی مدبر وجود نہ رکھتا ہو۔ (اسی بنا پر ” اگروسٹ کانٹ “ نے جو اس آخری دور کے حسی فلسفہ کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہے اس نے کہا ” چونکہ ہم دنیا کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں ہے کسی سابق یا لاحق چیز کے وجود کا انکار نہیں کر سکتے، جس طرح کہ ہم اس کو ثابت بھی نہیں کر سکتے “ اور یہ مادی مکتبِ فکر کا ایک کمزور ترین نقطہ ہے کہ وہ علمی نقطئہ نظر سے خدا کے نہ ہونے کو ثابت نہیں کر سکتے) ۔
امام : اس بنا پر تو اپنی پہلی بات سے پلٹ گیا ہے تو کہتا تھا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی خدا وجود نہیں رکھتا، اور اب تو کہتا ہے شایاد ہو یا شاید نہ ہو، پس تو انکارِ خدا کی حد سیباہر آگیا ہے اور شک کی حد میں پہنچ گیا ہے، اب میں امید کرتا ہوں کہ شک کی سرحد سے بھی نکل آئے اور خدا شناس ہو جائے۔
طبیب : میں کس راہ سے یقین کروں جبکہ میرے حواس اس کا ادراک نہیں کرتے؟
امام : اسی ” ہلیلہ “ کی راہ سے، جس تو دوا بنانا چاہتا ہے۔
طبیب : اگر ایسا ہو تو مطلب بہتر طور پر ثابت ہو جائے گا کیونکہ یہ ایک تجربی دلیل ہے اور یہ علم کے لءِ قابلِ قبول قرار پاتی ہے۔
امام : میں بھی چاہتا ہوں کہ اس ” ہلیلہ “ کی راہ سے تیرے لئے ثابت کروں کیونکہ یہ تجھ سے نزدیک ترین چیزوں میں سے ہے اگر اس سے زیادہ نزدیک کوئی چیز ہوتی ہو تو میں اس استدلال کرتا، اس لئے کہ جس چیز کو بھی تو تصور کرے وہ ایک خاص ترکیب رکھتی ہے جو اس کے مصنوع ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ کیا تو اس ہلیلہ کو دیکھتا ہے؟
طبیب : جی ہاں !
امام : کیا تو نے حواسِ خمسہ کے وسیلہ سے اس درخت کو جو اب تیرے سامنے موجود نہیں درک کیا ہے؟
طبیب : نہیں
امام : تو نے اس درخت کا اعتراف کیا ہے جس کا اپنے حواس میں سے کسی ایک کے ساتھ تو نے ادراک نہیں کای اس صورت میں کہ تو کہتا تھا کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مانتا میرے حواس میں سے کوئی ایک اس کا ادراک نہ کرے۔
طبیب : یہ درست ہے کہ میں نے اس درخت کو نہیں دیکھا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ” ہلیلہ “ اس کا درخت اور تمام موجوداتِ قدیم سے حواس سے قابل ادراک رہی ہیں (لیکن وہ خدا جس کا آپ دعویٰ کرتے ہیں کسی وقت بھی وہ حواس سے قابل ادراک نہیں رہا ہے) اس بارے میں آپ کوئی جواب رکھتے ہیں کہ آپ میری بات کی تردید کر سکیں؟
امام : ہاں ! بتا میں دیکھوں۔ اس ہلیلہ کے درخت کو اس ہلیلہ کے اگنے سے پہلے تو نے دیکھا ہے؟
طبیب : جی ہاں
امام : یہ نہیں ہے کہ ایک وقت تو درخت کے سراغ میں گیا جو ” ہلیلہ “ نہیں رکھتا تھا کچھ عرصہ بعد دوبارہ تو نے اس کو دیکھا تو ہلیلہ کو اس میں پایا، تو نے دیکھا کہ کوئی چیز اس میں لگی ہوئی ہے جو پہلے وجود نہیں رکھتی تھی؟
طبیب : میں ” ہلیلہ “ کے پیدا ہونے کا انکار نہیں کر سکتا، لیکن میں کہتا ہوں، ہلیلہ پیدا ہونے سے پہلے اس کے اجزاء پراگندہ طور پر درخت کے اندر وجود رکھتے تھے۔
امام : یہ تو بتاکہ آیا وہ ” ہلیلہ “ جس سے یہ درخت وجود میں آیا ہے کاشت سے پہلے تو نے اس کو دیکھا تھا؟
طبیب : جی ہاں !
امام : یہ تو گمان کرتا ہے، کہ یہ درخت اس کا تنا، جڑیں، شاخیں، چھلکے اور وہ پھل جو اس سے چنے جاتے ہیں وہ پتے جو اس سے گرتے ہیں کیا اسی ہلیلہ میں ہوتے ہیں، جس نے اس درخت کو وجود دیا ہے؟
طبیب : نہیں عقل یہ احتمال نہیں دیتی اور دل قبول نہیں کرتا۔
امام : اس بنا پر جن امور کا ذکر ہوا ہے، کیا درخت سے پیدا ہوئے ہیں؟
طبیب : ہاں ! لیکن آپ کہاں سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہلیلہ کا درخت سے پیدا ہونا کوئی بنانے والا رکھتا ہے، کیا آپ اس کو ثابت کر سکتے ہیں؟
امام : ہاں ! لیکن کیا تو تدبیر کے دیکھنے سے مدبّر، نقشہ کے دیکھنے سے نقاش کا اعتراف کرتا ہے؟
طبیب : اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
امام : تو جانتا ہے کہ اس ” ہلیلہ “ کی ایک معین اندازہ گیری، نقاشی اور خاص ترکیب سے صورت بندی ہوئی ہے اس میں مختلف اجزاء گوناگوں رنگ ایک دوسرے کے اندر سموئے گئے ہیں سفید زرد میں، نرم سخت میں اس کے مختلف طبقات میں سے ہر ایک جداگانہ خاصیت رکھتا ہے۔ ” ہلیلہ “ پوست رکھتی ہے جو اس کو پانی دیتا ہے، عروق ہیں جن میں پانی رواں ہوتا ہے، پوشش کے لئے پتے ہیں جو اسے گرمی و سردی سے بچاتے ہیں، اس میں مانع ہوتے ہیں کہ ہوا ” ہلیلہ “ کی سرسبزی و شادابی کو نہ لے جائے۔
طبیب : اگر پتے ہلیلہ کو اپنے اندر چھپا لیتے تو بہتر نہ ہوتا؟
امام : خدا کی تدبیر بہتر ہے اگر جیسا کہ تو کہتا ہے اس طرح ہوتا تو نسیم اس کتک نہ پہنچ پاتی تاکہ اسے شاداب کرے، نہ سردی چھوتی جو اس کو سخت بنا دے تو اس صورت میں یہ متغفن ہو جاتی، دوسری طرف اگر وہ نورِ خورشید کو نہ دیکھتی تو کامل ہوتی اور نہ پکتی۔
لیکن کبھی سورج، کبھی ہوا، کبھی سردی لگتی ہے تاکہ کامل ہو، اور ان امور کو خدا نے اپنی دقیق قدرت اور حکیمانہ تدبیر سے مقرر فرمایا ہے۔
طبیب : ” ہلیلہ “ کی شکل و نقشہ کی پہچان کی اس قدر وضاحت کافی، اب اسی طرح جیسے آپ نے وعدہ فرمایا ہے فرمائیے کیا تدبیر اس میں کار فرما ہے؟
امام : اس ” ہلیلہ “ کا کامل ہونے سے پہلے جب وہ چھوٹا سادانہ تھا اور کوئی چیز سوائے پانی کے اس کے اندر نہ تھی، پستہ، مغز، پوست، رنگ، مزہ سختی نہ تھی، تو نے دیکھا ہے؟
طبیب : جی ہاں ! میں نے اسے دیکھا ہے۔
امام : ذرا یہ تو بتا اگر اس کا مدبّر، حکیم، دانا، صاحبِ قدرت، اس بہت ہی چھوٹے دانے میں جس میں سوائے پانی کے کچھ نہ تھا، مداخلت نہ کرتا، تو امکان تھا کہ ہلیلہ کے مختلف حصے اس نظام کے ساتھ جس کی وضاحت کر دی گئی ہے تشکیل پا سکتے؟
اگر ہنر مند کاریگر و صانع اس دانہ میں ” ہلیلہ “ کے وجود کی تدبیر و تعمیر نہ کرتا تو اسکا انجام یہ ہوتا کہ اس کے بڑا ہونے سے اس کے اندر پانی زیادہ ہو جاتا اور ہر گز ” ہلیلہ “ وجوو میں نہ آتی۔
طبیب : میں ہلیلہ کے صانع و صناع کے وجود کا اعتراف کرتا ہوں، آپ کے بیان سے مکمل طور پر روشن ہے کہ نہ صرف ” ہلیلہ “ بلکہ تمام موجوداتِ ہستی اپنا صانع اور مدبرّ رکھتے ہیں، لیکن یہ اعتراف، خدا کے اعتراف کے معنی میں نہیں ہے، کیونکہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ” ہلیلہ “ اور تمام موجودات وہ خود ہی اپنے صانع اور طرح نور ڈالنے والے نہ ہوں؟
امام : اس دقیق و حکیمانہ نظام پر نظر کرتے ہوئے جس کا تو نے مشاہدہ کیا ہے تو تصدیق نہیں کرتا کہ ” ہلیلہ “ کا بنانے والا حکیم و دانا ہو گا؟
طبیب : نہیں !
امام : اس ” ہلیلہ “ کو پیدائش کے وقت اس کے بعد بجب وہ فاسد ہو جاتا ہے اور درمیان سے چلا جاتا ہے تو نے ملاحظہ کیا ہے؟
طبیب : جی ہاں ! لیکن میں نے اعتراف کیا ہے کہ ہلیلہ پدیدہ و حادث ہے، میں نے نہیں کہا کہ صانع نہیں ہو سکتا کہ مخلوق ہو تاکہ خود کو پیدا نہ کر سکے۔
امام : تو نے ابتداء میں کہا کہ حکیم خالق ممکن نہیں ہے کہ مخلوق و حادث ہو، اس کے بعد تو نے اعتراف کیا ہیک ہ ” ہلیلہ “ پدیدہ و مخلوق ہے ان دو اعتراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ” ہلیلہ “ مصنوع ہے اور خداوندِ عزوجل ان کا صانع اور بنانے والا۔
اب اگر تو اپنے اعتراف سے پلٹ کر کہتا ہے کہ ” ہلیلہ “ نے خود اپنے آپ کو بنایا ہے جس چیز کا تو نے انکار کیا ہے (صانع کے مخلوق ہونے کا) اس کا اعتراف کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ حکیم و دانا صانع کے اعتراف سے تو نے خدا کا اعتراف کیا ہے لیکن اس کا نام رکھنے میں اشتباہ کر رہا ہے۔
طبیب : کس طرح؟
امام : تو ایک حکیم، دانا، مدبر موجود کے وجود رکھنے کا اعتراف کرتا ہے لیکن جس وقت میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ وہ کون ہے؟ تو تو کہتا ہے ” ہلیلہ “ اس بنا پر تو خدا کے وجود کا اعتراف کرتا ہے لیکن اس کا نام رکھنے میں اشتباہ کرتا ہے، اور خدا کا نام ” ہلیلہ “ کو دیتا ہے اگر تو دقّتِ نظر سے کام لے تو خود سمجھ لے گا کہ ” ہلیلہ “ اس سے بہت کم ہے کہ وہ خدا کو پیدا کرے اس امر میں انتہائی ناتواں ہے کہ وہ اپنی مدبّر ہو سکے۔
طبیب : (اپنے آپ کو جواب میں عاجز و ناتواں پاتا ہے اور کہتا ہے) :
” کیا آپ اس کے سوا بھی کوئی دلیل رکھتے ہیں؟ “
امام : ہاں ! تیرے قول کی بنیاد پر ” ہلیلہ “ اپنی صانع و مدبر ہو سکتی ہے تو اسے جاننا چاہیے کہ وہ خود کو کس طرح بنائے اس بنا پر کیوں اس نے خود کو چھوٹا، ناتواں اور ناقص بنایا، کیوں اپنی توڑ پھوڑ کو نہیں روکتی اور اپنے کھائے جانے میں مانع نہیں ہوتی؟ اس نے کیوں خود کو پست کھانے کے قابل، کڑوا، بد شکل، بے طراوت و خشک بنایا؟
طبیب : چونکہ اس سے زیادہ طاقت نہیں رکھتی تھی یا قدرت تو رکھتی تھی لیکن مائل تھی کہ اپنے آپ کو اس طرح بنائے۔
امام : ذرا یہ تو بتا کہ کس وقت ” ہلیلہ “ نے اپنے آپ کو بنایا اور اپنے وجود کو تدبیر میں مشغول ہوئی؟ کیا اس سے پہلے کہ وہ اپنے وجود کو پیدا کرے یا وجود پیدا کرنے کے بعد؟
اگر تو یہ کہے وجود پیدا کرنے کے بعد اس نے خود کو پیدا کیا یہ بات روشن ترین محالات میں سے ہے کس طرح ” ہلیلہ “ موجود اور مصنوع، پھر دوبارہ اپنے آپ کو بنائے اس بنا پر تیری گفتگو کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ” ہلیلہ “ نے دوبارہ وجود پیدا کیا ہے اور بنائی گئی ہے۔
اور اگر تو یہ کہے کہ وجود پیدا کرنے سے پہلے اس نے خود کو پیدا کیا، اپنی تدبیر کی، اس بات کا بطلان، اس کا جھوٹا ہونا وضآجت کی ضرورت نہیں رکھتا، کیونکہ ” ہلیلہ “ وجود سے پہلے کوئی چیز ہی نہیں تھی تاکہ خود کو وجود میں لا سکے۔ تو کس طرح مجھ پر اعتراض کرتا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ وہ چیز جو وجود رکھتی تھی (چدا) نے ان چیزوں کو جو وجود نہیں رکھتی تھی، خلعت وجود سے نوازا، لیکن تو اپنی بات پر اعتراض نہیں کرتا، کہ تو کہتا ہے کہ جوچیز نہیں ہے (ہلیلہ وجود سے پہلے) جو چیز خود وجود نہیں رکھتی وہ چیزوں کو وجود میں لاتی ہے ذرا سوچ اور دیکھ کہ ہم میں سے کس کا عقیدہ و نظریہ حق کے زیادہ نزدیک ہے؟
طبیب : آپ کا نظریہ
امام : اس بنا پر کیا چیز مانع ہے کہ تو ہمارے ساتھ ہم عقیدہ ہو جائے؟
طبیب : اب تک مجھ پر روشن ہو گیا کہ مختلف موجودات ان میں ہلیلہ بھی صانع و مدبر نہیں ہیں لیکن میرے ذہن میں یہ مطلب آیا ہے کہ درخت ہلیلہ کا بنانے والا ہے کیونکہ ہلیلہ اسی سے باہر آتی ہے۔
امام : اس بنا پر درخت کو کس نے بنایا؟
طبیب : دوسری ہلیلہ نے
امام : آخر کار کیا ہم ہلیلوں اور ان کو وجود میں لانے والے درختوں کے سلسلہ کو آخر تک لے جاتے ہیں یہاں تک کہ ہم اولین درخت تک پہنچتے ہیں یا تو تجھے کہنا پڑے گا کہ سب سے پہلے درخت کو خدا نے بنایا ہے، یا تجھے کہنا پڑے گا کہ ہلیلہ اور اس کے درختوں کا سلسلہ بے نہایت و لامتناہی ہے اگر تو دوسری صورت کو اختیار کرے تو میں تجھ سے سوال رکھتاہوں۔
طبیب : پوچھئے۔
امام : کیا تو اس کی تصدیق کرتا ہے کہ جب تک ہلیلہ کا دانہ خاک میں، مٹی میں نہ جائے اور اپنی ہستی کو ہاتھ سے نہ دے اس سے درخت وجود میں نہیں آتا؟
طبیب : آپ درست فرماتے ہیں۔
امام : پس جب ہلیلہ نے اپنی ہستی کو ہاتھ سے دے دیا، درخت سو سال زندگی بسر کرتا ہے اس بنا پر اس مدّت میں درخت کا مربی و مدبّر کون ہے؟ اس کے سوا تو کوئی جواب نہیں رکھتا کہ کہے، درخت کا پیدا کرنے والا کیونکہ اگر پھر کہلے ہلیلہ اس فرض پر کہ مذکورہ مدت میں ہلیلہ وجود نہیں رکھتی منافات رکھتا ہے۔
طبیب : نہیں ! میں نہیں کہتا کہ اس مدت میں درخت کی مدبّر ہلیلہ ہے۔
امام : اس بنا پر تو خدا کے خالق و صانع کے عنوان سے وجود کا اعتراف کرتا ہے یا پھر بھی شک و تردد رکھتا ہے؟
طبیب : میں توقف رکھتا ہوں۔
امام جانتے تھے کہ اس کے توقف کی وجہ مسئلہ شناخت کا حل نہ ہونا ہے اور چونکہ طبیب شناخت کی راہ کو صرف حس ہی جانتا ہے و ہ خدا کے وجود کا اعتراف نہیں کر سکتا اس کے باوجود کہ آنحضرت علیہ السلام نے اس بارے میں پہلے نسبتًا کافی وضاحتیں فرمائی تھیں دوبارہ مسئلہ شناخت کی جانب لے جاتے ہوئے فرمایا :
” تو جو یہ خیال کرتا ہے کہ عقل موجودات کی شناخت کے لئے حس کی محتاج ہے اس کے برخلاف میں معتقد ہوں کہ حس موجودات کی شناخت کے لئے عقل کی محتاج ہے۔“ (اس مسئلہ میں زیادہ تحقیق کے لئے کتاب ” فلسفتنا “ آقائے شہید باقر الصدر ، ص ۲۷، ۴۷ دیکھئے)
طبیب : میں اس مطلب کو بغیر روشن دلیل کے قبول نہیں کروں گا۔
امام : تو اس کو جانتا ہے کہ کبھی تمام حواس یا ان میں سے بعض وقتی طور پر معطل ہو جاتے ہیں اور روح بدن کی تدبیر کو اپنے ذمہ لے لیتی ہے؟
طبیب : یہ بات دلیل کے مشابہ ہے لیکن میں چاہتاہوں کہ کسی دوسرے بیان سے آپ اس مطلب کی وضاحت فرمائیں؟
امام : کیا تو اس کو قبول نہیں کرتا کہ روح حواس کے وقتی طور پر معطل ہونے کے بعد بدن میں باقی رہتی ہے؟
طبیب : کیوں نہیں ! لیکن جب حواس معطل ہو جائیں پھر عقل کسی چیز کو سمجھ نہیں پاتی۔
امام : تو جانتا ہے کہ بچہ ولادت کے وقت حواسِ خمسہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا؟
طبیب : ملطب اسی طرح ہے۔
امام : اگر اس طرح ہے تو اس بنا پر وہ کون سی حس ہے جو بچے کو بھوک پر دودھ کی طرف رہنمائی کرتی ہے، وہ کون سے حس ہے جو سَیر ہونے کے بعد بچے کو رونے کی بجائے ہنسی پر آمادہ کرتی ہے؟
کون سی حس گوشت خور اور دانہ خور پرندوں کی رہنمائی کرتی ہے کہ وہ اپنے ننھے چوزوں کے سامنے گوشت یا دانے گرائیں اور اس وقت گوشت خور گوشت کی طرف، دانہ خور دانہ کی طرف حرکت کریں؟
اگر حواسِ خمسہ ان کی شناخت کا سبب ہیں، یہ دو نوع کے پردے حواس ِ خمسہ رکھتے ہیں، پس کیوں ایک دانہ کی طرف جاتا ہے اور دوسرا گوشت کی طرف وہ حس جو ایک کو سمجھاتی ہے کہ دانہ اس کے نظامِ ہضم کے لئے مناسب ہے اور دوسرے کو سمجھاتی ہے کہ گوشت اس کے لئے خوب ہے وہ کونسی حس ہے؟
کیوں ان پرندوں کے چوزے جو پانی میں رہتے ہیں، جب پانی ڈالے جاتے ہیں تیرنے لگ جاتے ہیں لیکن صحرائی پرندوں کے چوزے دریا میں ڈوب جاتے ہیں حالانکہ ہر دو حواسِ خمسہ رکھتے ہیں اور کیوں حواس نوعِ اول کے پردوں کے لئے مفید ہیں؟ انہیں پانی میں تیرے میں مدد دیتے ہیں لیکن نوعِ دوم کے پرندوں کے لئے مفیدنہیں ہیں؟
کیوں وہ چیونٹی جس نے ہر گز پانی نہیں دیکھا، جب اسے پانی میں ڈالا جاتا ہے تو تیرنے لگ جاتی ہے لیکن انسان خواہ پچاس سالہ طاقتور، دانا ہو جبکہ تیرنا نہ جانتا ہو، ڈوب جاتا ہے؟
اگر صرف راہِ شناخت حواسِ پنچگانہ ہیں، کایونکہ وہ اس عقل حواسِ سالم اور کافی تجربہ کے ذریعے جس چیز کو چیونٹی نے پہچانا ہے درک نہیں کر سکتا؟
کیا گذشتہ مطالب کافی نہیں ہیں کہ تو سمجھ پائے کہ جو چیز ننھے بچے کو دودھ کی طرف کھینچتی ہے، دانہ چگنے والے پرندہ کو دانہ کو فراہم کرنے کی طرف گوشت خور کو گوشت کی طرف، وہ روح ہے جو عقل کا مرکز ہوتی ہے؟
طبیب : (جواب دینے بالکل قاصر ہو چکا تھا کہنے لگا) میں نہیں سمجھتا کہ عقل بغیر حواس کے کسی چیز کوم سمجھ پائے۔
اس مقام پر امام جب دیکھتے ہیں کہ طبیب اس کا بہت آرزو مند ہے کہ وہ حس کی راہ سے خدا کا ادراک کرے، مفصّل طور پر بیان فرماتے ہیں کہ کس طرح عقل حواسِ خمسہ کی مدد سے موجوداتِ ہستی کے مطالعہ سے خدا کے وجود کا سراغ پا سکتی ہے پھر اس معنی کی وضآجت میں کہ روح (مرکز عقل) بغیر حواسِ خمسہ کے ادراکات کر سکتی ہے۔ فرماتے ہیں ” کیا تو نے خواب میں خود کھا نے اور پینے میں مشغول دیکھا ہے اس طرح کہ احساسِ لذت کرے۔ “
طبیب : جی ہاں!
امام : تو خود کو خواب میں رونے یا ہنسنے کی حالت میں یا ان شہروں میں سیر و گردش کرتے پاتا ہے جن کو تو نے پہلے سے دیکھا ہے یا ہر گز نہیں دیکھا، اس طرح کہ وہ مشخصات جو ان شہروں کے تو جانتا ہے خواب میں دیکھتا ہے؟
طیبب : جی ہاں ! بے اندازہ
امام : کیا اپنے اقربا اور رشتہ داروں کو جو مر چکے ہیں تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ موت سے پہلے کی مانند تو ان کو پہچانے۔
طبیب : جی ہاں ! بہت زیادہ
امام : خواب کی حالت میں، حواس میں سے کس کی مدد سے تیری عقل نے مری ہوؤں کو پہچانا ہے ان کے ساتھ باتیں کی ہیں ان سے غذا کھا ئی ہے، شہروں میں سیرو گردش کی ہے، ہنسی کیا گریہ کیا ہے؟
طبیب : میں نہیں کر سکتا کونسی حس سے یہ کام خواب کی حالت میں حواس سے نہیں ہو سکتے کیونکہ حواس، خواب کی حالت میں مردہ ہوتے ہیں نہ وہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔
امام : کیا بیدار ہونے کے بعد جو کچھ تو نے خواب میں دیکھا ہے مکمل طور پر یاد رکھتا ہے اور اپنے دوستوں کے سامنے بیان کرتا ہے؟
طبیب : جی ہاں ! اسی طرح ہے بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی واقعہ کو وقوع سے پہلے خواب میں دیکھتا ہوں اور اس سے پہلے کہ رات ہو وہ واقعہ خارج میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔
امام : کونسی حس اس کا سبب ہوتی ہے کہ جو کچھ تو نے خواب میں دیکھا ہے تیرے حافظہ میں رہے تاکہ بیداری کے بعد تجھے یاد ہو؟
طبیب : اس امر میں کوئی حس دخل نہیں رکھتی۔
امام : کیا پھر بھی تو اعتراف نہیں کرتا کہ خواب کی حات میں مذکورہ امور کو روح جو عقل کی مرکز ہے درک کرتی ہے۔
طبیب : جو کچھ میں خواب میں دیکھتا ہوں وہ سراب کی مانند ہے جس طرح ایک وقت میں کوئی شخص دور سے سراب کو دیکھتا ہے تو اسے پانی سمجھتا ہے، لیکن جب اس کے قریب جاتا ہے تو دیکھتا ہے کوئی چیز نہیں ہے خواب بھی اسی طرح ہے۔
امام : پس کس طرح جو چیز تو نے خواب میں دیکھی ہے مثلًا ترش و شیریں غذا کا کھانا، سرور و غم، اسے تو سراب سے تشبیہ دیتا ہے؟
طبیب : جب میں سراب کی جگہ پہنچتا ہوں، وہ نابود ہو جاتا ہے، اسی طرح جب میں بیدار ہوتا ہوں جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا ہوتا ہے وہ نابود ہو جاتا ہے۔
امام : اگر میں کسی چیز کے بارے میں کہوں کہ تو نے اسے خواب میں دیکھا ہے اور سراب کے خلاف جو کسی طرح عینی اثر نہیں رکھتا تجھ پر اثر ہو اس سے تو نے اسے خواب میں دیکھا ہے اور سراب کے خلاف جو کسی طرح عینی اثر نہیں رکھتا تجھ پر اثر ہو اس سے تو نے لذت اٹھائی ہو کیا تو میری بات کی تصدیق کریگا؟
طبیب : جی ہاں !
امام : اب تک خواب میں ناشناس یا شناسا عورت سے جنسی ملاپ کیا ہے اور محتلم ہوا ہے؟
طبیب : جی ہاں ! بہت دفعہ
امام : کیا اسی قدر جتنا تو بیداری میں جنسی ملاپ سے لذت اٹھاتا ہے خواب میں بھی لذت اٹھاتا ہے؟ اور اسی انداز کے مطابق کہ بیداری میں تجھ سے منی خارج ہوتی ہے، خواب میں بھی خارج ہوتی ہے؟ یہ بات تیرے اس دعویٰ کو باطل کر دیتی ہے کہ خواب و سراب برابر ہیں۔
طبیب : جو شخص خواب میں محتلم ہوتا ہے خواب میں وہی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری میں حواس کے ذریعہ سے دکھائی دیتی ہیں۔
امام : تیری یہ بات میرے نظریہ کی حمایت کرتی ہے کیونکہ لاشعوری طور پر تو نے اعتراف کیا ہے کہ عقل حواس کے معطل ہونے کے بعد چیزوں کا ادراک کرسکتی ہے اس بنا پر تو کس طرح شناخت عقل کا انکار سکتا ہے جبکہ حواس معطل ہو چکے ہیں؟میں خیال کرتا تھا کہ آپ مسئلہ شناخت کو حل نہیں کرسکتے اب آپ نے ایسے مطالب بیان کئے ہیں کہ میں ان کے جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔
امام : مطالب گذشتہ کی صداقت کی گواہی میں اسی نشست میں تیرے لئے بیان کرتا ہوں۔
طبیب : فرمائیے کہ میں اس مسئلہ میں سرگرداں ہوں؟
امام : تجارتی، صنعتی، پیداورای، ساختمانی کاموں کے مواقع پر اس طرح نہیں ہے کہ پہلے تو فکر کرتا ہے فکر کے بعد مقامِ عمل میں وہ نقشہ جس کو تو نے درست و زیبا تشخیص کیا ہے اس پر اقدام کرتا ہے؟
طبیب : کیوں نہیں اسی طرح ہے۔
امام : کیا فکر کرنے میں اپنے حواس میں سے کسی ایک سے مدد لیتا ہے؟
طبیب : نہیں تو
امام : کیا تو نہیں جانتا کہ تیری فکر کا پیام تیرے لئے حقیقت رکھتا ہے؟
طبیب : قطعًا مطلب اسی طرح ہے زیادہ وضاحت کریں تاکہ شک و تردد مکمل طور پر میرے دل سے دور ہو جائے۔
امام نے اپنے کلام کو جاری رکھا، گفتگو اس کے اور امام کے درمیان لمبی ہو گئی، یہاں تک کہ اس طبیب کے دل میں میری معرفتِ خدا کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا اس نے بڑی صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ :
” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا و بے مثال ہے۔ “ (بحار الانوار، جلد ۳، ص ۱۵۲۔ ۱۹۳)
باب : ۲
مسئلہ شناخت، پیدائش مذہب اور دوسرے علمی، سائنسی اور فلسفی مسائل پر امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو شاکر کے درمیان مباحثہ
خدا پرستی کا افسانہ۔ شناخت کا واحد راستہ۔ ہندوؤں کا صنم۔ پیدائشِ ہستی۔ خود بخود اَن دیکھی چیزوں کا اعتقاد۔ گردشِ خون۔ زندہ خلیوں کی فعالیت۔ پتھروں میں ایٹم کی حرکت۔ خود بخود زندگی کے مفروضے کا بطلان۔ انکارِ خدا نادانی کی وجہ سے ہے۔ خدا پرستی موہوم پرستی نہیں ہے۔ کیا خدا موجودات کے اندر ہے؟ انسان کی زندگی میں خداپرستی کا کردار۔ جانوروں اور پودوں کی خدا پرستی۔ جمادات کی خدا پرستی۔ فلسفہ موت ناگہانی اموات۔ موت کا سبب۔ بڑھاپے کا علاج
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک پرشکوہ درس کی کلاس لیتے تھے اور ہر روز درس کے ختم ہونے پر اپنے علمی مخالفین کی پذیرائی فرماتے ان کے اعترافات سنتے اور ان کے جوابات دیتے تھے۔
کبھی بحث کو گفتگو اس قدر طول کھینچتی کہ آپ دوپہر کا کھانا گھر پر نہ کھا سکتے، کسی کو بھیجتے کہ بازار سے ان کے لئے ایک روٹی خرید لائے اور خشک روٹی کے چند لقمے کھا تے اور بحث جاری رکھتے۔
وہ شاگردوں سے جاہتے کہ جب تک درس تمام نہ ہو سوال نہ پوچھیں، لیکن سبق کے اختتام پر جو چاہیں پوچھیں۔
معمولاً جب آپ کا درس ختم ہوتا تو نمازِ ظہر کا وقت ہو جاتا اور امام نماز کے بعد گھر چلے جاتے، ایک روز ایک شخص ابو شاکر نامی نماز کے بعد ان کے پاس آیا اور کہا :
کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ جو میں چاہوں کہوں؟
امام ی جو کچھ تو چاہتا ہے کہہ۔
خداپرستی کا افسانہ :
ابوشاکر : آپ کیوں اپنے شاگردوں اور دوسرے سننے والوں کو افسانہ سے فریب دیتے ہیں؟
امام : کون سے افسانے سے؟
ابوشاکر : جو کچھ آپ نے خدا کے بارے میں کہتے ہیں وہ افسانے کے سوا کوئی چیز نہیں ہے اور آپ افسانہ سرائی سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو وہ چیز باور کرائیں جو کچھ بھی نہیں۔
شناخت کا واحد راستہ :
ابو شاکر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا :
” جو کچھ وجود رکھتی ہے حواس خمسہ سے کسی ایک سے اس کے وجود کا سراغ پایا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر ہم کسی ایک حس سے بھی خدا کا ادراک نہیں کر سکتے خدا وجود نہیں رکھتا ممکن ہے آپ کہیں اگرچہ انسان حواسِ خمسہ سے خدا کا ادراک نہیں کر سکتا لیکن حواسِ باطنی سے اس کے وجود کا سراغ پا ستا ہے۔
یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ حواس باطنی سے فائدہ اٹھانا بھی ظاہری پانچ حواس سے وابستہ ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن میں کسی چیز کو مجسم کر سکیں تو کیا اس کے مجسم کرنے میں ایک یا چند ظاہری حواس دخل نہ رکھتے ہوں گے؟
جب آپ کسی غائب دوست کی شکل کو اپنے ذہن میں مجسم کرتے ہیں تو اگر آپ کی بینائی کی حس نہ ہو تو ممکن نہیں ہے کہ آپ اس کو دیکھیں اگر آپ سننے کی حس نہیں رکھتے تو ممکن نہیں ہے کہ آپ اس کی آواز کو سنیں جب آپ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو اپنی حس لامسہ سے استفادہ کرتے ہیں ورنہ باطن میں آپ اس کے ہاتھ کو لمس نہیں کر سکتے۔
پس تمام باطنی احساسات، پانچ ظاہری احساسات کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب یہ احساسات نہ ہوں تو کوئی چیز قابلِ ادراک نہیں ہے اس بانا پر اگر آپ یہ نہیں کہیں کہ میں خدا کو احساساتِ باطنی سے درک کرتا ہوں تو میں آپ کے قول کو قبول نہیں کرتا۔
ممکن ہے آپ یہ کہیں کہ میں خدا کو عقل سے سمجھتا ہوں نہ حسِ ظاہر سے نہ باطن سے، یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ عقل بھی حواسِ خمسہ کے بغیر کسی چیز کا ادراک نہیں کرسکتی ہے اگر آپ یہ کر سکیں کہ عقل کے ذریعہ سے ایک یا چند حواس سے مدد لئے بغیر کسی چیز کے وجود کو ثابت کریں تو میں قبول کرتا ہوں کہ آپ اپنی عقل سے خدا کے وجود کا سراغ پا سکتے ہیں۔
وہ خدا جس کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ کوئی چیز نہیں ہے، سوائے اس کے کہ آپ کے خیال نے اس کو گھڑا تراشا و جنم دیا ہے۔
آپ نے اپنے خیال میں ایک ایسے موجود کو تصور کیا ہے اور اس کو اپنی شکل دی ہے اور جب خود باتیں کرتے ہیں اور غذا کھاتے ہیں، سوتے ہیں تو تصور کرتے ہیں کہ وہ باتیں کرتاہے، غذا کھاتا ہے، سوتا ہے اور اس لئے کہے کہ اپنے اثر و نفوذ کی حفاظت کریں اسے کسی کو نہیں دکھاتے اورکہتے ہیں کہ وہ دکھائی نہیں دیتا اوردیکھا نہیں جائے گا۔ وہ کسی ماں سے پیدا نہیں ہوا اور کوئی اس کے صلب سے وجود میں نہیں آئے گا۔
ہندوؤں کا صنم :
آپ کا خدا دکھائی نہیں دیتا، ہندوؤں کے اس صنم کی مانند ہے جس کے منہ پر مقنع و پردہ پڑا رہتا ہے۔ ہندوستان میں ایک بت وجود رکھتا ہے جس کے سامنے ایک پردہ آویزاں ہوتا ہے اور کوئی شخص اس کو نہیں دیکھتا، اس کے برہمن، ہندوؤں سے کہتے ہیں کہ وہ بت ہر گز اپنے آپ کو افرادِ بشر کو نہیں دکھاتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کے دیکھنے کے بعد فوراً مر جائیں گے۔
آپ کہتے ہیں کہ اس دنیا کو خدا نے پیدا کیا ہے وہ بھی ایسا خدا جو دکھائی نہیں دیتا، اس کی آواز کو ہم نہیں سن سکتے صرف ایک آدمی نے اس کی آواز سنی وہی پیغمبر ہے۔
پیدائش ہستی۔ خود بخود :
لیکن میں کہتا ہوں کہ دنای کو کسی نے پیدا نہیں کیا یہ خودبخود وجود میں آگئی ہے کیا صحرا کی گھاس کو کوئی پیدا کرتا ہے؟ کیا چیونٹیوں اور مچھروں کو کوئی پیدا کرتا ہے؟ کیا یہ نہیں ہے کہ یہ موجودات خود بخود وجود میں آتے ہیں؟
میں آپ سے فریب نہیں کھاتا، آپ کے افسانہ کو اس خدا کے بارے میں قبول نہیں کرتا جو دکھائی نہیں دیتا، میں اس خداکی پرستش کروں گا جس کو میں دو آنکھوں سے دیکھوں، دو کانوں سے اس کی آواز سنوں، اگر آواز نہیں رکھتا دو ہاتھوں سے اسے چھوؤں،
کیوں آپ اس افسانے سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کیوں آپ انہیں نہیں چھوڑتے کہ لوگ حقیقت کی پرستش کریں نہ کہ افسانہ کی؟
خالق و آفریدگار ہم ہیں نہ کہ خدا، میں اپنے خدا کو اپنے ہاتھوں سے تراشتا ہوں اسے وجود میں لاتا ہوں آپ اپنے خدا کو اپنے خیال و پندار میں گھڑتے ہیں۔
اس تمام عرصہ میں جب ابو شاکر باتیں کرتا رہا امام نے حتی ایک بار بھی بات نہ کی، دو تین بار آپ کے شاگردوں نے جو موجود تھے کوئی بات کہنا چاہی امام نے ان کو اشارہ کیا کہ چپ رہیں۔
ابو شاکر کی باتیں تمام ہوگئیں لیکن ابھی تک امام اسی طرح خاموش تھے گوایا اس کے منتظر تھے پھر بھی اگر کوئی چیز چاہتا ہے بیان کرے۔ جب چند لحظے گزر گئے اس وقت فرمایا کیا تیری بات ختم ہو گئی؟
آخری بات :
ابو شاکر : میر آخری بات یہ ہے کہ آپ نے اَن دیکھے خدا کو ریاست، ثروت، عیش و عشروت کی زندگی تک پہنچنے کا ایک وسیلہ بنایا ہے اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔
اعتراضات کا جواب :
امام : جب کہ تیری بات ختم ہوگئی میں تریے اعتراضآت کا جواب دیتا ہوں لیکن جواب کو اعتراضآت کے آخری حصہ سے شروع کرتا ہوں ی
تو نے کہا کہ میں اس لئے لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتا ہوں کہ ان کو فریب دے کر نفوذ و ثروت کا مکلک بن جاؤں اور خوش بسری کروں۔
اگر میری زندگی خلیفہ (بادشاہِ زمانہ) کے مطابق ہوتی تو یہ اتہام درست تھا اور تیری تنقید بجا، لیکن تو نے خود آج اس جگہ میری غذا دیکھی ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ یہ روکھی سوکھی روٹی کے چند لقمے ہیں اور میں تجھے دعوت دیتا ہوں کہ آج رات میرے گھر میں آتا کہ میرے رات کے کھانے کو بھی دیکھ لے اور مشاہدہ کرے کہ میرے گھر کا اثاثہ کیا ہے؟
اگر میں تیرے کہنے کے مطابق مال و ثروت جمع کرنے کی فکر میں ہوتا کہ اپنی زندگی کو عیش و عشرت میں گزاروں، تو ضروری نہیں تھا کہ خدا پرستی کی دعوت دے کر اس مقصد تک پہنچوں، میں کیمیا گری کی راہ سے دولت مند بن سکتا تھا یا میں تجارت کے راستہ سے سرمایہ دار ہو سکتا تھا، خصوصًا جبکہ میری معلومات، دوسرے ممالک کے بارے میں عام تاجروں سے زیادہ ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ہر ملک کس نوع کا مال پیدا کرتا ہے اور کس چیز کو دوسرے ممالک میں لے جانا چاہیے تاکہ زیادہ منافع ہاتھ آئے۔
اس شہر کے تاجروں سے پوچھ کہ اصفہان، ارزنہ الروم اور کیلیکی کس نوع کا مالِ تجارت ہو سکتا ہے کہ اس کی خرید تجارتی لحاظ سے اس تاجر کو جو اس سامان کو جزیرة العرب میں لائے سود مند ہو۔
میں تصور نہیں کرتا کہ وہ تجھے جواب دے سکیں اس لئے کہ یہاں تاجر صرف شام، مصر، جزیرہ اور بین النہرین کے مالِ تجارت کو پہچانتے ہیں دوسرے ممالک کے سامانِ تجارت سے بے خبر ہیں کہ ان کا جزیرة العرب میں وارد کرنا فائدہ رکھتا ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ بیرونی ممالک میں کون سا سامانِ تجارت وجود رکھتا ہے کہ اس کو یہاں لایا جا سکتا ہے بیچا اور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور نیز میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان اموال کو کس راہ سے لانا چاہیے تاکہ حمل و نقل پر کمتر خرچ آئے۔
تو نے کہا ہے کہ میں خدا پرستی کی تبلیغ سے لوگوں کو فریب دینے کا ارادہ رکھتا ہوں تاکہ میں دولت و ثروت پاؤں، میں تیرے جواب میں کہتا ہوں، اس روز سے جب سے میں لوگوں تبلیغ کر رہا ہوں۔ آج تک میں نے لوگوں سے معمولی سے ہدیے اور تحائف، پھلوں تک کو قبول نہیں کیا، تو تصدیق کرے گا کہ ایک شخص ایک عمر لوگوں کو خدا پرستی کی تبلیغ اس لئے نہیں کرتا کہ اس کے بدلہ میں ہر سال میں چند دانے انار یا نورس کھجوروں کی کچھ مقدار حاصل کرے۔
میں نے سنا ہے کہ تیرا باپ مروارید (موتیوں) کا تاجر تھا اور شاید تو نے بچپن میں باپ کی سر پرستی میں مرواریدوں کو پہچانا ہو، میں جواہرات کے انواع کو پہچانتا ہوں، کوئی ایسا گوہرنہیں ہے کہ میں اس کو نہ پہچانتا ہوں اور اس کو نہ جانتا ہوں۔
اگرمیں دولت سمیٹنا چاہتا تو اس کی ضرورت نہیں تھی کہ میں خداپرستی کی دعوت کی راہ سے اس مقصد کو حاصل کرتا میں جواہر فروشی کی راہ سے دولت مند بن سکتا تھا۔ کیا تو جانتا ہے کہ کتنی قسم کے یاقوت وجود رکھتے ہیں؟
ابو شاکر : نہیں
امام : کیا تو جانتا ہے کہ کتنہی نوع کے زمرد موجود ہیں؟
ابو شاکر : نہیں
امام : آیا تجھے معلوم ہے کہ الماس کی کتنی قسمیں ہیں اور کتنے رنگ ہیں؟
ابو شاکر : نہیں
امام : میں الماس کے انواع کو پہچانتا ہوں ان کی ہر نوع کی قیمت سے باخبر ہوں بغیر اس کے کہ میں نے جواہر فروشی کی ہو۔
امام : کیا تو جانتا ہے کہ الماس کی چمک و مک کس سے ہے؟
ابو شاکر : نہیں، نہ تو میں الماس فروش رہا ہوں نہ میرا باپ تاکہ میں جانوں؟
امام : الماس کی درخشندگی تراش تراش کے اثر سے ہے کیا تو جانتا ہے کہ الماس کس طرح ہاتھ آتا ہے؟
ابو شاکر : نہیں
امام : الماس دریاؤں، ندی نالوں کی گہرائیوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ مطالب اس لئے تجھے بتائے ہیں تاکہ تجھے معلوم ہو جائے اگر میں مال وثروت کا ارادہ رکھتا ہو تا تو میں جواہر فروشی اور دوسری راہوں سے دولت سمیٹ سکتا تھا۔
اَن دیکھی چیزوں کا اعتقاد :
اب میں تیرے دوسرے اعتراضات کی طرف توجہ کرتا ہوں جو تیرے اعتراضات کی بنیاد ہیں :
تو نے کہا کہ میں افسانہ سرائی کرتا ہوں اور لوگوں کو اس خدا کی عبادت کی دعوت دیتا ہوں جو دکھائی نہیں دیتا۔ تو جو اَن دیکھے خدا کا منکر ہے کیا تو اپنے باطن و اندر کو دیکھ سکتا ہے؟
ابو شاکر : نہیں
امام : اگر تو اپنے باطن کو دیکھ سکتا تو تُو یہ نہ کہتا کہ جب ہم خدا کو نہیں دکھ سکتے تو اس کا عقیدہ حقیقت نہیں، افسانہ ہے۔
ابوشاکر : باطن کا دیکھنا، اس خدا کی عبادت سے کیا ربط رکھتا ہے جو خدا ہے ہی نہیں؟
امام : تو کہتا ہے وہ چیز جو دکھائی نہیں دیتی، اس کی آواز سننے کے قابل نہ ہو، لمس کے لائق نہ ہو اس کا سونگنا و چکھنا ممکن نہ ہو، وہ وجود ہی نہیں رکھتی اور جب وجود ہی نہیں رکھتی وہ لائق عبادت نہیں ہے؟
ابو شاکر : جی ہاں ! میرا مطلب یہی ہے۔
گردشِ خون :
امام : کیا تو اپنے بدن میں خون کی گردش و حرکت کی آواز کو سنتا ہے؟
ابوشاکر : نہیں، کیا خون بدن میں حرکت کرتا ہے؟
امام : ہاں کیا تو اپنے جسم میں خون کی بو سونگھتا ہے؟
ابوشاکر : نہیں
امام : خون ہر چند منٹ میں تیرے تمام جسم میں گردش کرتا ہے اور اگر گردشِ خون تیرے جسم میں چند منٹ کے لئے رک جائے تو تُو مرجائے گا۔
ابو شاکر : میں اپنے بدن میں گردشِ خون کو قبول نہیں کر سکتا۔
امام : جو چیز بدن میں خون کی حرکت کے قبول کرنے سے تجھے روکتی ہے وہ تیری جہالت و نادانی ہے اور بعینہ یہی جہالت و نادانی ہے جو تیرے خدا ئے واحد کے ماننے کی راہ میں مانع ہے۔
زندہ خلیوں کے فعالیت :
کیا تو اس مخلوق سے باخبر ہے جس کو خدا نے پیدا کیا اور تیرے بدن میں اسے کام پر لگا دیا ہے اور تو اس کے کام کے نتیجہ میں زندہ ہے؟
ابو شاکر : نہیں
امام : تو جب صرف انہی کے وجود کو باور کر سکتا ہے جن کو تو دیکھتا ہے تو ان دوسری چیزوں کو نہیں مان سکتا۔
اگر تو عالم و توانا ہو جاہے تو تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے وجود میں اس زندہ موجودات ہیں جن کا شمار جن کی گنتی، صحرا کی ریگ کے ذرات کے اندازہ پر ہے وہ تیرے جسم میں وجود میں آتے ہیں، رشد کرتے ہیں، اولاد والے بنتے ہیں ایک مدت کے بعد بیکار ہو جاتے ہیں لیکن تو نہ ان کو دیکھتا ہے نہ ان کی آواز سنتا ہے نہ ان کو چھو ہی سکتا ہے نہ ان کی بُو ہی سونگھ پاتا ہے نہ تو جانتا ہے کہ ان کا کیا ذائقہ و مزہ ہے۔ وہ وجود میں آتے ہیں، نشونما پاتے ہیں، مر جاتے ہیں تاکہ تو زندہ رہے، تو تصور کرتا ہے کہ تو روشن فکری کی وجہ سے ان کے وجود کا انکار کرتا ہے حالانکہ ان کے انکار کی وجہ تیری نادانی و نافہمی ہے۔
اگر تو خود کو جانتا ہوتا اور اس سے بھی باخبر ہو تاکہ تیرے وجود میں کیا کچھ ہو رہا ہے تو پھر تو یہ بات نہ کہتا کہ چونکہ میں خدا کو نہیں دیکھتا اس لئے کس کو باور نہیں کرتا اور میں اَن دیکھے خدا کو افسانہ جانتا ہوں۔
پتھرمیں ایٹم کی حرکت :
کیا تو پتھر کو دیکھتا ہے جو اس ایوان کی بنیادوں میں استعمال کیا گیا ہے؟ تو اس کو جامد اور بے حرکت سمجھتا ہے کیونکہ تیری آنکھ اس کی حرکت کو نہیں دیکھتی جو شخص تجھے کہے کہ اس پتھر میں حرکات موجود ہیں کہ ہماری حرکات جو اس جگہ موجود ہیں ان حرکات کے مقابلہ میں سکون ہیں تو تُو اس کے قول قبول نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ یہ افسانہ گوئی ہے، داستان سرائی ہے اور تو خود کو ایک عاقل شخص شمار کرتا ہے تو اس سے غافل ہے کہ تو نادان ہے اس لئے پتھر میں موجود حرکات کا سراغ نہیں پا سکتا، شاید ایسا دن آئے کہ علم کی وسعت و ترقی کے پیشِ نظر لوگ پتھر کے اندر کی حرکات کو دیکھ پائیں (موجودہ ایٹمی دَور میں یہ حقیقت تجرباتی طور مسلّم ہو چکی ہے اور اس سے انکار کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے یہ معصوم کی صداقت پر ایک بڑی دلیل ہے) ۔
خود بخود زندگی کے مفروضہ کا بطلان :
اے ابوشاکر ! تو نے کہا ہے کہ جو چیز اس دنیا میں وجود میں آتی ہے وہ خود بخود پیدا ہو جاتی ہے وہ خالق و آفریدگار نہیں رکھتی (خود رَو گھاس کی مانند) لیکن تو نے سوچا نہیں کہ صحرا میں گھاس جب تک بیج نہ رکھتی ہو (اس کے اگنے کی شرائط فراہم نہ ہوں) نہیں اگتی۔
اگر تو صاحبِ علم و دانش ہوتا تو جانتا کہ حکمت اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ کوئی موجود حادث خودبخود پیدا ہو جائے بلکہ وہ خالق کا محتاج ہے خواہ وہ موجود جمادات و نباتات سے ہو یا حیوانات سے۔
اگر تو دانشور ہوتا تو اس کو جانتا کہ حکمت اس کو قبول نہیں کرتی اور نہ ہی مختلف مکاتبِ فکر میں، حکماء کے مختلف طبقات میں حتی کہ ایک آدمی بھی وجود نہیں رکھتا جو خالق و آفریدگار کا معتقد نہ ہو جو چیز بظاہر اس کا موجب بنتی ہے کہ تصور کیا جاتا ہے کہ بعض حکماء خالق پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ ہے کہ وہ پیدا کرنے والے کو اللہ اور اللہ کے نام کے سوا دوسرے ناموں سے پکارتے تھے ورنہ حتی کہ وہ لوگ جنہوں نے کلی طور پر خدا کا انکار کیا ہے پھر بھی اپن حکمت میں ایک مبدا پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ مبدا کے عقیدہ سے مستغنی و بے نیاز نہیں ہو سکتے۔
انتہائی چیز جو مادہ پرست کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک موجود، مادہ یا انرجی کے نام سے ہمیشہ دنیا میں موجود رہا ہے جو موجودہ شکل میں مبدا ہستی بنا ہے، اس بِنا پر مادیین بھی خدا۔ یعنی ایسا موجود جو ہمیشہ موجود رہا ہے اور اس نے جہانِ ہستی کو موجودہ شکل و صورت میں پیدا کیا ہے کے قائل رہے میں البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس علمی اور حساب شدہ صورت میں دنیائے ہستی کو جنم دینے والا ایک موجود ہے جو عقل و شعور و ارادہ نہیں رکھتا (انرجی) اس بنا پر ایک خدا پرست و مادی میں فرق یہ ہے کہ خدا پرست اس خدا کا معتقد ہے جو باشعور و صاحبِ ارادہ ہے اور مادی اس خدا کا معتقد ہے جو بے شعور اور بے ارادہ ہے (مادہ یا انرجی) تاہم دونوں کے خدا کے معتقد ہیں۔ م) ۔
خدا کا انکار نادانی کی وجہ سے ہے :
خالق کا انکار نادانی۔ ایک عقل مند انسان، تنہائی میں اگر چند لمحے بھی اپنے بند کے نظام پر نظر کرے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ نظام بے کم و کاست اور دائمی ایک ناظم رکھتا ہے اور وہ ذات جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے وہی اس کاناظم ہے۔
اے ابو شاکر ! تو نے مجھے کہا ہے کہ تو اور میں، ہر و اپنے خدا کو بناتے ہیں، اس کے کہنے سے تیرا مقصد یہ تھا کہ ہمارا خدا خود ہمارے ہی وسیلہ سے گھڑا و بنایا جاتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ تو اپنے خدا کو بڑھی کے آلات کے ساتھ لکڑی سے بناتا ہے یا پتھر کے گھڑنے کے آلات سے سنگ تراشی سے گھڑتا ہے اور میں اپنے خدا کو اپنے فکر و اندیشہ سے۔
خدا پرستی موہوم پرستی نہیں ہے :
تیرے اور میرے خدا میں ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ تو نجاری یا پتھر گھڑنے کے آلات ہاتھ میں لے اور کام شروع کرے تیرا خدا وجود نہیں رکھتا تھا لیکن میرا خدا اس سے پہلے میں اپنے فکر و نظر کو کام میں لاؤں وجود رکھتا ہے۔
میں نے اپنے خدا کو اپنی فکر و نظر سے پیدا نہیں کیا ہے کیونکہ میرا خدا میری فکر سے پہلے وجود رکھتا تھا جو کام میں نے کیا ہے اور کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ فکر و نظر، فہم و فراست سے کام لے کر میں خدا کو بہتر طور پہچانوں اور اس کی عظمت کا بہتر طور پر سراغ پاؤں۔
جب تو صحرا میں جاتا ہے اور ایک بہت بڑے پہاڑ کو دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اس کو بہتر طور پر پہچانے تو کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تو نے اپنے ہاتھوں سے پہاڑ کو پیدا کیا ہے یا اپنی فکر سے اس کو بنایا ہے؟
پہاڑ تجھ سے پہلے وجود رکھتا تھا اور تجھ سے بعد بھی ہو گا، صرف تو یہ کر سکتا ہے کہ اس کو بہتر طور پر پہچانے اور پھر تیری شناخت بھی تیری معرفت کی میزان تک محدودہے۔توپہاڑ کو بخوبی نہیں پہچان سکتا، کیونکہ تیرا علم اس حد تک نہیں ہے کہ تو اس کے مبدا پیدائش کا سراغ پائے اور یہ سمجھے کہ اس کا منتہا کیا ہے وہ کس مواد سے تشکیل پایا ہے اس کے درمیان، اس کے اعماق میں اس کی گہرائیوں میں کون سے معدنیات موجود ہیں اور معادنِ انسان کے لئے کیا فوائد رکھتے ہیں۔
اگر تو پتھر کے اس ٹکڑے کو پہچانتا، جس سے تو بت تراشتا ہے تو اس آسانی سے تو خدا کا منکر نہ ہوتا اور یہ نہ کہتا کہ میں نے اپنے خدا کو اپنی فکر سے پیدا کیا ہے تو چونکہ پتھر کونہیں پہچانتا اس لئے تصور کرتا ہے کہ وہ تیرے ہاتھ میں مطیع ہے اور تو اپنی مرضی کے مطابق جس شکل میں چاہے اسے تراش سکتا ہے حالانکہ یہ پتھر اس وجہ سے قابلِ تراش ہے کہ خدا نے اس کو ایک خاص سیال مواد و مائع سے وجود دیا ہے تاکہ آج اس کو گھڑ و تراش سکے ورنہ وہ شیشہ کی مانند تیرے ہاتھوں ٹوٹ جاتا۔
ابو شاکر : کیا پتھر مائع سے بنایا گیا ہے؟
امام : ہاں
ابو شاکر زور زور سے ہنسنے لگا، اس پر امام کے شاگردوں میں ایک غصہ میں بھر گیا اور چاہا کہ اس کے ساتھ الجھ پڑے لیکن استاد مانع ہوئے اور کہا : چھوڑو، اسے ہنسنے دو !
ابو شاکر : میں اس لئے ہنستا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ پتھر اتنا سخت ہوتے ہوئے پانی سے بنایا گیا ہے؟
امام : میں نے یہ نہیں کہا کہ پتھر پانی سے بنایا گیا بلکہ میں نے کہا پتھر پہلے مائع تھا۔
ابو شاکر : مگر کیا فرق پڑتا ہے، مائع وہی پانی تو ہے۔
امام نے پورے تحمل و وقار سے فرمایا : کچھ ایسی چیزیں وجود رکھتی ہیں جو مائع تو ہیں لیکن پانی نہیں ہیں یا پانی ہیں مگر خالص پانی نہیں ہوتیں۔ پتھر بھی ابتداء میں مائع تھا، لیکن رواں پانی کی مانند تھا، اس سے زیادہ حرارت اٹھتی تھی، قدرتِ خدا نے آہستہ آہستہ اس کی حرارت کو کم کایا وہ اس قدر سرد ہو گیا کہ جامد شکل میں آ گیا، اگر پھر زیادہ حرارت میں پڑ جائے تو اپنی شکل بدل دیتا ہے پھر اسی مائع صورت میں آ جاتا ہے۔
کیا خدا موجودات کے اندر ہے :
ابو شاکر: کیا ان دیکھا، خدائے یکتا پتھر کے اندر ہے؟
امام: ہر چیز کے اندر اور ہر جگہ ہے۔
ابو شاکر : میری عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ کوئی چیز دیکھی بھی نہ جا ئے اور ہر جگہ موجود ہو۔
امام: کیا تیری وقل قبول نہیں کرتی کہ ہوا جو دیکھی بھی نہیں جاتی ہر جگہ موجود ہے۔
ابوشاکر؛ اگرچہ ہوا دکھائی نہیں دیتی، لیکن اس کے چلنے پر محسوس کر سکتے ہیں لیکن تیرے خدا کو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔
امام: کیا جب ہوا نہیں چلتی تو ہوا کے وجود کو محسوس کر سکتا ہے؟
ابوشاکر: نہیں۔
امام: کیا تو تصدیق کرتا ہے کہ جو چیز تو نہیں دیکھتا اسے محسوس نہیں کرتا وہ ہر جگہ ہے؟
ابوشاکر : جی ہاں
امام : خدا بھی اسی طرح دکھائی نہیں دیتا ہے اور ہر جگہ سے، مثال کے طور پر اس طرح ہے یہ جو ہم کہتے ہیں ” مثال کے طور پر “ اس لئے ہے کہ ہوا جو عناصر سے ہے اور مخلوق ہے وہ خالق و آفریدگار کے ساتھ ماہیت کے لحاظ سے کوئی شباہت نہیں رکھتی۔
انسان کی زندگی میں خدا پرستی کا کردار :
امام نے کچھ وقت گفتگو کے بعد انسان کی زندگی میں خدا پرستی کے کردار کی جانب نظر کرتے ہوئے فرمایا :
اب جو شخص زندگی میں خدا کی عبادت نہ کرے وہ اس شخص کی مانندہے جو ایک ہی آن میں قوت ِ سمع و بصرہ اور لمس کو ہاتھوں سے دے دے وہ نہیں جانتا کہاں جائے کیا کرے اور کس پر تکیہ کرے (کیونکہ دنیا بغیر خدا جسم ہے بغیر روح کے بغیر عقل و شعور کے بغیر ہدف و تنقید کے اس لئے وہ افراد جو مادی نظر رکھتے ہیں مثلًا سارٹر وہ ہستی کو بے معنی و احمق کہتے ہیں اس بنیاد پر انسان بھی جو اس ہستی کا ایک جزو ہے وہ بھی کوئی ہدف و مقصد نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بیسویں صدی کا انسان علم و صنعت کے عروج میں اس کا فلسفہ زندگی عبث پر جا کر ختم ہوتا ہے) ۔
خدا پرستی کا نقش و کردار زندگی میں اتنا ضروری ہے کہ حتی جانوروں کی زندگی میں بھی عبادت و پرستش ہے اور وہ خدا کی عبادت سے بے نیاز نہیں ہیں۔ اگر ہم ان کی زبان کو سمجھتے تو ہم اس کاادراک کرتے کہ وہ بھی خدا کی عبادت کرتے ہیں۔
جانوروں اور پودوں کی خدا پرستی :
میں نہیں کہتا کہ جانور عبادتِ خدا کے لحاظ سے ہمار ی مانند عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مبدا کے قوانین کے مطیع ہیں اور ان قواعد کی صمیمانہ اطاعت کرتے ہیں۔
اے ابو شاکر ! حتی پودے اور نباتات ھبی اپنا خدا رکھتے ہیں اور اپنے نباتاتی شعور سے احکامِ خدا کی پیروی کرتے ہیں ورنہ جس طرح کہ تو دیکھتا ہے وہ ایک منظم زندگی کے مالک نہ ہوتے، ایک سو پچاس طبقات نباتات کے جن کو اللہ تعالیٰ نے پید کیا ہے اور ہر طبقہ کئی انواع میں تقسیم ہوتا ہے تو ایک بھی پودے کو نہی دیکھے گا کہ وہ غیر منظم زندگی رکھتاہو۔
میں جانتا ہوں اور تو اس کو قبول نہیں کر سکتا جو کچھ میں کہتا ہوں اور شاید جو کچھ میں کہوں وہ تو سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ بعض مسائل کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کم از کم اس علم کے مقدمات کو طے کیا جائے تاکہ انسان کی عقل کسی قدر پرورش پائے اور دَورِ جہالت سے زیادہ طاقتور ہو جائے اور بعض مسائل کے فہم کے لئے آمادہ ہو جائے۔
جمادات کی خدا پرستی :
میں کہتا ہوں نہ صرف حیوانات و نباتات اپنے حیوانی و نبیاتی شعور سے خدا کی عبادت کرتے ہیں بلکہ جمادات بھی اپنے جمادی شعور سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی جمادی زندگی مختل ہو جاتی مجاد کے ذرے ایک دوسرے سے جدا ہوتے۔
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحَ بِحَمْدِہ وَ لٰکِن لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ (اسراء : ۴۴)
اور کوئی ایسی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کی حمد کی تسبیح کرتی ہے مگر تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔
یہ روشنی جس کا مبدا سورج ہے وہ بھی خدا کی عبادت کرتا ہے، کیونکہ وہ قاعدے اور قوانین جو خدا نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں ان کی اطاعت کرتا ہے اس کی اطاعت اپنی دقیق، مرتب و منظم ہے جو دو متضاد عوامل و اسباب سے وجود میں آتی ہے ان دو اسباب میں سے کوئی ایک بھی روشنی نہیں رکھتا، لیکن جب وہ باہم ملتے ہیں روشنی وجود میں آتی ہے۔
اگر صرف ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی توجہ دنیا کے امور کے نظام سے کسی دوسری چیز کی طرف منعطف ہوجائے تو دنیا اور جو چیز بھی اس میں ہے تباہ و برباد ہو کر رہ جائے یعنی وہ دوسری چیزوں میں بدل جائے کیونکہ کوئی چیز بالکل فنا نہیں ہوتی اور نہ کلی طور پر مٹتی ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی توجہ ہر گز دنیا کے نظام و انصرام سے دوسری چیزوں کی طرف معطوف نہیں ہوتی کیونکہ دنیا ثابتو جاودانی قواعد کی اساس پر چلائی جا رہی ہے، اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اس کا موجب بنی ہیکہ ہر وہ قانون جو اس دنیا کے نظام کے لئے بنایا گیا ہے و ہ دائمی ہو اور یہ تمام قوانین مصالح کی بنیادوں پر ہیں اور کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی مصلحت نہ پائی جاتی ہو۔
فلسفہء موت :
ان قوانین میں سے ایک قانون جو نادان لوگوں کی نظر میں بلامصلحت بلکہ نقصان دہ ظاہر ہوتا ہے وہ موت ہے۔ لیکن انسان کی موت مصلحت کی اساس پر ہے اگر موت نہ ہو تو نوع بشر منقرض ہو جائے گی، ختم ہو جائے گی، وہ علماء و دانشور جنہوں نے اس امر کی پیہم کوشش کی کہ وہ موت کو مٹا دیں، وہ اشتباہ کا شکار تھے اور میں مستقبل کے دانشوروں کو سفارش کرتا ہوں کہ وہ موت کا خاتمہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اے ابو شاکر ! چند لمحات فکر کر، فرض کای طبیعی موت وجود نہ رکھے اور انسان یہ جانتا ہو کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا تو اس صور ت میں ظالم و جبّار انتہائی کوشش کریں گے کہ وہ دوسروں کے اموال پر قبضہ جما لیں تاکہ اپنی ابدی و لامحدود زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ صاحبِ دولت و روت رہیں اور جب کمزور، ضعفاء ان کے مقابلہ میں کھڑے ہوں ان کو نابود کر دیں اور چونکہ طاقتور ہونا نسبی و غیر حقیقی ہے وہ افراد جو زیادہ طاقت و قدرت رکھتے ہیں وہ درجہ دوم کے طاقتوروں کو مٹا دیں گے ان طاقتوروں کے درمیان جو ایک درجہ کے ہیں جنگ و پیکار شروع ہو جائیگی یہاں تک کہ جو شخص سب سے زیادہ طاقتور ہو گا وہی باقی رہ جائے گا اور بالفرض وہ شخص ہر گز نہیں مرے گا، دنیا کے آخر تک زندہ رہے گا، نوعِ بشر تو منقرض ہو چکی ہو گی۔
اگر فرض کریں موت کے نہ ہونے کی صورت میں نوعِ انسانی نہ مٹے تو بہت کم مدت میں جو شاید چندصدیوں سے آگے نہ بڑھے انسانوں کی آبادی اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ نوعِ بشر نہ صرف تمامو جانوروں کو کھا جائے گی بلکہ بھوک مٹانے کے لیے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو بھی اپنا لقمہ بنا لے گی۔
ابوشاکر : موت کے بارے میں آپ کی گفتگو نے مجھے محو حیرت کر دیا ہے؟
امام : کس لئے؟
ابو شاکر : آپ کی گفتگو سے اس طرح سمجھ میں آتا ہے کہ جتنا بھی جلدی ہو سکے ہم خود کشی کر لیں کیونکہ خدا کی مصلحت یہ ہے کہ انسان مر جائے اس لئے جتنا جلدی ہو بہتر ہے؟
ناگہانی اموات :
امام : جو شخض خودکشی کرتا ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانی کے مصالح کے پیشِ نظر ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی جان کی حفاظت کے لئے کوشش کریں اور حفظِ جان کی راہوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کھانے پینے میں افراط نہ کریں کیونکہ اس طرح انسان اپنی طبیعی عمر کو پورا نہیں کر پات، اسی وجہ سے میرے جدّ نے فرمایا ہے : ” تم اپنے پیٹوں کو جانوروں کی قبر نہ بناؤ “۔
ابو شاکر : اس بات کا مقصد و مفہوم کیا ہے؟
امام : یعنی زیادہ گوشت کھانے سے پرہیز کرو۔
ابوشاکر : میں گوشت کو زیادہ پسند کرتا ہوں اور میں اس کے کھانے سے اجتناب نہیں کر سکتا۔
امام : میں نے یہ نہیں کہا کہ تو بالکل گوشت نہ کھا بلکہ زیادہ کھانے سے پرہیز کر۔
ابو شاکر : کیوں؟
امام : اس لئے کہ زیادہ گوشت کھانابعض افراد میں ناگہانی موت کا موجب ہوتا ہے۔
ابوشاکر : میں پہلی مرتبہ ایسی باتیں سن رہا ہوں۔
امام : میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ گوشت کھانا ناگہانی موت کا سبب ہے میں نے کہا ہے زیادہ گوشت کھانا وہ بھی بعض افراد (جن کا مزاج آمادہ ہوتا ہے) میں اس لئے ممکن ہے ایک شخص گوشت زیادہ کھائے وہ ناگہانی موت نہ مرے۔
ابوشاکر : ناگہانی موت سے آپ کا مقصد کیا ہے؟
امام : ایک شخص بظاہر تندرست ہے لیکن اصل میں بیمار، اچانک بے ہوش ہو جاتا ہے اور مر جاتا ہے۔
ابوشاکر : کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص تندرست ہو لیکن اصل میں وہ بیمار ہو؟
امام : ہاں وہ لوگ جو اصل میں بیمار ہیں لیکن وہ اپنے میں اس کا کوئی اثر محسوس نہیں کرتے۔
ابوشاکر : میں اس کو قبول نہیں کر سکتا کہ انسان بغیر اس کے کہ ظاہراً بیمار ہو اچانک مرجاہے، ہاں ممکن ہے دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے میں مارا جائے۔
امام : تو جب تک کسی چیز کو نہ دیکھے اس کے وجود کو قبول نہیں کرتا، چونکہ تو نے آج تک نہیں دیکھا ہے کہ کوئی شخض ناگہانی موت مرا ہو اس لئے تو مانتا نہیں ہے کہ آدمی بغیر اس کے کہ وہ ظاہراً بیمار ہو ممکن ہے ناگہاں مرجائے، لیکن تو جان لے کہ تین قسم کی ناگہانی اموات وجود رکھتی ہیں ایک مغز سے، دوسری دل سے اور تیسری خون سے پیدا ہوتی ہے۔
(وہ اطلاعات جو آج ڈاکٹر رکھتے ہیں کہ سکتہ سے پیدا ہونے والی موت تین بنیادی وجوھات سے واقع ہوتی ہے۔ اول یہ ہے کہ ایک لوتھڑا مغز و دماغ میں خون کی راہ کو روک دیتا ہے یا دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے دوسرے دل میں کوئی لوتھڑا جریانِ خون کی راہ کو بند کردے، آکسیجن دل کے کسی حصہ تک نہ پہنچ پائے یا رگ کے پھٹ جانے دل کے بعض سیل خوراک سے محروم ہو جائیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ خون کا ایک لوتھڑا جریان خون کے تحت ایک رگ کو مسدود کردیتا ہے اس صورت میں خون ان خلیوں تک نہیں پہنچ سکتا جو اس رگ سے غذا حاصل کرتے ہیں اور رگ کے بند ہونے سے آگے واقع ہیں) ۔
ابو شاکر : کیوں ہمارا دماغ، قلب، خون ہیں یکبارگی نابود کرتے ہیں؟
امام : ہر نوع کی ناگہانی موت آخری مرحلہ میں خون کی غلاظت سے پیدا ہوتی ہے، غلاظتِ خون بھی کثرت سے گوشت کھانے اور دوسری مقوی غذاؤں سے پیدا ہوتی ہے، اس صورت میں کہ ان کے کھانے میں افراط سے کام لیا جائے اس کے بعد جب خون غلیظ ہو جائے تو ناگہانی موت کے عوارض دماغ، قلب یا خود خون میں پیدا ہو جاتے ہیں اور انسان کو نابود کر دیتے ہیں۔
عرب کے صحرا نشین قبائل میں ہنیں دیکھا گیا کہ کوئی شخص سکتہ کے زیرِ اثر مرے، اس لئے کہ وہ گوشت اور تمام مقوی غذائیں بہت کم استعمال کرتے ہیں، بٍض قبائل تو گوشت نہیں کھاتے مگر سال میں ایک بار، مکہ میں حج کے موقع پر۔
تو کتنے آدمی مدینہ میں پہچانتا ہے کہ ان کی عمر سو سال کو پہنچی ہو؟
ابوشاکر : میں کسی ایک کو بھی نہیں پہچانتا جو سو سال کا ہو۔
امام : اسی شہر میں جب لوگ گوشت اور مقوی غذاؤں کے کھانے میں افراط نہیں کرتے تھے مرد اورعورتیں سو سالہ وجود رکھتے تھے اگر اب بھی مدینہ کے اطراف کے صحرا میں تو جائے جو قبائل کی سکونت کامقام ہے تو تشو مشاہدہ کریگا کہ ان میں سو سالہ مرد اور عورتیں موجود ہیں۔
خون کی غلاظت بعض اشخاص میں ناگہانی موت کا سبب بنتی ہے لیکن اکثر لوگوں میں بڑھاپے کے جلد آنے کا سبب بنتی ہے اور ان کو ان کی طبیعی عمر سے پہلے موت کے دامن میں سلا دیتی ہے۔
موت کا سبب :
ابو شاکر : موت کا سبب کیا ہے؟
امام : دو چیزیں موت کا سبب بنتی ہیں :
۱۔بیماری جس طرح کہ میں نے کہا وہ لوگ جو سکتہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگرچہ وہ تصور کرتے ہیں کہ سالم و تندرست ہیں لیکن باطن میں وہ بیمار ہوتے ہیں و ہ بیماری ہی سے مرتے ہیں۔
۲۔ بڑھاپا : انسان اگر تندرست بھی ہو، بالآخر بڑھاپے کے زیر اثر مر جائیگا، قدیم یونان کے حکماء میں سے بقراط نے کہا کہ بڑھاپا بھی ایک قسم کی بیماری ہے جس روز اس کا علاج مل گیا انسان نہیں مرے گا۔
بڑھاپے کا علا ج :
ابو شاکر : لیکن ہمارے حکماء اس بیماری کا علاج نہیں کر سکتے؟
امام : نہیں اور میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر اس بیماری کا علاج کر بھی نہیں پائیں گے۔
ابوشاکر : آپ کہاں سے جانتے ہیں کہ بڑھاپے کا مرض لاعلاج ہے۔
امام : کیونکہ موت خدا کی مشیت ہے اس کی مدرت و مصلحت نے موت کو وجود دیا ہے۔
ابو شاکر : پس یہ جو کہتے ہیں کہ بعض پیغمبروں نے زندگی جاوید پائی ہے وہ اب بھی زندہ ہیں یہ کیا ہے؟
امام : اس مطلب کو باور نہ کر۔ ابھی دنیا میں کوئی ایسا بشر نہیں آیا جو نہ مرا ہیو یا اب اگر زندہ ہے تو نہیں مرے گا ان کا کہنا افسانہ سے زیادہ نہیں ہے۔
اجل :
ابوشاکر : میں تصور کرتا ہوں جب کہ میں اَن دیکھے خدا کا معتقد ہو گیا ہوں، آپ کے پیغمبر کی نبوت کو قبول کرلوں گا لیکن اس کے باوجود میں آپ کے پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتا۔ میں نے قرآن کے بعض حصے سنے ہیں اور میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ آپ کی گفتگو کا آخری حصہ جس میں آپ نے گوشت کے کھانے کے متعلق کہا ہے (وہ خون کے غلیظ اور ناگہانی موت کا موجب ہوتا ہے) قرآن کے ساتھ منافات رکھتا ہے اور حتمًا قرآن کے ساتھ عقیدہ رکھتے ہیں؟
امام : ہاں اور اس کو میں خدا کا کلام جانتا ہوں۔
ابو شاکر : پس آپ کیوں اپنے خدا کے کلام کے خلاف بات کرتے ہیں؟
امام : جو چیز میں نے خدا کے کلام کے خلاف کہی ہے وہ کیا ہے؟
ابو شاکر : میں نے سنا ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ ہر شخض اس موقعہ پر جو خدا نے مقرر کیا ہے مرے گا اس کی موت میں نہ ایک لمحہ کا تقد ہو گا نہ تاخر۔
امام : ہاں یہ خدا کا کلام ہے اور قرآن میں ہے۔
ابو شاکر : کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ جو گوشت اور مقوی غذائیں کھائیگا اس سے پہلے کہ اس کی موت کا وقت پہنچے مر جائے گا؟
امام : ہاں
ابو شاکر : اس بنا پر آپ کی بات کلامِ خدا کے ساتھ منافات رکھتی ہے۔
امام : اولًا میں نے کہا ہے بعض اشخاص ممکن ہے گوشت اور دوسری مقوی غذاؤں کے کھانے سے وہ بھی زیادہ مقدار میں سکتہ سے دوچار ہو جائیں نہ کہ تمام۔
ثانیًا عمرِ طبیعی اور وہ عمر جسے انسان اپنے ہاتھوں تباہ کرتا ہے ان کے درمیان فرق ہے وہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص اس موقع پر مرے گا جو خدا نے اس کے لئے مقرر کیا ہے و ہ طبیعی عمر سے متعلق ہے اور جو شخص خود کشی کرتا ہے وہ قولِ خدا، موت کے وقت کے اٹل ہونے میں شامل نہیں ہے۔ خدا نے شاید ایک شخض کے لئے اسی یا نوے یا سو سال عمر مقرر کی ہو لیکن اس نے جوانی میں خنجر کے ایک وار سے اپنی عمر کا خاتمہ کر لیا، جو شخص گوشت اور دوسری مقوی غذاؤں کے کھانے سے خون کو غلیظ کر دیتا ہے وہ اپنی خود کشی کے لئے خود زمین ہموار کرتا ہے۔ (کتاب مغز متفکر شیعہ)
باب : ۳
نبوت کے اثبات پر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اشرافِ قریش کے درمیان بحث
ابتدائے بعثت میں ایک روز پیغمبرِ اسلام صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے، قریش کے اشراف اور بزرگوں کی ایک جماعت مثلًا ابوالبختری، ابو جہل اور عاص بن وائل وغیرہ مسجد میں آئے۔
پیغمبرِ اسلام قرآن اور قوانینِ اسلام اپنے اصحاب میں سے چند افراد کو دیار کرا رہے تھے، اشراف نے پیغمبر اور ان کے اصحاب کو دیکھ کر کہا، آہستہ آہستہ محمد کے کام نے عروج پایاہے حد سے زیادہ اہم ہو گیا ہے بہتر ہے ہم جائیں اور ان کو سرزنش کریں ان کے ساتھ بحث کریں جو کچھ و ہ لائے ہیں اس کو باطل کر کے ان کے اصحاب کے سامنے ان کو شرمندہ کریں شاید اس طرح اپنی گمراہی عصیان و سرکشی سے وہ ہاتھ اٹھالیں۔ اگر اس سے کام نہ بنا تو اس کا علاج تلوار ہے۔
ابو جہل : بہت خوب۔ لیکن کون ان کے ساتھ بحث ک سکتا ہے؟
عبداللہ بن ابی امیہ : میں، کیا تو مجھے اس کے ساتھ بحث میں ایک طاقتور مقابل کے طور پر قبول نہیں کرتا۔
ابوجہل : کیوں نہیں
تمام اکٹھے پیغمبر اکرم کی طرف چل پڑے۔ عبداللہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا : محمد ! آپ ایک بہت ہی بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور حیرت انگیز باتیں کرتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ آپ خالقِ جہان کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ لیکن خالقِ کائنات کے لئے شائستہ نہیں کہ آپ جیسے شخص کا رسالت کے عنوان سے انتخاب کرے کیونکہ آپ بھی ہماری مانند بشر ہیں کہ کھاتے پیتے اور بازار میں چلتے پھر تے ہیں :
وَ قَالُوا مَالِ ھٰذَاالرَّسُوْلِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۔ (الفرقان : ۷)
نظر کر ! دیکھ روم اور ایران کے بادشاہ سفارت کے لئے ایسے شخض کا انتخاب کرتے ہیں جو بڑی ثروت، حد سے زیادہ اجتماعی اہمیت، قصر و محلوں، گھروں، خیموں پردوں اور نوکروں، چاکروں کا مالک ہوتا ہے۔
خالقِ جہاں جو ان بادشاہوں سے بہت ہی بڑا ہے یہ اس کے بندے ہیں اس بنا پر وہ آپ کو اس فقر و تنگدستی کے ہوتے ہوئے اپنی رسالت کے لئے منتخب نہیں کر سکتا۔ اس حالت کے ساتھ اگر آپ اس کے سفیر ہوتے تو لازمًا وہ کسی فرشتہ کو آپ کے ساتھ بھیجتا تاکہ آپ کے دعویٰ کی تصدیق کرے اور ہم اس فرشتہ کو دیکھتے۔
لَوْ لَا اُنْزِلَ إِلَیْہ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہ، نَذِیْرًا۔ (الفرقان : ۷)
بلکہ بنیادی طور پر اگر خدا پیغمبر بھیجنا چاہتا تو فرشتے کا رسالت کے لئے انتخاب کرتا۔
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلٓئِکَةً۔ (المؤمنون : ۲۴)
قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِکَةً۔ (فصلت : ۱۴)
نہ ہماری طرح بشر آپ پر کسی نے جادو کر دیا ہے اس وجہ سے آپ خیال کرتے ہیں کہ آپ پیغمبر ہیں، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
پیغمبر : کوئی اور بات بھی ہے؟
عبداللہ : ہاں ! اگر خدا چاہتا کہ ہماری طرف کسی پیغمبر کو بھیجے، تو لازمًا سب سے زیادہ ثروت مند اور سب سے زیادہ بااثر افراد کو ہم میں سے منتخب کرتا نہ آپ کو۔ یہ قرآن آپ کے خیال کے مطابق خدا نے آپ پر نازل کیا ہے، کیوں مکہ کی کسی بڑی شخصیت پر مثلًا ولید بن مغیرہ یا طائف سے مثلًا غروة بن مسعود پر اسے نازل نہیں کیا؟
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا کوئی اور بات بھی کہنا چاہتا ہے؟
عبد اللہ : ہاں ! ہم ہر گز آپ کی بات نہیں مانتے مگر یہ کہ آپ مکہ میں پانی چشمہ جاری کریں۔ جس طرح کہ آپ جانتے ہیں اس ساری سر زمین کو پہاڑیوں اور پتھروں نے گھیر رکھا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لائیں آپ ان پتھروں کو اس سرزمین سے اٹھا دیں بہت سے کنوئیں جاری کر دیں۔ مکہ میں کئی پانی کے چشمے رواں کر دیں کہ ہم بے حد ان کے ضرورت مند ہیں۔ یا چاہیے آپ کھجوروں اور انگرروں کے باغ کے مالک ہوں جس سے آپ خود اور ہم سب بہرہ ور ہوں اور ان باغوں کو پارہ پارہ کر دیں اور ہمارے سر پر گرا دیں۔ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دیں اس طرح کہ ہم ان کا مشاہدہ کریں۔ یا آپ سونے کے گھر کے مالک ہوں۔ یا آپ آسمان پر جائیں لیکن آپ کا آسمان پر جانا ہم اس وقت تک نہیں مانہیں گے کہ آپ خدا کی طرف سے اس مضمون کا خط لائیں۔ یہ خط بااقتدار حکیم خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ اور ان لوگوں کی جانب ہے جو اس کے ساتھ ہیں، میں لازم جانتا ہوں کہ میرے رسول، محمد، پر ایمان لاؤ اس کی گفتگو کی تصدیق کرو کیونکہ وہ میری طرف سے آیا ہے۔ لیکن ان تمام کاموں کے انجام کے بعد جو میں نے کہے ہیں پھر بھی میں نہیں جانتا کہ میں آپ کی رسالت کو قبول کرونگا یا نہیں !
بلکہ اگر آپ ہمیں آسمان پر بھی لے جائیں اس کے دروازے کھول دیں ہمیں اس میں داخل کر دیں تو ہم کہیں گے یہ آپ کی نظر بندی ہے یا آپ نے جادو کر دیا ہے :
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْہ یَعْرُجُوْنَ۔ لَقَالُوٓا إِنَّمَا سُکِّرَتُ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۔ (الحجر : ۱۴ ۱۵)
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس کے علاوہ کوئی بات نہیں رکھتا؟
عبداللہ : یہ تمام اعتراضات جو میں نے کہے ہیں کافی ہیں، میں کچھ اور کہنا نہیں چاہتا، ان اعتراضات کے جواب میں جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں کہہ دیجیے؟ جو دل میں رکھتے ہیں اس سے پردہ اٹھا دیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مقام پر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
بارِ الہٰا ! تو سب آوازوں کو، سب باتوں کو سنتا ہے، ہر چیز کو جانتا ہے یہ بھی جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے کیا کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آیات نازل کیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
یہ جو تو نے کہا ہے کہ میں تمہاری ماند بشر ہوں، غذا کھاتا ہوں، راہ چلتا ہوں یہ درست ہے لیکن امرِ رسالت خدا کے ہاتھ میں ہے کیا کیا جا سکتا ہے خدا نے مجھے پیغمبری کے لائق دیکاھا اور مجھے رسالت کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ یہ جو تو نے کہا ہے کہ بادشاہ، مشخص اور دولت مند افراد کو سفارت کے لئے منتخب کرتے ہیں کیوں خدا نے مجھے رسالت کے لئے منتخب کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تو ہر گز رسالت کے مقصد کو نہیں سمجھتا، خدا نے مجھے منتخب کیا ہے تاکہ تمہیں اپنی قدرت دکھائے کہ کس طرح تم کافی سازوسامان، طاقت و وسائل رکھنے کے باوجود مجھے نابود نہیں کر سکتے اور نہ تم معاسرے میں میرے اثر و نفوذ کو روک کستے ہو وہ بہت جلد مجھے تم پر کامران کرے گآ میں تمہارے ایک گروہ کو قتل کر دونگا، ایک گروہ کو قید و بند میں ڈال دوں گا، پھر وہ تمہارے شہروں کو میرے قبضہ میں دے دیگا۔
یہ جو تو نے کہا ہے کہ اگر میں پیغمبر ہوتا تو میرے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا جو میرے رسالت کی گواہی دیتا یا اگر خدا پیغمبر بھیجنا چاہتا تو کسی فرشتہ کو بھیجتا یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ کیونکہ تم فرشتہ کو دیکھ نہیں سکتے، بالفرض اگر تم فرشتہ کو دیکھنے کی قدرت پیدا کر لو تو کہو گے یہ فرشتہنہیں ہے بلکہ ہماری مانند بشر ہے کیونکہ اس صورت میں لازم ہے کہ وہ انسانی صورت میں تم پر ظآہر ہو تاکہ تم اس تماس و میل ملاپ کر سکو، اس کی بات سن پاؤ اس کے مقصد کو سمجھ سکو، اس لئے تم کہاں سے مجھ سکو گے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے؟
بلکہ خدا انسان کو پیغمبر کی حیثیت سے منتخب کرتا ہے اس کو معجزات دیتا ہے کہ دوسرے انسان جو اس کی مانند ہیں جو کسی طرح بھی ان معجزات کے انجام دینے کی توانائی نہیں رکھتے اور یہ اس کی رسالت پر خدا اکی عملی گواہی ہے۔
اگر فرشتہ بھی تم پر ظاہر ہوتا اور معجزات تنجام دیتا اس وجہ سے کہ اس کی حقیقت و ماہیت تم سے تفاوت رکھتی، تو تم یہ باور نہ کر پاتے کہ یہ معجزات خدا کی طرف سے ہیں اور خدا نے اسے یہ معجزات دے کر اس کی رسالت کی عملی گواہی دی ہے۔
لیکن یہ جو تو نے کہا ہے کہ میں جادو کے، زیرِ اثر نبوت کے تخیل میں گرفتار ہوا ہوں تم خود جانتے ہو کہ میرے تشخیص و تفکر کی قدرت تم سے بہتر ہے آیا بچپن سے اب تک کہ میں چالیس سال کا ہوں، تم نے مجھ میں جھوٹ، جر م، بات میں غلطی، عقیدہ میں بے عقلی مشاہدہ کی ہے؟
لیکن تونے جو یہ اعتراض کیا ہے کہ کیوں قرآن مکہ یا طائف کی کسی معروف شخصیت پر نازل نہیں ہوا؟خدا تیری مانند دولت و ثروت اور دولت مند کی قدر و قیمت کا قائل نہیں ہے جو شخص شائستگی و صلاحیت رکھتا ہے وہ اسے معاشرے کا ہادی و رہبر قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ چاہتیں جن کا تو نے سندِ نبوت کے طور پر مجھ سے مطالبہ کیا ہے یہ چاہتیں چند نوع کی ہیں :
نوع اول : وہ امور کہ بالفرض اگر میں انہیں انجام دوں وہ میرے نبوت کی دلیل نہیں ہو سکتے خدا کا پیغمبر لوگوں کی جہالت کو غنیمت شمار نہیں کر سکتا کہ ان دلائل سے اپنی رسالت کو ثابت کرے جو حقیقت میں دلالت نہیں رکھتے۔
نوع دوم : تیر نابودی کا موجب ہے، دلیل کا لانا مذہب پر ایمان لانے کے لئے ہے نہ لوگوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے۔
نوع سوم : ان کا جامہ حقیقت پہننا عقل کی نظر سے امکان پذیر نہیں ہے۔
نوع چہارم : وہ امور جو ثابت کرتے ہیں کہ تو ایک ضدی، ڈھیٹ و ہٹ دھرم شخص ہے کہ تو کسی صورت میں آمادہ نہیں ہے کہ حقیقت کو قبول کرے اور جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو اس کا علاج، بلائے آسمانی، دوزخ یا دوستانِ خدا کی تلوار ہے۔ لیکن وہ مطلب جو سندِ نبوت کے لئے تو نے مجھ سے طلب کیا ہے (چشمہ کا جاری کرنا) تیرے سوال سے ظاہر ہے کہ تو اس کو انسان کے خدا کے ساتھ ارتباط کی دلیل نہیں جانتا، اگر میں نے یہ کام کر دیا کیا یہ میری نبوت کی دلیل ہے؟
عبداللہ : نہیں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : تو خود طائف میں باغات رکھتا ہے کیا ان میں سے بعض باغات اس سے پہلے کہ اس صورت میں آئیں، سخت، ناہموار اور بن پانی کی زمینیں نہیں تھیں، جو تیری فعالیتوں سے ہموار ہوئے اور ان میں پانی کے چشمے جاری ہوئے؟
عبداللہ : کیوں نہیں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تیری مانند دوسرے لوگ بھی ہیں جنہوں نے باغات لگائے ہیں؟
عبداللہ : جی ہاں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا اس عمل سے تو اور وہ پیغمبر ہو گئے؟
عبداللہ : نہیں تو
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس بناء پر چشمہ کا جاری کرنا میری (محمد) نبوت کی سند نہیں ہو سکتا ہے اور تیرا یہ کہنا حقیقت میں اس کی مانند ہے کہ تو کہے ہم تجھ پر ایمان نہیں لاتے مگر یہ کہ تو اٹھ کھڑا ہو راہ چلے یا لوگوں کی مانند غذا کھائے۔
لیکن دوسری درخواست کہ میں خرما اور انگوروں کے باغات کا مالک ہوں، تو کیا تو اور تیرے رفقاء طائف میں اس قسم کے باغات نہیں رکھتے؟ کیا ان باغوں کے رکھنے سے تم پیغمبر ہو گئے ہو؟
عبداللہ : نہیں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : پس تم کیوں پیغمبر سے خدا سے ارتباط کی دلیل کے لئے ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتے ہو کہ ان کا انجام دینا اس کی صداقت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کے کذب و جھوٹ کی دلیل ہے کیونکہ وہ ایسے امور سے استدلال کرتا ہے کہ علمی نقطہ نظر سے ان سے ہم استدلال نہیں کر سکتے ہیں۔
تیسری درخواست۔ آسمان کا گرانا، جو تمہاری اور دوسروں کی نابودی کا موجب ہو گا لیکن پیغمبرِ خدا کی محبت تیرے ساتھ اس سے کہیں زیادہ ہے وہ تجھے نابود نہیں کرتا بلکہ دلیل کے ساتھ، حقیقت کو تجھ پر ثابت و روشن کرتا ہے۔
لیکن دلیل اثبات نبوت۔ معجزہ، یہ لوگوں کے انتخاب پر نہیں ہے کیونکہ لوگ مصالح و مفاسد کو نہیں جانتے، کبھی اَن ہونے اور محال کاموں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا : ” کیا طبیب بیماروں کی دوا ان کے انتخاب پر چھوڑ دیتا ہے؟ مسلّم ہے کہ اس طرح نہیں ہے بلکہ وہ دوا جسے وہ خود سود مند دیکھتا ہے، دیتا ہے خواہ بیمار چاہے یا نہ چاہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر حق کا مدعی ہے قاضی اسے یہ نہیں کہہ سکتا، جو دلیل تو لانا چاہتا ہے وہ مدعا الیہ کے میلان کے مطابق ہونی چاہیے، اس کے انتخاب پر مقرر ہو اگر اس طرح ہوتا تو کوئی شخص اپنے حق کو ثابت نہ کر پاتا۔
لیکن چوتھی درخواست، (خدا اور فرشتوں کا حاضر کرنا) اَن ہونی اور محال بات ہے کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خالق، مخلوق کی مانند نہیں ہے کہ وہ آئے جائے، حرکت کرے، کسی چیز کے سامنے قرار پائے تاکہ حاضر ہونے کے قابل ہو۔
میں پوچھتا ہوں کہ تو طائف و مکہ میں زمینوں، باغوں، نوکروں کا مالک نہیں ہے؟
عبداللہ :کیوں نہیں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تو اپنے سب کام خود انجام دیتا ہے یااپنا کوئی نمائندہ رکھتا ہے۔
عبداللہ : نمائندہ رکھتا ہوں۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اگر کارکن تیرے نمائندہ کو کہیں ہم اس صورت میں تیری نمائندگی مانتے ہیں کہ شخصًا عبداللہ تیرے ساتھ ہو کیا یہ صحیح ہے؟
عبداللہ : نہ
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس لئے تیرے نمائندے اپنی زندگی کے اثبات کے لئے کیا کریں؟ کیا اس طرح نہیں ہے کہ اگر تیری طرف سے درست نشان جو تیرے صدق پر دلالت کرے اپنے ہمراہ رکھتے ہوں، تو کارکنوں پر لازم ہے کہ وہ ان کی تصدیق کریں؟
عبداللہ : کیوں نہیں، اس طرح
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :اب اگر کارکن تیرے نمائندہ کو قبول نہ کریں، نمائندہ لوٹ آئے اور کہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تو خود میرے ساتھ آئے اور جب تک تو نہ آئے میں نہیں جاتا کیا نمائندہ تیرا مخالف شمار نہیں کیا جائے گا؟ اور تو اسے یہ نہیں کہے گا کہ تو صرف میرا نمائندہ ہے نہ میرا مشیر اور میرا فرمانروا؟
عبداللہ : کیوں نہیں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کس طرح وہ درخواست جو اپنے مزارعین و نمائندوں سے صحیح نہیں سمجھتا، تو خود وہی درخواست خدا کے نمائندہ سے کرتا ہے یہ اس امر کی قاطع دلیل ہے جو تیری تمام درخواستوں کو باطل کر دیتی ہے۔
لیکن پانچویں درخواست کے بارے میں (سونے کا محل رکھنا) تو جانتا ہے کہ مصر کا بادشاہ سونے کا محل رکھتا ہے؟
عبداللہ : ہاں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا وہ ایسا رکھنے سے خدا کا پیغمبر ہو گیا ہے؟
عبداللہ : نہیں
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اسی دلیل پر سنہری قصر و محلات محمد کی دلیل نہیں ہو سکتے اور محمد جہالت کو غنیمت نہیں جانتا کہ وہ اس قسم کی دلیلوں سے اپنی نبوت کو ثابت کرے۔
لیکن چھٹی درخواست کے بارے میں (آسمان پر جانا اور خط لانا) آسمان کی بلندیوں پر جانا اس سے نیچے اترنے سے زیادہ مشکل ہے اور تو نے کہا ہے کہ اگر میں آسمان کی بلندیوں پر جاؤں تو بھی تو ایمان نہیں لائے گا، جب اوپر جانا تیرے ایمان کا سبب نہیں ہو گا تو میرا لوٹنا بھی تو اس طرح ہے۔
اس کے علاوہ تو نے کہا ہے کہ میں خدا کی طرف سے خط بھی لاؤں، ان تمام درخواستوں کے انجام پانے کے بعد میں نہیں جانتا کہ تیری رسالت کو قبول کروں یا نہ کروں۔ اس کے لئے خودتیرے ہی اعتراف پر تو ایک ضدی و ہٹ دھرم آدمی ہے کہ حقیقت کے روشن ہونے پر بھی تو اس کو قبول کرنے پر حاضر نہیں ہے پس تیرے لئے صرف شفا بخش دوا مجاہدین کی تلوار ہے۔
خدا نے تیرے تمام سوالات کے جواب میں صرف یہی ایک ہی جملہ وحی کیا ہے کہ کہہ دیجیے :
سُبْحَانَ رَبِّي ھَلْ کُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ (الاسراء : ۹۳)
پاک و منزہ ہے میرا خدا میں تو صرف بشر ہوں خدا کا رسول
میرے پروردگار کی ذاتِ اقدس اس سے کہیں دور ہے کہ وہ جاہل لوگوں کی چاہتوں کو جامہ عمل پہناہے، میں بھی تمہاری مانند انسان ہوں اور خداکی نمائندگی کا منصب رکھتا ہوں مجھ پر لازم نہیں ہے سوائے اس دلیل کے جو سندِ نبوت کے عنوان سے مجھے دی گئی ہے کوئی دوسری دلیل لاؤں۔ (بحار الانوار، ج ۲۶۹ ۲۸۰ تلخیص)
باب : ۴
فلسفہ تخلیقِ انسان، زندگی، موت اور مختلف فلسفی مسائل پر امام جعفر صادق علیہ السلام اور جابر بن حیان کے درمیان گفتگو
وحدت الوجود، خدا حرکت نہیں ہے، فلسفہ احکام و علم ہمہ گیر ہونا، فلسفہ نسخ و تغیر و قبلہ کا فلسفہ، کعبہ کو قبلہ قرار دینے کا فلسفہ و فلسفہ خود کشی و کاہلی و سستی و قمار و جنون و پریشانی و بدحالی و موت کا فلسفہ، فلسفہ زندگی و فلسفہ تخلیق و بڑھاپے میں حافظء کم ہونے کا فلسفہ، بڑھاپے کا فلسفہ، بیماری کا فلسفہ، آغازِ تخلیق و اختتام دنیا، سرمایہ دار و ثروت مند و محنت کش طبقہ
امام جعفر صادق علیہ السلام اولین استاد ہیں جنہوں لے شاگرد اور استاد اور شاگردوں کے درمیان باہم مباحثہ کی سنت کو رواج دیا اور یہ سنت ان کے بعد مدارسِ اسلامی خصوصًا مدارسِ شیعہ میں جاری ہوئی اور شاگرد ہر درس کے بعد باہم مباحثہ کرتے تھے تاکہ استاد کے درس کو بہتر سمجھ سکیں۔
ایک روز جب امام فلسفہ کی تدریس فرما رہے تھے، فرمایا کہ ہر چیز حرکت رکھتی ہے اور اگر حرکت نہ ہو گی تو کوئی چیز وجود نہیں رکھے گی، یعنی اس شکل کی رکھنے والی نہ ہو گی جو ہم دیکھتے ہیں نہ یہ کہ وہ مٹ جاتی ہے اس لئے وجود مٹتا نہیں ہے لیکن دوسری شکل میں تحول و تغیر پیدا کر لیتی ہے۔
جابر بن حیان : کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو حرکت نہ رکھتی ہو؟
امام : میں اس بارے میں کوئی شک و تردد نہیں رکھتا۔
جابر : کیا آواز حرکت رکھتی ہے؟
امام : ہاں ! لیکن اس کی حرکت و رفتار، نور کی رفتار سے زیادہ سست ہے کیونکہ جب تو راہ میں دور سے دیکھتا ہے کہ ایک مرد، لوہار کی دوکان میں سندان پر ہتھوڑا مارتا ہے اسی لمحہ، ہتھوڑے کے نیجے آنے کے بعد نور کی ایک چنگاری سی سندان اور ہتھوڑے پر چمکتی ہے اسے تو دیکھتا ہے لیکن سندان پر ہتھوڑے کے پڑنے کی آواز چونکہ نور کے اندازہ پر سرعت نہیں رکھتی اس لئے دیر سے تریے کانوں پہنچتی ہے۔
جابر : کتنی دیر سے پہنچتی ہے؟
امام : یہ مبدا آواز سے تجھ تک فاصلہ سے وابستہ ہے۔ نزدیک کے فاصلہ پر چند لمحہ بعد دور کے فاصلوں پر تو دیر سے سنے گا۔
جابر : کیا فاصلوں کو ماپا گیا ہے؟
امام : ہاں ! یونان کے ایک حکیم ارشمیدس نے فاصلوں کو ماپا ہے اس نے کہا ہے اگر انسان مبدا آواز سے چار وسو ذراع (ایک پیمانہ ہے) فاصلہ رکھتا ہوگا تو آواز آٹھ سیکنڈ میں سنائی دے گی اسی نسبت سے فاصلہ جتنا زیادہ ہوگا آواز اتنی دیر سے سنائی دے گی۔
جابر : اس حساب کی رو سے خدا جس وقت چاہے گا کہ وہ پیغمبروں میں سے کسی ایک کے ساتھ گفتگو کرے تو اسے ہزاروں سال کی طولانی مدت چاہیے تاکہ ساتویں آسمان کے ماوری سے اس تک آواز پہنچے۔
امام : یہ جو کہتے ہیں کہ خدا آسمانِ ہفتم کے ماوریٰ ہے یہ ایک عامیانہ بات ہے، خدا ہر جگہ ہے کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں خدا نہ ہو، اس بنا پر خدا اور پیغمبروں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر بالفرض خدا ساتویں آسمان سے ماوریٰ بھی ہو تو ایک ہی لمحہ میں اس کی آواز پیغمبر کے کان میں پہنچتی ہے کیونکہ خدا کی آواز تمام موجودات کی مانند نہیں ہے جو مسافت کے طے کرنے کی احتیاج رکھتی ہو۔ اسی طرح کہ خدا نے ایک ہی لمحہ میں دنیا کو خلعت وجود یا وہ اپنی آواز کو بھی دُنیا کے دُور ترین نقطہ سے ایک ہی آن میں پیغمبر کے کانوں تک پہنچا سکتا ہے۔
جابر : اگر دنیا ایک ہی لمحہ میں وجود میں آئی ہے تو کس لئے یہ کہا گیا ہے کہ خدا نے دنیا کو چھ روز میں پیدا کیا ہے؟
امام : دنیا کا اصل مواد ایک آن میں ہی وجود میں آیا ہے، چھ روز کی مدت میں دنیا نے تحوّل، تغیر اور تکامل پیدا کیا ہے اور اس شکل میں آئی ہے جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ تخلیق کے آغاز میں دنیا یہ شکل نہیں رکھتی تھی، ایک طولانی مدت کا تحول و تغیر اس کا سبب بنا کہ دنیا نے یہ شکل و صورت پائی۔ چھ روز کی مدت جو کلامِ خدا میں آئی ہے اس لئے تھی کہ عوام اس کو سمجھیں اور تو یہ تصور نہ کر کہ خدا کے چھ روز کی مدت، میرے اور تیرے چھ روز کی مانند ہے لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ تحول و تغیر کے چھ دور وجود رکھتے ہیں تب دنیا اس شکل میں آئی ہے۔
وحدت الوجود :
جابر : آپ نے فرمایا ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے؟
امام : ہاں، میں نے کہا ہے اور اس امر کا میں عقیدہ رکھتا ہوں۔
جابر: اس بنا پر آپ کو تصدیق کرناچاہیے کہ خدا ہر چیز میں بھی ہے؟
امام : ہاں
جابر : اس بنا پر ان لوگوں کا عقیدہ صحیح ہو گا جو کہتے ہیں کہ خالق و مخلوق ایک ہی چیز ہیں (وحدت الوجود) جب ہم اس کے معتقد ہوگئے ہیں کہ خدا ہر چیز میں ہے تو ہمیں تصدیق کرنی چاہیے کہ ہر چیز حتی کہ پتھر، پانی، نباتات خدا ہیں؟
امام : اس طرح نہیں ہے۔ تو اشتباہ کرتا ہے۔ خدا پتھر، پانی اور نباتات میں ہے لیکن پتھر، پانی اور نباتات خدا نہیں ہیں جس طرح کہ روغن چراغ میں ہے لیکن چراغ روغن نہیں ہے۔ اگر یہ عقیدہ صحیح ہو تو اس دنیا کے موجودات میں سے ہر ایک قدرتِ خدائی کی مالک ہو کیونکہ وہ خدا ہیں۔ کیا ان لوگوں میں سے کسی نے بھی، جو خالق و مخلوق کی وحدت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں خود کو خدا جانتے ہیں، کوئی ایسا کام کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ خدائی صفات کے مالک ہیں؟
اے جابر ! جان لے، اگرچہ خدا ہر جگہ اور ہر چیز میں ہے لیکن وہ امکنہ و اشیاءِ خدا نہیں ہیں اور تمام مخلوقِ خدا ہیں۔ وہی ہے جو حرکات کو جنم دیتا ہے۔ حرکات کی ایجاد سے اس کا سبب بنتا ہے کہ جمادات کو جمادی زندگی، نباتات کو نباتی زندگی اور حیوانات کو حیوانی زندگی میسر آئے۔
اس کے باوجود کہ حیات بغیر حرکت کے امکان پذیر نہیں ہے تاہم کوئی موحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا وہی حرکت ہے کیونکہ حرکت بھی، دوسری چیزوں کی مانند خدا کی مخلوق ہے جو دوسری مخلوقات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔
خدا حرکت نہیں ہے :
جو یونانی حکماء یہ کہتے تھے کہ حرکتِ خدا ہے وہ اشتباہ کرتے تھے، حرکت اتنے تک وجود میں نہیں آتی جب تک کوئی طاقت اسے وجود میں نہ لائے جب تک وہ طاقت ہو، حرکت قائم دائم رہتی ہے اس کے بعد کہ وہ قوت درمیان سے جاتی رہے حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
حرکت چونکہ طاقت سے وجود میں آتی ہے اس لئے مخلوق ہے نہ خالق، وہ طاقت جو حرکت کو وجود میں لاتی ہے وہ خدائی طاقت ہے۔ لیکن ایک موحد اس کو قبول کر سکتا ہے کہ حرکت دوسری چیزوں کو وجود میں لاتی ہے اور یہ عقیدہ، توحید کے عقیدہ کے مغائر و خلاف نہیں ہے کیونکہ خدا نے دنیا کے امور و نظام کو چلانے کے لئے اسباب کو وجود دیا ہے اور اسباب میں ایک حرکت کا اصول ہے۔
حکماء یونان میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ حرکت مادہ اور مادہ حرکت، اور مادہ کے انتہائی مرحلہ میں حرکت کے سوا کوئی چیز نہیں ہے، اگر مادہ میں حرکت ختم ہو جائے تو وہ نیست و نابود ہو کر رہ جائے۔
اے جابر ! یونان کے بعض حکماء نے حتی کہ فکر کو بھی مادہ کا جزء شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ مادہ کے بغیر فکر کا کوئی وجود نہیں ہے جس طرح بغیر پھول کے اس کے عطر کی خوشبو کسی کے مشام جان میں نہیں پہنچتی۔ لیکن وہ اس قول سے اپنے نظریہ کا انکار کرتے تھے۔ کیونکہ حکمت میں کیا یونانیوں کے زمانہ میں کیا آج اصل یہ ہے کہ کوئی چیز مٹ کر بالکل نابود نہیں ہو جاتی، وہ صرف شکل و صورت بدلتی ہے، پس انسان بھی مٹتا نہیں ہے، موت کے بعد شکل و صورت کو بدلتا ہے، اس کی فکر بھی اس کے مانند تبدیل ہو جاتی ہے۔ بلاشک و ریب وہ دوسری شکل میں باقی رہتی ہے اور جو چیز انسان کے مرنے کے بعد اس کے معنوی عوامل و صفات سے باقی رہ جاتی ہے وہ اس کی روح ہے۔
فلسفہ احکام :
اے جابر ! جب ایک صاحبِ ایمان شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اصول دین حقیقت رکھتے ہیں تو وہ احساس لذت کرتا ہے یہ لذت انسان کی فطرت و سرشت کا جزء ہوتی ہے اور انسان اپنے کو کامل و منظم دیکھ کر لطف و لذت اٹھاتا ہے۔
جابر : لیکن افسوس مذہبی حقائق عوام پر اتنے روشن نہیں ہیں اور اس قوت سے محروم ہیں؟
امام : ان کی محرومیت اس لئے ہے کہ وہ عالم نہیں ہیں اس لئے میں ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہوں اور لوگوں کو کہتا ہوں کہ وہ علم حاصل کریں۔
جابر : کیوں علم کے حقائق اس طرح نازل نہ ہوئے کہ تمام لوگ ان کو سمجھیں؟
امام : نہ صرف حقائق اسالم بلکہ ان ادیان کے حقائق بھی جو اسلام سے قبل خدا کی طرف سے مقرر تھے نازل نہ ہوئے کہ تمام لوگ ان حقائق کا سراغ پا کر ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اے جابر ! جان لے کہ دین، فلسفہ سے الگ ہے۔
ایک حکیم جب اپنے نظریہ کا اظہار کرتا ہے تو وہ عوام سے کوئی سروکار نہیں رکھتا وہ نہیں چاہتا کہ اس کے فلسفی نظریہ کو عام لوگ سمجھیں یعنی وہ جانتا ہے کہ عوام اس کے فلسفی نظریہ کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے چنانچہ جو کچھ وہ کہتا ہے علماء حکماء کے لئے کہتا ہے ان کے لئے فلسفی ذوق رکھتے ہیں، اپنے نقطہ نظر کو زبان پر لاتا ہے جو کچھ کہتا ہے ان کی عقل کو خطاب ہوتا ہے۔ لیکن دین ایک فلسفی نظریہ سے الگ چیزہے۔
ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مبعوث ہوئے کہ دینِ اسلام کو لوگوں کے اندر رواج دیں۔ اس دین کو تمام افراد بشر کے لئے لائے نہ مخصوص اس طبقہ کے لئے جو عقل و فہم میں دوسرے طبقات سے بلند تر ہیں اور ہر چیز کو قبول کرنے کے لئے عقلی دلیل چاہتے ہیں۔ اور اسی طرح دوسرے پیغمبر بھی۔
بات یہ ہے کہ پیغمبر ناچار تھے کہ وہ حقائقِ دین کو سادہ ترین شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کریں اور ہر حقیقت کے اثبات کے لئے دلیل نہ لائیں اس لئے کہ لوگ ہر دینی حقیقت کا سراغ نہیں پا سکتے تھے اور آج بھی وہ تمام حقائقِ دین کی مصلحت کو سمجھ سکیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ حتی اگر کوئی شخص سادہ ترین بیان کے ساتھ حقائق دین کو کسی دلیل سے ثابت کرنا چاہے پھر بھی وہ بعض حقائق کی مصلحت کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حقائق دین لوگوں کے عقیدہ کے لئے نازل ہوتے ہیں نہ ان کی عقل کے لئے مگر وہ لوگ جو مضبوط و قوی عقول کے مالک ہیں اور وہ احکام دین کی مصلحت کو اپنی عقل سے سمجھتے ہیں۔
مسائلِ حکمت عقلِ انسانی کے ساتھ سروکار رکھتے ہیں اور مسائلِ دین لوگوں کے ایمان کے ساتھ مسلمانوں میں سے وہ افراد و علماء و دانشور جو علم سے پیدا ہونے والے رشد فکری سے بہرہ ور ہیں وہ فلسفہ احکام کا سراغ پا سکتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے وہی ایمان کافی ہے۔
فلسفہ احکام کی ہر توضیح عوام کے لئے بے فائدہ ہے کیونکہ ایک علمی وضاحت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اگر عالم اور صاحبِ حکمت نہ ہو تو بھی کم از کم اس نے مقدمات علم کو طے کیا ہو۔
جابر : مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کیوں عوام فلسفہ احکام اور کلامِ خدا کے وسیع مفہوم کو نہیں سمجھ پاتے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اگر وہ ان نکات سے آگاہ ہو جائیں تو دینِ خدا، آج سے زیادہ رواج پا جائے گا؟
امام : تمام گذشتہ ادیان میں ہمیشہ ایک اقلیت جو احکامِ دین کو اچھی طرح سمجھتی تھی یا قوانین میں سے ہر ایک کے فلسفہ سے آگاہ تھی، مذہبی لحاظ سے لوگوں کی ہدایت و رہبری کے منصب پر فائز ہوتی تھی، اسلام میں بھی اسی طرح سے اور موجودہ صورت میں اور آئندہ بھی مسلمان علماء کی ایک اقلیت دینی لحاظ سے لوگوں کی رہبری وقیادت کے لئے عہدہ دار ہوں گی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ حالت اس وقت تک قائم و دائم رہے گی جب تک علم ہمہ گیر نہ ہو جائے گا۔
علم کا ہمہ گیر ہونا :
جابر : کیا ممکن ہے کوئی ایسا دن آئے کہ علم ہمہ گیر ہو جائے؟
امام : ایک دن ایسا آئے گا کہ نوعِ بشر یہ سمجھ جائے گی کہ تمام لوگوں کے لئے لازم ہے کہ وہ عالم ہو جائیں، اور ایسے وسائل فراہم کریں گے جس سے تمام تحصیل علوم کریں اور علم سے بہرہ ور ہوں۔
جابر : اس روز لازمًا تمام لوگ اہلِ علم و دانش ہو جائیں گے؟
امام : نہیں، حتی اس روز بھی تمام لوگ عالم نہیں بن جائیں گے کیونکہ لوگوں کی استعدادیں اور صلاحتیں متفرق و متفاوت ہوتی ہیں۔ اس صورت میں اگرچہ علم و دانش کے حصول کے وسائل سب کے لئے فراہم ہوں گے، لیکن پھر بھی ایک گروہ استعداد نہ رکھنے کی وجہ سے تحصیل علم چھوڑ دے گا اور دوسرے رشتہ کو لیلے گا، اس لئے کسی دَور بھی ایسی صورت حال پیش نہیں آئے گی کہ تمام لوگ اہلِ علم و دانش بن جائیں۔
لیکن اس کے باوجود، عوام آج کی حالت میں نہیں ہوں گے اس لئے کہ ہر شخص ان دنوں کسی حد تک علم حاصل کر لے گا، کم از کم لکھا پڑھا ہو گا باسواد ہو گا۔ اس لئے علماء ان کو حقائقِ دین سمجھا سکیں گے اور میں امیدوار ہوں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اگر تمام لوگ حقائق دین سے آگاہ نہیں ہوں گے تاہم ان کی اکثریت حقائق اسلام کو سمجھے گی۔
فلسفہ نسخ :
جابر : کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے قبلہ کو تبدیل کر دیا؟
امام : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے حکم کے مطابق اس کام کو کیا۔
جابر : کیا خدا، دانائے مطلق نہیں ہے؟
امام : کیوں نہیں
جابر : ہماری زندگی میں ارادہ کو بدلنا ہماری جہالت و نادانی کی وجہ سے ہے، خداوند جو دانائے مطلق ہے اور ہر چیز کو ہمیشہ کے لئے جانتا ہے اسے نہیں چاہیے کہ اپنے ارادہ کو بدل دے، پس اس نے ابتداء میں یہ حکم دیا تھا کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھیں کیوں ایک مدت کے بعد اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور حکم دیا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں؟
امام : اے جابر ! تیرے استدلال کا ایک پہلو ٹھیک ہے لیکن دوسرا پہلو ٹھیک نہیں ہے اور اس سے بد تر یہ ہے کہ تو نے تیسرے پہلو کو پیشِ نظر نہیں رکھا ہے۔
جابر : کونسا پہلو؟
امام : لوگ ! تو اس طرف متوجہ نہیں ہوا کہ خدا قوانین کو انسان کے لئے وضع کرتا ہے نہ کہ جمادات کے لئے، جمادات کی زندگی ایک طرح کی ہے اس لئے ان سے مرجوط قوانین بھی ثابت ہیں، لیکن انسان کی اجتماعی زندگی تغیر پذیر ہے، خدا ہر دور میں نوعِ بشر کی زندگی کے تقاضوں کے مطابق، خاص قوانین اپنے پیغمبروں کے وسیلہ سے ان کے لئے وضع کرتاہے۔
خدا ابتدا ہی سے جانتا تھا کہ مسلمانوں کو حکم دے کہ وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھیں، نیز یہ بھی جانتا تھا کہ ایک مدت کے بعد ان کے قبلہ کو تبدیل کر دیگا۔ یہ میں اور تو ہیں جو یہ تصور کرتے ہیں کہ خدا کہ احکام میں تغیر ہوا ہے لیکن وہ خود جانتا ہے کہ اس کے قوانین ثابت ہیں۔ میں دو مثالیں دیتا ہوں تاکہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تو بخوبی سمجھ جائے۔ وہ مکھی جو بہار کے آدھ میں پیدا ہوتی ہے اگر وہ موسم سرما تک زندہ رہے۔ اور موسم سرما کی سردی سے دوچار ہو، وہ سوچتی ہے کہ دنیا کے قوانین دگرگوں ہو گئے ہیں لیکن میرے اور تیرے لئے بھی مطلب اسی طرح ہے؟
جابر : نہیں
امام : میں اور تو جب یہ پیش بینی کر رہے تھے کہ گرمیوں کے بعد سردیاں آئیں گی ہماری نظر میں دنیا کے خالق کے ثابت قوانین میں کسی قسم کے تغیر کا خیال نہیں آیا۔
دوسری مثال : ہم فرض کرتے ہیں کہ تو ایک ملکیت کا مالک ہے اور اسے تو ایک شخص کے اختیار میں ایک سال کے لئے دے دیتا ہے، لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہ اسے محدود مدت کے لئے دی گئی ہے ایک سال کے گزرنے کے بعد جب تو چاہتا ہے کہ اس ملکیت کو اس سے واپس لے لے وہ تعجب کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ تیرا ارادہ بدل چکا ہے، حالانکہ تیرا ارادہ ابتدا ہی سے مؤقّت تھا۔
خدا کے قوانین بھی جو ہماری نظر میں متغائر یا متضاد دکھائی دیتے ہیں اسی طرح ہیں لیکن خداوند جو قوانین بھی مقرر کرنا چاہتا ہے اس نے ابتدا ہی سے ان کی پیش بینی کر رکھی ہے اس کے لئے متضاد ارادے کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔
جابر : میرا عقدہ کھل گیا ہے اب تک قبلہ کی تبدیلی کا مسئلہ میرے لئے بڑا سنگین اور میری روح پر بوجھل تھا، لیکن پھر بھی اسی موضوع کے متعلق میرا ایک سوال ہے؟
امام : سوال کر
تغیر قبلہ کا فلسفہ :
جابر : اس کا فلسفہ کیا ہے کہ ابتدا میں خدا نے حکم دیا کہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھیں، پھر حکم دیا کعبہ کی طرف؟
امام : جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی رسالت کا آغاز کیا، مسلمان بہت کم تھے اور ناتواں اس کے برعکس یہود و مسیح کے مکاتب کے پیرو اکثریت رکھتے تھے اور طاقتور تھے، قبلہ کے موضوع میں ان کے ساتھ مخالفت کرنے اسے ان کا غیض و غضب بھڑک اٹھتا، اس لئے خدا نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھیں تاکہ یہودی و مسیحی جو بیت المقدس کے لئے انتہائی احترام کے قائل ہیں مسلمانوں کو کینہ و دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں اور ان کو اپنا دشمن نہ جانیں اور ان کے مٹانے کے درپے نہ ہوں۔
کعبہ کو قبلہ بنانے کا فلسفہ :
جابر : اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح آپ فرماتے ہیں، مسلمانوں کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے نے کسی حد تک یہودیوں اور مسیحوں کو مطمئن کر دیا لیکن کیوں کعبہ بطور قبلہ منتخب ہوا کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی اور مکان منتخب کیا جاتا؟
امام : کیا تو پیغمبر اسلام کے ھاتھوں فتح مکہ سے پہلے کعبہ کی حالت کو جانتا ہے؟
جابر : جی یاں، وھاں بت خانہ تھا۔
امام : ان بتوں کو کون پوجتا تھا؟
جابر : جزیرةالعرب کے کوگ۔
امام : جزیرةالعرب میں لوگ بت پرست تھے؟
جابر : سوائے یہودیوں اور گنتی کے عیسائیوں کے، تمام لوگ۔
امام : عرب کے تمام قبائل کعبہ میں بت رکھتے تھے، اس وجہ سے کعبہ عرب کے تمام لوگوں کے لئے محترم تھا، جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو کہا کہ وہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں نہ صرف انہوں نے اس حکم پر حیر ت نہ کی بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا اس سے کہیں زیادہ آسان ہو گیا کہ وہ بیت المقدس کی طرف نمازپڑھیں۔
جابر : لیکن اسلام جزیرة العرب تک محدود نہیں ہوا اس نے مشرق و مغرب میں بھی وسعت پائی۔
امام : اسی طرح ہے۔
جابر : کعبہ ان کے لئے جو عرب نہیں تھے قابلِ احترام نہیں تھا؟
امام : اس کے بعد جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمِ خدا سے کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا وہ اقوام جو عرب نہیں تھیں اسلام لانے کے بعد کعبہ کے لئے انہوں نیاحترام کا احساس کیا، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا کعبہ کی طرف نماز پڑھنے نے اسلام کے لئے ایک عظیم روحانی مرکزیت پیدا کر دی، جس کی نظیر گذشتہ ادیان میں سے کسی ایک میں بھی وجود نہیں رکھتی۔
جابر : کیا نماز کے لئے کعبہ کی مرکزیت کی اہمیص زیادہ ہے یا حج کے لئے اس کی مرکزیت کی اہمیت زیادہ ہے؟
امام : نماز کے لئے اس کی مرکزیت کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ بہت سے مسلمان ایک بار بھی زندگی بھر میں مکہ نہیں جا سکتے ہیں لیکن ہر مسلمان دنیا کے ہر نقطہ سے دن میں پانچ بار کعبہ کی طرف نماز پڑھتا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر دن رات میں پانچ بار دنیا کے تمام مسلمانوں کی نگاہیں کعبہ کی طرف اٹھتی ہیں گویا کہ دنیا بھر کے تمام مسلمان رات دن میں پانچ مرتبہ ایک دوسرے سے آنکھیں ملاتے ہیں۔
نیز دنیا کے تمام مسلمانوں کی باتیں بھی وہاں پہنچتی ہیں دنیا کے مشرق و مغرب میں کروڑوں مسلمانوں کی تکبیریں کعبہ میں سنائی دیتی ہیں یہ مرکزیت گذشتہ ادیان میں سے کسی ایک میں وجود نہیں رکھتی اور آئندہ بھی وجود میں نہیں آئے گی۔
فلسفہ خود کشی :
جابر : بعض لوگ خود کشی اور اپنی جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
امام : وہ لوگ جو خود کشی کرتے ہیں وہ مذہبی ایمان نہیں رکھتے، ایک مذہبی آدمی خودکشی نہیں کرتا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو نے آج تک کسی باایمان مسلمان کو نہیں دیکھا ہو گا جس نے خود کشی کی ہو۔
مسلمان ممکن ہے جہاد میں قتل ہو جائے لیکن اپنے ہاتھوں کو اپنے خون سے آلودہ نہیں کرتا۔ اس مسئلہ سے قطعِ نظر، جو چیز خود کشی کا موجب بنتی ہے یہ ہے کہ اس شخص میں زندہ رہنے کا ارادہ سست ہو جاتا ہے۔ یہ ارادہ کا سست پڑ جانا بھی کئی وجوہ رکھتا ہے :
1۔ کاہلی و سستی :
کبھی انسان اتنا سست ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کام کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا سکتا، زیادہ کاہلی اس میں یاس و نامیدی پیدا کر دیتی ہے، مایوسی اس کو خودکشی پر آمادہ کرتی ہے۔
2۔ قمار و (جوا)
قمار جو ہمارے دین میں محرمات میں سے ہے اس کا موجب بنتا ہے کہ وہ شخص جو کچھ رکھتا ہے تھوڑی سی مدت میں اسے ہاتھوں سے دے دے اور وہ اپنی ایک عمر کے کاموں کا نتیجہ بہت ہی مختصر مدت میں ہاتھوں سے دے دیتا ہے اس طرح ناامیدی اس پر غالب آتی ہے اور وہ خود کشی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔
3۔ جنون :
یہ علت بھی اکثر افراد میں موروثی ہے یہ آباو اجداد کی شارب نوشی سے پیدا ہوتی ہے۔ (ان اعداد و شمار کے مطابق جو چند سال پہلے فرانس میں تیار کئے گئے بیماریوں میں چالیس فیصد، دیوانہ پن میں سے پچاس فیصد فرانس میں شراب نوشی کی وجہ سے ہیں ایک جرمن ڈاکٹر حکومت جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے تم آدھے شراب خانوں کے دروازے بند کر دو تاکہ میں ضمانت دوں کہ ملک آدھے ہسپتالوں سے بے نیاز ہو جائے گا) ۔
لیکن اس قسم کا جنون مسلمانوں میں نہیں ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتے ہیں لیکن وہ قومیں جن میں شراب نوشی رواج رکھتی ہے اور ان کی عادت کا جز بن گئی ہے ان کے بچوں میں ممکن ہے یہ دو بیماریوں وجود میں آئیں ایک جنون دوسرے لقوہ۔
4۔ پریشانی و بدحالی :
ایک مسلمان پریشان، سرگردان و بدحال ہونے کے باوجود خود کشی کی فکر نہیں کرتا کیونکہ وہ خدا پر توکل رکھتا ہے لیکن وہ لوگ جو مذہبی ایمان نہیں رکھتے بدحالی کے بعد ممکن ہے وہ زندہ رہنے کے ارادہ کو ہاتھوں سے کھو دیں اور خود کشی کر لیں۔
وہ اسباب جو خود کشی کے بیان ہوئے ہیں ان میں سستی زیادہ عمومی ہے اور اکثر لوگ جو خود کشی کرتے ہیں وہ سست و کاہل ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ضمیر سے آگاہ ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ ان میں خود کشی کی سوچ کو تقویت دینے والی وہ سستی و کاہلی ہے۔ لیکن اسلام کے قوانین مسلمانوں کو سستی و کاہلی سے دور رکھتے ہیں۔
انسان ذاتی طور پر راحت چاہتا ہے اور فعالیت و کوشش کا ذوق و شوق نہیں رھتا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ صبح سویرے جب نیند دوسرے تمام اوقات سے زیادہ اسے پیاری ہوتی ہے، دیر تیک خواب می ں پڑا سویا رہے لیکن اسلام اس کو مکلف کرتا ہے کہ طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز پڑھے اور یہ فریضہ مسلمانوں کو سستی و تساہل سے بچانے میں بڑا ہی مؤثر کردار رکھتا ہے ایک مسلمان شخص جب صبح کی نماز پڑھ لیتا ہے تو وہ اپنے روزمرہ کے کاموں کے لئے تیار ہو جاتا ہے اسی طرح چار دوسری نمازیں ہیں ہر ایک واجب ذمہ داری ہے جو ایک مسلمان مرد وعورت کو اس پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ سستی سے بچے۔
موت کا فلسفہ :
کیوں خدا کو چاہیے کہ جس نے انسان کو پیدا کیا اسے جان دی موت دے اور نابود کر دے۔
امام : موت جس طرح کہ عوام الناس تصور کرتے ہیں۔ نابودی اور مٹ جانا نہیں ہے بلکہ زندگی کی شکل کی تبدیلی ہے ایک صاحبِ ایمان مسلمان اگر عقلمند ہو گا وہ شکل کی اس تبدیلی سے نہیں ڈرتا، لیکن میں فرض کرتا ہوں کہ میں ایک مسلم سے بحث کر رہا ہوں اور وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے جان دی کس لئے اس کو موت کی آغوش میں سلا دیتا ہے؟
میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ موت انسان کے لئے ایک دریچہ ہے جس کی راہ سے وہ ایک دوسری زندگی مویں داخل ہوتا ہے دوسری زندگی میں پھر حیات رکھے گا، اے جابر ! کیا تو ماں کے پیٹ میں زندہ تھا؟
جابر : جی ہاں ! میں زندہ تھا۔
امام : کیا تو ماں کے پیٹ میں غذا کھاتا تھا؟
جابر : جی ہاں
امام : تو ماں کے پیٹ میں ایک کامل انسان لیکن چھوٹا شمار ہوتا تھا؟
جابر : میں تصدیق کرتا ہوں کہ میں ایک کامل انسان تھا۔
امام : کیا تجھے یاد آتا ہے کہ تو وہاں موت کے بارے میں سوچتا تھا یا نہ؟
جابر : میں نہیں جانتا
امام : موضوع موت سے قطع نظر تو ماں کے پیٹ میں کیا آرزو رکھتا تھا؟
جابر : ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کے بارے میں مجھے کوئی چیز یاد نہیں۔
امام : اس کے باوجود کیا تو اپنی زندگی کو اس جہان میں بہتر پاتا ہے یا ماں کے پیٹ کی زندگی کو؟
جابر : ماں کے پیٹ میں میر ی زندگی بہت مختصر تھی اور وہ نو مہینوں سے تجاوز نہیں کرتی۔
امام : شاید وہ نو ماہ جو تو ماں کے بطن میں رہا تیرے لئے اس اسی یا نوے سال جو تو نے دنیا میں بسر کئے ہوں زیادہ محسوس ہوئے ہوں۔ کیونکہ زمانہ تمام افراد کی نسبت، تمام حالات میں ایک جیسا نہیں ہے ہر شخص نے تھوڑی سی توجہ پر اس حقیقت کو اپنی زندگی میں محسوس کیا ہے۔ میں اطمینان رکھتا ہوں کہ بعض اوقات چند ساعت تجھ پر اتنی تیزی سے گزری ہیں کہ گویا ایک ساعت ہے اور کبھی ایک ساعت تجھ پر اتنی طولانی ہوتی ہے کہ گویا چند ساعت تجھ پر گزری ہیں۔
تو ماں کے پیٹ میں ایک زندہ و کامل انسان شمار ہوتا تھا۔ تو شعور رکھتا تھا اس وجہ سے شاید آرزوئیں بھی رکھتا تھا اب تو ان یادوں میں سے ایک معمولی سی بات بھی یاد نہیں رکھتا، تو جو ایک عقلمند شخص ہے کیا تو سوچتا نہیں ہے کہ تیرا اپنے ماں کے بطن سے باہر آنا اور اس دنیا میں وارد ہونا شاید ایک نوع کی موت ہو؟
تونہیں جانتا کہ تو ماں کے پیٹ میں اس پر مائل تھا کہ ہمیشہ اسی جگہ رہے اور تو تصور کرتا تھا کہ اس سے بہتر اور سکون و راحت بھی جگہ موجود نہیں ہے اور اپنے مکان سے نکلتے وقت (جسے میں نے ایک قسم کی موت کہا ہے) تو اتنا غمگین ہوا کہ جب تو اس دنیا میں وارد ہوا تو چیخنے اور رونے لگ گیا۔ لیکن آج تو تصدیق کرتا ہے کہ وہ دنیا جس میں اب تو زندگی بسر کر رہا ہے، اس دنیا سے بہتر ہے جو تو ماں کے پیٹ میں رکھتا تھا۔
جابر : اس کے باوجود کہ میں نہیں جانتا اس جگہ میری کیا حالت تھی لیکن اب تصدیق کرتا ہوں کہ جس دنیا میں، مَیں اب زندگی بسر کر رہا ہوں اس جگہ سے بہتر ہے۔
امام : یہ امر اس بات کی تائید کرتا ہے کہ موت کے بعد کی دنیا بھی اس دنیا سے بہتر ہے۔
جابر : اگر اس دنیا سے بدتر ہو تو کس طرح؟
امام : بلاشک و تردید دوسری دنیا ان لوگوں کے لئے جنہوں نے خدا کے احکام و قوانین پر عمل کیا ہے اس جہان سے بہتر ہے کیونکہ قطعِ نظر اس کے کہ خدا نے اس امر کا لوگوں سے وعدہ کیا ہے۔ عقلی طور پر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو دانا، قادر اور عادل ہے، کینہ و حسد نہیں رکھتا کہ وہ اپنے بندوں کوایک اچھی دنیا سے ایک بُری دنیا کی طرف لے جائے۔
حتی اگر خدا نے صراحت کے ساتھ وعدہ نہ بھی کیا ہوتا پھر بھی ہماری عقل فیصلہ کرتی ہیکہ موت کے بعد اس مناسبت سے کہ خلقتِ انسانی کا مقصد اس کی تکمیل ہے انسان کی زندگی کی وضع اور حالت اس دنیا سے اس دنیا میں بہتر ہی ہو گی۔
فلسفہ زندگی :
جابر : کیا یہ زیادہ آسان اور بہتر نہیں تھا کہ خدا آغاز ہی سے بہتر دنیا میں، اس دنیا میں جس میں ہم موت کے بعد پہنچیں گے، وجود میں لے آتا، ہم اس دنیا کی زندگی کے مراحل اور موت کو نہ دیکھتے؟
امام : اگر وہ شخص جو دین نہ رکھتا ہو وہ مجھ سے یہ سوال کرے اور وہ میری زبان سے خدا کی حکمت کو سننا چاہے تو میں اسے کہوں گا کہ انسان کو اس زندگی کے مختلف مراحل سے گزارنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہر مرحلہ میں پہلے کے مراحل کی نسبت صفاو پاکیزگی حاصل کرے، تکمیل و تکامل سے ہمکنار ہو تاکہ وہ سعادت و نیک بختی دنیا میں اور اس عالم جاودانی میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
فلسفہ تخلیقِ انسان :
جابر : میں ایک اور سوال کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آخر کیا ضرورت تھی کہ خدا انسان کو پیدا کر ے اور کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ انسان کو پیدا ہی نہ کرتا؟
امام : ایک مسلمان جانتا ہے کہ خدا نے انسان کو اس وجہ سے وجود دیا کہ اس کو اپنی معرفت کرائے یعنی انسان اپنے وجود کا سراغ پائے اور ایک مسلمان کے عقیدہ میں عظیم ترین نعمت جو خدا نے انسان کو عطا کی اس کی تخلیق و پیدائش ہے۔
فلسفہ تخلیق :
جابر : آخر تخلیق کا فلسفہ کیا ہے؟
امام : تمام موجودات حتی کہ جمادات پر خدا کا لطف و کرم۔
جابر : اس لطف و کرم سے خدا کا مقصد کیا تھا؟
امام : تو ایک کریم کے مقصد کو نہیں سمجھ سکتا ہے؟
جابر : لوگوں میں بہت کم ہی کوئی ایسا شخص ہو کہ وہ بغیر مقصد کے ہو جائے، ان میں ایک گروہ کا مقصد خود نمائی ہے۔
امام : لیکن خدا کا نیکی کرنا خود نمائی نہیں ہے اس کی بخشش ناموری کے لئے نہیں ہوتی صرف اس لئے اس نے انسانوں کو پیدا کیا اور موجودات کو خلعتِ وجود سے نوازا تاکہ وہ فیض سے بہرہ ور ہوں۔ لیکن اگر اب تو مجھ سے یہ پوچھے کہ اس مقصد کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی موجودات کی تخلیق میں دخل رکھتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ سوال نہ کر کیونکہ ایک موحد کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے۔
جابر : ظاہر ہے کہ میں یہ سوال اس لئے کرتا ہوں تاکہ اگر میں کسی غیر موحد کے روبرو ہوں تو میں اس کے سوال کا جواب دے سکوں۔
امام : سوائے خدا کی کرامت کے فلسفہ کی نظر سے دنیا کے وجود میں آنے کی کوئی اور وجہ نہیں ہیکیونکہ اگر اس کی کوئی اور وجہ ہوتی تو وہ وجہ خدا کو اس پر آمادہ کرتی کہ وہ دنیا کو خلق کرے تو وہی علت، وہی وجہ خدا کا مقام حاصل کر لیتی، ایک مجبور خدا کو ہم خدا نہیں کہہ سکتے۔
جابر : کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی علت وجود رکھتی ہو کہ خدا نے اس علت سے دنیا کو پیدا کیا ہو بغیر اس کے کہ اس علت نے خدا کو مجبور کیا ہو؟ خدا اس لئے دنیا کی پیدائش کے درپے ہوا ہو کہ وہ کسی قدر اپنی قدرت کو دیکھے اور اس لئے اس نے دنیا کو پیدا کیا کہ اپنی تخلیق سے لطف اندوز ہو؟
امام : تماشا کرنا اپنے انجام دیئے ہوئے کام سے لطف اندوز ہونا ہم انسانوں کی طبیعت کی خصوصیات سے ہے، یہ دونوں چیزیں ضرورت، نیاز اور احتیاج سے پیدا ہوتی ہیں، ہم کیونکہ نیاز مند ہیں کہ اپنی روح کو خوش کریں ہم چونکہ ضرورت مند ہیں کہ لذت حاصل کریں، جب ہم کسی کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں تو وہ ہماری نظروں میں لذت بخش نظر آتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ اس کے علاوہ ہماری بہت سے لذتیں براہِ راست یا بالواسطہ ہمارے جسم سے پیدا ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جسم نہیں رکھتا۔
جابر : کیا لطفِ خدا علتِ تخلیق نہیں ہے؟ اس بنا پر وہی سابقہ اشکال آپ کے قول پر وارد ہے۔
امام : نہیں ! لیکن یہ ایک لازمی علت نہیں ہے یعنی ایسی علت نہیں ہے جس نے خدا کو دنیا کی تخلیق پر مجبور کیا ہو اور چونکہ یہ الزامی علت نہیں ہے اس لئے جب ایک موحد کہتا ہے کہ خدا نے اپنے لطف سے دنیا کو پیدا کیا اس نے توحید کے خلاف کوئی چیز نہیں کہی ہے۔
جابر : میں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ بھی الزامی علت ہے۔
امام : تو اپنے مقصد کی وضاحت کر۔
جابر : کیا خدا دنیا کی تخلیق سے قطعِ نظر کر سکتا تھا؟
امام : واضح اور روشن ہے کہ کر سکتا تھا۔
جابر : لیکن اس نے قطعِ نظر نہیں کیا اور اس کو لطف کی راہ سے پیدا کر دیا، کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا اپنا لطف کرنے سے خود داری نہیں کر سکتا تھا۔
امام : تیرا یہ کہنا جدل ہے نہ بحث، جب تو کسی کا اکرام کرتا ہے اس صورت میں کہ اس کا اکرام تیرا لازمی فرض نہ ہو کیا تو مجبور ہے؟
جابر : نہیں تو
امام : خدا بھی بغیر اس کے کہ مجبور ہو اس نے حقیقی اکرام کی رُو سے خلق کو پید اکیا تاکہ وہ حیات کی نعمت موجودات کو عطا کرے بہر حال جب کہ میں ایک موحد ہوں اپنی عقل کی بنیاد پر میں دنیا کی ایجاد اور جو کچھ اس میں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے لطف کے کوئی وار وجہ نظر میں نہیں لا سکتا۔
بڑھاپے میں حافظہ کے کم ہونے کا فلسفہ :
جابر : پس کیوں انسان بوڑھا ہو جاتا ہے غبی اور کند ذہن ہو جاتا ہے۔
امام : یہ ایک قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جو شخص بوڑھا ہو جائے وہ کند ذہن ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جوانی کے زمانہ میں کند ذہن ہوتے ہیں لیکن جوانی کی نشاط و ترو تازگی اس میں مانع ہوتی ہے کہ ان کی تنگ نظری و کوتاہ فکری نمایاں طور پر ظاہر ہو جائے اس دَور کے گزرنے کے بعد ان میں کوتاہ فکری جلوہ گری ہوتی ہے۔
لیکن جو شخض جوانی میں دانا، آگاہ اور پرہیزگار ہے، بڑھاپے کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہوتا ہے البتہ یہ ہوتا ہے کہ جسمانی قوتوں کے لحاظ سے وہ شباب و جوانی کی ٍٍٍٍٍٍمانند نہیں ہوتا ہے۔ علماء کا ایک طبقہ بڑھاپے کے زمانہ میں زیادہ باخبر، زیرک و ہوشمند ہو جاتا ہے اس لئے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ علم و دانش سے وہ زیادہ بہرہ ور ہوتے ہیں ان کی فکر و نظر میں زیادہ وسعت پیدا ہو جاتی ہے ان کی علمی توانائیوں میں پختگی پیدا ہوتی ہے اسی طرح قضاوت و فیصلہ میں ان کی نظر، بے غرض ہو جاتی ے، وہ سمجھ جاتے ہیں ہ ہمیں ہمیشہ حق و حقیقت کی حمایت و پاسداری کرنی چاہیے۔
جابر : نہیں ! جو چیز بھول کا موجب ہوتی ہے وہ قوت حافظہ کو کام میں نہ لانا ہے، قوت ِ حافظہ، انسان کی قوتوں کی مانند باقی رہنے کے لئے فعالیت و سرگرمی کی ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍمحتاج ہے۔ اگر ایک جوان بھی اپنی قوتِ حافظہ سے کام نہ لے تو یہ قوت بھول و فراموشی کی نذر ہو جاتی ہے۔ بعض بوڑھے آدمیوں میں فراموشی اس لئے ہوتی ہے کہ ان کی جسمانی قوت کی کمزوری ان کی توجہ اس ماحول سے کم کر دیتی ہے جس ماحول میں وہ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں حتی کہ ان کی توجہ پوتوں اور نواسوں کے بارے میں بھی کم ہو جاتی ہے جتنی جسمانی کمزوری زیادہ ہوتی ہے ان کی توجہ زندگی کے ماحول کی طرف زیادہ کم ہو جاتی ہے۔ اب وہ اس کا آرزو مند نہیں ہوتا کہ گھر سے باہر جائے یا سفر کرے حتی کہ بڑے اہم اور ناگہانی واقعات بھی ان کے لئے جالب نظر نہیں ہوتے۔
اسی لئے ان کے حافظہ سے فعالیت و کارکردگی ختم ہو جاتی ہے اور یہ جمود اس کا سبب بنتا ہے کہ اول تو کوئی چیز حافظہ کے ذخائر میں بڑھتی نہیں ہے دوسرے تمام یا اس کا ایک حصہ حافظہ کے ذخائر سے فراموش ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے جب ایک، دو یا تین بوڑھوں کو یکھا کہ ان کا حافظہ ختم ہو گیا ہے تو انہوں نے اس کو ایک کلی قانون سمجھ لیا اور کہتے ہیں جو شخص بوڑھا ہو جائے فراموشی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ بوڑھے جو جسمانی کمزوری کے زیرِ اثر اپنی قوتِ حافظہ کو جامد نہیں ہونے دیتے، ان کا حافظہ بڑھاپے کے زمانہ میں جوانی کے زمانہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ چونکہ ان کا حافظہ تمام عمر میں مشغول کار رہا ہوتا ہے اس لئے زندگی کے آخری سالوں میں وہ توانائی کی اعلیٰ حدوں پر پہنچ جاتا ہے۔
بڑھاپے کا فلسفہ :
جابر : بڑھاپا کس چیز سے پیدا ہوتا ہے؟
امام : بیماریاں دو قسم کی ہیں :
1۔ حاد (سخت) بیماریاں، اس قسم کی بیماریاں اچانک مزاج پر مسلط ہو جاتی ہیں جن سے یا تو جلدی صحت حاصل ہو جاتی ہے یا وہ موت کا سبب بنتی ہیں۔
2۔ مزمن بیماریاں، جن کی رفتار تدریجی اور طولانی ہوتی ہیں یہ امراض ایک مدت تک وجود میں رہتی ہیں، کبھی لاعلاج بھی ہوتی ہیں یہاں تک کہ موت کا سبب بنتی ہیں۔ بڑھاپا بھی ایک قسم کی بیماری ہے لیکن دوسری قسم کی بیماریوں میں سے۔
جابر : اولین مرتبہ میں سن رہا ہوں کہ بڑھاپا ایک قسم کی بیماری ہے۔
امام : بعض لوگ بہت جلدی اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض دیر میں۔ وہ لوگ جو خدا کے قوانین کی پیروی نہیں کرتے اور محرمات سے پرہیز نہیں کرتے بہت جلد بوڑھے ہوجاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو خدا کے دستور پر عمل کرتے ہیں دیر سے بڑھاپے کو پہنچتے ہیں۔
بیماری کا فلسفہ :
جابر : بیماری کے متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے، کیا خدا انسان کو بیمار کرتا ہے یا انسان اتفاقًا بیمار ہو جاتا ہے؟
امام : بیماریاں تین قسم کی ہیں :
۱۔ وہ بیماریاں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کی بنیاد پر انسان کو ان میں مبتلا کرتا ہے جس طرح بڑھاپے کی بماری کسی شخص کو ایسی بیماری سے گریز نہیں ہے۔
۲۔ وہ بیماریوں کہ انسان اپنی نادانی یا ہوس کی پیروی کے نتیجہ میں خود کو ان میں مبتلا کر دیتا ہے جبکہ خدا فرماتا ہے کھانے اور پینے میں اسراف نہ کرو اگر انسان کھانے اور پینے میں اسراف نہ کرے بلکہ چند لقمے کم کھائے اور چند گھونٹ کم پئے تو وہ اس قسم کی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتا۔
۳۔ وہ بیماریاں جو بدن کے دشمنوں (جراثیم) سے عارض ہوتی ہیں اور وہ انسان کے جسم پر حملہ کرتی ہیں لیکن جسم اپنے اندر موجود وسائل سے مقاومت اور اپنا دفاع کرتا ہے اور اگر بدن کا دفاع اس حد تک نہ ہو کہ اپنے دشمنوں کو اپنے سے دُور کر سکے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے پھر بدن دفاع کرتا ہے اور بدن کے دفاع کا یہ اثر ہوتا ہے کہ یا تو بیمار موت کی آغوش میں جا سوتا ہے یا بیمار شفا حاصل کر لیتا ہے۔
جابر : بدن کے دشمنوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
امام : بدن کے دشمن چذوٹے چذوٹے موجودات ہیں وہ اتنے باریک ہیں کہ (غیر مسلح) آنکھ سے انہیں نہیں دیکھا جا سکتا، وہ بدن پر حملہ آور ہوتے ہیں، بدن میں بھی بہت ہی چھوٹے موجودات وجود رکھتے ہیں وہ بھی بہت باریک ہیں، آنکھ سے قابلِ رویت نہیں وہ بدن پر دشمن (جراثیم) کے حملہ کے مقابلہ میں حفاظت کرتے ہیں۔ (ذرا ملاحظہ کریں کہ امام نے آج سے صدیوں پہلے ان جراثیم سے روشناس کرایا ہے جنہیں اج کی سائنس نے ایک حقیقت بنا دیا ہے) ۔
جابر ی بدن کے دسمن جو بیماری پیدا کرتے ہیں ان کا مجھے تعارف کرائیں؟
امام : ان کے انواع بہت زیادہ ہیں جس طرح کہ بدن کے دفاع کرنے والے بھی مختلف انواع کے ہیں لیکن جو چیز ان کو متشکل کرتی ہے محدود ہے۔
جابر : میں نہیں سمجھتا کس طرح ان کے انواع زیادہ ہیں لیکن جو چیز انہیں متشکل کرتی ہے محدود ہے؟
امام : جو کتاب تو پڑھتا ہے لاکھوں کلمات رکھتی ہے اور ہر کلِمہ حروف کے ساتھ لکھا جاتا ہے، حروف جو ان کلمات کو تشکیل دیتے ہیں محدود ہیں لیکن ان کے ذریعہ سے ہم ہزاروں کلمات لکھ سکتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک مخصوص معانی رکھتا ہے۔ ہمارے بدن کے دشمن اور وہ جو بدن کا دشمنوں کے مقابلہ میں تحفظ کرتے ہیں وہ تیری کتابوں کے ہزاروں کلمات ہیں لیکن تمام ایک محدود مواد سے تشکیل ہوئے ہیں۔
جابر : آپ مزید ارشاد فرمائیے تاکہ میں بہتر طور پر سمجھ سکوں۔
امام : اپنی بات بہتر طور پر سمجھانے کے لئے میں ایک اور مثال دیتا ہوں : بہت سے حیوانات ہڈیاں، گوشت اور خون رکھتے ہیں لیکن کیا تمام جانور جو یہ تین تشکیل دینے والے مادے رکھتے ہیں ایک دوسرے کی مانند ہیں؟
بدن کے دشمن اور وہ جو ہمارے بدن میں دشمنوں کا دفاع کرتے ہیں، نہاد کے لحاظ تھوڑے سے مواد سے متشکل ہوئے ہیں لیکن ان کے انواع زیادہ ہیں۔
آغازِ تخلیق :
جابر : دنیا کس موقع پر وجود میں آئی؟
امام : خدا جانتا ہے
جابر : لیکن یہودی کہتے ہیں کہ دنیا کی پیدائش اب سے ۴۷۶۲ سال قبل ہوئی تھی۔
امام : خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہودیوں کے کہنے کے خلاف دنیا بہت قدیم ہے۔
جابر : کیا ان کے پیغمبر نے نہیں کہا کہ دنیا ۴۷۶۲ سال پہلے وجود میں آئی؟
امام : نہیں، یہ صرف یہودی راویوں کا قول ہے نہ ان کے پیغمبر کااور ہر عقل مند انسان اگر جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں، ندی، نالوں، دریا، سمندروں پر غور کرے تو وہ سمجھ جائے گا کہ دنیا کی زندگی اس سے کہیں زیادہ گزر چکی ہے۔
اختتام دنیا :
جابر : دنیا کا انجام کس وقت ہو گا؟
امام : ہر گز کوئی ایسا زمانہ نہیں آئے گا کہ دنیا وجود نہیں رکھتی ہو گی۔ اس لئے کہ جو چیز وجود میں آتی ہے وہ ختم نہیں ہوتی، صرف شکل تبدیل کرتی ہے۔
جابر : یہ جو کہتے ہیں سورج اور چاند کے چراغ خاموش ہو جائیں گے یہ حقیقت رکھتا ہے؟
امام : ممکن ہے کوئی ایسا زمانہ آئے کہ سورج کا درخشاں و فروزاں چراغ بجھ جائے، اس صور ت میں چاند بھی بے نور ہو جائے گا۔ کیونکہ چاند، سورج سے کسبِ نور کرتا ہے لیکن وہ وقت دنیا کے خاتمہ کا نہیں ہو گا، بلکہ دوسری دنیا کے آغاز کا وقت ہے۔
جابر : کیا ممکن ہے انسان کی زندگی میں کوئی ایسی رات آئے کہ اس کے آخر میں سورج طلوع نہ ہو؟
امام : نہیں کیونکہ خدا پنے نظام کو ثابت قوانین کی بنیاد پر چلاتا ہے اور وہ قوانین تقاضا کرتے ہیں کہ ہر صبح کو سورج طلوع ہو لیکن اگر کوئی ایسا دن آجائے کہ سورج خاموش ہو جائے تو پھر وہ طلوع نہیں ہو گا۔
جابر : اکیا آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ کب سورج خاموش ہو جائے گا؟
امام : صرف خدا ہی کو معلوم ہے لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ واقعہ جلد نہیں ہوگا، شاید بیابان کی یت کے ذروں جتنے سال گزر جائیں تب جا کر کہیں سورج کی مشعلِ فروزاں بجھ جائے اس وقت دنیا کی نئی زندگی کا دَور شروع ہو گا۔
جابر : جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اس تمام سے میں اس طرح سمجھا ہوں کہ خدا ہمیشہ رہا ہے اور اب بھی ہے وہ ابتداء و انتہا نہیں رکھتا، دنیا کو ثابت قوانین پر چلاتا ہے ہے۔
امام : ہاں اے جابر !
جابر : اس بنا پر دنیا کے خاتمہ تک کوئی تازہ وجود میں نہیں آئے گا؟
امام : ہاں، لیکن دنیا کے موجودات کے لئے بالخصوص انسان کے لئے جو حوادث در پیش آتے ہیں وہ نئے اور تازہ نظر آتے ہیں حتی کہ موسموں کا تغیر و تبدل بھی اس کے لئے نیا ہوتا ہے کیونکہ و ہدوبہاروں کو دو موسموں کو ایک جیسا نہیں پاتا۔
جابر : کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے موجودات میں سے کوئی ایک ان قوانین کا مطیع نہ ہو اور نافرمانی کرے جن کو خدا نے اس دنیا کے لءِ وضع کیا اور بنایا ہے؟
امام : نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے حتی ایک چیونٹی اور اس بھی چھوٹی مخلوق، ان موجودات کی تسبیح جو ہماری نظر میں بے جان ہیں ایک قسم کی ان قوانین کی اطاعت ہے جنہیں خدا نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے مقرر کیا ہے۔
سرمایہ دار اور ثروت :
جابر : آخرت میں ان لوگوں کی حاتلت کیسی ہے جو دولت و ثروت جمع کرنے کے حریص ہیں؟
امام : زندگی کی بقا اور کنبہ کی معاش کے لئے جد وجہد ضروری ہے اور وہ لوگ جو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لئے کام کرتے ہیں خدا کے نیک بندے ہیں بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ اس طرح کے لوگوں کے درمیان حریص آدمی پائے جائیں۔
جو مال و دولت جمع کرنے کالالچ رکھتے ہیں وہ دوسرے طبقہ سے ہیں اور جو چیز ان کو حریص بناتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بہت کم مدت بکثرت مال و دولت حاصل کرتے ہیں اور چونکہ صرف محنت کرکے، زحمت کر کے اور کم مدت میں رزقِ حلال و مشروع حاصل کر کے دولت مند نہیں ہو سکتے اس لئے یہ لوگ تھوڑی سی مدت میں ناجائز و غیر مشروع طریقہ سے زیادہ مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں۔ کم مدت میں بہت بڑی دولت حاصل کرنا ان کو اس پر اکساتا ہے کہ پھر بھی کم مدت میں اسی ترتیب سیبہت بڑی دولت سمیٹی جا سکتی ہے۔
دو یا تین بار رجب انہوں نے بہت بڑی دولت کما لی تو وہ اس طرح مال و دولت سمیٹنے کے حریص ہو جاتے ہیں کہ وہ زندگی بھر کوئی ثابت، نیک و پائیدار کام نہیں کرتے اور مال و دولت سمیٹنے کی آرزو کے سوا کوئی امنگ نئیں رکھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا نے کہا ہے :
الَّذِی جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہ، ۔ (ہمزة : ۲)
وہ جو مال جمع کرتے اور اسے گن گن کر رکھتے ہیں۔
ان کی زندگی کی سب سے بڑی لذت مال و دولت کو جمع کرنا اور اس کو گن گن کر رکھنا ہے۔ اس قسم کے لوگ دنیا میں اپنے مال سے کوئی لذت و فائدہ نہیں اٹھاتے، ہاں سونے چاندی کے ڈھیروں کو دیکھنے ان کو شمار کرنے، بڑی بڑی جاگیریں، زمینیں، کھیتیاں رکھنے کی فکر سے ایک قسم کی لذت حاصل کرتے ہیں ان کی حالت دوسری دنیا میں آخرت میں وہی ہے جس کا ذکر کلامِ خدا میں آیا ہے۔
محنت کش طبقہ :
لیکن محنت کش طبقہ کے افراد کو (جو روزی حاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنی آمدنی کے کچھ حصہ کو ذخیرہ کرتے ہیں، تاکہ ضرورت اور ناتوانی کے دن اس سے بہرہ ور ہوں) ہم حریص و لالچی نہیں کہہ سکتے ایسے افراد عقل مند ہیں، قناعت سے بہرہ ور جو اپنے پس ماندگان کی فکر کرتے ہیں۔
اس قسم کے افراد جو اپنے بڑھاپے کے زمانہ کی فکر ہیں یا اس بات کو سوچتے ہیں کہ ا کی موت کے بعد ان کی عورتیں اور بچے فقر و فاقہ میں گرفتار نہ ہوں، وہ خدا کے ہاں اجر پائیں گے۔ اگر وہ ایسے اعمال نہ کریں کہ کیفرو سزا کے سزاوار ہوں وہ موت کے بعد جنت میں جائیں گے۔ ہر قدم پر امور و کام انہی لوگوں کے ہاتھوں صورت پذیر ہوتے ہیں وہی لوگ ہیں جو زراعت اور کھیتی باڑی کرتے ہیں، ماہی گیری کرتے ہیں، پھلدار درختوں کے باغوں کو سینچتے وار پروان چرھاتے ہیں، مکانات تعمیر کرتے ہیں، طرح طرح کی صنعتوں، پیشوں، کاریگروں سے اپنے ہم وطنوں کی دنیوی ضروریات پوری کرتے ہیں اور اگڑ مسلمان ہوں تو جہاد کے وقت خدا کی راہ میں جنگ کرتے ہیں میدانِ جنگ و کارزار میں جائے اور شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔
لیکن جو لوگ حریص ہیں وہ اپن ساری زندگی سواہے دولت و ثروت جمع کرنے کے کوئی اور کام کرتے ہیں ہیں اور نہ ہی اس کے سوا ان کی کوئی تمنا ہوتی ہے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو قوم و ملت کے لئے مفید ہو۔ اگر جہاد کا موقع آ جائے تو میدانِ جنگ میں نہیں جاتے اس لئے کہ وہ اپنی وسیع اراضی، جاگیروں، غلہ کے بھرپور انباروں اور اپنے سونے چاندی کے ڈھیروں سے دل نہیں اٹھا سکتے، قتل ہو جانے کا خطرہ ان کے سامنے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ جس طرح کہ اس کے کلام میں آیا ہے حریص و لالچی کو دوستنئیں رکھتا حتی کہ اگر ایک حریص، موت سے پہلے اپنے تمام مال کو سوائے اس کے جو اپنے پسماندگان کی معاشی ضرورت کے لئے رکھتا ہے راہِ خدا میں انفاق کر دے، محتاجوں کو دے دے بعید ہے کہ خدا اس کو جنت میں لے جائے کیونکہ اس کا متواتر تجربہ ہوا ہے کہ مال کو جمع کرنے کا لالچ و حرص اس وجہ سے شرع ہوتا ہے کہ کم مدت میں، ناجائز و نامشروع طریقہ سے وہ مال و دولت جمع کر پاتے ہیں اس امر نے ان میں شوق پیدا کیا ہے کہ وہ پھر بھی اسی طریقہ سے اسی قدر یا اس سے زیادہ دولت و ثروت سے اپنی تجوریوں کو پُر کریں۔
اسی وجہ سے اس قسم کے اموال کا راہِ خدا میں انفاق کرنا، اس گناہ کی تلافی نہیں کرتا جو اس قسم کے اموال کے حصول سے پیدا ہوا ہے کہ غرباء کے ایک طبقہ کو اس سے محروم رکھا گیا ہے، اس کے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ناجائز طور طریقوں سے مال کا جمع کرنا، لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہے۔ (کتاب مغز متفکر شیعہ)
باب : ۵
اثباتِ نبوتِ محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سابقہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگویوں سے امام رضاعلیہ السلام اور نصاریٰ، یہود اور زردشتوں کے علماء کے درمیان مباحثہ
آپ نے سنا ہے کہ مامون (عباسی خلیفہ) نے آئمہ شیعہ علیہم السلام کے ساتھ ظلم و ستم اور جنگ کے طرزِ عمل کو بدل دیا تھا، اس کے باپ اور داداؤں نے آئمہ شیعہ علیہم السلام مسلمان علماء وصلحاء کو کٹھن ترین حالات کے شکنجہ میں جکڑ رکھا تھا وہ طرح طرح کے مظالم ڈھا کر انہیں نیست و نابود کر رہے تھے، ان شدائد، سخت گیریوں اور مظالم کے فطری رد ِ عمل نے اسلامی معاشرہ کو شورش و انقلاب پر مجبور کر دیا تھا۔
مامون جو عباسی خلفاء کے درمیان ایک عالم اور سیاستدان خلیفہ تھا، اس نے انقلابیوں کے ساتھ اپنی جنگ و پیکار کی تکنیک کو بدل دیا تھا، اس نے یہ ارادہ کیا کہ امام رضا علیہ السلام کو مرکز، دربارِ خلافت میں جگہ دے کر عوام کی نظروں میں ان کا اعتبار ختم کر دے نیز امام اور ان کے پیروؤں کا مؤقف حکومتِ وقت کے مقابلہ میں تباہ کر دے۔
امام مکمل طور پر اس کی اس خطرناک سازش اور منصوبہ سے آگاہ تھے، امام نے ایک حکیمانہ تدبیر سے اس کی تمام سازشوں کو نقش برآب کر دیا اور مامون کے تصور کے خلاف معاشرہ اور مسلم و غیر مسلم عوام میں روز بروز امام کی محبت و ہر دلعزیزی بڑھتی ہی گئی۔
ایک دن مامون نے یہ سوچا کہ مختلف مذاہب اور مکاتبِ فکر (جو اس دَور میں موجود تھے) کو طوس میں دعوت دے کر ان کی ایک مجلس تشکیل دے تاکہ وہ امام رضا علیہ السلام سے بحث کریں۔ شاید اس طرح وہ امام کے علمی شکوہ و دبدبہ کو کم کر سکے۔
نوفلی نام کا ایک شخص کہتا ہے : میں ایک روز امام کی خدمت میں ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھا کہ ” یاسر “ (امام کے امور کا انچارج) کمرے میں وارد ہوا اور اس نے مامون کا یہ پیغام امام کی خدمت میں پیش کیا :
” مختلف ادیان کے علماء اور مختلف مکاتیبِ فکر کے دانشور میرے پاس آئے ہوئے ہیں اگر آپ بہتر جانیں تو ان کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے کل یہاں تشریف لے آئیں ورنہ اگر آپ کو پسند ہو تو ہم آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں؟ میں مزاحم نہیں ہونگا۔
امام نے جوا ب دیا : اسے کہہ دے کہ میں تیرے مقصد کو جانتا ہوں اور کل انشاء اللہ میں خود آؤنگا۔ “
نوفلی کہتا ہے اس کے بعد جب ” یاسر “ باہر چلا گیا امام نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا : ” تو جانتا ہے کہ اس کام سے مامون کا مقصد کیا ہے؟“
میں نے کہا : ” میں آپ پر قربان جاؤں، اس کا مقصد آپ کو آزمانا ہے “ لیکن اس نے ایک بے بنیاد اور برا کام کیا ہے۔
امام : کیا کام؟
نوفلی : اہلِ کلام و بدعت، برخلاف مسلمان علماء کے جو کچھ آپ فرمائیں گے، آپ سے دلیل کا مطالبہ کریں گے مثلًا آپ کہیں کہ خدا ایک ہے تو کہیں گے اس کا ایک ہونا آپ ثابت کریں اور اگر آپ کہیں کہ ” محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم “ خدا کے رسول ہیں تو کہیں گے کہ ان کی رسالت کو ثابت کریں اور باوجود اس کے کہ ان کے لئے کافی دلیل لائی جائے وہ اس قدر مغالطہ میں ڈالیں گے کہ انسان اپنے نظریہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا اس لحاظ سے یہ محفل آپ کے لئے خطرناک ہے۔
امام مسکرا دیئے اور تبسم فرماتے ہوئے کہا : ” میں ان کے جواب میں عاجز رہ جاؤں گا؟ “
نوفلی : نہیں واللہ ! مجھے اس کا ڈر نہیں اور میں امیدوار ہوں کہ خدا آپ کو ان پر فتح و کامرانی دے گا۔
امام : تو جانتا ہے کہ مامون کب اپنے اس کام سے پشیمان ہو گا؟
نوفلی : جی ہاں !
امام : اس وقت جب دیکھے گا کہ میں اہلِ تورات سے، اہلِ انجیل کو انجیل سے، اہلِ زبور کو زبور سے، صائبین (اہلِ نوح) کو لغتِ عبرانی میں، ہرابذہ (ہندوؤں اور مجوسیوں کو) زبانِ فارسی میں، اہلِ روم کو رومی زبان میں، ہر مکتب اور ہر نظریہ کے پیروؤں کو، خود ان کی زبان میں مغلوب و محکوم کر دوں گا۔
جب وہ سب اپنے نظریہ سے ہاتھ اٹھا لیں گے اور میرے نظریہ کو تسلیم کر لیں گے اس وقت مامون سمجھ جائے گا کہ اسے معاشرہ کی امامت و رہبری کا عہدہ نہیں لینا چاہیے اور وہ اپنے کئے پر پشیمان ہو گا۔
صبح ہوئی قرار داد کے مطابق امام عالی مقام اس فوق العادة اہم مجلس میں تشریف لے گئے۔ مامون نے مسیحی علماء کے رئیس ” جاثلیق “ سے خطاب کرتے ہوئے اسے امام سے متعارف کرایا اور اس سے چاہا کہ امام کے ساتھ مناظرہ کرے اور امام کے ساتھ بحث میں انصاف کو ہاتھ سے نہ دے۔
جاثلیق : میں کس طرح اس شخص سے بحث کر سکتا ہوں جو اس کتاب قرآن جس کا میں منکر ہوں اور وہ پیغمبر جس پر میں ایمان نہیں رکھتا، کی اساس و بنیاد پر مناظرہ کرتا ہے۔
امام : اگر تیری انجیل کے اقوال کی بنیاد پر میں تجھ سے مناظرہ کروں تو تجھے قبول ہے؟
جاثلیق : جو کچھ انجیل نے فرمایا ہے کیا اسے میں قبول نہیں کر سکتا؟ جی ہاں میں قبول کرونگا۔ اگرچہ وہ میری زبان میں ہی کیوں نہ ہو۔
امام : اب جو کچھ تو چاہتا ہے پوچھ تاکہ میں جواب دوں۔
جاثلیق : آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب کے بارے میں کیا کہتے یہں؟
امام : میں اس عیسیٰ کی پیغمبری کو مانتا ہوں جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا اعتراف کیا ہے اور ان کے ظہور کی بشارت دی ہے اور میں اس عیسیٰ کی نبوت کا منکر ہوں جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت اور ان کیاب کا اعتراف نہیں کیا ہے اور اپنی امت کو ان کے ظہور کی بشارت نہیں دی ہے۔
جاثلیق : کیا اخبار و احادیث کو قبول کرنے اور ان کے مطابق فیصلہ دینے میں دو قابلِ اعتماد و اطمینان گواہوں کی ضرورت نہیں ہے؟
امام : کیوں نہیں
جاثلیق : آپ کہاں سے کہتے ہیں کہ ” عیسیٰ “ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اعتراف کیا ہے اور اپنے پیروؤں کو ان کے ظہور کی بشارت دی ہے؟ اس اعتراف کی بناء پر جو ابھی ابھی آپ نے کیا ہے، آپ کو چاہیے کہ نبوتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں عیسیٰ کی پیشگوئی و بشارت کے اثبات کے لئے دو غیر مسلم گواہ جو عیسائیوں کے نزدیک قابلِ اعتبار ہوں، پیش کریں آپ بھی مجھ سے یہی مطالبہ جو میں کر رہا ہوں کر سکتے ہیں۔
امام : تو نے انصاف کی بات کہی ہے اگر میں نبوتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ایسے عادل شخص کی گواہی پیش کروں جو حضرت عیسیٰ کے نزدیک دوسروں سے زیادہ قابلِ اعتماد ہو کیا تو قبول کریگا؟
جاثلیق : اس عادل شخص سے آپ کی مراد کون ہے؟
امام : یوحنا دیلمی
جاثلیق : واہ، واہ ! آپ نے ایسے شخص کا نام لیا ہے جو عیسیٰ کے نزدیک محبوب ترین تھا۔
امام : میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ انجیل میں یہ نہیں ہے جو یوحنا نے کہا :” مسیح “نے مجھے دینِ محمد ِ عربی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خبر دی ہے اور مجھے مژدہ سنایا ہیک ہ اس کے بعد ” محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آئیں گے اور میں یہ بشارت حواریوں کو دی ہے اور وہ محمد پر ایمان لائے۔ “
جاثلیق : یوحنا نے ایک شخص کی نبوت، اس کے خاندان، اس کے وصی کی بشارت دی ہے لیکن اس نے واضح نہیں کیا کہ وہ کس موقع پر ظہور کرے گا اور اس کے نام کو بیان نہیں کیا۔
امام : اگر میں کسی شخص کو لاؤں جو ” محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) “ ان کے خاندان ان کے پیروؤں کے ناموں کو انجیل سے پڑھے کیا تو اس پر ایمان لائے گا؟
جاثلیق : جی ہاں ! محکم ایمان
امام نے ” نسطاس رومی “ کی طرف رُخ کیا، فرمایا ” تجھے انجیل کا سفر سوم کس طرح یاد ہے؟ “
نسطاس : میں اسے مکمل طور پر یاد رکھتا ہوں۔
پھر امام نے راس الجالوت کو مخاطب کیا اورفرمایا : ” کیا تو انجیل نہیں پڑھ سکتا؟ “
راس الجالوت : کیوں نہیں
امام : سفرِ سوم کو لے آ اور کان لگا کر سن تاکہ میں پڑھوں اگر میں اس مقام پر پہنچوں جہاں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کے خاندان، ان کے پیروؤں کا ذکر کیا گیا ہے، تم سب گواہی دینا ورنہ گواہی نہ دینا۔
امام علماء کے اس انبوہ کے سامنے انجیل کے ” سفرِ سوم “ کو پڑھتے ہیں، جب وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے نام پر پہنچتے ہیں تو اس مقام پر تھوڑا سا ٹھہرتے ہیں، مسیحی عالم کو مخاطب کر کے سکتے ہیں : ” اے نصرانی تجھے مسیح اور ان کی ماں کے حق کی قسم ! کیا تو نے جان لیا ہے کہ میں انجیل کا عالم ہوں۔ “
جاثلیق : جی ہاں
اس کے بعد امام، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کے خاندان اور پیروؤں کے نام انجیل سے قرائت کئے، اس کے بعد جاثلیق سے فرمایا : ” تیرے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ یا تو تُو یہ کہہ کہ جو کچھ میں نے پڑھا ہے وہ انجیل نہیں ہے، یا تجھے یہ ماننا پڑیگا کہ انجیل جھوٹی ہے، لیکن پہلی بات کا بطلان ثابت ہو جائیگا، اس بنا پر یا تو چاہیے کہ انجیل کی بشارت کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نبوت کا اعتراف کرے یا تیرا قتل ہونا واجب ہو جائے گا جبکہ تو خدا کے پیغمبر اور اپنی کتاب کا منکر ہو جائے گا۔
جاثلیق : جس کا وجود انجیل میں میرے لئے ثابت ہے اور واضح ہو گیا ہے میں اس کا انکار نہیں کرتا اس کا اعتراف کرتا ہوں۔
امام نے حاضرینِ مجلس کو اس کے اعتراف پر گوابنایا اس کے بعد اسے کہا : ” جو کچھ چاہتا ہے مجھ سے پوچھ “۔
جاثلیق : حضرت عیسیٰ کے حواری اور انجیل کے اوّلین علماء کتنے افراد تھے؟
امام : عیسیٰ کے حواری بارہ افراد تھے اور ان سب سے بہتر، عالم اور دانا ” الوقا “ تھے۔ لیکن نصاریٰ کے علماء تین افراد تھے۔ ۱۔ یوحنا اکبر ” اج “ ۲۔ یوحنا ” قرقیسیا “ میں ۳۔ یوحنا دیلمی ” رجار “ میں۔ اور اسی یوحنا کے نزیک پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، خاندانِ پیغمبر اور ان کے پیروؤں کا ذکر ہوا ہے اور وہ وہی شخص ہے جس نے امّت عیسیٰ نیز بنی اسرائیل کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ظہور کی خوشخبری دی ہے۔ (بحار الانوار، ج ۱۰، ص ۳۰۳)
اس کے بعد امام نے فرمایا : ” خدا کی قسم ! ہم اس عیسیٰ پر جو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر ایمان لائے، ایمان رکھتے ہیں اور وہ عیسیٰ جو تمہارے عیسیٰ ہیں وہ کمزور و ناتواں مرد تھے، روزہ کم رکھتے تھے، نماز کم پڑھتے تھے۔ “
جاثلیق : (مضطرب اور ناراض ہو کر کہتا ہے) آپ نے اپنا تمام علم تباہ کر دیا اور علمی نقطہ نظر سے آپ نے اپنی ناتوانی نمایاں کر دی اس بات سے پہلے میں خیال کرتا تھا کہ آپ مسلمانوں میں سب سے بڑے عالم ہیں۔
امام : کس لئے؟
جاثلیق : آپ نے عیسیٰ کو ایک کمزور، کم روزہ و کم نماز فرد کہا ہے جبکہ وہ کسی روز بھی بغیر روزہ کے نہ ہوتے تھے، کسی رات کو نہیں سوئے تمام دنوں روزے رکھے اور تمام راتوں کو مشغولِ عبادت رہے۔
امام : اس بنا پر، جب وہ خود خدا ہیں کس کے لئے وہ نمازیں پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے؟
جاثلیق جواب دینے سے عاجز رہ گیا۔
امام : اب میں تجھ سے سوال کرتا ہوں؟
جاثلیق : فرمائیے، اگر مجھ سے ہو سکا تو میں جواب دوں گا۔
امام : تو کیوں قبول نہیں کرتا کہ حضرت عیسیٰ مُردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرتے تھے؟
جاثلیق : جس نے مُردوں کو زندہ کیا، اندھے، کوڑھی کو شفادی، وہ خود پروردگار اور لائقِ عبادت و پرستش۔
امام : دوسرے پیغمبروں مثلًا : ” یسع، حزقیل “نے بھی عیسیٰ جیسے کام انجام دیئے ہیں، پس کیوں کسی نے ان کو خدا مان کر ان کو نہیں پوجا؟ اسی طرح ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے عیسیٰ کی مانند کام انجام دیئے لیکن ہم ان کی خدائی کے قائل نہیں ہوئے۔ اگر بنیاد یہ ہو کہ جو شخض مُردہ کو زندہ کرے یا اندھے، کوڑھی کو شفادے وہ خڈا تو پس تو ان سب کو خدا قرار دے۔ (یہ حصّہ مفصّل تھا، تلخیص کر کے پیش کیا گیا ہے)
جاثلیق : آپ کی بات صحیح ہے اور سوائے اللہ کے دوسرا کوئی وجود نہیں رکھتا۔
اس مقام پر امام نے یہودیوں کے بڑے بڑے علماء و دانشوروں کی طرف رُخ کیا، اس کے سب سے بڑے عالم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
” توجہ کر ! تجھے ان دس آیات کی قسم جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ہیں، کیا تو نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ظہور اور ان کی امت کے متعلق خبر کو تورات میں ان الفاظ میں نہیں پایا ہے؟
جب آخری امت، شتر سوار کے پیرو آئیں گے، خدا کی جدّیت کے ساتھ تسبیح کہیں گے، جدید تسبیح، جدید و نئے کینسوں میں، اس وقت بنی اسرائیل کو چاہیے کہ ان کی پناہ لے لیں ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں تاکہ آرام پائیں کیونکہ ان کے ہاتھوں میں تلواریں ہیں، جن سے وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں تمام کافر ملّتوں سے مظلوموں کا انتقام لیں گے “کیا توارت میں اسی طرح نہیں لکھا ہوا ہے؟
عالم : کیوں نہیں، اسی طرح ہے۔
امام نے جاثلیق کی طرف رخ کیا اور فرمایا : ” تیرا علم کتاب ” شعیا “ کے متعلق کیسا ہے؟“
جاثلیق : میں اسے حرف بحرف جانتا ہوں۔
امام نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : یہ عبارت جو میں پڑھ رہا ہوں، آپ بتائیں کہ یہ کتاب ” شعیا “ میں ہے یا نہیں ہے؟
مَیں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھا ہے جو گدھے و خچر پر سوار ہے اور نُور کے لباس نے اس کو گھیر رکھا ہے اور اس شخص کو دیکھا ہے جو اونٹ پر سوار ہے اور چاند کی مانند چمک رہا ہے “
دونوں نے کہا ” شعیا “ نے اسی طرح کہا ہے۔
امام نے نصرانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا یہ انجیل میں ہے کہ عیسیٰ نے کہا ہے : میں اپنے اور تمہارے پروردگار کی طرف جارہا ہوں اور فارقلیطا آئے گا اور وہ وہی شخص ہے جو میرے حقانیت کی تصدیق کرے گا، جس طرح کہ میں نے اس کی حقانیت کی گواہی دی ہے اور وہ وہی شخص ہے جو ہر چیز کو تمہارے سامنے کھول کر رکھ دے گا اور وہ وہی شخص ہے جوگذشتہ امتوں کی رسوائیوں پر سے پردہ اٹھا دے گا اور وہ وہی شخص ہے جو کفر کے ستون کو توڑ دے گا۔ “
جاثلیق : جو چیز آپ نے انجیل سے نقل کی ہم اسے مانتے ہیں۔
امام : جو کچھ میں نے کہا ہے کیا وہ انجیل میں نہیں ہے؟
جاثلیق : جی ہاں، ہے
امام : میں دیکھتا ہوں کہ پہلی انجیل کو جب تم نہے ہتاتھوں سے دے دیا، پھر اسے کس کے پاس پایا ہے اور موجودہ انجیل کون شخص پمہارے پاس لایا ہے۔
جاثلیق : ہم نے ایک روز سے زیادہ انجیل کو ہاتھوں سے نہیں کھویا ہے یہاں تک کہ یوحنا اور متی کے وسیلہ سے انسے ازسرِ تو حاصل کیا ہے۔
امام : کس قدر تیری معلومات انجیل کی نسبت اور اس کے علماء کے متعلق ناقص ہیں۔ اگر اس طرح ہوتا جس طرح تو کہتا ہے تو اس کا کوئی معنی نہ تھا کہ تم اس طرح انجیل کے بارے میں اختلافات میں پڑتے۔ جب انجیلِ اول گم ہو گئی تو نصاریٰ اپنے علماء کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ عیسیٰ بن مریم قتل ہوگئے ہیں اور انجیل مفقود ہو گئی ہے تم علماء ہو تمہارے پاس کیا ہے؟
” الوقا “ اور ” مرقابوس “نے انہیں کہا کہ انجیل ہمارے سینہ میں ہے اور ہم اس کا سنیچر کے دن، تھوڑا حصہ تمہارے لئے بیان کریں گے اس کی خاطر غمناک نہ ہو اور گرجوں کو خالی نہ کرو اور ہم اسی طرح جس طرح ہم نے کہا ہے وہ تم پر پڑھیں گے تاکہ اس تمام کو جمع کریں۔
ان مذاکرات کے بعد ” الوقا “، ” مرقابوس ‘، ” یوحنا “ اور ” متی “ بیٹھے اور موجودہ انجیل کو وجود میں لائے اور یہ چاروں افراد عیسیٰ کے شاگرد تھے۔ (انیس الاعلام : ج ۲ ص ۶۱)
جاثلیق : میں اس بات کو ابھی تک نہیں جانتا تھا، اب میں سمجھ گیا ہوں، انجیل کے بارے میں آپ کی معلومات کی وسعت کو بھی میں نے جان لیا ہے اور میں ایسی چیزیں آپ سے سُنی ہیں کہ میرا دل ان کے حق ہونے کی گواہی دیتا ہے اور میرے فکر و نظر میں اضافہ ہوا ہے۔
امام : ان چار آدمیوں کی گواہی تیرے نزدیک کیسی ہے؟
جاثلیق : ان کی گواہی نافذ ہے، یہ انجیل کے علماء ہیں جس چیز کی گواہی دیں وہ حق ہے۔
امام نے اہلِ مجلس کی طرف رُخ کیا اور فرمایا : اس پر گواہ رہو “۔ انہوں نے کہا ہم گواہ ہیں اس کے بعد جاثلیق سے فرمایا :
بیٹے اور اس کی ماں کی قسم ! تو جانتا ہے کہ ” متی “ نے کہا، مسیح، داؤد، ابراہیم، اسحاق، یعقوب (علیہم السلام) اور حصرون کا فرزند ہے اور مرقابوس نے عیسیٰ کے نسب کے بارے میں کہا : ” وہ خدا کا کلمہ ہیں کہ خدا نے ان کو انسانی پیکر میں قرار دیا اور انسان بنایا ہے “۔
اور الوقا نے کہا : عیسیٰ بن مریم اور ان کی ماں دونوں انسان تھے گوشت و خون کے بنے ہوئے اور روح القدس ان میں داخل ہوا ہے۔
اس کے بعد تو کہتا ہے کہ عیسیٰ کی گواہی اپنے متعلق یہ ہے کہ : ” اے حواریوں کی جماعت میں تمہیں بحق یہ کہتا ہوں کہ آسمان کی بلندیوں پر نہیں جاتا کوئی بھی، سوائے اس کے جو آسمان سے نیچے آیا ہے، ہاں اونٹ پر سوار ہونے والا، خاتم پیغمبر وہ جو آسمان کی رفعتوں پر جاتا ہے اور نیچے آتا ہے۔ “ تو اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
جاثلیق : یہ عیسیٰ کا فرمان ہے میں اس کا منکر نہیں ہوں۔
امام : تو الوقا، مرقابوس اور متی کی عیسیٰ کے نسب کے بارے میں گواہی کے متعلق کیا کہتا ہے؟
جاثلیق : انہوں نے عیسیٰ کے بارے میں جھوٹ کہا ہے۔
امام : اے لوگو ! کیا ابھی ابھی اس عامل نے ان کی تعریف نہیں کی ہے اور گواہی نہیں دی ہے کہ یہ انجیل کے عالم ہیں او ان کا فرمان حق ہے؟
جاثلیق : اے مسلمانوں کے عالم ! میں اس کو دوست رکھتا ہوں کہ آپ مجھے ان کے بارے میں معاف فرمائیں۔
امام : بہت اچھا ! اب جو کچھ چاہتا ہے پوچھ !!!
جاثلیق : کوئی دوسرا آپ پر سوال کرے۔ نہیں، مسیح کی قسم ! مسلمانوں کے علماء میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
یہودی عالم کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کا مناظرہ :
اس کے بعد نے یہودیوں کے بہت بڑے عالم راس الجالوت کی طرف رخ کر کے فرمایا : تو مجھ پر سوال کرتا ہے یا میں تجھ پر سوال کروں؟
راس الجالوت : میں سوال کرتا ہوں، آپ کس دلیل پر محمد (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) لی نبوت کو ثابت کرتے ہیں؟
امام:، موسٰی بن عمران، عیسٰی بن مریم اور داؤد (علیہم السلام) ایسے خدا کے نمائندوں نے ان کی رسالت کی گواہی دی ہے۔
راس الجالوت : ان کی رسالت کے بارے میں موسٰی نے بنی اسرائیل سے فرمایا :
حتمی طور پر تمہارے بھائیوں میں سے ایک پیغمبر تمہارے لئے مبعوث ہوگا لازمًا اس کی تصدیق کرنا اور اس کی بات کو سننا۔ “ کیا بنی اسرائیل کے بھائی سوائے اسماعیل کے فرزندوں کے کسی اور کو تو جانتا ہے؟
راس الجالوت : جو مطلب آپ نے نقل کیا ہے وہ موسیٰ کا قول ہے ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں۔
امام : کیابنی اسرائیل کے بھائیوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی اور رسول آیا ہے؟
راس الجالوت : نہیں
امام : کیا جو کچھ میں نے کہا ہے درست نہیں ہے اور یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کو ثابت نہیں کرتا؟
راس الجالوت : کیوں نہیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس کی صحت آپ تورات کے ذریعہ ثابت کریں۔
امام : کیا تو قبول نہیں کرتا کہ تورات تمہیں کہتی ہے : روشنی کوہ طورِ سینا سے آئی، کوہ ساعیر سے اس نے ہم پر پَرتَو ڈالا اور کوہ فاران سے ہم پر روشن و آشکار ہوئی۔
راس الجالوت : یہ کلمات توارت میں ہیں لیکن میں ان کے مقصود کو نہیں جانتا۔
امام : میں مقصد بیان کئے دیتا ہوں : نورِ سینا کی طرف سے آیا۔ اس سے مراد وہ مطالب ہیں جو خدا نے وحی کے ذریعہ سے کوہ طور پر موسیٰ پر نازل کیا۔ اور کوہ ساعیر سے اس نے لوگوں پر پَرتَو ڈالا سے مراد ساعیر وہ پہاڑ ہے جہاں خدا نے حضرت عیسیٰ پر وحی کی۔
کوہِ فاران سے ہم پر روشن ہوا کے جملہ کا مفہوم ہے۔ فاران مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کا نام ہے اس کے اور مکہ کے درمیان ایک دن کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ اور شعیائے پیغمبر نے ان مطالب میں جو تو اور تیرے ساتھی تورات کا ایک حصہ جانتے ہو، کہا ہے : مَیں نے دو سوار دیکھے کہ زمین ان کے لئے روشن ہو گئی تھی ایک گدھے پر سوار، دوسرا اونٹ پر سوار۔
گدھے پر سوار اور اونٹ پر سوار سے مراد کون ہیں؟
راس الجالوت : میں نہیں جانتاآپ خود فرمائیں۔
امام : پہلے سے مراد عیسیٰ اور دوسرے سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کیا تو اس کا انکار کرتا ہے کہ یہ تورات کا جزو نہیں ہے؟
راس الجالوت : نہیں
امام : کیا تو حیقوق پیغمبر کو پہچانتا ہے۔
راس الجالوت : جی ہاں، میں پہچانتا ہوں۔
امام : انہوں نے کہا اور تمہاری کتاب اس کی گواہی دیتی ہے : ” خداوند، کوہِ فاران سے ایک روشن گر کلام لایا اور آسمان، حمد اور ان کے پیروؤں کی تسبیح سے پُر ہو گئے وہ اپنی فوج کو سمندر میں لے جائے گا۔ جس طرح صحراء میں۔ ہمارے لئے نئی کتاب لائے گا بیت المقدس کے خراب ہو جانے کے بعد۔ “
کتاب سے مراد، قرآن ہے کیا تو اس مطلب کو جانتا ہے اور اس کا اعتقاد رکھتا ہے؟
راس الجالوت : حیقوق پیغمبر نے یہ بات کہی ہے اور ہم اس کے منکر نہیں ہیں۔
امام : داؤد علیہ السلام نے زبور میں کہا، کیا تو اس کو پڑھتا ہے؟ ” خدایا! فترت کے بعد سُنّت کے بپا کرنے والے کو مبعوث کر۔ کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا تو کسی پیغمبر کو پہچانتا ہے، جس نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہو؟
راس الجالوت : ہم داؤد علیہ السلام کے اس قول کو قبول کرتے ہیں اور انکار نہیں کرتے لیکن ان کے اس قول سے مراد عیسیٰ ہیں۔
امام : تو نہیں سمجھا، کیونکہ عیسیٰ نے اپنے سے پہلے کی سنت کی مخالفت نہیں کی وہ تورات کی سنت کے موافق تھے یہاں تک کہ خدا انہیں اپنی طرف بلند لے گیا اور انجیل میں لکھا ہے : وہ سنگینیوں کو سبک کر دے گا، ہر چیز کی تمہارے لئے وضاحت کرے گا وہ میری گواہی دے گا، جس طرح میں نے ان کی گواہی دی ہے میں تمہارے لئے امثال لایا ہوں وہ ان کی توضیح لائے گا۔ “
کیا تو مانتا ہے کہ یہ عبارت انجیل میں ہے؟
راس الجالوت : جی ہاں، میں انکار نہیں کرتا۔
امام : میں تیرے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تُجھ سے سوال کرتا ہوں۔
راس الجالوت : پوچھیں
امام : وہ دلیل جو موسیٰ کی نبوت ثابت کرے وہ کیا ہے؟
راس الجالوت : وہ ایسے معجزات لائے کہ سابقہ انبیاء میں سے کوئی ایک بھی ویسے نہیں لایا۔
امام : کس کی مانند؟
راس الجالوت : مثلًا دریا شگافتہ کرنا، عصا کواژدھا بنانا، دوسرے معجزات کہ کوئی شخص ان کی مثل نہیں لا سکتا ہے۔
امام : تو درست کہتا ہے۔ عام لوگوں میں سے کوئی شخص وہ کام انجام نہیں دے سکتا جو موسیٰ نے انجام دیئے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص بھی ادعائے نبوت کرے اور معجزات بھی رکھتا ہو کیا تجھ پر لازم نہیں ہے کہ تو اقرار کرے؟
راس الجالوت : نہیں، مگر یہ کہ وہ موسیٰ علیہ السلام جیسے معجزات رکھتا ہو۔
امام : اس بنا پر کس طرح تم موسیٰ سے پہلے کے معجزات پر اعتقاد رکھتے ہو جبکہ وہ موسیٰ کے معجزات نہیں رکھتے تھے؟
راس الجالوت : لازم نہیں ہے کہ ان کے معجزات عینِ معجزات موسیٰ ہوں، اسی قدر کو معجزہ رکھتے ہوں ان کی نبوت کی تصدیق کے لئے کافی ہے۔
امام : اس بنا پر پس تم کیوں عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ہو وہ بھی معجزہ رکھتے تھے، مردہ کو زندہ کرتے تھے، اندھے وار کوڑھی کو شفا بخشتے تھے، مٹی سے مجسمہ بناتے تھے، اس میں روح پھونکتے تھے اور وہ ایک زندہ پرندہ کی صورت میں آ جاتا تھا۔
راس الجالوت : یہ سب زبانی اور نقل قول ہے ہم جو عیسیٰ کے زمانہ میں نہیں ہوئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ انہوں نے یہ کام کئے ہیں یا نہیں۔
امام : یکا تو موسیٰ کے زمانہ میں رہا ہے اور تو نے ان کے معجزات کو دیکھا ہے کیا اس طرح نہیں ہے کہ موسیٰ کے بارے میں بھی حضرت موسیٰ کے اصحاب کی صرف باتیں ہی قابل اعتماد ہیں جو ان معجزات کو ثابت کرتی ہیں؟
راس الجالوت : کیوں نہیں، اسی طرح ہے۔
امام : عیسیٰ کے بارے میں حضرت موسیٰ کی مانند متواتر اور قطعی اخبار و احادیث آپ تک پہنچی ہیں کہ عیسیٰ نے کیسے کام انجام دیئے کس طرح تم موسیٰ کی تصدیق کرتے ہو اور عیسیٰ کی نہیں کرتے؟
یہودی عالم جواب میں عاجز رہ گیا، لیکن امام نے کلام کو جاری رکھا اور فرمایا، ” حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ہر ایک پیغمبر کے بارے میں جس کو خدا نے مبعوث کیا، یہی مطلب ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ ایک بے نوا یتیم تھے، گڈریے، وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، درس کی کلاس نہیں دیکھی تھی باوجود اس کے بعثت کے بعد وہ قرآن لائے جس میں پیغمبر وں کے اخبار و واقعات لفظ بہ لفظ نقل ہوئے پہلوں اور آنے والوں کی قیامت تک کی خبریں اس میں درج ہوئیں۔
اس کے علاوہ وہ لوگوں کے اسرار و راز بیان کرتے تھے جو کچھ ان کے گھروں میں ہوتا اس کی خبر دیتے تھے اور دوسرے بے شمار معجزات کے مالک تھے۔
راس الجالوت : عیسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات ہم پر ثابت نہیں ہوئے اور اس لحاظ سے ہم ان کی رسالتوں کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
امام : یعنی تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ جو عیسیٰ و محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات نقل کرتے ہیں وہ جھوٹ بولنے والے ہیں، لیکن جنہوں نے موسیٰ کے معجزات نقل کئے ہیں وہ سچ بولنے والے ہیں؟
اب یہودی عالم کوئی جواب نہیں رکھتا تھا۔
امام رضا علیہ السلام کا مناظرہ زردشتوں کے بزرگ کے ساتھ :
اس کے بعد زردشتیوں کے بزرگ کو امام کے ساتھ گفتگو کی دعوت دی گئی۔
امام نے اس سے پوچھا : زردشت کی نبوت پر تیری دلیل کیا ہے؟
وہ ہمارے لئے ایسی چیزیں لائے کہ ان سے پہلے کوئی نہیں لایا تھا، ہم نے ان کو نہیں دیکھا ہے لیکن ہمارے آباء واجداد سے ہم تک پہنچا ہے کہ انہوں نے ہمارے لئے ایسی چیزیں حلال کیں جو دوسروں نے نہیں کی تھیں، اس وجہ سے ہم ان کے پیرو ہوئے۔
امام : کیا پہلے لوگوں کی خبروں کی راہ سے ان کی نبوت تم پر ثابت ہوئی ہے؟
جی ہاں:
امام : یہ اخبار، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی نبوت کے بارے میں بھی ہیں، پس کیوں تم ان کی نبوت کا اعتراف نہیں کرتے ہو؟
اس کے بعد کوئی ایک لفظ نہ کہہ سکا۔ ایک خاص ہیبت اور رعب مجلس پر چھا گیا اور دوسرا کوئی شخص بات نہیں کر سکتا تھا، امام نے حاضرین کی طرف رُخ کیا اور فرمایا : ” اگر تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو اسلام کا دشمن ہو بغیر کسی شرم کے وہ جو چیز چاہے مجھ سے پوچھ لے۔
ایک شخص عمران نام کا اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا : ” اے عالم ! اگر آپ سوال کرنے کی دعوت نہ دیتے تو میں سوال نہ کرتا۔ میں کوفہ، بصرہ، شام اور جزیرہ میں گیا ہوں اور متکلمین سے میں نے بحث کی ہے اور ابھی تک کوئی میرے سامنے خدائے واحد کو ثابت نہیں کر پایا ہے، کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے سوال کروں؟
امام : اگر اس جمعیت میں کوئی شخص ” عمران الصابی “ کے نام سے ہے وہ تو ہی ہے؟
عمران : میں وہی ہوں۔
امام : سوال کر یکن انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے، بے محل گوئی، بحث میں ظلم و زیادتی سے پرہیز کر۔
عمران : بخدا ! میر ا واحد مقصد حقیقت پانا ہے۔
امام : سوال کر
لوگ امام و عمران کے مناظرہ کو اچھی طرح سننے کیلئے ٹوٹ پڑے اور ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔ عمران نے اپنے سوالات کئے امام نے ان کے جوابات دیئے یہاں تک کہ اس کے تمام شبہات دُور ہو گئے، حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد بڑی شہامت کے ساتھ اس، انبوہ کثیر کے سامنے اس نے خدا کی وحدانیت، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی اس کے بعد اس نے قبلہ کی طرف رُخ کیا اور سجدہ میں گر پڑا۔
نوفلی کہتا ہے، جب متکلمین نے مناظرہ کی کیفیت اور عمران کے تسلیم ہونے کا مشاہدہ کیا اور اس پر توجہ کرتے ہوئے کہ وہ ایسا شخص تھا کہ ابھی تک فنِ مناظرہ میں کوئی شخض بھی اس پر غالب نہیں آیا تھا، کسی شخص نے امام کے ساتھ مناظرہ کرنے کی جرات نہ کی، مجلس ختم ہو گئی لوگ منتشر ہو گئے۔
میں اپنے دوستوں کے ایک گروہ کے ساتھ تھا، کہ ” محمد بن جعفر “ نے ایک آدمی میرے پیچھے بھیجا، میں ان کے سامنے گیا، انہوں نے مجھے کہا، نوفلی ! تو نے دیکھا ہے کہ تیرے دوست نے آج کیا کیا؟ بخدا ! میں گمان نہیں کرتا تھا کہ وہ ایسی بحث کرے گا وار ابھی تک ہم نے اس کو اس طرح نہیں پہچانا تھا، مگر یہ کہ وہ مدینہ میں کلام کا درس دیتے تھے یا اہلِ کلام ان کے قریب جمع ہوتے تھے۔
نوفلی : حج کے موقع پر لوگ ان کے نزدیک آتے تھے اور حلال و حرام کے مسائل پوچھتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص آتا تھا اس کے ساتھ مناظرہ کرتے تھے۔
محمد بن جعفر : میں ڈرتا ہوں کہ یہ شخص (مامون) ان کے ساتھ حسد کرے گا اور ان کو زہر دے گا یا کوئی اور بلا ان کے سر پر لے آئے گا، ان سے کہہ دے کہ اس قسم کی مجلس میں شرکت نہ کیا کریں۔
نوفلی : میرا کہنا نہیں مانتے اور اس شخص یعنی مامون کا واحد مقصدیہ تھا کہ ان کو آزمائے کہ ان کے پاس ان کے آباو اجداد کے علم سے کوئی چیز ہے یا نہیں ہے۔
محمد بن جعفر : میری طرف سے انہیں کیوں دیں کہ آپ کے چچا مائل نہں ہیں کہ آپ اس قسم کے مسائل میں وارد ہوں اور وہ مختلف وجوہات کی بنا پر پسند کرتے ہیں کہ آپ اس قسم کے مباحث نہ کریں۔
نوفلی کہتا ہے امام کی خدمت میں پہنچا اور ان کے چچا کا پیغام ان تک پہنچایا۔ امام ہوئے، پھر فرمایا : ” خدا میرے چچا کو محفوظ رکھے میں انہیں خوب جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کیوں مائل نہیں ہیں۔ “
اس کے بعد اپنے غلام کو آزاد دی اور اسے کہنے لگے۔ عمران کو تلاش کرے کے میرے سامنے لاؤ۔ میں نے کہا : ” میں آپ پر قربان جاؤں میں جانتا ہوں کہ عمران کہاں ہے، وہ شیعہ بھائیوں میں سے ایک کے پاس ہے۔ فرمایا : کوئی مانع نہیں ہے، اس کے لئے سواری لاؤ۔ میں سوار ہوا، اس کو لایا امام نے اسے خوش آمدید کہا، امام نے ایک لباس، ایک مرکب (گھوڑا) اور دس ہزار درہم اسے ہدیہ و تحفہ کے طور پر دیئے۔
میں نے کہا ” میں آپ پر قربان جاؤں آپ نے اپنے جدِّ اعلیٰ امیر المؤمنین علیہ السلام کی مانند سلوک کیا ہے۔ فرمایا : ” ایسا کرنا چاہیے “۔ اس کے بعد فرمایا : شام کا کھانا لاؤ۔ مجھے اپنی دائیں جانب بٹھایا اور عمران کو بائیں جانب اور ہم نے امام کے ساتھ شام کا کھانا کھایا۔
اس مجلس کے بعد مختلف مکاتیبِ فکر کے متکلمین، عمران کے پاس جمع ہوتے تھے اور وہ ان کے نظریات کو باطل کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اس سے اجتناب کرتے تھے۔ (بحار الانوار : ج ۱۰، ص ۲۹۹۔ نقل از توحید صدوق ، عیون الاخبار، احتجاج طبرسی )
باب : ۶
امام زین العابدین علیہ السلام اور حسن بصری کے درمیان گفتگو :
حسن بصری اول صدی ہجری میں اسلام کے بزرگ ترین علماء میں سے ایک ہیں۔ بنی امیہ کے دربار حکومت نے ان کے مذہبی چہرہ شخصیت سے اپنی فریب کاریوں، اپنے گناہوں کی تاویل و توجیہہ کے لئے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔
امام علی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں حسن بصری ایک نورس جوان تھا۔ جنگِ جمل کے خاتمہ، فتح بصرہ کے موقع پر جب یہ فتح امام کی فوج کے ہاتھوں ہوچکی اور جب امام لوگوں کے شورو غل اور ہجوم کی امواج میں بصرہ میں وارد ہو رہے تھے تو لوگوں کے بے پناہ ہجوم میں آپ نے ایک جوان کو دیکھا جس کے ہاتھ میں قلم اور تختی تھی اور جو امام کہتے تھے وہ لکھتا اور نوٹ کرتا جاتا تھا۔ حضرت نے بلند آواز سے صدا دی ” تو کیا کرتا ہے؟ “
حسن نے جواب دیا ” میں آثار نوٹ کر رہا ہوں، تاکہ آپ کے بعد لوگوں کے سامنے بیان کروں۔ امام علی علیہ السلام نے اس مقام پر ایک جملہ فرمایا جو بہت ہی جالب، دلکش اور قابلِ توجہ ہے، فرمایا :
اما إِنَّ لَکُلِّ قَوْمٍ سَامَرِیًّا وَ ھَذَا سَامَرِی ھَذِہ الأمَّة الا أنَّہ، لَا یَقُوْلُ لَا مساسَ و لکِنہ یَقُوْلُ لَا قِتَالَ۔
لوگوں آگاہ رہو کہ ہر ملت ایک سامری رکھتی ہے جو اپنے فریب اور اپنے مذہبی چہرہ کے ساتھ معاشرہ کو اپنی راہ سے منحرف کرتاہے۔ اور یہ اس امت کا سامری ہے اور حضرت موسیٰ کے زمانہ کے سامری سے اس کا فرق صرف یہی ہے کہ وہ کہتا تھا ” لا مساس “ کوئی شخص مجھ سے تماس نہ کرے اور یہ کہے گا ” لا قتال “۔ بنی امیہ کی مجرم حکومت سے جنگ غلط ہے۔
امام علی علیہ السلام کی پیش گوئی پوری ہوئی، اس عالم نے بنی امیہ کی حکومت کی اتنی خدمت کی کہ محقیقین میں سے ایک قول کے مطابق اگر حسن بصری کی زبان اور حجاج کی تلوار نہ ہوتی تو مروانی حکومت گہوارے ہی میں زندہ درگور ہو جاتی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حسن بصری بیٹھا ہے اور بے شمار لوگ اس کے سامنے صف بستہ کھڑے ہیں وہ اس مہارت کے ساتھ جو اسے بات کہنے میں حاصل ہے اپنی تقریر کے دوران کہتا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے : حکمرانوں کو بُرا بھلا نہ کہو، کہ وہ اگر نیکی کریں تو ان کے لئے اجر و پاداش ہے اور تم پر لازم ہے کہ شکر ادا کرو اور اگر وہ برا کریں اس کے لئے ان کے کردار کا کیفر ہے اور تم پر لازم ہے کہ صبر کرو کہ وہ بلا ہیں کہ خدا ان کے وسیلہ سے جس سے چاہتا ہے انتقام لیتا ہے۔
اور یہی عالم تھا جس نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ بنی امیہ کے بادشاہوں کی اطاعت واجب ہے اگرچہ و ہ ظلم کریں کیونکہ خدا ان کے وسیلہ سے اصلاحات کرتا ہے جو ان کے گناہوں سے زیادہ ہیں۔ بہرحال امام چہارم امام زین العبادین علیہ السلام کے زمانہ کے مذہبی چہروں میں ایک معروف عالم تھا۔ امام اس کو رسوا کرنے کے لئے اس مجلس میں جس میں وہ تقریر کر رہا تھا اس کے ساتھ مناظرہ اور جالب گفتگو کرتے ہیں جواب بیان کی جاتی ہے۔
حسن بصری کے ساتھ امام کی گفتگو :
ایک دن حسن بصری لوگوں کے انبوہ کثیر کے سامنے سرزمین۔ منی۔ میں وعظ و تقریر میں مشغول تھا۔ امام سجاد علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، جب اس تقریر کا منظر دیکھا تو ٹھہر گئے اور مقرر سے کہا :
ذرا خاموش ہو جاؤ !
امام : تیرا اپنا کردار، تیرے اپنے اور خدا کے درمیان کیا اس طرح ہے کہ اگر کل تجھے موت آلے تو تُو اپنے عمل سے راضی ہو گا۔
حسن بصری : نہیں
امام : کیا تو عزمِ صمیم رکھتا ہے کہ تو موجودہ کردار ترک کر دے گا اور اپنے لئے ایسا کردار اپنائے گا جو پسندیدہ ہو گا۔ حسن بصری نے تھوڑا سا سر کو نیچے جھکائے رکھا اس کے بعد اٹھایا اور کہا :
میں زبان سے کہتا ہوں پختہ عزم رکھتا ہوں لیکن بغیر حقیقت کے۔
امام : کیا تو امید رکھتا ہے کہ کوئی پیغمبر، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آئے اور تو اس کی پیروی سے سعادت مند ہو جائے؟
حسن بصری : نہیں
امام : کیا تو امید رکھتا ہے کہ دوسرا جہان ہو گآ جہاں تو اپنی مسؤلیتوں اور ذمہ داریوں پر عمل کرلے گا؟
حسن بصری : نہیں
امام : کیا تو نے کسی کو دیکھا ہے کہ کمترین شعور کے ساتھ، تیری حالت کو اپنے لئے پسند کرے؟ تو اپنے اعتراف کے ساتھ ایسی حالت میں بسر کر رہا ہے کہ اس سے راضی نہیں ہے اور اس حال سے منتقل ہونے کا عزم راسخ بھی نہیں رکھتا، کسی دوسرے جہان کا عمل کے لئے امید وار نہیں ہے اس وقت اس تاسف انگیز حالت کے رکھنے کے باوجود دوسروں کے وعظ و نصیحت میں مشغول ہے۔
امام کی طاقتور دلیل و منطق نے اس سخنور کو اس طرح بے بس کر دیا کہ وہ کوئی بات نہیں کہہ پایا۔ جونہی امام اس سے دور تر ہوئے حسن بصری نے پوچھا : یہ کون تھے؟ “
حسن بصری : وہ علم و دانش کے خاندان سے ہیں۔
اس رسوائی کے بعد پر لوگوں نے حسن بصری کو موعظہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (بحار الانوار : ج ۱۰، ص ۱۴۶)
باب : ۷
خدا کہاں ہے؟
حضرت امام علی علیہ السلام اور ایک زندیق کے درمیان گفتگو
خلافت ابو بکر کے زمانہ میں ایک دن ایک یہودی عالم ان کے پاس آیا، اور پوچھا، آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلیفہ ہیں؟
ابو بکر : ہاں
دانشور : ہم نے تورات میں پڑھا ہے کہ پیغمبروں کے جانشین، ان کے تمام پیروؤں سے عالم ہوتے ہیں، کیا ممکن ہے کہ آپ فرمائیں کہ خدا آسمان میں ہے یا زمین میں؟
ابوبکر : خدا آسمان میں ہے عرش پر
دانشور : اس بناء پر زمین خدا سے خالی ہے اور خدا ایک جگہ ہے اور ایک جگہ نہیں ہے؟
ابو بکر : یہ بے دین لوگوں کی باتیں ہیں ایک دیندار انسان اس قسم کی باتیں نہیں کرتا، دور ہو جا ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔
وہ یہودی عالم بڑے تعجب کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھا، اس حال میں کہ وہ اسالم کا تمسخر اڑا رہا تھا، وہ حضرت ابو بکر کے پاس سے لوٹا۔ راستہ میں امام علی علیہ السلام سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ امام نے اس سے فرمایا : میں نے سمجھ لیا ہے کہ تو نے ابوبکر سے کیا پوچھا ہے اور اس نے تجھے کیا جواب دیا ہے، لیکن جان لے کہ ہم معتقد ہیں کہ خدواند مکان کو وجود میں لایا ہے اس بنا پر یہ نہیں ہو سکتا کہ و ہ مکان رکھتا ہو، وہ اس سے کہیں بر تر ہے کہ مکان اس کو اپنے اندر جگہ دے۔ لیکن اس کے باوجود خدا ہر جگہ ہے بغیر اس کے کہ وہ کسی چیز سے تماس پیدا کرے یا کس چیز کے پہلو میں واقع ہو، وہ علمی نظر سے تمام مکانوں پر احاطہ رکھتا ہے اور موجودات میں سے کوئی ایک بھی اس کی تدبیر سے خالی نہیں ہے۔
گر میں خود تمہاری کتابوں سے مطلب نقل کرں جو اس کے درست ہونے پر گواہی دے جو میں نے کہا ہے تو کیا تو مسلمان ہو جائے گا؟
دانشور : جی ہاں
امام : کیا تمہاری مذہبی کتابوں میں سے ایک میں یہ نہیں ہے۔ ” موسیٰ بن عمران ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک فرشتہ مشرق کی طرف سے آیا، موسیٰ نے اسے پوچھا تو کہاں سے آیا ہے؟ فرشتہ نے جواب دیاخدا کی جانب سے ایک اور فرشتہ مغرب کی طرف سے آیا، موسیٰ نے پوچھا تو کہاں سے آیا ہے؟
اس نے جواب دیا : خدا کی طرف سے ایک اور فرشتہ آیا، موسیٰ نے پوچھا، تو کہاں سے آیا ہے؟ اس نے عرض کیا، ساتویں زمین سے۔ خدا کے حضور سے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس منظر کو دیکھ کر بڑے تعجب کے ساتھ کہا پاک ہے وہ خدا کہ کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی نسبت قریب تر نہیں ہے۔
اس واقعہ کے بیان کے بعد یہودی عالم نے کہا : میں گواہی دیتاہوں کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے مکمل طور پر صحیح ہے اور آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانشینی کے لئے زیادہ شائستہ و سزاوار ہیں۔ “ (احتجاج طبرسی : جلد ۲، ص ۳۱۳)
اس کی مثل ایک اور داستان :
انس بن مالک کہتا ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد ایک یہودی اسلام کے بارے میں تحقیق کے لئے مدینہ میں آیا، لوگوں کو اس نے کہا کہ وہ اس کی ایسے شخص تک پہنچنے میں رہنمائی کریں جو اس کے سوالوں کے جواب دے سکے۔ لوگوں نے حضرت ابو بکر کی طرف اس کی رہنمائی کی۔ وہ شخص حضرت ابو بکر کے پاس آیا اور کہا، میں ایسے حالات رکھتا ہوں کہ پیغمبر اور اس کے وصی کے سوا کوئی بھی ان کے جواب کو نہیں جانتا؟
حضرت ابو بکر : جو کچھ تو چاہتا ہے پوچھ !
یہودی : وہ کیا ہے جو خدا نہیں رکھتا؟ وہ کیا ہے جو خدا کے پاس نہیں ہے؟وہ کیا ہے جو خدا نہیں جانتا؟
حضرت ابو بکر غصہ میں بھر گئے اور اسے کہا کہ یہ بے دین لوگوں کے سوالات ہیں، اسے قتل کر دینے کا ارادہ کیا، وہاں موجود تمام مسلمان بھی اس کی سزا ” اسے مار دینا “ جانتے تھے۔ ابن عباس جو اس جگہ موجود تھے، انہوں نے کہا کہ اس مرد کے بارے میں ناانصافی کی ہے۔
حضرت ابو بکر : تو نے نہیں سنا کہ اس نے اب کیا کہا ہے؟
ابن عباس : اگر ہو سکتا ہے تو اس کے سوالات کا جواب دو ورنہ اسے حضرت علی علیہ السلام کے پاس لے جاؤ کہ وہ اسے جواب دیں گے کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ وہ علی بن ابیطالب (علیہما السلام) کو فرماتے تھے : ” اے خدا ! اس کے دل کو ہدایت کر اور اس کی زبان کو استوار رکھ “۔
حضرت ابو بکر اور تمام حاضرین مجلس اٹھے اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے۔
حضرت ابو بکر : اے ابو الحسن (علیہ السلام) ! یہ یہودی مجھ سے زندیقوں اور بے دینوں کی مانند سوال کرتا ہے۔
امام علی علیہ السلام نے یہودی کی طرف رخ کیا اور فرمایا : ” تو کیا کہتا ہے؟“
یہودی : میں ایسے سوالات رکھتا ہوں کہ سوائے پیغمبر اور اس کے وحی کے کوئی شخص ان کا جواب نہیں جانتا۔
امام : اپنے مسائل پیش کر۔
یہودی نے انہی مسائل کو دہرایا۔
امام : جو چیز خدا نہیں جانتا، وہی چیز ہے جو تم یہودی کہتے ہو کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے، خدا نہیں جانتا کہ وہ بیٹا رکھتا ہے۔
اور جو چیز خدا کے نزدیک نہیں ہے وہ بندوں پر ظلم و ستم ہے جو اس کے نزدیک نہیں ہے۔ اور وہ چیز جو خدا نہیں رکھتا وہ مثل و ہمتا ہے کیونکہ وہ بے مثل و بے مثال ہے۔ یہودی نے اس بات کو سنتے ہی شہادتین کو زبان پر جاری کیا اور مسلمان ہو گیا۔ حضرت ابو بکر اور حاضرین نے علی (علیہ السلام) کو غم دور کرنے والے کا لقب دیا۔ (الغدیر : جلد ۷، ص ۱۷۹، کتاب ” المجتنی “ س ۳۵)
باب : ۸
چالیس مسائل؟ امام باقر علیہ السلام اور قتادہ کے درمیان گفتگو
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں : ” میں مسجد النبی میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا، ایک مرد میری طرف آ رہا ہے وہ نزدیک پہنچا، میں نے سلام کیا اس نے کہا ” تو کون ہے؟ “
ابو حمزہ : میں کوفہ کا ایک شخص ہوں، تجھے کیا کام ہے؟
مرد : کیا تو ابو جعفر محمد بن علی (علیہما السلام) کو پہچانتا ہے؟
ثمالی : جی ہاں ! تجھے ان کے ساتھ کیا کام ہے؟
مرد : میں نے چالیس سوال تیار کئے ہیں تاکہ ان سے پوچھوں، جو بھی ان سے درست ہو اس کو قبول کروں اور جو بھی نادرست ہو اس کو چھوڑ دوں۔
ابو حمزہ : کیا تو خود ان سوالات کے جوابات درست یا نادرست ہونے کی تشخیص رکھتا ہے؟
مرد : جی ہاں
ابو حمزہ : اس صورت میں تجھے اس کی کیا احتیاج ہے؟
مرد : تم اہل کوفہ بڑے پُر گو ہو، میں آرزو مند ہوں جب تو انہیں دیکھے مجھے خبر کر۔
وہ یہی بات کرہی رہا تھا کہ امام، خراسان اور دوسرے لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے، امام بیٹھ گئے اور لوگوں نے ان کو اطراف سے گھیر لیا۔ حج کے مسائل ان سے پوچھنے لگے وہ شخص بھی ان کے ساتھ مل گیا اور اس حلقہ میں امام کے نزدیک بیٹھ گیا۔
ابو حمزہ کہتے ہیں، میں ان کے زیادہ نزدیک گیا، تاکہ ان کی گفتگو کو بہتر طور پر سنوں۔ جب امام نے ان لوگوں کے مسائل کا جواب دیا اور وہ چلے گئے۔ اس کے بعد امام نے نووارد شخص پر نظر کی اور فرمایا کہ تم کون ہو؟
مرد : میرا نام قتادہ ہے۔ بنی امیہ کا ایک حامی عالم (فقیہہ) و عامہ کا فرزند، اہل بصرہ میں سے۔
امام : کیا بصرہ کا فقیہہ تو ہے؟
قتادہ : جی ہاں
امام : تجھ پر افسوس ! خدا نے ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور ان کو اپنی مخلوقات پر حجت قرار دیا ہے کہ وہ زمین کی میخیں ہیں، معاشرہ کی وحدت و اتحاد ان کی امامت سے وابستہ ہے، وہ علم خدا میں پاک اور ستودہ ہیں، اس نے آفرنیش سے پہلے ان کو چنا ہے اور برگزیدہ بنایا ہے، جب کہ وہ عرش کے دائیں طرف شج و اشباح تھے۔
امام ان باتوں سے بڑے بڑے فرائض جو اس تاریک زمانہ، اس خود فروختہ عالم پر لازم تھے اس کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ وہ کس طرح حق و حقیقت کو ناچیز قیمت پر بیچتا ہے۔ اور خدا کے منتخب کردہ حقیقی امام کا تعارف کرانے کی بجائے اپنے مذہبی چہرہ کے ساتھ لوگوں کو بنی امیہ کی مجرم حکومت کی جانب مائل کرتا ہے۔
امام کی باتوں کے تمام ہونے کے بعد قتادہ نے طولانی مدت تک سکوت کئے رکھا اور اس کے بعد کہا :
” بخدا ! میں بزرگ فقہاء کے مقابلہ میں حتی عظیم علماء کے سامنے، ابن عباس جیسوں کے پاس بیٹھا ہوں لیکن میں نے کسی مجلس میں اس مجلس کی مانند اضطراب محسوس نہیں کیا ہے۔
امام : تو جانتا ہے کہ کہاں ہے اور کس کے سامنے ہے؟ تو ان گھروں کے سامنے ہے جن کے بارے میں خدا نے فرمان دیا ہے کہ ان گھروں کو گرامی رکھیں اور ہر صبح اور شام کو ان میں خدا کو یاد کریں۔ (اشارہ سورة نور : ۳۶) فی بیوت اذن اللّٰہ ان ترفع و یذکر فیہا سمہ یسبح لہ فیھا بالغدوّ و الاصال رجال
قتادہ : بخدا! آپ نے سچ کہا، خدا مجھے آپ پر ندا کرے، بخدا ان گھروں سے مراد وہ معمولی عمارتیں نہیں ہیں جو پتھر اور گارے سے تعمیر ہوتی ہیں۔ پنیر کا کھانا آپ کے عقیدہ میں کیسا ہے؟
امام نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا : وہ مشکل مسائل جو پوچھنے کے لئے تو نے تیار کئے تھے وہ اس سادہ مسئلہ میں بدل گئے ہیں؟
قتادہ : میں کیا کروں ان سب کو بھول گیا ہوں۔
امام : پنیر کا کھانا کوئی اشکال نہیں رکھتا۔ (بحار، جلد ۴۶، ص ۳۵۷، اصول کافی جلد ۶ ص ۲۵۶)
باب : ۹
خدا کہاں ہے؟ حضرت امام رضا علیہ السلام اور ابو قرہ کے درمیان گفتگو
ایک شخص ابو قرہ نامی امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور مختلف مسائل کو موضوع گفتگو بنایا یہاں تک کہ بحثِ توحید تک جا منتہی ہوئی، اس نے پوچھا : خدا کہاں ہے؟
امام : کہاں “ مکان ہے اور اس قسم کا سوال، غائب سے حاضر کا سوال ہے، مثلًا یہ کہ جب تو اپنے دوست کے گھر میں وارد ہوتا ہے اور اس کو گھر میں نہیں دیکھتا تو تُو کہتا ہے کہ میرا دوست کہاں ہے؟ لیکن خدائے متعال غائب نہیں ہے۔ کوئی شخص اس پر وارد نہیں ہوتا، وہ ہر مکان میں وجود رکھتا ہے، مدبر جہان اور آسمانوں و زمین کا بنانے والا اور نگاہ میں کرھنے والا ہے۔
ابو قرہ : کیا وہ آسمان پر نہیں ہے؟
امام رضا علیہ السلام : وہ آسمانوں اور زمین میں خدا وہ وہ ذات ہے جو آسمانوں پر خدا ہے زمین میں خڈا ہے وہ وہ جو تمہاری ماؤں کے رحموں میں صورت گری کرتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔
ابو قرہ : اگر خدا ہر جگہ پس کیوں تم دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہو؟
امام : خدا نے اپنی حکمت کی اساس پر مختلف عبادات اپنی مخلوق سے چاہی ہیں بعض عبادات گفتار سے مربوط ہیں، بعض کردار کے ساتھ وابستہ، بعض عبادات میں خاص نقطہ کی توجہ کرنا ہے مثلًا عبادات میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ نماز کے وقت کعبہ کی طرف کھڑے ہوں، اسی طرح حج و عمرہ میں حکم دیا ہیکہ اس طرف انجام دیں۔
عبادات کی انواع میں سے ایک دعا بھی ہے خدا نے اپنی مخلوقات سے چاہا ہے کہ دعا کے وقت عاجزی کے عنوان سے اور عبادت کی علامت اور اس کے سامنے پستی کے اظہار کے طور پر اپنے ہاتھوں کو دراز کریں اور آسمان کی جانب بلند لے جائیں۔
ابو قرہ : کیا فرشتے خدا کے نزدیک تر ہیں یا اہل زمین؟
امام : اگر نزدیکی سے تیرا مقصد نزدیک ایسا ہونا ہے جو بالشت اور گز سے ماپا جائے، اس قسم کی نزدیکی خدا کے مطابق قابلِ تصور نہیں ہے اور تمام چیزیں کلی طور پر اس کا فعل ہیں، خدا کا بعض چیزوں کی رسیدگی کرنا اس کو بعض دوسری چیزوں کے انتظام کرنے سے باز نہیں رکھتا، خدا عین اسی حال میں کہ مخلوقات بالا ترین کا انتظام کرتا ہے، عین اسی حال میں ان کے پائین ترین کا بھی انتظام کرتا ہے، اسی آن میں جب اپنی اولین مخلوق کی رسیدگی کرتا ہے اپنی آخری مخلوقات کی بھی رسیدگی کرتا ہے، بغیر اس کے کہ جہان ہستی کو اس عظمت کے ساتھ چلانے میں رنج و زحمت سے دوچار ہو یا یہ کہ خرچ اور مشورہ کی احتیاج رکھتا ہو یا تھکن کا احساس کرے۔
اگر تیرا مقصد خدا کی نزدیکی سے، معنوی نزدیکی اور قرب ہے تو ہر وہ شخص، کیا انسان کیا فرشتہ جو زیادہ خدا کے قوانین پر کاربند ہو وہ مقرب تر اور خدا کے نزدیک تر ہے۔
ابو قرة : کیا آپ اعتراف کرتے ہیں کہ خدا کسی چیز پر حمل ہوا ہے؟
امام : نہیں، کیونکہ جو چیز قابلِ حمل ہو وہ اٹھانے والے کی احتیاج رکھتی ہے اور ناممکن ہیکہ خداوند احتیاج رکھتا ہو۔
ابو قرة : پس آپ اس روایت کی تکذیب کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے : ” خدا کے غصہ کی علامت یہ ہے کہ وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس کی سنگینی و بوجھ کو اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں اور سجدہ میں پڑ جاتے ہیں اور خدا کا غصہ برطرف ہونے کے بعد عرش ہلکا ہو جاتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر لوٹ جاتے ہیں۔ “
امام : جب سے خدا نے شیطان کو دھتکارا ہے آج تک اور قیامت تک کیا اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں وہ غصبناک ہے یا ان سے راضی ہے؟
ابو قرة : غضبناک ہے۔
امام : پس کب خدا غضبناک نہیں تھا تاکہ عرش ہلکا و کم وزن ہو؟
اس کے بعد آپ نے فرمایا تو کس طرح جرات کرتا ہے کہ تو اپنے خدا کو ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل ہونے والا کہتا ہے اور وہ خصوصیات جو مخلوقات کے ساتھ مربوط ہیں اس پر منطبق کرتا ہے؟ وہ پاک ہے وہ مٹنے والوں کے ساتھ مٹتا نہیں ہے اور بدلنے والوں کے ساتھ بدلتا نہیں ہے۔ ابو قرة اب کوئی چیز نہیں کہہ سکتا تھا، وہ اٹھا اور چلا گیا۔ (احتجاج طبرسی : ص ۱۸۴)
باب : ۱۰
قیاس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام ابو حنیفة کے درمیان بحث
ایک دن امام ابو حنیفہ، حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوة و السلام کے ساتھ ملاقات کے لئے امام کے گھر آئے ملاقات کی اجازت چاہی، امام نے اجازت نہ دی۔ ابو حنیفہ کہتے ہیں، میں نے دروازہ پر کسی قدر توقف کیا، یہاں تک کہ کوفہ کے چند لوگ آئے انہوں نے ملاقات کی اجازت چاہی ان کو اجازت دے دی گئی، میں بھی ان کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا جب میں ان کے حضور میں پہنچا، میں نے کہا :
” مناسب ہے کہ آپ اپنا کوئی نمائندہ کوفہ میں بھیجیں اور اس علاقہ کے لوگوں کو آپ اصحاب محمد کو برُا بھلا کہنے سے نہی کریں۔ دس ہزار سے بھی زیادہ لوگ اس شہر میں صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔
امام : لوگ میری بات نہیں مانتے۔
ابو حنیفہ : کس طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کی بات نہ مانیں، جب کہ آپ پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرزندہیں؟
امام : آپ خود بھی تو انہیں میں سے ایک ہیں جو میری بات پر کان نہیں دھرتے، کیا آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں داخل نہیں ہوئے اوربغیر اس کے کہ میں اجازت دوں بیٹھ نہیں گئے اور بغیر اجازت کے آپ نے آغاز سخن نہیں کیا ہے؟میں نے سنا ہے کہ آپ ” قیاس “ کی اساس و بنیاد پر فتویٰ دیتے ہیں۔
ابو حنیفہ : جی ہاں
امام : آپ پر افسوس ! اولین شخص جس نے اس اساس پر اپنا عندیہ و نظریہ پیش کیا وہ شیطان تھا، جب خدا نے اسے حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے اس نے کہا کہ میں سجدہ نہیں کرتا کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو خاک سے آگ، خاک سے گرامی تر ہے۔
اس کے بعد امام نے ” قیاس “ کے بطلان کو ثابت کرنے کے لئے قوانینِ اسلام کے چند موارد جو اس اصول کے برخلاف تھے، ذکر کئے اور فرمایا : ” آپ کی نظر میں کسی کو ناحق قتل کرنا زیادہ اہم ہے یا زنا؟
ابو حنیفہ : کسی کو ناحق قتل کرنا
امام : اس بناء پر اگر قیاس پر عمل کرنا صحیح ہو تو پھر کیوں قتل کے اثبات کے لئے دوگواہ کافی ہیں، لیکن زنا کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہ لازم ہیں؟ کیا یہ قانون اسلام قیاس کے ساتھ موافقت رکھتا ہے؟
ابو حنیفہ : نہیں
امام : کیا بول (پیشاب) زیادہ کثیف ہے یا منی؟
ابو حنیفہ : بو ل (پیشاب)
امام : پس کیوں خدا نے موردِ اول میں لوگوں کو وضو کا حکم دیا ہے لیکن دوسرے مورد میں حکم دیا ہے کہ لوگ غسل کریں کیا یہ حکم قیاس کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے؟
ابو حنیفہ : نہیں
امام : کیا نماز زیادہ اہم ہے یا روزہ؟
ابو حنیفہ : نماز
امام : پس کیوں حائض عورت پر روزہ کی قضا واجب ہے، لیکن نماز کی قضا واجب نہیں ہے؟ کیا یہ حکم قیاس کے ساتھ موافق رکھتا ہے؟
ابو حنیفہ : نہیں
امام : میں نے سنا ہے کہ تو آیہ مجید ” لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (نکاثر : ۸) قیامت کے دن تم سے لازمًا نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا “ کی تفسیر اس طرح کرتا ہے کہ خدا لوگوں سے لذیذ غذا، ٹھنڈے پانیوں جو گرمیوں میں نوش کرتے ہیں کے لئے مواغذہ فرمائے گا؟
ابو حنیفہ : درست ہے، میں نے اس آیہ کے اسی طرح معنی کیے ہیں۔
امام : اگر کوئی مرد اپنے گھر میں تیرے دعوت کرے، لذیذ اور ٹھنڈے مشروبات سے تیری خاطر تواضع کرے اس کے بعد اس پذیرائی کا تجھ پر احساس دھرے ایسے شخص کے بارے میں تو کیا فیصلہ کرتا ہے؟
ابو حنیفہ : ہم کہتے ہیں یہ بخیل و کنجوس شخص ہے۔
امام : کیا خدا بخیل ہے کہ وہ قیامت کے ان غذاؤں کے بارے میں ہمارا مواخذہ کرے جو اس نے ہمیں دے رکھی ہیں؟
ابو حنیفہ : پس ان نعمتوں سے مراد کیا ہے جو قرآن کہتا ہے کہ ان کے بارے میں مواخذہ ہو گا۔
امام : نعمت سے مراد ہماری، اہلبیت نبوت (علیہم السلام) کی دوستی ہے۔ (بحار الانوار : ج ۱۰، ص ۲۲۰)
باب : ۱۱
خالقِ کائنات حضرت امام رضا علیہ السلام اور زندیق کے درمیان بحث
حضرت امام رضا علیہ السلام کا ایک خدمت گزار کہتا ہے، ایک زندیق (بے دین) اس حال میں کہ آنحضرت علیہ السلام کے پاس ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، امام کی خدمت میں آیا امام نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
” اگر فرض کریں تمہارا نظریہ (مبدا و معاد کے متعلق) صحیح ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے تو کیا تو مانتا ہے کہ آخر میں ہم اور تم یکساں ہیں ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہماری زکوٰة اور مبدا و معاد (خدا و آخرت) پر ہمارا ایمان ہمارے لئے کوئی نقصان نہیں رکھتا؟
زندیق کوئی جواب نہیں رکھتا تھا، اس نے خاموشی اختیار کی۔ امام نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا : ” اگر ہمارا نظریہ (مبدا و معاد کے متعلق صحیح ہو حالانکہ اسی طرح ہی ہے تو کیا تو مانتا ہے کہ تم ہلاکت میں ہو اور ہم نے نجات پائی ہے؟ “
زندیق پھر بھی کوئی جواب نہیں رکھتا تھا، اس نے بات کا رُخ دوسری طرف موڑا، اور کہا : ” خدا آپ پر رحمت کرے مجھے بتائیے کہ وہ (خدا) کیسا ہے اور کہاں ہے؟ “
امام : تجھ پر افسوس، تو راہ میں اشتباہ کر گیا ہے اس نے ” کہاں “ کو وجود دیا، وہ تھا وار مکان نہیں تھا، نیز اس نے چگونگی اور کیفیت کو پیدا کیا وہ تھا اور کیفیت و چگونگی کا وجود نہیں تھا، خدا مکان اور کیفیت سے نہیں پہچانا جاتا وہ حواس سے ادراک کے لائق نہیں ہے ہم اس کو کسی چیز پر قیاس نہیں کر سکتے۔
زندیق : اس بنا پر وہ کوئی چیز نہیں ہے جب کسی ایک حِس سے وہ قابلِ ادراک نہیں ہے۔
امام : تجھ پر افسوس، جب حواس اس کو درک نہیں کر سکتے تو اس کا منکر ہوتا ہے اور ہم اس کے بالکل برعکس اس دلیل پر کہ حواس اس کے ادراک سے ناتواں ہیں، یقین کرتے ہیں کہ وہ ہمارا پروردگار ہے اور وہ تمام موجودات کے ساتھ کوئی شباہت نہیں رکھتا ہے۔
زندیق : پس مجھے بتائیے کہ وہ کب وجود میں آیا؟
امام : تو مجھے بتا کہ وہ کب وجود نہ تھا تاکہ میں تجھے بتاؤں کہ کب اس نے وجود پایا ہے۔
زندیق : آپ کس دلیل پر کہتے ہیں کہ وہ ہے؟
امام : اس دلیل پر کہ جب میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے طول و عرض میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کر سکتا، نہ کم کر سکتا ہوں نہ میں ناخوشیوں کو اپنے سے دُور اور نہ منفعت کو اپنی طرف لا سکتا ہوں اس وجہ سے میں نے سمجھا کہ میری ہستی و وجود کی عمارت ایک معمار رکھتی ہے اس لئے میں نے اس کو مان لیا ہے۔
اس کے علاوہ، بادلوں، ہواؤں کے چلنے، سورج، چاند، ستاروں کی گردش اور آفرنیش کی دوسری حیرت انگیز اور یقین آفرین موجودات و آیات کے دیکھنے سے میں نے جان لیا ہے کہ یہ امور اپنا خالق و آفریدگار اور مدبر و تدبیر کرنے والا رکھتے ہیں۔
زندیق : اگر خدا وجود رکھتا ہے تو پھر کیوں میری آنکھ اس کو ہیں دیکھتی؟
امام : تاکہ اس کے (جو پیدا کردہ نہیں ہے) اور ان کے درمیان جو پیدا کردہ ہیں، فرق ہو، وہ اس سے بلند تر ہے کہ آنکھ اس کا ادراک کرے یا خیال اس پر احاطہ پائے، یا عقل اس کی کنہ و حقیقت تک پہنچے۔
زندیق : پس اس کی حد و مرز میرے لئے بیان کریں؟
امام : وہ بے نہایت ہے حد و مرز نہیں رکھتا۔
زندیق : کیوں؟
امام : کیونکہ جو چیز محدود ہو نہایت رکھتی ہے اور محدودیت کا احتمال زیادہ نقصان کے برابر ہے اس بنا پر وہ محدود نہیں ہے وہ زیادہ اور نقصان کو قبول نہیں کرتا، قابلِ تجزیہ نہیں ہے وہم میں نہیں آتا۔
زندیق : وضاحت کریں کہ آپ کہتے ہیں کہ خدا، لطیف، شنوا، بینا، دانا اور حکیم ہے کیا سننا بغیر کان کے، دیکھنا بغیر آنکھ کے، فنکاری بغیر ہاتھ کے، حکمت بغیر تعمیر کے امکان پذیرہے؟
امام : اس سے مراد یہ ہے کہ میں کہتا ہوں، خدا لطیف ہے اور بڑا ہی ماہر کار ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کے پیدا کرنے میں لیاقت، مہارت اور لطافت کو ملحوظ رکھتا ہے، تو نہیں دیکھتا، جو شخص کسی چیز کے اخذ میں ظرافت و دقّتِ نظر کو کام میں لاتا ہے کہتے ہیں فلاں نے کس قدر لطافت سے کام لیا ہے، پس کیوں یہ بات اس عظیم و پُر شکوہ دنیا کے خالق کے بارے میں نہ کہی جائے؟
اور یہ ہم کہتے ہیں کہ خدا سننے والا ہے یہ اس لئے ہے کہ کوئی آواز اس سے پنہاں نہیں ہے، کسی زبان کی تشخیص میں اشتباہ نہیں کرتا اس بنا پر وہ سننے والا ہے لیکن کان کے وسیلہ سے نہیں۔
اور میں نے کہا کہ وہ بینا ہے کیونکہ وہ سیاہ پتھر پر، اندھیری رات میں باریک سیاہ چیونٹی کے قدموں کی جگہ کو دیکھتا ہے، وہ گھپ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کے چلنے کو مشاہدہ کرتا ہے۔ اس بنا پر وہ بینا ہے لیکن اپنے پیدا کردہ مخلوق کی مانند آنکھ کے وسیلہ سے نہیں۔
اس مناظرہ نے اس قدر طول کھینچا کہ اسی نشست میں زندیق اسلام لے آیا۔ (احتجاج طبرسی : ج ۲، ص ۱۷۱، ۱۷۳)
باب : ۱۲
مختلف علمی مسائل پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور زندیق کے درمیان گفتگو
نبوت عامہ، ازلیّت مادہ، خدا کی یکتائی، فلسفہ آفرنیش، فلسفہ معاد، شیطان کی پیدائش، تخلیق میں تفریق، بُروں کی پیدائش، جبر، عدالتِ خدا، شرور کا خالق و آفریدگار، دعا، آسمانوں کے ساتھ ارتباط، دوستانِ مانی
ایک مادی دانشور، ماورا طبیعت کا منکر، امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا، اس نے مختلف مسائل پیش کئے کہ ان میں یہ سوالات تھے :
مادی : کس طرح یہ لوگ خدا کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا ہے؟
امام : دل اس کو ایمان کے جلوہ نور میں دیکھتے ہیں اور بیدار عقول آنکھوں کی مانند اس کے وجود کا اثبات کرتی ہیں، بلکہ آنکھیں بھی جہاں ہستی کے دقیق و حساب شدہ نظام کو دیکھنے سے اس کا مشاہدہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبر اور وہ نشانات و معجزات جو سندِ نبوت کے عنوان سے ان کے ہمراہ ہوتے ہیں اور آسمانی کتابیں جو اپنی گہرائیوں کے ساتھ خا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں۔
علماء و دانشور خدا کی عظمت کے آثار کے مشاہدہ پر اکتفا کرتے ہیں وہ اس کے وجود کے اثبات میں اس کے دیکھنے کی احتیاج نہیں رکھتے۔
مادی : کیا خدا خود کو لوگزں کو دکھانے پر قادر نہیں ہے تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور پہچانیں، یقین اور اعتقاد کامل کے ساتھ اسے موردِ پرستش قرار دیں؟
امام : یہ کام امکان پذیر نہیں ہے، محال کوئی جواب نہیں رکھتا۔
نبوتِ عامّہ :
مادی : آپ کہاں سے ثابت کرتے ہیں کہ خدا انبیاء اور رسل رکھتا ہے؟
امام : چند مقدمات کے اثبات کے ساتھ :
الف : ہم خالق و آفریدگار رکھتے ہیں جو ہم سے اور تمام موجودات سے بر تر ہے۔
ب : خالقِ جہاں حکیم ہے اور بیہودہ کام انجام نہیں دیتا۔
ج : امکان نہیں ہے کہ تمام لوگ اس سے رابطہ کر سکیں اور دستور زندگی اور اپنے تکامل کو اس سے حاصل کریں۔
ان مقدمات کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ خدا کو چاہیے کہ وہ پیغمبر رکھتا ہو، تاکہ انبیاء (علیہم السلام) لوگوں کو ان کے تکامل کی راہوں پر گامزن کریں ورنہ انسان کی تخلیق کا مقصد، جو اس کی تکمیل ہے اور خدا نے اسے تکامل کی خاطر پیدا کیا ہے وہ مقصد فوت ہو جائے گا اور اناسان کی تخلیق بیہودہ ہو جاتی ہے۔
ازلیّتِ مادہ :
مادی : موجودات کس چیز سے پیدا کئے گئے ہیں؟
امام : کس چیز سے پیدا نہیں کئے گئے ہیں (سابقہ عدم رکھتے ہیں) ۔
مادی : یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ نیستی سے ہستی، عدم سے وجود، پیدا ہو؟
امام : موجودات دو حال سے باہر نہیں ہیں۔
۱۔ یا تو یہ ہے کہ موجبودات ایسے مواد سے بنائے گئے ہیں کہ وہ مواد ہمیشہ موجود رہا ہے۔
۲۔ یہ ہے کہ موجوداتِ جہاں پہلے معدوم تھے اور دنیا حادث و مخلوق ہے۔
ہم تین دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں کہ فرض اول درست نہیں ہے :
۱۔ فرض اول کی بنیاد یہ ہے کہ دنیا کا مادہ ہمیشہ سے رہا ہے اور جو چیز ہمیشہ سے رہی ہو اس کا وجود ازلی ہے اس لئے امکان نہیں ہے کہ وہ مخلوق ہو اور علت چاہے، اس بنا پر اس کو چاہیے کہ وہ واجب الوجود ہو، اس کی ہستی اس کی اپنی ذات سے جوش مارے اور نتیجہ میں تغیر و تبدل اور فنا اس میں راہ نہ پائے۔
۲۔ وہ قدیم مادہ ایک جوہر سے زیادہ نہیں ہے ایک رنگ سے زیادہ نہیں رکھتا پس یہ مختلف رنگ اور بکثرت گوناگوں حقائق جو اس دنیا میں موجود ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں۔
۳۔ اگر دنیا کے قدیم مواد ذاتی طور پر زندہ رہے ہیں تو موت کس طرح ان پر وارد ہوئی ہے اور اگر وہ ذاتًا حیات کے بغیر ہیں تو ان میں زندگی کا پیدا ہونا کس طرح ممکن ہے۔ اور اگر زندہ موجودات زندہ عناصر سے اور مردہ موجودات مردہ عناصر سے وجود میں آئے ہیں تو یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ وہ ذات جو فاقد حیات ہے وہ قدیم نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ فاقدِ حیات موجود، توانائی اور بقاء نہیں رکھتا اور یہ معنی ہستی میں قدیم ہونے میں علت نہ رکھنے کی احتیاج سے منافات نہیں رکھتا۔ (غور فرمائیے)
مادی : اگر آپ کی بات صحیح ہے تو کس طرح کہا گیا ہے کہ موجودات ازلی ہیں۔
امام : یہ عقیدہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے مدبرِ جہاں کا انکار کیا ہے اور خدا کے رسولوں کا انکار کیا ہے ان کی کتابوں کو پہلوں کے افسانے کہا ہے، اور آئین اپنے دل کے مطابق گھڑ لیا ہے۔
دنیا کے موجودات اپنے حادث ہونے پر خود دلالت کرتے ہیں، زمین کی حرکت، جو کچھ اس پر ہے زمانوں کا تغیر، اوقات کا فرق پیدا کرنا اور وہ تغیرات جو دنیا میں آتے ہیں، مثلًا زیادہ ہونا، کم ہونا، موت، فرسودگی اور اسی طرح یہ کہ انسان وجدانی طور پر خود کا ناچار دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بنانے والے اور مدبّر کا اعتراف کرے یہ تمام امور دنیا کے حدوث اور خدا کے وجود کے گواہ ہیں۔
مادی : کیا صانعِ عالم موجودات کی تخلیق سے پہلے ان کا علم رکھتا تھا؟
امام : بے شک خدا ازل سے دانا تھا اور جو کچھ جانتا تھا اسے پیدا کیا ہے۔
مادی : کیا خدا کے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں یا ایک دوسرسے کی مانند ہیں؟
امام : یہ سوال غلط ہے کیونکہ بنیادی طور پر اختلاف اور عدمِ اختلاف خدا میں معنی نہیں رکھتا، کیونکہ اختلاف و عدمِ اختلاف اس موجود کے اجزاء ہیں، جو جزو رکھتا ہے، اس وقت یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آیا اجزاء ایک دوسرے کی مانند ہیں، یا ایک دوسرے کی مانند نہیں ہیں :
خدا کی یکتائی :
مادی : اس بناء پر خدا کس طرح ہے؟
امام : خدا کے ایک ہونے سے مراد یہ ہے کہ خدا کی ذات یکتا ہے وہ مثل نہیں رکھتا ہے کیونکہ خدا کے سوا جس واحد و یکتا کا تو تصور کرے وہ اجزاء رکھتا ہے اور صرف خدائے واحد یکتا ہے جو تجزیہ کے قابل اور شمار کے لائق نہیں ہے۔
فلسفہ آفرنیش :
مادی : اس معنی کو نظر میں رکھنے سے خدا، مخلوقات کی نیاز نہیں رکھتا ہے اور ان کو پیدا کرنے پر مجبور نہ تھا، شائستہ نہیں ہے کہ ہمیں اس نے عبث اور کھیل کے لئے پیدا کیا ہو تو فلسفہ تخلیق کیا ہے؟
امام : ان کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ اپنی دقیق اور حکیمانہ تخلیق کا آشکار کرے اور اپنی دانائی و حکمت کو عینیت بخشے، اپنی تدبیر کو نظامِ ہستی میں جاری کرے۔
فلسفہ معاد :
مادی : کیوں خدا نے اسی دنیا کی پیدائش پر اکتفا نہ کیا اور اس کو اپنے کیفرو پاداش کا گھر قرار نہ دیا؟
امام : یہ دنیا، آزمائش گاہ، تجارت خانہ، کمال کے حصول کا مقام، خدا کے لطف و کر م کا موجب ہے۔ خدا نے اس دنیا کو کامیابی و ناکامی سے لبریز کیا ہے تاکہ لوگوں کو اس مدرسہ کمال میں آزمائے اس اساس پر کام کی جگہ اور مقامِ نتیجہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہے۔
شیطان کی آفرنیش :
مادی : کیا یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے لئے ایک دشمن پیدا کیا ہے؟
وہ تھا اور کوئی دشمن نہی رکھتا تھا اس کے بعد، آپ کے نظریہ کے مطابق اس نے شیطان کو پیدا کیا اور اسے اپنے بندوں پر مسلط کر دیا کہ ان کو اس کی نافرمانی پر آمادہ کرے اور اس طرح اس کو طاقتور بنایا جو بڑی باریک نیرنگ سازیوں سے خود کو لوگوں کے دلوں تک پہنچاتا ہے، وسوسہ پیدا کرتا ہے یہانتک کہ ان کو اپنے پروردگار کی نسبت مشکوک کر دیتا ہے اور کچھ لوگ اس کے وجود کے منکر ہو جاتے ہیں اور دوسرے کو پوجنے لگ جاتے ہیں۔
اگر وہ حکیم ہے تو کیوں اس نے اپنے دشمن کو اپنے بندوں پر مسلط کر دیا ہے اور ان کو گمراہ کرنے کے لئے اس کی راہ ہموار کر دی ہے؟
امام : یہ دمشن جس کا تو نے نام لیا ہے اس کی دشمنی خدا کے لئے زیاں آور نہیں ہے اور اس کی دوستی اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں رکھتی۔ دشمن سے ڈر اس صورت میں ہے کہ وہ نقصان پہنچا سکتا ہو یا کوئی فائدہ دے سکتا ہو، اگر وہ ارادہ کرے کہ کسی ملک کو لے تو وہ اپنی مدرت پر تکیہ کر کے اس کو لے لیتا ہے اور اگر وہ ارادہ کرے کہ کسی طاقت کو نابود کرے دے تو اپنے ارادہ کو جامہ عمل پہناتا ہے۔
لیکن شیطان خدا کے بندوں میں سے ایک ہے کہ خدا نے اپنی پرستش کے لئے اس کو پیدا کیا ہے اور پیدائش کے وقت وہ جانتا تھا کہ وہ کیا ہے اور کیا بنے گا اس نے مدتوں تک فرشتوں کے ساتھ عبادت کی ہے یہانتک کہ خدا نے اس کو آدم کے آگے سجدے کا حکم دے کر اس کی آزمائش کی، لیکن اس حسد کی بنا پر جو وہ رکھتا تھا، شقاوت کے غلبہ سے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا، اس کے نتیجہ میں خدا کی طرف سے راندہ ہوا اور مستحقِ لعنت قرار پایا اور یہی امر باعث ہوا کہ وہ آدم اور اس کی اولاد کے کینہ کو اپنے دل میں جگہ دے ان کے ساتھ دشمنی کرے لیکن وہ بنی آدم پر کسی قسم کا تسلط نہیں رکھتا، مگر وسوسہ کرنا اور گمراہی کی دعوت دینا۔
تخلیق میں تفریق :
مادی : کیوں خدا تبعیض و تفریق کا قائل ہوا، ایک طبقہ کو شریف اور دوسرے اس کے ترک کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور کسی کام کا حکم نہیں دیا مگر یہ کہ جانتا ہے کہ انسان اس کے کرنے کی قدرت کرھتا ہے کیونکہ خدا ظالم نہیں ہے وہ عبث و بیہودہ کام نہیں کرتا اور ایسا قانون وضع نہیں کرتا جس کے کرنے کی انسان طاقت نہ رکھتا ہو۔
مادی : اس بنا پر وہ شخص جس کو خدا نے کافر پیدا کیا ہے کیا وہ مومن ہو سکتا ہے؟
امام : خدا نے تمام لوگوں کو فطرتِ اسلام پر پیدا کیا ہے ان کو کچھ کاموں کو حکم دیا ہے اور بعض کاموں سے باز رکھا ہے اور کفر ایک ایسی صفت ہے کہ ایک خاص عمل کے انجام کے بعد انسان اس سے متصف ہوتا ہے خدا نے کسی شخص کو پیدائش کے وقت کافر نہیں پیدا کیا ہے اس وقت انسان کافر ہوتا ہے جب اس قدر رشد پیدا کرتا ہے کہ وہ حقیقت کی پہچان کی طاقت رکھتا ہو حق اس پر پیش ہو اور وہ انکار کرے توکافر ہو جاتا ہے۔
عدالتِ خدا :
مادی : اگر خدا عادل ہے تو کیوں چھوٹا بچہ بغیر اس کے کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہو، دردوں اور بیماریوں میں گرفتار ہو جاتا ہے؟
امام : بیماریاں انواع رکھتی ہیں، آزمائش کی بیماری، بیماری کیفر موت کا موجب بیماری تو سمجھتا ہے کہ فاسد غذائیں، گندے پانی، ماں سے وراثت، بیماری کے اسباب ہیں، جو شخص مکمل طور پر اپنی حفاظت کرے وہ بیمار نہیں ہوتا، اور اس نظریہ میں تو ان لوگوں کی طرف میلان رکھتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کھانے اور پینے کی چیزیں بیماری اور موت کا واحد سبب ہیں حالانکہ حکماء کے استاد اور ارسطاطالیس اور اطباء کے رئیس افلاطون مر گئے، جالینوس بوڑھا ہو گیا اور اس کی آنکھیں جاتی رہیں، وہ موت کے منہ سے خود کو نہیں بچا سکتا تھا ان بڑے بڑے حکماء کی سرگرمیاں موت سے بچنے کے لئے کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں۔
بہت سے ایسے مریض ہیں کہ حکماء نے ان کی بیماریوں میں اضافہ کیا اور بہت سے ایسے دانا حکماء تھے جو بیماریوں کو اچھی طرح پہچانتے تھے، ان کی دواؤں کا مکمل جانتے تھے اور اس فن میں ماہر تھے لیکن مر گئے۔ اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بالکل طب نہیں جانتے تھے ان کے بعد مدتوں تک زندہ رہے۔ موت کا وقت آنے پر علم طب نے طبیب کو کوئی فائدہ نہ دیا اور طب کے نہ جاننے نے دوسرے کو نقصان نہیں دیا۔
شرور کا خالق و آفریدگار :
مادی : یہ تو بتائیں کہ کیا خدا تخلیق میں اپنا ثانی رکھتا ہے یا دنیا کے انتظآم کرنے میں کوئی اس کے ساتھبرسرِ پیکار ہے؟
امام : نہیں
مادی : پس بدیوں اور شرور کو پیدا کرنے والا کون ہے؟
زیاں بخش درندیوں، خطرناک جانوروں، بکثرت بدصورتوں، کیڑوں، مچھروں، سانپوں، بچھوؤں کو کس نے پیدا کیا؟ اس صورت میں جبکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق خدا نے کسی چیز کو بیہودہ پیدا نہیں کیا ہے اور ہر چیز کی تخلیق، کسی غرض، مقصد اور فائدے کے لئے ہے۔
امام : کیا تیری نظر میں وہ دوا نہیں ہے جو عقرب (بچھو) سے تیار ہوتی ہے جو مثانہ کے درد اور کس کی پتھری کے لئے مفید ہے؟ اور کیا بہترین ” تریاق “ افعی (ناگ) کے گوشت سے تیار نہیں ہوتا؟ اور کیا اس کا گوشت اس شخص کے لئے جو جذام رکھتا ہو نافع نہیں ہے؟ اور سرخ کیڑا جو زمین میں سے ہاتھ آتا ہے ” خورہ “ اور ” کوھ “ کے لئے سود مند نہیں ہوتا؟
مادی : کیوں نہیں اسی طرح سے، میں متوجہ نہیں تھا کہ یہی مذکورہ موجودات انسان کی زندگی میں اہم کردار رکھتے ہیں۔
امام : لیکن مچھر ” کھٹمل “ اور ان کی مانند کی تخلیق کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ پرندوں کی خوراک بنیں۔
مادی : کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض موجودات کے بارے میں خدا کی تدبیر ناقص ہے؟
امام : نہیں
مادی : خدا نے مردوں کو ختنہ نہ کیا ہوا پیدا کیا، کیا زائد حصہ کی پیدائش کوئی حکمت رکھتی تھی، یا فائدہ اور خلافِ حکمت ہے؟
امام : لازمًا مصلحت و حکمت اس میں کارفرما ہے۔
مادی : پس تم کیوں خدا کی خلقت کو تبدیل کرتے ہو اور ختنہ کرنے کو جو تمہارا کام جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے اس بہتر جانتے ہو، ختنہ نہ کرنے کو عیب جانتے ہو حالانکہ خدا نے مرد کو بغیر ختنہ کئے پیدا کیا ہے تم ختنہ کرنے کو اچھا جانتے ہو حالانکہ یہ عمل تمہارا کام ہے؟ کیا تم کہتے ہو کہ خدا کا یہ کام ایک اشتباہ اور خلافِ حکمت ہے؟
امام : خدا کا فعل، بغیر ختنہ پیدا کرنا بھی حکمت رکھتا ہے اور ہمارا فعل ختنہ کرنا بھی، اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ فعل مصلحت رکھتے ہوں جس طرح کہ ہم دیکھتے ہیں بچہ جب پیدا ہوتا ہے وہ بند ناف کی راہ سے ماں کے ساتھ متصل ہوتا ہے خداوندِکریم نے اس کو اسی صورت میں پیدا کیا لیکن انسان کو حکم دیا کہ اس پیدائش کے بعد قطع کر دے اور اگر وہ قطع نہ ہو تو ماں کے لئے بھی مضر ہے اور بچے کے لئے بھی۔ اسی طرح انسان کے ناخن کے خاد ابتدا ہی سے ناخنوں کو اس طرح پیدا کر سکتا تھا کہ وہ بڑھنے نہ پائیں اسی طرح بالوں کی پیدائش کہ ممکن تھا وہ ایسے ہوتے کہ بڑھنے نہ پاتے۔
اسی طرح بیلوں تخم کی تخلیق جبکہ ان کا آختہ کرنا بہتر ہے ان میں سے کسی ایک امر میں خدا کی حکمت پر ہم اعتراض نہیں کر سکتے ہیں بلکہ ان مواقع پر خدا کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ہیں اور انسان کے کام بھی۔
دعا :
مادی : آپ نہیں کہتے کہ خدا نے فرمایا : ” مجھے پکارو تاکہ تمہاری دعا کو قبول کروں؟ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بیچارہ اس سے دعا کرتا ہے لیکن وہ قبول نہیں کرتا، مظلوم، اس کو ظالم کے خلاف پکارتا ہے لیکن وہ اس کی مدد نہیں کرتا۔
امام : کوئی شخص نہیں ہے جو خدا کو پکارے اور خدا اس کی مدد نہ کرے اس کی دعا کو مستجاب نہ کرے لیکن ظالم کی دعا مردود ہے تاکہ وہ توبہ کرے۔ غیر ظالم کی دعا کا قبول ہونا اگر اس کے فائدہ میں ہو خدا اس کی دعا کو مستجاب کرتا ہے اور اگر اس کے مفاد میں نہ ہو تو خدا ان بلاؤں کو اس سے دُور کرتا ہے اس طرح کہ وہ خود بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہے اور روز احتیاج کے لئے بکثرت جزا و پاداش اس کے لئے ذخیرہ کرتا ہے۔
ایک صاحبِ ایمان خدا شناس شخص کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی موقع پر نہیں جانتا کہ اس میں اس کی بہتری ہے یا نہیں ہے اس کے لیے دعا کرنا مشکل ہے۔ کبھی انسان کسی شخص کی موت کے لئے دعا کرتا ہے کہ تخلیق کی ناقابلِ تغیر سنت کے مطابق ابھی اس کے دنیا سے جانے کا وقت نہیں پہنچا ہے۔ کبھی وہ بارش کے لئے طلبِ دعا کرتا ہے شاید حقیقت میں اس وقت بارش کا آنا اس کی بہتری میں نہ کیونکہ خدا دنیا کی تدبیر میں سب سے زیادہ آگاہ و باخبر ہے۔
یہ امور اور اس کی مانند دوسرے امور جو بہت زیادہ ہیں بہت سے مواقع پر دعا کی قبولیت میں مانع ہو جاتے ہیں۔ (غور فرمائیے)
آسمان کے ساتھ ارتباط :
مادی : اے حکیم ! کیوں کوئی شخص آسمان سے نیچے نہیں آتا اور کوئی شخص اس کی بلندیوں پر نہیں جا سکتا اور اس پر جانے کی کوئی راہ نہیں ہے جبکہ اگر لوگ ہر زمانہ میں اس منظر کا مشاہدہ کریں تو حدا کی خدائی بہتر طور پر ثابت ہو جائے، بہتر طور پر شک و شبہ دل سے نکل جائے، انسان کا یقین زیادہ طاقتور ہو جائے، لوگ بہتر طور پر سمجھنے لگیں کہ وہاں کوئی مدبر ہے کہ کوئی اس کی طرف جاتا ہے اور کوئی وہاں سے ادھر آتا ہے۔
امام : جو تدبیر تو زمین میں مشاہدہ کرتا ہے وہ آسمان سے نازل ہوتی ہے کہ ان میں سے بعض زیادہ نمایاں ہیں۔ تو نہیں دیکھتا کہ سورج آسمان سے طلوع ہوتا ہے اور دن کی روشنی سے زندگی وابستہ ہے، چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے وہ رات کا نور و تابانی ہے اس کے وسیلہ سے سال، مہینے اور دن شمار ہوتے ہیں اگر اس کی حرکت کو روک دیا جائے تو لوگ حیران ہو جائیں اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ آسمان میں کوئی مدبر وجود رکھتا ہے جس کے اختیار میں ہر چیز کی تدبیر ہے۔
اس کے علاوہ خدا نے موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے ساتھ کلام کیا، عیسیٰ کو آسمان پر بلایا، فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں صرف یہ ہے کہ جس چیز کو تو نہیں دیکھتا اس کو مانتا نہیں ہے لیکن جو کچھ تیری آنکھ دیکھتی ہے حقیقت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
مادی : کیا اچھا ہوتا کہ خدا ہر سو سال میں کسی مردہ کو زندہ کرتا وار ہم اس سے اپنے گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں پوچھتے کہ وہ کہاں گئے ان کا کیا حال ہے موت کے بعد انہوں نے کیا دیکھا ہے ان کے ساتھ کیا کیا گیا ہے تاکہ لوگ یقین کی بنیاد پر عمل کرتے تو ان کا شک زائل ہو جاتا اور کینہ ان کے دل سے دُور ہو جاتا۔
امام : اس قسم کی بات وہ کرتا ہے جو پیغمبروں کی بات کا منکر ہے ان کو جھٹلاتا ہو خدا نے اپنی کتاب میں انبیاء کی زبانی ان لوگوں کے حال کی کیفیت کو بیان کیا ہے جو ہم میں سے مر گئے ہیں ان میں کیا کوئی ایسا شخص ہے جو خدا اور پیغمبروں سے زیادہ سچا ہو؟
اس کے علاوہ خدا نے بہت سے لوکوں کو جو مرے ہیں زندہ کیا ہے، خدا نے اصحابِ کہف کو جن کو مرے ہوئے ساڑھے تین سو سال گزر چکے تھے اس زمانہ میں زندہ کیا ہے جب لوگ معاد و آخرت کے منکر تھے تاکہ وہ قیامت کے دن مُردوں کو زندہ کرنے کی اپنی قوت کو عملی طور پر پیش کرے۔ دوسرے ” ارمیا “ جو ایک پیغمبر تھے، اپنی موت کے سو سال بعد زندہ ہوئے ” اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلیٰ قَرْیَةٍ وَّ ھِیَ خَاوِیَةٌ عَلیٰ عُرُوْشِھَا “ (البقرة : ۲۵۹)
ایک اور گروہ کو خدا نے حزقیل کی دعا پر زندہ کیا :
اَلَمْ تَرَ إِلیٰ الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِ ھِمْ وَ ھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ “ (البقرة : ۲۴۳)
اسی طرح وہ گروہ جن کو حضرت موسیٰ کوہِ طور پر لے گئے تھے، دیدارِ خدا کے تقاضا کے بعد خدا نے انہیں مار دیا اس کے بعد زندہ کیا :
فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۔ ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ “۔ (البقرة : ۵۵۔ ۵۶)
داستانِ مانی :
مادی : مانی کی داستان کیا ہے؟
امام : مانی ایک محنتی محقق تھا، جس نے کچھ مجوسی آئین سے لیا اور کچھ مسیحی آئین سے پھر انہیں باہم ملا دیا وار ایک ایسا آئین بنایا جو کسی ایک کے مطابق نہیں ہے۔ مانی معتقد تھا کہ دنیا کی تدبیر دو خدا کرتے ہیں ایک روشنی کا خدا، دوسرا تاریکی کا خدا اور روشنی، اندھیرے کے حصار میں ہے۔ مسیحوں نے اس کی تکذیب کی اور مجوسیوں نے اس کو قبول کیا۔
مجوس کا پیامبر :
مادی : کیا خدا نے مجوسیوں کے لئے پیغمبر بھیجا؟ میں نے ان کی کتابیں دیکھی ہیں جو قیمتی مطالب، مفید نصائح، سبق آموز امثال رکھتی ہیں وہ بھی موت کے بعد جزا و سزا کا اعتراف کرتے ہیں، مذہبی نقطہ نظر سے خاص قوانین رکھتے ہیں جن پر وہ عمل کرتے ہیں؟
امام : کوئی ایسی امت نہیں ہوئی ہے جو پیغمبر نہ کھتی ہو، خدا نے مجوسیوں کے لئے بھی پیغمبر بھیجا ہے، لیکن انہوں نے اس کو قبول نہ کیا اور اس کی کتاب کی تکذیب کی۔
مادی : ان کا پیغمبر کون ہے؟ بعض خیال کرتے ہیں کہ ان کا پیغمبر خالد بن سنان ہوا تھا؟
امام : خالد صحراء نشین عرب تھا، پیغمبر نہیں تھا، یہ ایسی چیز ہے جو محض عوام میں پھیلی ہوئی ہے۔
مادی : کیا ان کا پیغمبر زردشت تھا؟
امام : زردشت ان کے لئے زمزمہ لایا، نبوت کا دعویٰ کیا بعض لوگ اس پر ایمان لائے، بعض نے اس کو جھٹلایا اور اس کو اپنے معاشرہ سے نکال دیا۔ وہ صحرا کے درندوں کا لقمہ بن گیا۔
مادی : کیا مجوس حق کے قریب تر تھے یا زمانہ جاہلیت میں عرب؟
امام : دَورِ جاہلیت کے عرب۔ کیونکہ مجوسیوں نے تمام انبیاء علیہم السلام کو جھٹلایا اور ان کی سنن میں سے کسی ایک کو اپنے معاشرہ میں جاری نہ کیا۔
مجوس کے بادشاہ، کیخسرو نے تین سو پیغمبروں کو قتل کیا، مجوس غسلِ جنابت نہیں کرتے تھے، لیکن دَورِجاہلیت کے عرب کرتے تھے اور غسلِ جنابت دینِ حنیف کے خاص کاموں میں سے ایک ہے، مجوس ختنہ نہیں کرتے جبکہ ختنہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے لیکن عرب اس سنت پر عمل کرتے تھے، مجوسی اپنے مُردوں کو غسل نہیں دیتے تھے، کفن نہیں پہناتے تھے ان کو بیابانوں میں پتھروں میں پھینک دیتے تھے لیکن عرب پیغمبروں کی اساس پر مردوں کو غسل دیتے کفن و دفن کرتے تھے، مجوس اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ازدواج کو جائز قرار دیتے، عرب نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ (بحار الانوار : ج ۱۶۴، ۱۸۰)
source : http://www.islaminurdu.com/chapter.php?chapterID=1475