مسلم شریف کی ایک حدیث میں وضاحت سے فرمایا گیا کہ وہ ہم میں سے نہیں جس کی زبان و ہاتھ سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ یہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ۔
بارگاہ رسالتۖ میں انسانی حقوق کی ادائیگی نہایت ہی اہمیت کی حامل تھی ۔ نبوت سے پہلے بھی آپۖ نہایت ہی اعلیٰ سیرت و کردار کے مالک تھے۔ لوگوں کے حقوق کو پورا کرنا، عزیز واقارب کی عزت و توقیر کرنا،امانتوں کی حفاظت کرنا، سچ بولنا، یتیموں اور بے کسوں سے محبت کرنا وغیرہ وہ اوصاف ہیں جو حقوق انسانی کی پاسداری کیلئے نمایاں مقام رکھتے تھے ۔ معمار انسانیتۖ نے انسانی خدمت کے جس عملی جذبہ انسانیت سے دنیا کو روشناس کرایا، اس کی تعریف و توصیف کے لئے زبان و قلم قاصر ہیں۔ حیات رسولۖ کے سنہری صفحات کی ورق گردانی کی جائے توہر صفحہ جذبہ انسانیت سے لبریز نظر آتا ہے ۔ یہ بارگاہ رسالتۖ ہی کا وصف تھا جہاں آکر لوگوں کے درمیان تمام امتیازات و فرق ختم، جہاں پرائے اپنے، ظالم رحم دل اور گناہ گار تائب ہو جایا کرتے تھے۔
تحفظ انسانیت سے متعلق احادیث مبارکہ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ امام بخاری و مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے حضورۖ سے سوال کیا کہ اسلامی عادات کو اپنانے کے اعتبار سے کون سا مسلمان اچھا ہے؟ آپۖ نے فرمایا وہ شخص جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں۔ ظاہر ہے کہ ہاتھ اور زبان سے سب سے زیادہ گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ زبان کے ذریعے گالم گلوچ، غیبت و چغلی کرنا، کسی کے بے جا عیب نکالنا وغیرہ اور اسی طرح ہاتھ کے ذریعے خدا کے بندوں کو زک پہنچانا، کسی پر ظلم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں وضاحت سے فرمایا گیا کہ وہ ہم میں سے نہیں جس کی زبان و ہاتھ سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ یہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ،اگر کوئی باوجود مسلمان ہونے کے انسانیت کو نقصان پہنچائے تو وہ ہم میں سے نہیں۔یہی وہ تعلیمات رسولۖ تھیں جو حضرات صحابہ کے دلوں میں پوری طرح رچ بس گئی تھیں اورجن کے ذریعے صحابہ کرام انسانیت کے اعلیٰ ترین مدارج طے کرتے گئے اور لوگ ان کے پاک و صاف کردار کے ہمنوا ہوتے گئے۔ تعلیمات رسولۖ کا ایسا اثر ہوا کہ خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی انسانوں کے حقوق کو بڑی اہمیت دی جاتی اور ان کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول ۖاللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ کہاں ہیں میرے وہ بندے جو میری عظمت و جلال کی وجہ سے آپس میں الفت و محبت رکھتے تھے؟۔
آج جب کہ میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں، میں اپنے ان بندوں کو اپنے سائے میں جگہ عطا کروں گا ۔ (مسلم) رسولۖ اللہ نے ہمیں بتایا کہ اسلام میں ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے حق کی حیثیت ہے چنانچہ ارشاد نبویۖ ہے'' ان گناہوں سے بچنے کی خاص طور سے کوشش کرو جن کو عام طور پر حقیر و معمولی سمجھا جاتا ہے کیونکہ خدا کے یہاں ان کی بھی بازپرس ہوگی۔'' انسان جن چیزوں کو معمولی سمجھ کر اہمیت نہیں دیتا اس کی مثال قرآن کریم سے لیجئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے'' تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی سزا و جزا کو جھٹلاتا ہے۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا ہے، پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں اورمعمولی ضرورت کی چیز (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں''(الماعون) یتیم سے بدسلوکی، مسکین کو کھانا نہ کھلانا، یہ سب اخلاقی نوعیت کے جرائم ہیں لیکن ان کا ارتکاب کرنے والوں کو آخرت میں تباہی کی وعیدہ سنا کر بتایا جا رہا ہے کہ ان چیزوں کو معمولی مت سمجھو کیونکہ اس پر تمہاری ہلاکت و تباہی اور راحت و نجات کا دارومدار ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے'' اور ماں باپ سے نیکی کرو اور قرابت والے سے اور یتیموں سے، اور فقیروں سے، اور ہمسایہ قریب سے اور ہمسایہ اجنبی سے، اور برابر کے رفیق سے، اور راہ کے مسافر سے اور اپنے ہاتھ کے مال (لونڈی اور غلام) سے۔ اللہ کو پسند نہیں آتا جو کوئی اتراتا اور بڑائی کرتا (شیخی بکھارتا) ہو۔ اور اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا، جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی سکھاتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کیلئے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر ۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہو اسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی۔'' (النسائ)
سورۂ نساء کی مذکورہ آیات انسانی حقوق سے متعلق ہیں جہاں بتایا گیا ہے کہ حقوق انسانی سے متعلق خدا کے حضور بازپرس ہوگی اور اس پر گواہی بھی لی جائے گی اور جب کوئی بات ڈھکی چھپی نہ رہے گی تو فیصلہ صادر کردیا جائیگا۔ انسانوں میں جن برگزیدہ ہستیوں کو اللہ وتعالیٰ نے نبوت کے عظیم منصب پر فائز کیا، وہ براہ راست علیم و خبیر مقتدر اعلیٰ کی حاکمیت کے فرمانروا ہوتے ہیں اور وہاں سے ہی روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة عبس میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم کے واقعہ سے وحی کے ذریعے اپنے پیارے نبی ۖکو عظمت انسانی کی باریکیوں سے آگاہ کرادیا تاکہ انسانی حقوق میں کسی طرح کی کمی نہ کی جائے۔ یہ واقعہ دنیا کے ان حکمرانوں کیلئے نصیحت آموز ہے جن کے یہاں مخلوق خدا کی کوئی اہمیت نہیںہوتی، رعایا کے حقوق تو درکنار، انہیں بے بس و لاچار تصور کیا جاتا ہے۔ خدا کے یہاں ان کی سخت ترین بازپرس ہوگی، پھر وہ تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔
آج پوری دنیا میں حقوق انسانی سے متعلق بہت سارے ادارے کام کر رہے ہیں لیکن انسانی حقوق کی جس طرح پامالی کی جا رہی ہے وہ نہایت ہی افسوسناک پہلو ہے۔ آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، اگرچہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ یہی وہ ضابطہ محمدیۖ ہے جس کو اپنا کرانسانیت کی معراج تک پہنچنے کیلئے پھر کسی فلسفے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
source : http://rizvia.net