اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

تکبر باعث نفرت ہے

 

”حب ذات “ کاغریزہ انسانی فطرت میں ان بنیادی غرائز میں سے ہے جو بقائے حیات کے لئے ضروری ہے، انسان کی اپنی حیات سے دلچسپی اور اس کی بقاء کے لئے کوشش کا سر چشمہ یھی ” حب ذات“ ہے ، اگر چہ یہ فطرت کا عطا کردہ ذخیرہ ایک بھت ھی نفع بخش طاقت ہے اور بھت سے پسندیدہ صفات کو اسی غریزہ کے ذریعہ انسان میں پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اگر یہ غیر معقول صورت میں اور بطور افراط نمایاں ھو جائے تو مختلف برائیوں اور اخلاقی انحرافات کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔

فضائل اخلاقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ”حب ذات “ میں افراط ہے ۔ کیونکہ حب ذات میں افراط کا نتیجہ یہ ھوتا ہے کہ پھر اس کے دل میں دوسرے افراد سے محبت کرنے کی جگہ ھی باقی نھیں رھتی اور یھی حب ذات میںافراط انسان کو اپنی غلطیوں کے اعتراف سے روکتا ہے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تیار نھیں ھونے دیتا ، جن سے اس کے تکبر کا شیشہ چور ھو جاتا ھو ۔

پروفیسر روبنیسون کھتا ہے: ھم کو بارھا یہ اتفاق ھوتا ہے کہ خود بخود بغیر کسی زحمت و پریشانی کے اپنا نظریہ بدل دیتے ھیں ۔لیکن اگر کوئی دوسرا ھمارے نظریہ کی غلطی یا اشتباہ پر ھم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ھم میں ایک انقلاب پیدا ھو جاتا ہے اور ھم اس غلطی کو تسلیم نھیں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ھیں ھم کسی بھی نظریہ کو خود بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ھیں ۔ لیکن اگر کوئی دوسرا ھم سے ھمارا نظریہ چھیننا چاہے تو ھم دیوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ھیں ۔ ظاھر سی بات ہے ھمارے عقیدہ و نظریہ میں کوئی مخصوص رابطہ نھیں ہے صرف اسکی وجہ یہ ہے کہ ھماری خود خواھی و تکبر کی حس مجروح ھوتی ہے ۔ اس لئے ھم تسلیم نھیں کرتے اور اسی لئے اگر کوئی ھم سے کہے کہ تمھاری گھڑی پیچہے ہے یا تمھاری گاڑی بھت پرانے زمانہ کی ہے تو ممکن ہے کہ ھم کو اتنا ھی غصہ آ جائے جتنا یہ کھنے پر آتا ہے کہ تم مریخ کے بارے میں جاھل ھو یا فراعنہ مصر کے بارے میں تمھاری معلومات صفر کے برابر ہے ۔ ( آخر یہ غصہ کیوں آتا ہے صرف اس لئے کہ ھمارے تکبر اور ھماری انانیت کو ٹھیس نہ لگ جائے )

انسانی نیک بختی اور بشری سعادت کی سب سے بڑی دشمن ”خود پسندی “ ہے لوگوں کی نظروں میں تکبر و خود پسندی جتنی مذموم صفت ہے کوئی بھی اخلاقی برائی اتنی نا پسند نھیں ہے ۔ خود پسندی الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر دیتی ہے ۔ یگانگت و اتحاد کو دشمنی سے بدل دیتی ہے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ہے انسان کو چاھئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواھشمند ھو ، اتنا ھی دوسروں کی حیثیت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرھیز کرے جن سے حسن معاشرت کی خلاف ورزی ھوتی ھو یا رشتھٴ محبت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ھو ۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومی نفرت کا جذبہ پیدا ھو جاتا ہے اور خود وہ شخص مورد اھانت بن جاتا ہے ۔

معاشرے میں ھر شخص کے حدود معین ھونا چاھئیں۔ ایک شخص اپنی شائستگی اور لیاقت کے اعتبار سے لوگوں کی مخلصانہ محبت و احترام کو حاصل کرتا ہے لیکن جو شخص چھار دیواری میں محصور ھوتا ہے اور تکبر اس کے مکان وجود کو مسخر کر لیتا ہے وہ صرف اپنی خواھشات کو پیش نظر رکھتا ہے اور دوسروں کے حقوق کا بالکل لحاظ نھیں کرتا ۔ اور وہ اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ معاشرے میں جس طرح بھی ھو مشھور و محترم ھو جائے اور اپنی موھوم برتری کو معاشرے پر بھی لادنا چاھتا ہے اور یھی بے موقع اصرار و توقع لوگوں کو اس سے متنفر بنا دیتا ہے اور پورا معاشرہ اس سے شدید نفرت کرنے لگتا ہے اور اس کو تکلیف پھونچانے پر اتر آتا ہے اور یہ شخص ( متکبر ) مجبورا ً قلبی اضطراب و روحی تکلیف کے ساتھ خلاف توقع ان مصائب و تکالیف کو برداشت کرتا ہے ۔

تکبر کا لازمہ بد بینی ہے، متکبر کی آتش بد گمانی کا شعلہ ھمیشہ بھڑکتا رھتا ہے اور وہ سب ھی کو اپنا بد خواہ اورخود غرض سمجھتا ہے اس کے ساتھ مسلسل ھونے والی بے اعتنا ئیوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نھیں ھوتیں اور بے اختیار و نا دانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ھو جاتے ھیں کہ جب بھی اس کو موقع ملتا ہے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ہے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نھیں ملتا ۔

جب خود پرستی و تکبر کا اھرمن انسان کی فطرت میں اثر انداز ھو جاتا ہے اور انسان اپنی اس روحانی بیماری کی وجہ سے ” احساس حقارت “ میں مبتلا ھو جاتا ہے ، تو پھر یھی بیماری رفتہ رفتھ” عقدہ حقارت “  میں تبدیل ھو جاتی ہے ۔پھر یھی چیز بھت سے خطرات کا مرکز اور مختلف جرائم کا منبع بن جاتی ہے اور متکبر کو روز افزوں شقاوت و بد بختی کی طرف کھینچتی رھتی ہے ۔ اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ھو جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم ھو جائے گا کہ جو لوگ انبیائے الٰھی کی مخالفت کرتے رھتے تہے اور حق و حقیقت کے قبول کرنے سے اعراض کرتے رہے تہے وہ ھمیشہ دنیا کی خونیں جنگوں میں اس بات پر راضی رھتے تہے کہ ھستی بشر سر حد مرگ تک پھونچ جائے اور یہ جذبہ ھمیشہ حاکمانِ وقت کے غرور و خود پرستی ھی کی بنا پر پیدا ھوتا تھا ۔

آپ نے دیکھا ھو گا کہ پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ میں کسی اچھی پوسٹ پر پھونچ جاتے ھیں تو وہ متکبر ھو جاتے ھیں ۔ اور اس طرح وہ اپنی اس حقارت و ذلت کا جبران کرنا چاھتے ھیں  جو پستیٴ خاندا ن کی وجہ سے ان کے دامن گیر تھی ، ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ھیں ۔ اور ان کی ساری کوشش یھی ھوتی ہے کہ اپنی شرافت کا ڈھنڈھورا پیٹیں ۔ محترم پڑھنے والے اپنے ارد گرد اس قسم کے لوگوں کو دیکہ سکتے ھیں ، جو شخص واقعی بر جستہ پر ارزش ھوتا ہے وہ اپنے اندر کبھی بھی اس قسم کا احساس نھیں کرتا اور نہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی بزرگی کی نمائش کرے ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خود نمائی سر مایہ ٴ برتری نھیں ہے ، اور غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سر بلندی کی چوٹی پر پھونچا یاہے ۔

ایک دانشمند کھتا ہے: امیدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطح توقعات کو نیچے لے آؤ ۔اپنے کو خواھشات کے جال سے آزاد کراؤ ۔ غرور و خود بینی سے دوری اختیار کرو قید و بند کی زنجیروں کو توڑ دو ۔ تاکہ روحانی سلامتی سے ھم آغوش ھو سکو ۔

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=56277
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تلمود ( یہودیوں کی وحشتناک کتاب)
سوئس قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی کا قبول اسلام
اسلام کی تعلیمی اور تربیتی روش
اسوہ حسنہ اور مسلمانوں کی وحدت
حقوق انسانی کی پاسداری
میاں بیوی کے باہمی حقوق
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
مثالی معاشرے کی ضرورت و اہمیت:
امام خمینی کی نظر میں بعثت رسول ۖ کا فلسفہ
حا کم,حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں ( حصہ دوم)

 
user comment