قرآن مجید اور دینی کتابوں کے مطابق، ھنر، اس مقصد کا ضامن ھے کہ انسان کی، یکتا پرستی اور بلند انسانی قدروں کی طرف تحریک و راھنمائی کرے۔ تاریخ کے مطالعہ سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ مجسّمہ سازی اور تصویر بنانے کے ھنر کی عام طور پر مذمت کی گئی ھے۔
البتہ آج کل، حالات اور ماحول کی تبدیلی اور اس ھنر کے ھنرمندوں کی مختلف کارکردگیوں کے پیش نظر، بعض دینی علماء نے بھی خاص حالات میں مجسّمہ سازی کے جائز ھونے کا نظریہ پیش کیا ھے، لیکن چونکہ یہ نظریات ابھی تمام علماء کی طرف سے قابل قبول نھیں ھیں، اس لئے بعض علماء حالات کی تبدیلی کو حکم کے حرام ھونے کے خاتمہ کی دلیل نھیں جانتے ھیں، اور ایک جانب اس ھنر کے وسیع پیمانہ پر پھیلاؤ کے بارے میں سوچ نھیں سکتے ھیں اور دوسری جانب اس سلسلہ میں محدود اور کنٹرول شدہ فعالیتوں میں رکاوٹ نھیں ڈالی جاسکتی ھے۔
اس سوال پر بحث کرنے سے پھلے اس نکتہ پر غور کرنا ضروری ھے کہ قرآن مجید نے اکثر مواقع پر اجمالی دستور اور معیار پیش کرنے پر اکتفا کی ھے اور ان کی تفسیر کی ذمہ داری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معصومین علیھم السلام پر چھوڑدی ھے۔ اس سلسلہ میں، مثال کے طور پر ھمیں نماز کا واجب ھونا قرآن مجید سے معلوم ھوتا ھے، لیکن اس کی رکعتوں کی تعداد، صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے معلوم ھوتی ھے۔ اس بناء پر ھم صرف قرآن مجید سے جواب دینے کی تاکید کو دینی تعلیمات کی تحقیق کے مطابق نہ سمجھتے ھوئے آپ کے سوال پر قرآن مجید کے علاوہ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معصومین علیھم السلام کی تعلیمات سے مدد حاصل کر کے بحث کرتے ھیں:
اس سلسلہ میں، سب سے پھلے، مجسّمہ سازی کی صنعت سے جو مختلف استفادے کئے جاسکتے ھیں، ان کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے اور اس کے ساتھ اس سلسلہ میں اسلام کی پالیسی پر توجہ کی جانی چاھئے اور اس کے بعد اس بحث سے آخری نتیجہ حاصل کرسکتے ھیں۔ اس سلسلہ میں ھم مجسّمہ سازی کو اس کی قدر وقیمت کے لحاظ سے تین اجمالی محوروں میں تقسیم کرسکتے ھیں :
۱ ۔ منفی استفادہ کے لئے مجسّمہ سازی : اس کے یہ معنی ھیں کہ مجسّمہ سازی کا مقصد ، کچھ ایسے امور ھوں ، جن کی اسلام اور دوسرے الھی مکاتب نے کسی صورت میں تائید نھیں کی ھے ، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل موارد کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ھے :
الف : ایک شخص ، بظاھر ھنر مند ، ایک مجسّمہ بناکر اسے خدا یا اس کے شریک کے عنوان سے متعارف کرتا ھے اور لوگوں کو اس کی پرستش کرنے کی دعوت دیتا ھے ۔ خداوند متعال نے ان لوگوں کی مذمت کی ھے جو اپنی جھالت کی وجہ سے اس قسم کے مکتب فکر کے فریفتہ ھوجائیں ، اور ان سے خطاب کرتے ھوئے ارشاد فرماتا ھے : “ کیا تم لوگ اپنے ھاتھوں کے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرتے ھو ؟ ! [1] “ البتہ ، ممکن ھے ۔ سامری جیسا کوئی شخص ، ان مجسّموں کو بنانے میں اپنی چابک دستی سے استفادہ کر کے ، اپنے گناھوں کی وجہ سے ، خدا سے دور ھوئے عام لوگوں کو دھوکہ دے کر گمراہ کرے ۔[2] ظاھر ھے کہ آج ، مجسّمہ سازی کی صنعت سے پسماندہ اور غیر مھذب قبائل کے علاوہ کوئی بھی اس قسم کا استفادہ نھیں کرتا ھے ۔
ب : ھمیں تاریخ میں ایسے افرادبھی ملتے ھیں جو مختلف ھنروں کی صنعت، من جملہ مجسّمہ سازی ، سحر اور چابک دستی سے اپنی طاقت کو خدائے واحد کے برابر قرار دینے کا ادعاء کرتے تھے ۔ اس سلسلہ میں مصر کے بعض فراعنہ کا نام لیا جاسکتا ھے ۔ وہ اھرام اور ابو الھول کے مانند مجسّمے تراش کر اور ساحروں اور جادوگروں سے استفادہ کرکے ، اس حد تک پھنچ گئے تھے کہ حضرت موسیٰ ( ع ) کے زمانہ کے فرعون کے مانند خدائی کا دعویٰ کرتے تھے ! [3]
بہ الفاظ دیگر وہ یوں اظھار کرتے تھے کہ اگر خداوند متعال نے انسان اور دوسری مخلوقات کو پیدا کر کے اپنی طاقت کا مظاھرہ کیا ھے ، تو ھم بھی ، اس کے مانند بھت ھی خوبصورت اور حیرت انگیز مجسّمے بناسکتے ھیں ، پس ھمارے اور خدا کے درمیان کیا فرق ھے ؟ !
ایسالگتا ھے کہ ، جن لوگوں نے مجسّمہ سازی کی ممنوعیت والی روایتوں سے استفادہ کیا ھے ، وہ اسی قسم کی مجسّمہ سازی سے مربوط ھیں ۔ مثال کے طور پر ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ھیں : “ جو شخص مجسّمہ تراشے گا ، قیامت کے دن خداوند متعال اس سے مطالبہ کرے گا کہ اپنے تراشیدہ مجسّمہ میں روح پھونک دے اور وہ اس کام میں عاجز اور کمزور ھوگا ۔[4] “ اور روایت کی گئی ھے کہ : “ جوبھی شخص مجسّمہ تراشی کرے ، گویا اس نے خداوند متعال سے جنگ کی ھے ۔[5] “ ان روایتوں کے مطابق ان سے وہ افراد مخاطب ھیں ، جو خود کو خدا کے مقابل قرار دیتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ اس قسم کے کام سے ، خدا کی مخلوق کو اپنی ھنرمندی کے تحت الشعاع قراردیں !
خوش قسمتی سے ، اس وقت علم میں ترقی اور خلقت کے بعض جمالیات کی شناخت کی وجہ سے ، انسان علم میں اس حد تک آگے بڑھ چکا ھے کہ ، ترقی یافتہ ترین متحرک مجسّموں ، یعنی “ روباٹ “ کو بھی خدا کی مخلوق کے مساوی نھیں جانتا ھے ، بے جان اور غیرمتحرک مجسّموں کی بات ھی نھیں ۔ اس بناء پر ، عصر حاضر میں مجسّمہ سازی کی صنعت ، خداکی مخلوق سے مقابلہ کرنے کی کوشش شمار نھیں کی جاسکتی ھے ۔
ج : اسی طرح ، ایک اور گروہ کا تصور کیا جاسکتا ھے ، جو اس نتیجہ پر پھنچا ھے کہ مذکورہ دوطریقوں سے ، دینداری سے مقابلہ نھیں کیا جاسکتا ھے ، لیکن بعض امور ، جیسے داستان سرائی اور مجسّمہ سازی وغیرہ کو نمایاں کرکے اور اس کے بارے میں وسیع پیمانہ پر پروپیگنڈا کرکے ، لوگوں کو ان چیزوں میں سرگرم کرتے ھوئے خاص رجحانات کی طرف متحرک کیا جاسکتا ھے ، تاکہ فرصتوں کو ان سے چھین کر اور انھیں عملی طورپر خداوندمتعال اور معنویات سے دور کرکے ایسے امور میں سرگرم کردیا جائے ، کہ حرام نہ ھونے کی صورت میں بھی ، ان کے لئے اس کا کوئی خاص فائدہ نہ ھو ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ، جب عام لوگ ، اپنی توجہ کو قرآن مجید اور اس کے مفاھیم کی طرف مرکوز کرتے تھے تو داستانیں گھڑنے والے ، لوگوں کے لئے رستم واسفندیار کی داستانوں کو جوش وخروش کے ساتھ بیان کرتے تھے اور ان کا مقصد لوگوں کے ذھنوں کو قرآن مجید سے منحرف کرنا تھا ۔ خداوند متعال نے ان کے اس طریقہ کار کی ایک آیہ شریفہ کے ذریعہ مذمت کی ھے اور اس میں ارشاد الھی ھوا ھے کہ : “ لوگوں میں ایسا شخص بھی ھے جو مھمل باتوں کو خریدتا ھے تاکہ ان کے ذریعہ سمجھے بوجھے لوگوں کو راہ خداسے گمراہ کرے ۔[6] “
د : سرانجام ، کبھی ایسا مجسّمہ بھی بنایا جاتا ھے ، جو کہ کسی خرافات پر مبنی عقیدہ یا کسی فرضی موضوع کی علامت ھو !
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ، خانہ کعبہ میں ایک ایسے مجسّمہ کو دیکھا ، جو حضرت ابراھیم اور حصرت اسماعیل علیھما السلام کا تھا ، ان کے ھاتھوں میں کاسے تھے ، جن کے بارے میں زمانہ جاھلیت کے لوگ خرافات پر مبنی اعتقاد رکھتے تھے ( ان کاسوں کے نام “ ازلام “ تھے اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۳ میں ان کی طرف اشارہ کیاگیا ھے ) آنحضرت ( ص ) نے اس منظر کو دیکھنے کے بعد ، ناراضگی کی حالت میں فرمایا : “ خداوند متعال ان مجسّموں کے بنانے والوں کو ھلاک کرے ! خدا کی قسم ، وہ بھی جانتے ھیں کہ ان دوالھی پیغمبروں ( ع ) نے ھرگز ایسا کام انجام نھیں دیا ھے ۔[7] “ قابل توجہ بات ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصل مجسّمہ سازی اور اسے خانہ کعبہ میں قرار دینے پر اعتراض کرنے سے پھلے ، اس گمراہ کن موضوع پر اعتراض کیا جس کی ، مجسّمہ بنانے والے ترویج کرنا چاھتے تھے ۔ آج بھی اس کے مشابہ موضوع کا مشاھدہ کیا جاسکتا ھے ، جبکہ مجسّموں کو تاریخ میں رونما نہ ھوئے واقعات کو ثابت کرنے کے لئے بنایا جاتا ھے ، جیسے “ ھولوکاسٹ “ کا فرضی واقعہ وغیرہ ۔
ظاھر ھے کہ اسلام کا مقدس دین ، ھر قسم کے ایسے ھنر کی کسی صورت میں تائید نھیں کرتا ھے ، جس کا مذکورہ مطلب اور اس کے مشابہ مقصد ھو ۔
۲ ۔ مثبت استفادہ کے لئے مجسّمہ سازی :
اس کے باوجود کہ مجسّمہ سازی کے اکثر موارد غیر توحیدی مقاصد کے لئے ھوا کرتے تھے ، لیکن ایسے موارد کا بھی تصور کیا جاسکتا ھے کہ یہ ھنر ، دینی مقاصد کی خدمت کے لئے ھو ، ان میں سے ھم ذیل میں دونمونوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
الف : اگر یہ ھنر خداوند متعال کی براہ راست اجازت اور حکم سے انجام پائے اور مشرکین سے مقابلہ کرنے کا ایک وسیلہ قرار پائے ۔ جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ ، حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں ، مجسّمہ سازی کی صنعت کافی رونق حاصل کرچکی تھی اور اس زمانہ کے ھنرمندوں کے توسط سے خوبصورت مجسّمے بنائے جاتے تھے ، جن کو دیکھ کر لوگ تعجب کرتے تھے ۔ یہ الھی پیغمبر ( ع ) توحید کو ثابت کرنے کے لئے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ خداوند متعال تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ھے ، مٹی سے پرندوں کے مجسّمے بناتے تھے اور اس کے بعد خدا کی اجازت سے ان پر پھونکتے تھے اور پرندے زندہ ھوکر آسمان میں پرواز کرجاتے تھے ![8] اور حضرت عیسیٰ ( ع ) زبان حال سے فرماتے تھے کہ اگر آپ بے جان مجسّمے بناتے ھیں ، تو میں انھیں جاندار مخلوق میں تبدیل کرتا ھوں ، لیکن یہ خداکی قدرت کی علامت ھے ، نہ یہ کہ دوسروں کے مانند میں اپنی ھنرمندی کا مظاھرہ کرکے خدا سے مقابلہ کروں ! ھم بخوبی جانتے ھیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مجسّمہ ساز نھیں تھے ، بلکہ ایک ایسے پیغمبر ( ع ) تھے ، جو خداوند متعال کی بلاواسطہ اجازت سے اس قسم کا کام انجام دیتے تھے اور ھم ان کے اس کام کو کلی طور پر مجسّمہ سازی کا جائز ھونا قرار نھیں دے سکتے ھیں ، مگر یہ کہ کوئی دوسرا پیغمبر ( ع ) یا امام ( ع ) خدا کی اجازت سے اس کے جائز ھونے کو دھرائے اور بقول حافظ شیرازی :
دیگران ھم بکنند آنچہ مسیحا می کرد
ب : اسی طرح ایک قسم کی مثبت مجسّمہ سازی کو مد نظر رکھا جاسکتا ھے کہ جس کا مقصد ، دینی بزرگ شخصیتوں کا احترام اور قابل قبول الھی نصب العین کی ترویج ھو ۔
پھلی نظر میں شاید ھم اس نتیجہ پر پھنچیں کہ ، اس مقصد کے پیش نظر بعض مجسّمے بنانے میں کوئی عیب و اعتراض نھیں ھونا چاھئے ، لیکن افسوس کہ ، تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ اس قسم کے مجسّمے بھی ، اگر چہ ابتداء میں مثبت مقاصد کے لئے بنائے جاتے تھے ، لیکن آخرکار ان سے ایسا استفادہ کیا جاتا تھا کہ ان کے ابتدائی مقاصد کے ساتھ کسی قسم کی ھم آھنگی نھیں پائی جاتی تھی اور ایک مفسر کے تجزیہ کے مطابق : “ انبیاء ( ع ) اور نیک افراد کا غیر معمولی احترام ، کبھی اس امر کا سبب بن جاتا ھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی تصویروں کا احترام کیا جاتا ھے اور زمانہ گزرنے کے بعد یہ احترام پرستش میں تبدیل ھوجاتا ھے ۔[9] “
مذکورہ تجزیہ بعض روایتوں کے عین مطابق ھے کہ جو اس سلسلہ میں نقل کی گئی ھیں ۔[10] اسی وجہ سے بھت سے علماء ، مجسّمہ سازی کو، مثبت مقاصد کے لئے بھی جائز نھیں جانتے ھیں ، مگر یہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے مانند خدا کی طرف سے کوئی خاص اور بلا واسطہ حکم ھو ۔
۳ ۔ کسی قابل قدر مقصد کے بغیر مجسّمہ سازی : بعض اوقات ھنر مندیوں کی کسی خاص قابل قدر مقصد کے بغیر ترویج کی جاتی ھے ۔ بہ الفاظ دیگر ھنر کو صرف ھنر کے لئے چاھتے ھیں اور بس ، اسی طرح دوسرے مصنوعات کے بارے میں بھی اس قسم کا تصور کیا جاسکتا ھے ۔ مثال کے طور پر ورزش کو مثبت و منفی مقاصد کے لئے انجام دیا جاسکتا ھے اور کبھی ورزش کو ورزش کے لئے انجام دیا جاسکتا ھے ۔
اسلام ، چونکہ بنیادی طور پر ، قدروں والا اور با مقصد دین ھے ، اور بے مقصد عمل کو اگر چہ حرام نہ جانتا ھو ، مگر اس کی تائید و ترویج بھی نھیں کرتا ھے اور ایماندار افراد کی قدر کو اس سے بلند تر جانتا ھے کہ وہ اپنی زندگی کو بے مقصد کاموں کے لئے ضائع کریں ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل دوروایتیں قابل غورھیں :
پھلی روایت : امام صادق علیہ السلام سے ایک شخص تفریحی شکار کے بارے میں سوال کرتا ھے ، امام ( ع ) جواب میں فرماتے ھیں : “ صرف ان افراد کے لئے ایسا کام انجام دینا جائز ھے ، جو ذریعہ معاش کے لئے شکار کرنے جاتے ھیں اور دوسروں کو ان امور میں اپنے آپ کو مشغول نھیں کرنا چاھئے ، کیونکہ اخروی ثواب کی تلاش وکوشش ، با ایمان افراد کو اس قسم کے بے فائدہ کام سے روکتی ھے ۔[11] “
دوسری روایت : بکیر نامی ایک شخص نے چھٹے امام ( ع ) سے شطرنج کے بارے میں سوال کیا ، امام ( ع ) نے جواب میں فرمایا : “ ایک با ایمان شخص کے پاس اس قدر دنیوی اور اخروی کام ھوتے ھیں کہ وہ بیھودہ سرگرمیوں کے پیچھے نھیں جاتا ھے ![12]
ان روایات پر تھوڑی سی فکر اور غور کرنے سے ، ھم اس نتیجہ پر پھنچتے ھیں کہ با ایمان افراد کی زندگی کی قدر و قیمت ، اس سے بالاتر ھے کہ وہ کوئی بے مقصد کام انجام دیں ، اگر چہ اس کام کے حرام ھونے کے بارے میں کوئی شرعی دلیل بھی موجود نہ ھو !
ظاھر ھے کہ قرآن مجید بھی ، مومن افراد کی خصوصیت ، ان کے “ ھمیشہ خدا کی یاد میں ھونے “ کو جانتا ھے [13]، اور ھر قسم کے اس کام کو پسند نھیں کرتا ھے ، جس کا فطری نتیجہ خداسے دوری ھو ۔
اب جبکہ ھم مجسّمہ سازی کے بارے میں اسلام کے گوناگون نظریات سے آگاہ ھوئے ، ھم آپ کے سوال کے آخری حصہ پر بحث کرتے ھیں کہ : عصر حاضر کے بعض علماء کیوں مجسّمہ سازی کو جائز نھیں جانتے ھیں اور اس کے باوجود کیوں اس سلسلہ میں محدود سرگرمیاں پائی جاتی ھیں ؟
جو دینی علماء ، اس وقت بھی مجسّمہ سازی اور تصویر کشی جائز نہ ھونے پر تاکید کرتے ھیں ، ان کی اس تاکید کی دلیل مندرجہ ذیل چند مقدموں پر مبنی ھے :
پھلا مقدمہ : مجسّمہ سازی اور تصویر کشی کی ممانعت کے بارے میں یقینی طور پر قابل اعتبار اور قابل استناد روایتیں پائی جاتی ھیں ۔
دوسرا مقدمہ : ھم مطمئن ھیں کہ اس ممنوعیت کی ایک دلیل مسلمانوں کو دوبارہ بت پرستی اور شرک کی طرف رجحان پیدا کرنے سے بچانا ھے ۔ اس سلسلہ میں بھی بھت سی روایتیں پائی جاتی ھیں ، جو اس امر کی دلیل ھیں ، من جملہ :
۱۔ راوی ، درخت ، سورج اور چاند کی تصاویر کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کا نظریہ پوچھتا ھے ۔ امام جواب میں فرماتے ھیں : “ اگر زندہ مخلوقات کی تصویر نہ ھوتو کوئی حرج نھیں ھے ۔[14] “
۲ ۔ ابو بصیر کھتے ھیں کہ میں نے امام صادق ( ع ) کی خدمت میں عرض کی کہ ھم ان قالینوں کو زمین پر بچھاتے ھیں ، جن پر تصویریں بنی ھیں ، کیا اس میں کوئی حرج ھے ؟ امام ( ع ) نے جواب میں فرمایا : “ جو چیز فرش کے عنوان سے زمین پر بچھائی جاتی ھے ، اور پاؤں کے نیچے قرار پاکر پامال ھوتی ھے ، اس میں کوئی حرج نھیں ھے ، لیکن اس قسم کی تصویروں کو دیواروں اور تختوں پر لٹکانا مکروہ ھے ۔[15]
۳ ۔ محمد بن مسلم کھتے ھیں کہ میں نے امام باقر ( ع ) سے پوچھا : اگر تصاویر سامنے ھوں اور میں انھیں دیکھ رھا ھوں ، تو کیا میں اس حالت میں نماز پڑھ سکتا ھوں ؟ امام ( ع ) نے فرمایا : “ نھیں ! تصویر پر ایک کپڑا رکھنا چاھئے ! البتہ اگر یہ تصویر دائیں ، بائیں جانب یا پیچھے اور زمین پر یا سر کے اوپر ھو ، تو کوئی حرج نھیں ھے ۔ لیکن اگر صرف قبلہ کی طرف ھو تو ، اس کے اوپر کوئی کپڑا رکھ کر نماز پڑھنی چاھئے ۔ [16] “
مذکورہ تمام احادیث اس بات کی علامت ھیں کہ ایسا کام انجام دینا چاھئے کہ ان تصویروں کی پرستش یا تعظیم کا کوئی شائبہ تک باقی نہ رھے ، اور ھم اس قسم کی تصویریں کھیچنے کے حرام ھونے کی اصلی دلیل ، بت پرستی کو ختم کرنا جانتے ھیں ۔
تیسرا مقدمہ : اس کے پیش نظر کہ ھم جانتے ھیں کہ ، اس حکم کی اصلی دلیل ، لوگوں کو بت پرستی کی طرف لوٹنے سے بچانا ھے ، لیکن ھمیں اطمینان نھیں ھے کہ مذکورہ موضوع ، مجسّمہ سازی کی ممنوعیت کی تنھا علت ھوگی ، بلکہ ممکن ھے دوسری دلیلیں بھی پائی جاتی ھوں جو اس کا سبب بنی ھیں ، تاکہ مجسّمہ سازی اسلام کی نظر میں جائز نہ ھو ، من جملہ یہ کہ لوگ بے مقصد کاموں کی طرف رخ نہ کریں اور خدا کی یاد سے غافل نہ ھو جائیں ، جیسا کہ بیان کیاگیا ، اس کام کے لئے اسلام کی تائید نھیں ھوسکتی ھے ۔ مذکورہ تین مقدمات کے پیش نظر ، اگر چہ مجسّمہ سازی کی ممنوعیت کی اصلی دلیل بت پرستی کا شائبہ اس وقت نھیں پایا جاتا ھے ، لیکن ممکن ھے اس کام کو انجام دینے کے ابھی بھی ایسے نتائج نکلیں جو دین کے بلند مقاصد کے مطابق نہ ھوں ۔ اس کے علاوہ یہ ھنر ایک ایسی چیز نھیں ھے کہ اس کے بغیر زندگی نھیں گزاری جاسکتی ھے ۔ اسلامی معاشرہ میں اس کا فقدان ملک کو کوئی ضرر نھیں پھنچا سکتا ھے ۔ بہ الفاظ دیگر ، اس ھنر کا فقدان ، معاشرہ کی ترقی میں کوئی اثر نھیں ڈال سکتا ھے ۔ لیکن اس کی وسیع پیمانہ پر ترویج ، ممکن ھے معاشرہ میں کچھ گمراھیوں کا سبب بنے جو بعد میں کنٹرول کے قابل نہ ھوں ۔ اس بناء پر ، بعض دینی علماء اس سلسلہ میں خدشات رکھتے ھیں اور احتیاط کی شرط جانتے ھیں کہ اس صنعت کی طرف توجہ کرنے کے بجائے مطمئن تر راھوں سے معاشرے میں ثقافت و ھنر کی ترویج کے اقدام کریں ، جب کہ ایک زمانے میں دینی پیشوا اس سند کی زبردست مخالفت کرتے تھے ۔ [17]
البتہ ھمیں جانناچاھئے کہ عصر جدید میں دینی علماء منابع دینی اور جدید نظریات سے استناد کر کے مجسّمہ سازی کے موضوع پر پھر سے فکر اور غور کے ساتھ تحقیق کر رھے ھیں ۔ اس سلسلہ میں امام خمینی (رح ) نے اپنے ایک خط مؤرخ ۱۰ / ۸/ ۱۳۶۷ ھ ش ( اول نومبر ۱۹۸۸ء ) میں ، جو منشورہ “ برادری “ کے نام سے مشھور تھا ، تصویر کشی اور مجسّمہ سازی کے موضوع کو ان موضوعات میں سے جانا ھے کہ صاحب نظر افراد کو اس سلسلہ میں مزید بحث و گفتگو کرنی چاھئے ۔ [18]
عصر حاضر کے بعض فقھا نے بھی دینی کتابوں میں تحقیق کر کے ، مجسّمہ سازی کے حرام ھونے کو عام طور پر شک و شبھہ کی نظر سے دیکھا ھے ۔ [19] لیکن بھت سے مراجع تقلید ، من جملہ رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ، [20] اعتقاد رکھتے ھیں کہ مجسّمہ سازی کے حرام ثابت کرنے کے دلائل ، اس قدر عام ھیں کہ آج بھی آسانی کے ساتھ اس کے جائز ھونے کا فتویٰ نھیں دیا جاسکتا ھے ۔
دینی علماء کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف نظر پر غور کر کے ، ھم آپ کے سوال کا جواب دے سکتے ھیں ، اس طرح کہ اس قسم کی محدود سرگرمیوں کی جو ممانعت نھیں کی جاتی ھے ، وہ اس وجہ سے ھے کہ تمام علماء اس کے حرام ھونے پر اجماع کرتے ھیں ، جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ، کچھ نمایاں فقھا بھی اس کے کلی طور پر حرام ھونے کو قبول نھیں کرتے ھیں اور اس کے مکروہ ھونے کا فتویٰ دیتے ھیں ۔ اس بناء پر کوئی دلیل موجود نھیں ھے کہ ایسی سرگرمیوں کو روکا جائے جو کم از کم بعض فقھا کے مطابق مسلم طور پر حرام نھیں ھیں ۔
لیکن ھم ایک لحاظ سے جانتے ھیں کہ مثبت مقاصد کے لئے بھی مجسّمہ سازی کے جائز ھونے کو بھت سے دوسرے علماء دین قبول نھیں کرتے ھیں اور اس کے علاوہ یہ صنعت ایسی صنعت نھیں ھے کہ اس کا فقدان معاشرے کو کوئی قابل توجہ نقصان پھنچائے ۔
اسی بناء پر ، اس کی وسیع پیمانہ پر ترویج و تبلیغ اسلامی معاشرہ کی مصلحت میں نھیں ھے ۔
امید ھے کہ آپ نے اپنے سوال کا جواب حاصل کیا ھوگا اور اگر پھر بھی اس سلسلہ میں کوئی شک و شبھہ باقی ھو تو جزئیات کے ساتھ پھر سے ھمیں ارسال کیجیے ھم انشاء اللہ اس کا جواب دیں گے ۔
[1] ۔ صافات ، ۹۵ ، “ اتعبدون ما تنحتون “ ۔
[2] ۔ اعراف ، ۱۴۸ : طھ ، ۸۸ : بقرہ ، ۹۳ ۔
[3] ۔ نازعات ، ۲۴ : زخرف ، ۵۱ ۔
[4] ۔ حر عاملی ، محمد بن الحسن ، وسائل الشیعۃ ، ج ۱۷ ، ص ۲۹۷ ، ح ۲۲۵۷۴، مؤسسۃ آل البیت ، قم ، ۱۴۰۹ ، ھ ش ۔
[5] ۔ نوری ، میرزاحسین ، مستدرک اوسائل ، ج ۳ ،ص ۴۵۴، ح ۳۹۷۶ ، مؤسسۃ آل البیت ، قم ، ۱۴۰۸ ، ھ ش ۔
[6] ۔ طبرسی ، فضل بن الحسن ، مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، ج ۸ ، ص۴۹۰، ذیل آیھ ۶ سورہ لقمان ، ( ومن الناس من یشتری لھو الھدیث لیضل ۔ ۔ ۔ ۔ ) انتشارات ناصر خسرو ، تھران ، ۱۳۷۲ ش ، طبع سوم ۔
[7] ۔ این منظور ، لسان العرب ، ج ۱۲ ، ص ۴۷۹۔
[8] ۔ آل عمران ، ۱۹۱ ۔
[9] ۔ مکارم شیرازی ، ناصر ، تفسیر نمونھ ، ، ج ۱۹ ، ص ۳۶۷، دار الکتب الاسلامیہ ، تھران ، ۱۳۷۴ ش ۔
[10] ۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۳ ، ص ۲۴۸، مؤسسۃ الوفاء ، بیروت ، ۱۴۰۴ ھ ق ۔
[11] ۔ نوری ، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل ، ج ۶ ، ص ۵۲۳ ۔ ۵۲۲، ح ۷۴۴۱ ۔
[12] ۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج ۷۶ ، ص۲۳۰، ح ۲ ۔
[13] ۔ آل عمران ، ۱۹۱ ۔
[14] ۔وسائل الشیعہ ، ج ۱۷ ، ص ۲۹۶، ح ۲۲۵۷۱۔
[15] ۔ ایضاً ، ج ۱۷ ، ص ۲۹۶ ، ح۲۲۵۷۲ ۔
[16] ۔ ایضاً ، ج ۵ ، ص ۱۷۰ ، ح ۶۲۴۳ ۔
[17] ۔ اس سلسلہ میں احتیاط کے فتویٰ کی دلیل کو ، سوال نمبر ۳۸۶۹ ( سائٹ : ۴۱۷۴ )
یں ملاحظہ کرسکتے ھیں ۔
[18] ۔ صحیفہ امام ، ج ۲۱ ، ص ۱۷۷ ۔ ۱۷۶ ۔
[19] ۔ تبریزی ، جواد ، ارشاد الطالب الی التعلیق علی المکاسب ، ج ۱ ، ص ۱۲۳ ، مؤسسھ اسماعیلیات ، قم ، طبع سوم ، ۱۴۱۶، ھ ق ۔
[20] ۔ خامنھ ای ، سید علی ، اجوبۃ الاستفتاآت ، فارسی ، ص ۲۵۴ ۔ ۲۵۳
منبع : اسلام کوئسٹ ڈاٹ نٹ
source : http://www.ahlulbaytportal.com