اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

جادوگروں اور ریاضت کرنے والوں کے عجیب وغریب کاموں اور معجزہ میں کیا فرق ہے؟

۳۳۔ جادوگروں اور ریاضت کرنے والوں کے عجیب وغریب کاموں اور معجزہ میں کیا فرق ہے؟

۱۔ معجزات ، خداداد طاقت کے بل بوتہ پر ہوتے ہیں۔

 جبکہ جادوگری اور ان کے غیر معمولی کارنامے انسانی طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں، لہٰذا معجزات بہت ہی عظیم اور نامحدود ہوتے ہیں، جبکہ جادوگروں کے کارنامے محدود ہوتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں : جادوگر فقط وہی کام انجام دے سکتے ہیں جن کی انھوں نے تمرین کی ہے، اور اس کام کے انجام دینے کے لئے کافی آمادگی رکھتے ہوں، اگر ان سے کو ئی دوسرا کام انجام دینے کے لئے کہا جائے تو وہ کبھی نہیں کرسکتے، اب تک آپ نے کسی ایسے جادوگر اور ریاضت کرنے والے کو نہیں دیکھا ہوگا کہ جو یہ کہتا ہوا نظر آئے کہ جو کچھ بھی تم چاہو میں اس کوکر دکھاؤں گا، کیونکہ جادوگروں کو کسی خاص کام میں مہارت اور آگاہی ہوتی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ انبیاء علیہم السلام لوگوں کی درخواست کے بغیر خود اپنے طور پر بھی معجزہ پیش کرتے تھے (جیسے پیغمبر اکرم  (ص) نے قرآن کریم پیش کیا، جناب موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو اژدہا بنادیا، اور آپ کا معجزہ ”ید بیضا“ اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کا زندہ کرنا) لیکن جس وقت ان کی امت ایک نئے معجزہ کی فرمائش کرتی تھی جیسے ”شق القمر“ یا فرعونیوں سے بلاؤں کا دور ہونا، یا حواریوں کے لئے آسمان سے غذائیں نازل ہونا وغیرہ، تو انبیاء علیہم السلام ہرگز اس سے ممانعت نہیں کرتے تھے (البتہ اس شرط کے ساتھ کہ ان کی فرمائش حقیقت کی تلاش کے لئے ہو ،نہ صرف بہانہ بازی کے لئے)

لہٰذا جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ملتا ہے کہ فرعونیوں نے ایک طولانی مدت کی مہلت مانگی تاکہ تمام جادوگروں کو جمع کرسکیں، اور پروگرام کے تمام مقدمات فراہم کرلیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

<فَاٴَجْمِعُوا کَیْدَکُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا>(1)

لہٰذا تم لوگ اپنی تدبیروں کو جمع کرو اور صف باندھ کر اس کے مقابلہ میں آجاؤ“۔

اپنی تمام طاقت و توانائی کو جمع کرلیں اور اس سے استفادہ کریں، جبکہ جناب موسیٰ علیہ السلام کو ان مقدمات کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ان تمام جادوگروں سے مقابلہ کرنے کے لئے کسی طرح کی کوئی مہلت نہ مانگی، چونکہ وہ قدرت خدا پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، اور جادوگر انسانی محدود طاقت کے بل پر یہ کام انجام دینا چاہتے تھے۔

اسی وجہ سے انسان کے غیر معمولی کام کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے یعنی اس کی طرح کوئی دوسرا شخص بھی اس کام کو انجام دے سکتا ہے، اسی وجہ سے کوئی بھی جادوگر یہ چیلنج نہیں کرسکتا کہ کوئی دوسرا مجھ جیسا کام انجام نہیں دے سکتا، جبکہ (معصوم کے علاوہ) کوئی دوسرا شخص (انسانی طاقت سے)معجزہ نہیں دکھاسکتا، لہٰذا اس میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے ، جیسا کہ پیغمبر اکرم  (ص) نے فرمایا: اگر تمام جن و انس مل کر قرآن کے مثل لانا چاہیں تو نہیں لاسکتے!

یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے غیر معمولی کارنامے، معجزہ کے مقابل آتے ہیں تو بہت ہی

                               

(1) سورہٴ طہ ، آیت۶۴

جلد مغلوب ہوجاتے ہیں اور جادو کبھی بھی معجزہ کے مقابل نہیں آسکتا، جس طرح کوئی بھی انسان خداوندعالم سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔

چنا نچہ نمونہ کے طور پر قرآن مجید میں جناب موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ فرعون نے مصر کے تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کیا اور مدتوں اس کے مقدمات فراہم کرتا رہا تاکہ اپنے پروگرام کو صحیح طور پر چلا سکے لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کے سامنے چشم زدن میں مغلوب ہو گیا۔

۲۔ معجزات چونکہ خداوندعالم کی طرف سے ہوتے ہیں لہٰذا خاص تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی

جبکہ جادوگرمدتوں سیکھتے ہیں اوربہت زیادہ تمرین کرتے ہیں،اس طرح سے کہ اگر شاگرد نے استاد کی تعلیمات کو خوب اچھے طریقہ سے حاصل نہ کیاہوتو ممکن ہے کہ لوگوں کے سامنے صحیح طور پر کارنامہ نہ دکھاسکے، جس کے نتیجہ میں وہ ذلیل ہوجائے، لیکن معجزہ کسی بھی وقت بغیر کسی مقدمہ کے دکھا یا جا سکتا ہے جبکہ غیر معمولی کارنامے آہستہ آہستہ مختلف مہارتوں کے ذریعہ انجام دئے جاتے ہیں یعنی کبھی بھی اچانک انجام نہیں پاتے۔

جناب موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا کہ فرعون نے جادوگروں پر الزام لگایا کہ موسیٰ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں سحر اور جادو سکھایا ہے:

< إِنَّہُ لَکَبِیرُکُمْ الَّذِی عَلَّمَکُمْ السِّحْر> (1)

اسی وجہ سے جادوگر اپنے شاگردوں کو مہینوں یا برسوں سکھاتے ہیں اور ان کے ساتھ تمرین کرتے ہیں۔

                                   

(1) سورہٴ طہ ، آیت۷۱

۳۔ معجزنما کے اوصاف خود ان کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔

سحر و جادو اور معجزہ کی پہچان کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب معجزہ اور جادوگروں کے صفات کو دیکھا جاتا ہے، کیونکہ معجزہ دکھانے والا خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتا ہے لہٰذا اسی لحاظ سے اس میں صفات پائے جاتے ہیں، جبکہ ساحراور جادوگراور ریاضت کرنے والے نہ تو لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہو تا ہے ، درج ذیل چیزیں ان کا مقصد ہوا کر تی ہیں:

۱۔ سادہ لوح لوگوں کو غافل کرنا۔

۲۔ عوام الناس کے درمیان شہرت حاصل کرنا۔

۳۔ لوگوں کو تماشا دکھا کر کسب معاش کرنا۔

جب انبیاء علیہم السلام اور جادوگر میدان عمل میں آتے ہیں تو طولانی مدت تک اپنے مقاصد کو مخفی نہیں رکھ سکتے، جیسا کہ فرعون نے جن جادوگروں کو جمع کیا تھا انھوں نے اپنا کارنامہ دکھانے سے پہلے فرعون سے انعام حا صل کرنے کی درخواست کی اور فرعون نے بھی ان سے اہم انعام کا وعدہ دیا:

<قَالُوا إِنَّ لَنَا لَاٴَجْرًا إِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ # قَالَ نَعَمْ وَإِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرَّبِینَ>(1)

(جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوگئے اور) انھوں نے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں اس کی اجرت ملے گی؟ فرعون نے کہا بے شک تم میرے دربار میں مقرب ہوجاؤ گے“۔

جبکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کا بارہا اعلان کیا ہے:

<وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ> (۲)

                               

(1) سورہٴ اعراف ، آیت۱۱۳۔ ۱۱۴              (۲)سورہٴ شعراء ، آیت۱۰۹

ہم تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے“۔

((قارئین کرام!)   مذکورہ آیت قرآن مجید میں متعدد انبیاء کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے۔)

اصولی طور پر اگر جادوگروں کو فرعون جیسے ظالم و جابر کی خدمت میں دیکھا جا ئے تو ”جادو“ اور ”معجزہ“ کی پہچان کے لئے کافی ہے۔

یہ بات کہے بغیر ہی واضح ہے کہ انسان اپنے افکار کو مخفی رکھنے میں خواہ کتنا ہی ماہر ہو پھر بھی اس کے اعمال و کردار سے اس کا حقیقی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان جیسے لوگوں کی سوانح عمری اور ان کے غیر معمولی کارناموں کو انجام دینے کے طریقہ کار ، اسی طرح مختلف اجتماعی امور میں ان کی یکسوئی اور ان کی رفتار و گفتار اور ان کا اخلاق ”سحر و جادو“ اور ”معجزہ“ میں تمیز کرنے کے لئے بہترین رہنما ہے، اور گزشتہ بحث میں بیان کئے ہوئے فرق کے علاوہ یہ راستہ بہت آسان ہے جس سے انسان سحرو جادو اور معجزہ کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔

قرآن مجید نے بہت دقیق و عمیق الفاظ کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

< قَالَ مُوسَیٰ مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُہُ إِنَّ اللهَ لایُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ >(1)

پھر جب ان لوگوں نے رسیوں کو ڈال دیا تو موسیٰ نے کہا کہ جو کچھ تم لے آئے ہو یہ جادو ہے اور اللہ اس کو بے کار کردے گا کہ وہ مفسدین کے عمل کو درست نہیں ہونے دیتا“۔

 (1) سورہٴ یونس ، آیت۸۱

جی ہاں جادو گر،مفسد ہوتے ہیں اور ان کے اعمال باطل ہوتے ہیں، اور ان کے اس کام کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کی جاسکتی۔

ایک دوسرے مقام پر خداوند عالم نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے خطاب فرمایا: <لاَتَخَفْ إِنَّکَ اٴَنْتَ الْاٴَعْلیٰ > (1)”(ہم نے کہا کہ) موسیٰ ڈرو نہیں تم بہر حال غالب رہنے والے ہو“۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

< وَاٴَلْقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ وَلاَیُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اٴَتَیٰ > (۲)

اور جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اُسے ڈال دو یہ ان کے سارے کئے دھرے کو چن لے گا، ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ صرف جادوگر کی چال ہے اور بس،اور جادوگر جہاں بھی جائے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا “۔

جی ہاں جادوگر چا ل بازی اور دھوکہ دھڑی سے کام لیتے ہیں اور طبیعی طور پر یہی مزاج رکھتے ہیں، یہ لوگ دھوکہ دھڑی کرتے رہتے ہیں ان کے صفات اور کارناموں کو دیکھ کر بہت ہی جلد ان کو پہچانا جاسکتا ہے، جبکہ انبیاء علیہم السلام کا اخلاص، صداقت او رپاکیزگی ان کے لئے ایک سند ہے جو معجزہ کے ساتھ مزید ہدایت گر ثابت ہوتی ہے۔(۳)

                                 

(1) سورہٴ طہ ، آیت۶۸

(۲)سورہٴ طہ ، آیت۶۹

(۳) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۲۸۸

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...
سوال کا متن: سلام عليکم. يا علي ع مدد. ....مولا علي ...
کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟
کیا اسلامی ممالک کی بنکوں سے قرضہ لینا جائز ہے؟
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ...

 
user comment