منبع: شیعہ شناسی و شبہات؛ علی اصغر رضوانی، ج۱، ص ۵۴۹ ۔ ۵۶۳
دعا اور مناجات بہت ہی قیمتی سرمایہ اور اسلام اورقرآن كے مسلم حقائق میں سے ہے كہ جس كے صحیح طریقے سے استفادہ كرنے سے روح و جسم كی پرورش ہوتی ہے۔ الكسیس كارل (مشہور انسان شناس) كہتا ہے: ""كوئی بھی اور قوم نابود نہیں ہوئی مگر اس نے دعا كو ترك كیا ہواور اپنے آپ كو موت كیلئے تیار كیا ہو"" (یعنی جس قوم نے بھی دعا كو ترك كیا ہو اس كا زوال اور نابودی قطعی اور یقینی ہے) دعا انسان كی روح اور فطرت پر بہت ہی عمیق اور گہرے آثار مترتب كرتی ہے اور اس كی اس طرح تربیت كرتی ہے كہ اس معاشرے، ماحول اور وراثت كو وہ اپنے لئے محدود سمجھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے كہ اگر دعا ومناجات كرنے والا تمام شرائط كے ساتھ دعا مانگے تو وہ جو كچھ بھی طلب كرے اسے مل سكتا ہے اور جس دروازے كو بھی كھٹكھٹائے وہ اس پر كھل جاتاہے""
مناجات، كمال، سعادت، مقام اور حیثیت كیلئے درخواست ہے بلكہ یہ ایك ایسی چیز ہے جو دعا كرنے والے كی لیاقت اور شائستگی سے حاصل ہوتی ہے اور دعا ومناجات كی تكرار ایسا شیوہ اور فریاد ہے كہ جس سے انسان كے روح پہ اثر ہوتا ہے اور اس كے وجود میں امید، عشق اور محبت كی قوت و طاقت پیدا ہوتی ہے جو اسے ہدف كو پانے اور اس تك پہنچانے كیلئے حركت میں لاتی ہے۔
جو انسان یہ درك كرلے اور جان لے كہ جو كچھ اس كے پاس ہے، اس كیلئے كافی نہیں ہے اور اسے قانع نہیں كرسكتا، دعا كرتا ہے تا كہ جو اس كچھ اس كے پاس ہونا چاہیے اسے مل جائے اور جیسا اسے ہونا چاہیے، اس مقام تك پہنچ جائے۔ ایسا ہی انسان ہمیشہ ایك بہتر مستقبل اور آئیڈیل كیلئے تمنا كرتا ہے اور اس تك پہنچنے كیلئے دعا كرتا ہے۔ یہ ہے دعا اور اس كے فلفسہ كے بارے میں مختصر سا خلاصہ، اب ہم تفصیل سے اس كے بارے میں گفتگو كریں گے۔
دعا كا مفہوم
لغت میں دعا، بلانے، سوال كرنے، كسی كو پكارنے اور كسی چیز كو كسی چاہنے یا مانگنے كو كہا جاتا ہے۔ 2
اصطلاح میں دعا یعنی خدا وند متعال سے اس كے فضل وعنایت كی درخواست اور اسی سے مدد مانگنا اور سرانجام اس كی بارگاہ میں نیازمندی اور عجز وانكساری كا اظہار كرنا اور انسان كے خالق كائنات سے معنوی رابطہ اور مناجات كا نام دعا ہے۔
قرآن اور مناجات
قرآن بعض آیات میں صریح طور پہ دعا اور مناجات كی دعوت دیتا ہے اور اجابت كا وعدہ بھی كرتا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے: ""واذا سئالك عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی۔۔۔"" (بقرۃ:۱۸۶) اور جب میرا بندہ تجھ سے میری دوری اور نزدیكی كے بارے میں سوال كرے تو جان لیں كہ میں ان سے نزدیك ہوں جو بھی مجھے پكارے میں اس كی دعا كو مستجاب كروں گا۔
دوسری جگہ دعا كے بارے میں امر كرتے ہوئے فرماتا ہے: ""ادعونی اسستجب لكم ان الذین یستكبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین"" (غافر:۶۲) تمھارے پروردگار نے فرمایا كہ مجھے پكارو تاكہ میں تمھاری دعا مستجاب كروں اور وہ لوگ جو مجھ سے دعا اور میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں اور بغاوت كرتے ہیں بہت ہی جلد ذلت كے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔
روایات اور مناجات
۱۔ امام باقر(ع) سے پوچھا گیا: كون سی عبادت افضل ہے؟ حضرت نے فرمایا: كوئی بھی چیز خدا كے نزدیك اس سے بڑھ كر نہیں ہے كہ اس كی ذات پاك سے مانگا جائے اور دعا كی جائے اور جو كچھ اس كے پاس ہے طلب كیا جائے، اور جوانسان اس كی عبادت ودعا میں تكبر كرے اور نہ مانگے تو اس سے بڑھ كر كوئی بھی چیز اس كے پاس مبغوض نہیں ہے۔ 3
۲۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: عاجز ترین انسان وہ لوگ ہیں جو دعا نہ كرتے ہوں اور اس سے محروم ہوں۔ 4
۳۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں: خدا كے نزدیك سب سے محبوب اور پسندیدہ عمل دعا اور مناجات ہے۔ 5
قرآن میں انبیاء (ع) كی مناجات
۱ ۔حضرت آدم(ع) كی دعا:
جب حضرت آدم(ع) كو جنت سے باہر نكال دیا گیاتو آپ نے عرض كیا: ""ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنكونن من الخاسرین"" (اعراف:۲۳) خدایا! ہم نے خود پر ظلم كیا ہے اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور رحم نہیں كرے گا تو ہم زیانكاروں میں سے ہوجائیں گے۔
۲ ۔ حضرت نوح(ع) كی دعا:
حضرت نوح(ع) اپنی دعا میں فرماتے ہیں: رب اغفر لی ولوالدی ولمن دخل بیتی مؤمناً۔۔۔"" (نوح:۳۰) پروردگارا! مجھے، میرے والدین اور مومن كو بخش دے۔۔۔
۳ ۔ حضرت ابراہیم (ع) كی دعا:
حضرت ابراہیم اپنے فرزند اور بیوی كو مكہ كی خشك، بے آب و علف سرزمین پر چھوڑ كر خدا كی بارگاہ میں عرض كرتے ہیں: ""ربنا انی اسكنت من ذریتی بوادٍ غیر ذی زرع ً عند بیتك المحرم"" (ابراہیم: ۴۰) پروردگارا! میں نے اپنی ذریت (اولاد) كو بیابان (بغیر كھیتی كے زمین) میں تیرے بیت الحرام كے پاس گھر دیا۔دوسری جگہ اس طرح دعا كرتے ہیں: ""رب اجعلنی مقیم الصلوٰۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء"" (ابراہیم: ۴۲) پروردگارا! مجھے اور میری ذریت كو نماز گزاروں میں سے قرار دے اور ہماری دعا قبول فرما۔
۴ ۔ حضرت سلیمان(ع) كی دعا:
خدائے متعال نے حضرت سلیمان كی دعا كو اس طرح نقل كیا ہے: ""قال رب لو اوزعنی ان اشكر نعمتك التی انعمت علی و علی والدی و ان اعمل صالحاً ترضانی وادخلنی برحمتك فی الصالحین"" (نمل: ۱۹) اس نے كہا: پروردگارا! مجبور كرتا كہ جو نعمت تونے مجھے اور میرے ماں باپ كو عطا فرمائی ہے اس كا شكر ادا كروں اور عمل صالح انجام دوں كہ جسے تو پسند كرے اور مجھے اپنی رحمت كے واسطے اپنے صالح بندوں میں شامل فرما۔
۵ ۔ حضرت یونس(ع) كی مناجات:
خدا وند عالم حضرت یونس كی مناجات كو مچھلی كے پیٹ میں اس طرح سے بیان كرتا ہے: ""۔۔ ۔ فنادی فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانك انی كنت من الظالمین فاستجبنا لہ ونجیناہ من الغم وكذلك ننجی المؤمنین"" (انبیاء:۸۷۔۸۸)۔۔۔ اندھیروں اور تاریكیوں میں اس نے ندا كی: تیرے بغیر كوئی معبود نہیں، تیری ذات منزہ اور پاك ہے اور میں ظلم كرنے والوں میں سے ہوں، پس ہم نے اس كی دعا كو مستجاب كیا اور اسے غم سے نجات دی۔
۶ ۔ حضرت یوسف(ع) كی دعا:
خدائے متعال حضرت یوسف كی دعا كو حضرت زلیخا كے سلسلے میں اس طرح ذكر كرتا ہے: ""رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ"" (یوسف: ۲۲) پروردگارا! یہ زندان بہتر ہے اس چیز سے جس كی طرف یہ مجھے دعوت دیتے ہیں۔
۷ ۔ حضرت موسی(ع) كی دعا:
قرآن كریم حضرت موسی كی خدا سے دعا كو اس طرح نقل كرتا ہے: رب انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر"" (قصص: ۲۴) پروردگارا! تونے جو بركت میری طرف نازل كی ، میں اس كا محتاج ہوں۔
۸ ۔ حضرت زكریا(ع) كی دعا:
حضرت زكریا نے خدا سے صالح اولاد كیلئے اس طرح دعا كی: ""رب ھب لی من لدنك ذریۃً طیبۃ انك سمیع الدعاء"" (آل عمران: ۳۸) پروردگارا! مجھے اپنی طرف سے پاك اولاد و ذریت عطا فرما، بے شك دعا كا سننے والا ہے۔
خدا وند متعال پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب فرماتا ہے: قل انما ادعوا ربی ولا اشرك بہ احداً"" (جن:۲۰) كہوبتحقیق میں اپنے پروردگار كو پكارتا ہوں اور كسی اس كا شریك قرار نہیں دیتا۔
دانشوروں كی نظر میں دعا
دعا، مناجات اور راز و نیازاس قدر ضروری ہے كہ سیكولوجسٹ، اسكالر اورسیاست دان لوگ اس كو ضروری سمجھتے ہیں۔
۱ ۔ ڈاكٹر الكسیس كارل كہتا ہے: دعا كے موقع پہ انسان نہ صرف ایك مخصوص شكل میں دعا مانگتا ہے بلكہ اس كا وجد ان اس طرح عالم تجرد میں محو ہوجاتا ہے كہ خود بھی اس كا تصور نہیں كرسكتا۔ اس حالت كو انسان كے روحی احساس كی ترقی اور پیشرفت كی نسبت نہیں دینا چاہیے۔۔۔ دعا اور مناجات ہمارے اعضاء بدن میں ایسی حالت وجود میں لاتی ہے جس كی نظیر نہیں مل سكتی۔ ابتدائی دنوں میں انسان اس كی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیكن ب آہستہ آہستہ اس كا عادی بن جاتا ہے تو كوئی بھی لذت اس كا مقابلہ نہیں كرتی۔ انسان اس حالت میں اپنے آپ كو ایك طر"ح سے خدا كے سپرد كرتا ہے۔ جس طرح سے سنگ مرمر، سنگتراش كے سامنے بے اختیار ہوتا ہے اس كی بھی یہی حالت ہوتی ہے اور اس حالت میں خدا سے رحمت ومغفرت كیدعا مانگتا ہے۔ 6
۲ ۔ ڈیل كارنگی كہتا ہے: آج كے دور میں سیكولوجسٹ بھی ایك طرح سے نئے مذہب كے مبلغ بنچكے ہیں۔ امریكہ میں متوسط طور پہ ہر پانچ منٹ میں ایك آدمی خود كشی كرتا ہے اور ہر دو منٹ میں ایك آدمی پاگل ہوجاتا ہے۔ اگر لوگ اس آرام اور سكون كی طرف جاتے جو مذہب اور مذہبی دعاؤں میں پوشیدہ ہے تو خود كشی اور پاگل پن كے اكثر موارد منتفی ہوجاتے۔ 7
۳ ۔ مہاتما گاندی كا قول ہے: میں نے اپنی زندگی كے عمومی وخصوصی تجربوں میں كافی سختیاں اٹھائی ہیں جو مجھے ناامید كردیتی تھیں اور اگر میں نے ان ناامیدیوں پركامیابیاورفتح پائی بھی ہے تو فقط دعاؤں اور عبادت كے ذریعہ۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا میرا خدا پر اعتقاد بڑھتاگیا اور مجھے نماز و دعا كی ضرورت بھیزیادہ محسوس ہوئی اوریہ دعا میرے لئے ایسی شكل اختیار كرگئی كہ اس كے بغیر مجھے اپنی زندگی بے اور بے مقصد محسوس ہونے لگی۔ 8
گاندھی دوسری جگہ پہ كہتا ہے: اگر میں خدا كے وجود كا اپنے اندر احساس نہ كرتا تو ان سختیوں اور مصیبتوں سے پاگلہوجاتا اور میرا انجام یہ ہوتا كہ میں اپنے آپ كو دریائے ""ہگلی"" میں پھینك دیتا۔ 9
كمسنی میں دعا
كمسنی اور بچپنے میں دعااور مناجات بچے كی روح پہ ایك شاندار اثر چھوڑتی ہے۔ ممكن ہے كہ بچہ دعا اور مناجات كے الفاظ اور جملوں كو نہ سمجھے لیكن خدا كی طرف توجہ، خدا سے راز و نیاز، استمداد، اس كی بارگاہ میں محتاج ہونے كے اظہار وغیرہ اس بچپنے كے عالم میں درك كرتا ہے اور سمجھتا ہے اور خدا سے امید لگائے رہتا ہے اور اس كا دل خدا وند كی لا محدود ذات سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ اپنے باطن میں ایسے سہارے كا احسساس كرتا ہے جو اس كی تمام زندگی كیلئے سعادت اور نجات كا سرمایہ بنتا ہے اور سخت مواقع اور حوادث پر اسی قدرت پہ تكیہ كرتا ہے اور اسی سے مدد لیتا ہے۔ جو اس كی ذات پہ متكی ہو اور اس سے مطمئن ہو تو نہایت ہی آرام سے زندگی كے جوار بھاٹا میں اپنی شخصیت كی حفاظت كرسكتا ہے۔
اسی بناپر روایات میں آیا ہ كہ بچے كو بچپنے سے ہی نماز سے آشنا كیا جائے۔ پیغمبر اكرم (ص) فرماتے ہیں: ""اپنے بچوں كو سات سال كی عمر سے نماز كی ترغیب دو"" 10
ایك دانشور كا كہنا ہے: كتنا اچھا ہوگا كہ ہماپنے بچوں كو سكھائیں كہ وہ ہر روز مختصر طور پہ دعا پڑھیں كیونكہ دعا ہر حاجت اور جیاز كے رفع ہونے كیلئے ایك بہترین موقع ہے۔ 11
1. الكسیس كارل: نیایش.
2. قاموس المحیط، مادہ دعا.
3. كافی: ج۲، ص۲۶۷.
4. عدۃ الداعی: ص۲۴.
5. كافی: ج۲، ص۲۶۷.
6. انسان موجود ناشناختہ: ص۹۳.
7. علل پیشرفت انسان وانحطاط مسلمین: ص۵۳.
8. وہی مدرك: ص۵۴.
9. وہی مدرك.
10. مستدرك الوسائل: ج۱، ص۱۷۱.
11. دعا بزرگترین نیروھای جہان: ص۸۰.
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=970&link_articles=ethics_and_supplication/general_articles/muahajaat_ka_falsafa