ترقی یافتہ اسلامی ممالک میں سے ایک ملک ملیشیا ہے جو ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے ۔ جیسے ہی اس سرزمین پر اسلام آیا اس کے اطراف
کے جزیروں جیسے انڈونیشیا ، فیلیپین ، اور تھائیلنڈ میں بھی پہنچا اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں کی عوام کے دلوں میں اتر گیا۔
اسلام اس سرزمین پر مسالمت آمیز طریقے سے مہاجرت اور تجارت کے ذریعہ پہنچا اور وہاں کی اہم اور اصلی قوم یعنی مالایو کو اس نے اپنی طرف جذب کرلیا اور آہستہ آہستہ ان کے افکار ، ثقافت اور اجتماعی زندگی کا جزء لاینفک بن گیا ۔
سامراجی طاقت کے مقابلہ میں مقاومت کا آغاز بھی مسلمانوں اور اسلامی ثقافت و اقدار کے ذریعہ ہوا اور آج بھی وہ نہ یہ کہ صرف گھریلو زندگی اور اس علاقے کے مسلمانوں کی ثقافت اور آداب و رسوم کی شکل میں نظر آتا ہے بلکہ اجتماعی اور سیاسی مسائل میں بھی اس کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے ۔ دیگر ادیان والے جیسے بدھسٹ ، عیسائی اور ہندو و غیرہ بھی اس کی بالا دستی کے قائل ہیں ۔ ملیشا کی ترقی میں خاص طور سے تعلیم ، رفاہ اجتماعی اور اقتصادی سلسلے میں سیاسی رہبران بھی کہتے ہیں اور مذہبی رہبران بھی کہ یہ ساری ترقی اس اسلامی ثقافت و افکار کی وجہ سے جو ملیشیا کی عوام پر غالب ہے ۔
ملیشیا ایک مشہور اور ترقی یافتہ اسلامی ملک ہے جس نے آخری دہائیوں میں ترقی یافتہ اور بڑے مالدار ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی ہے ، اسی ترقی اور امن و امان کی وجہ سے اس کو پہلے اسلامی کانفرانس کی ریاست پھر عدم وابستہ ممالک کی ریاست ملی اور علاقے اور بین الاقوامی مسائل میں بھی اس کا کردار اہم ہوگیا ہے اور آخری دہائیوں میں دو بڑے خطرے ایک جنوب مشرقی ایشیا کے اقتصادی بحران اور دوسرے سونامی کے زلزلے سے بہت کم اس کو نقصان پہنچا تھا ، اسی وجہ سے اپنے بہت سارے ہمسایہ ممالک کے برخلاف اقتصادی اور سیاسی ترقی کی طرف گامزن ہے ۔
ملیشیا کا جغرافیہ
یہ ملک ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے، تھائیلنڈ اس کے شمال میں اور جنوب مشرق میں انڈونیشیا ہے ، دریائے چین اس کے مشرق میں اور بحر ہند اور بحر کاہل اس کے جنوب مشرق میں ہیں ۔
اس ملک کی مساحت ۴۳۴ ۳۳۰ کلومیٹر ہے اور اس میں تین اہم جزیرے سارا واک ، مالایا اور صباح ہیں اور مشہور ندیاں ” پاہنگ “ اور ” کلانتمان “ ہیں ۔ جو جنوب چین سے جاکر ملتی ہیں ۔ ۷۵ فی صد زمین پر جنگل ہے ، یہاں کی آب و ہوا گرم و مرطوب ہے آٹھ ہزار قسم کے یہاں نباتات ہیں جن میں ۲۵۰۰ قسم کے درخت ہیں ۔ یہاں کے جنگل اتنے گھنے ہیں کی سورج کی کرنیں زمین تک نہیں پہنچ پاتی ہیں ، گرچہ آخری دہائیوں میں شدید آندھی اور طوفان نے ان کو نقصان پہنچایا ہے ۔
ملیشیا میں رہنے والی قومیں
ملیشیا ، ایشیا کے جنوب مشرق کے پانی کے راستے میں واقع ہے ، اس کا جائے وقوع باعث بنا کہ ایشیا کی مختلف قومیں اس سرزمین پر آئیں ۔ یہاں اہم چار قومیں رہتی ہیں ۔ ارانگ اصلی ، مالایو ، چینی ، اور بر صغیر ہند سے آنے والے ۔
تعداد کے لحاظ سے سب سے کم ارانگ اصلی ہیں ، یہ قوم تین گروہ میں تقسیم ہوتی ہے جاکیوں ، سمانگ اور سنوئی ، ان تینوں گرو ہوں کا دین و ثقافت ایک نہیں ہے ، کچھ نے اسلام قبول اور اکثر سنتی مذاہب کے پیرو ہیں ۔
قوم مالایو جس کی تعداد ملک کی آبادی کے آدھے سے زیادہ ہے ، سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط ہے ، وہ سب کے سب مسلمان اور ایک دین و ثقافت و زبان کے حامل ہیں ۔
ملیشیا کی دوسری قوم چینیوں کی ہے جو سات گروہ میں ہیں ، بعض صوبوں میں ان کی تعداد وہاں کی آبادی کی ایک تہائی ہے اور چوتھی قوم ہندوستان و پاکستان اور سری لنکا سے آنے والوں کی ہے ۔ ان کی تعداد ملک کی آبادی کا دسواں حصہ ہے ۔ قوموں کے لحاظ سے سارے جزیرے یکساں نہیں ہیں ، زیادہ تر قومیں مشرقی جزیرے میں رہتی ہے ، دو جزیرے ساراواک اور صباح میں ۲۵ قومیں رہتی ہیں ۔
ملیشیا ، ماضی کے آئینے میں
وہ جزیرے جنھیں آج ملیشیا کہا جاتا ہے اس کی سر نواشت اس کے اطراف کے ممالک انڈونیشیا ، فیلیپین ، سنگال اور تھائیلنڈ و غیرہ سے جدا نہیں ہے ہزاروں سال سے لوگ وہاں رہ رہے ہیں ۔
محکمہ آثار قدیمہ کی اطلاع کے مطابق تقریبا چھ ہزار سال سے پہلے سے ملیشین وہاں رہ رہے ہیں ۔ زمانہ برنز ( دھات ) کا تمدن کہن اور دیگر ثقافتوں کے نقوش آج بھی وہاں موجود ہیں ۔ باوجود یکہ وہاں چینی پہلے پہنچے مگر ہندوستان کے تمدن و ثقافت نے جس کی بازگشت دو قرن قبل از میلاد کی طرف ہوتی ہے اس علاقے کا احاطہ کر لیا اور انڈونیشیا کی طرح ملیشیا پر بھی اس ثقافت کا غلبہ رہا ۔
بعد از میلاد ایک ہزار سال تک ملیشیا کا مشرقی ساحل ہندوستانیوں اور دیگر مناطق سے آئے ہوئے افراد کی وجہ سے تغیر سے دوچار ہوتا رہا ، چھوٹی چھوٹی حکومتیں لوگوں کے امور کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھیں ، بعض منابع نے ان حکومتوں کی تعداد تیس بتائی ہے ۔ مختلف اقوام نے وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ جو اکثر مالایو تھے ، زندگی گزارنے کی وجہ سے ان کی ثقافت کو اختیار کیا تھا ۔
اسلام کا ورود
جیسا کہ اشارہ کیا گیا اسلام سے پہلے ملیشیا میں قومی ، ثقافتی اور سیاسی اتحاد بر قرار نہیں ہوا تھا، مختلف جزیروں میں رہنے والوں کے درمیان حتی ایک جزیرہ میں رہنے والوں میں بہت زیادہ فاصلہ تھا ، ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتی نہ ہی کوئی بڑی حکومت بن پائی تھی جو مختلف اقوام کو ایک دوسرے سے مربوط کرسکتی ، چھوٹی حکومتیں اپنے منافع کو خطرے میں اور علاقے کے لوگوں کو اپنے سے دور دیکھتی تھیں اور اس فاصلے کو دور کرنے کی فکر میں بھی نہیں تھیں ۔ ملیشیا کے جزیروں میں تجارتی رونق اور سود آور زراعت باعث بنے کہ جنوبی اور مغربی ایشیا کے مسلمان یہاں آئیں اور یہاں کے لوگوں سے روابط بر قرار کریں ، آنے والوں میں بعض نے یہیں پر سکونت اختیار کر لی ۔ مسلمانوں کی کثرت سے آنے کی وجہ سے ملیشین اسلام سے آشنا ہوے اور وہ مسلمانوں کی دور اندیشی ، عقلمندی اور ثقافتی برتری کی وجہ سے اسلام کی طرف جذب ہونے لگے ، ان میں سے کچھ کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان آئین اسلام کی تبلیغ و ترویج ہونے لگی جس کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ علاقائی چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے با وجود اسلام نے بہت جلد حکومتوں پر اپنا سکہ جمالیا اور بعض حکومتوں کا رسمی دین بن گیا ۔ ہندوستان میں جلد اسلام پہنچنے کے با وجود اقلیتوں اور حملہ آوروں کا دین شمار ہوتا تھا جب کہ ملیشیا میں اس کو دوسری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
نیا تجربہ:
ملیشیا میں اسلامی ثقاوت جو مسلمان تاجروں کے وہاں آنے ، ملایوں کے مسلمانوں سے ارتباط بر قرار کرنے اور اسلام قبول کرنے ، تبلیغ اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت کے ذریعے پہنچا تھا ، پہلا تفاوت ہے ایشیا کے جنوب مشرق ایشیا میں اسلام پہنچنے اور جنوبی ایشیا یعنی ہندوستان پر مسلمانوں کی لشکر کشی کے در میان ہندوستان پر لشکر کشی کا یہ فائدہ تو ہوا کہ وہاں اسلام پہنچنے اور مسلمانوں کی سعی و کوشش کو موٴرخوں نے تحریر کیا ، شاعروں نے تمجید کی ، فقہاء نے تائید کیا اور خلفاء و سلاطین نے فخر و مباہات کر کے اس کو تاریخی حیثیت عطا کی مگر اس پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے اور مسلمانوں کو ظاہری پیشروی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا ۔
مشرقی جنوب میں مسالمت آمیز طور پر اسلامی ثقافت کے پہنچنے کی وجہ سے مدتوں اہل قلم کی اس پر نظر نہیں پڑی ، اہل سیاست بھی یا اس سے بے خبر رہے یا اس سے بے التفاتی برتی ۔ اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں بھی ملیشین اورہندوستانیوں کے درمیان فرق تھا ۔ ہندوستان میں اکثر پسماندہ طبقے نے اسلام قبول کیا تھا اور صاحبان علم ، سیاست ، فرہنگ اور صنعت کار یا جزیہ دینے والے اپنے آئین پر باقی تھے یا ہندوستان کے جنوبی علاقے کی طرف چلے گئے تھے اور ہندوستانی تمدن و ثقاوت کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے ۔ عملی طور پر ایک عرصہ تک اسلام کو غیر ملکی دین سمجھا گیا جس کو پسماندہ طبقے نے تسلیم کیا تھا یا بزدلوں نے تلوار کے ڈر سے سر نیاز خم کیا تھا ، جب کہ ملیشیا میں اسلام کو اشراف ، تجار اور سماج کی اہم شخصیتوں نے قبول کیا تھا اور اس ثقاوت کو انسانی زندگی کے لئے ضروری سمجھا تھا ۔
جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کے آتے ہی لوگوں کی ترقی میں اضافہ ہوتا رہا۔ مختلف قسم کی خرافات اور تفرقہ انگیز عقیدے سے لوگ رہائی پانے لگے ، ثقافتی اور قومی یکجہتی پیدا ہونے لگی اور یہ لوگ عالم اسلام سے ملحق ہوگئے ، یہ سب کچھ کسی تخریب کاری ، ویرانی اور قتل و غارتگری کے بغیر ہوا ۔ اسلام نے نہ یہ کہ صرف ایک جزیرہ کے لوگوں میں میل محبت پیدا کیا بلکہ ان جزیروں کو ایک دوسرے سے نزدیک کیا جو ایک دوسرے سے دور بلکہ ایک دوسرے کے مقابل تھے ۔
اس خطے میں اسلام گرچہ دوسری اور تیسری ہجری میں پہنچا تھا لیکن پندرہویں صدی عیسوی یا نویں صدی ہجری کے بعد اس کو پیشرفت حاصل ہوئی تھی ، اس پیشرفت میں ہندوستان میں مغلوں کی حکومت اور مغرب میں صفوی اور عثمانی حکومت کا کردار رہا ہے ۔ اسلام نے تقریبا سارے ملیشین کو اپنی طرف جذب کرلیا تھا ، مگر چونکہ اس علاقے میں چینی ، ہندی اور دیگر اقوام کی رفت و آمد رہی لہٰذا بودھست ، ہندو اور سامراجی طاقت کے قبضہ کے دوران عیسائی وہاں رہنے لگے اور ایک علاقہ انھیں سے مخصوص ہو گیا اس کے با وجود اسلام کا غلبہ رہا اور وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔
ملیشیا اور سامراجی طاقتیں
سولہویں صدی عیسوی میں ملیشیا میں پرتغال آئے تھے ، تھوڑی مدت کے بعد سترہویں صدی میں ہولنڈی آئے ان کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں برطانیہ نے اس اسلامی سرزمین پر قبضہ کر لیا تھا ، اس کے با وجود اسلام وہاں پر پھیل رہا تھا اور سامراجی طاقتیں نہ یہ کہ اس کے پھیلاؤ کو نہ روک سکیں بلکہ غارتگری ، زور گوئی اور سر کوبی کے باوجود پھیلاوٴ میں اور تیزی آگئی اور لوگ اسلام کے مختلف پہلوٴوں سے بہت زیادہ واقف ہوگئے ۔
انیسویں صدی میں برطانوی حاکمیت کے زمانے میں عیسائیت کی بہت زیادہ تبلیغ ہوئی تھی ، انھوں نے سامراجی اور مغربی طاقتوں کا سہارا لے کر ہاسپٹل ، مذہبی اور غیر مذہبی اسکول بنا کر اسلام کی تضعیف اور لوگوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کی تھی ، مگر اس میں ان کو کامیابی نہیں ملی اور ملک میں عیسائی اور چینیوں کی آبادی سات فیصد سے زیادہ نہ ہوسکی ۔ بہر حال سامراجی طاقت کے رہنے اور ان کی طرف سے ہونے والے گوناگوں مظالم کی وجہ سے ملیشیا کے جزیروں میں اسلامی اور قومی یکجہتی بڑھتی گئی اور وہاں کی عوام اسلامی تعلیمات اور دینی ثقافت پر بھروسہ کرتے ہوئے سامراجی طاقت کے مقابلے کے لئے کھڑے ہوگئے جس کا پرچم مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں تھا ۔ ملیشیا کی آزادی میں اسلام نے کلیدی رول ادا کیا ہے اور ملک کو ٹکڑوں میں بٹنے سے بچایا ہے اور دیگر ادیان کے مقابلے میں جو برتری لوگوں کے دلوں میں اس کو حاصل تھی اس کی بنا پر ملک کو ایک رکھا ہے ۔
۱۹۵۷ءء میں ملیشیا کی آزادی کے بعد سامراج کی شرارت کا سلسلہ نہیں رکا اور اس نے ۱۹۶۳ ءء میں سنگاپور کو ملیشیا سے جدا کرکے اس اسلامی ملک پر ایک کاری ضرب لگائی تھی ۔
ملیشیا میں وجود اسلام کی علامتیں
سامراج کو شکست کھانے اور اس ملک کے آزاد ہونے کے بعد ملک کے لئے اسلام ایک فرہنگ ساز اور موٴثر ترین دین ثابت ہوا اور دین مخالف قوم پرست گروہ کی کوششیں جن کو مغرب زدہ روشن فکروں کی پشت پناہی حاصل تھی ناکام رہیں اسی طرح چین کے ذریعے ملیشیا میں مقیم چینیوں کے درمیان جو بدھسٹ تھے کمیونزم کی ترویج بھی عوام پر غالب دینی جذبے کو متاٴثر نہ کر سکی اور نہ ہی سیاست و معاشرے سے اسلام کو دور کر سکی ۔ لوگوں میں یہ دینی اور معنوی جذبے اس وقت بھی نظر آئے جب یہ ملک سامراج کے قبضے میں ( قرن ۱۹، ۲۰ میں ) تھا اور آج بھی جب وہ سامراجی پنجوں سے آزاد ہوچکا ہے ۔
ملیشیا کی دو کروڑ کی آبادی میں ساٹھ فیصد مسلمان ہیں ، اس طرح وہاں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ ان سب پر اسلامی ثقافت غالب ہے جو مندرجہ ذیل صورتوں میں نظر آتی ہے :
۱ ۔ عورتوں میں اسلامی حجاب کی رعایت خواہ وہ ملایو ہوں یا دیگر اقوام کی عورت ہو ، اگر وہ مسلمان ہے تو اسلامی حجاب کی رعایت کرتی ہے ۔ یہاں کی عورتیں بہت سادہ لباس پہنتی ہیں اور زیور و غیرہ پہننے میں قناعت سے کام لیتی ہیں ، حتی وہ افراد جو سیاسی اور علمی فعالیت انجام دیتے ہیں ماہ رمضان میں اذان کی آواز سنتے ہی اپنے نوکروں کے ساتھ بہت ہی سادہ غذا سے افطار کرتے ہیں ۔
۲۔ شادی بیاہ ، بچے کی ولادت ، طلاق اور مرنے کے وقت اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جا تا ہے ، ان مواقع پر اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر کسی اور چیز کا وہاں تصور نہیں ہے ۔
۳۔ مختلف طبقوں میں ممتاز علمائے دین ، مذہبی معلمین اور حجاج کا مقام و مرتبہ یہاں کے عوام کی دینداری کی علامت ہے ۔ ذرائع ابلاغ نے جب استعماری دوران کے ملیشین مسلمانوں کا جایزہ لیا تو لکھا:” دیہات کے علماء اسلام کے حقیقی نمائندے تھے ، وہ اچھے کام پر نظر رکھتے تھے اسلامی علوم کی تدریس کرتے تھے ، مراسم ازدواج و مرگ کی نظارت کرتے تھے ، جھگڑوں کا فیصلہ کرتے تھے ۔ بیماروں کا علاج کرتے تھے ۔ بیت المال کی حفاظت اور اسلامی ٹیکس کی جمع آوری کرتے تھے ۔ شادی بیاہ کے موقع پر سارے علما اور ثروتمندوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ بڑھ جا تا تھا ۔ وہ حکومت کے زیر نظر کام نہیں کرتے تھے اپنی شرعی ذمہ داری ادا کرتے تھے ۔ وہ شافعی مکتب فقہی سے وابستہ اور صوفی سلسلے سے مربوط تھے ۔ “
۴۔ سارے مسلمانوں کے بارے میں میلشیاوٴں کا حساس ہونا ان کے دلوں میں نفوذ اسلام کی علامت ہے ۔ مسلمانوں کے بارے میں کسی سے بھی اس ملک نے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ ” اسلامی ممالک اپنے اختلاف کو دور کریں اور متحد ہوکر دنیائے اسلام کی مشکلات کو دور کریں “
ان آخری دہائیوں میں مختلف مقامات پر مسلمان جن مشکلات سے دوچار ہوئے جیسے بالکان ( بوسنی ہرزگوئین ) میں مسلمانوں کا قتل عام اور فلسطینیوں پر ہوئے مظالم ، اس سلسلے میں ملیشیا نے بہت فعال اور دلسوزانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے بعض مغربی ممالک نے اپنا رد عمل دکھایا تھا ۔ اس ملک کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین اور افغانستان جیسے دنیائے اسلام کے بین الاقوامی مسائل میں ملیشیا کے مسلمانوں نے ہمیشہ مثبت قدم اٹھایا ہے ۔ دوسری جگہوں کے مسلمانوں کی بہ نسبت ملیشین اپنے مسلمان ہونے پر زیادہ فخر کرتے ہیں ۔ وہ کردار کے اچھے اور عزت آبرو کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ۔ مذہبی گروہ صلح و صفا کے ساتھ رہتے ہیں ، ملیشیا میں مسلمان ہونا افتخار اور عزت نفس کا باعث ہے ۔
دین و سیاست
ملیشیا میں دین و مذہب ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ، وہاں کی مذہبی تحریکیں ” جنبش دعوت“ میں خلاصہ ہوتی ہیں ، اس تحریک کا ہدف غیر مسلمانوں کے در میان صرف اسلام کی تبلیغ کرنا نہیں ہے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اختلافی موضوعات کو ختم کر کے مسلمانوں کے در میان اتحاد و ہمبستگی پیدا کریں ۔ ایک چھوٹا سا شدت پسند گروہ بھی ہے جو غیر مسلم خاص طور سے ہندووٴں کی عبادت گاہوں اور پولیس چوکیوں پر حملہ کرتا ہے ، مگر ان کی کوئی گنتی نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کے درمیان ان کی کوئی اہمیت ہے ۔
ملیشیا کے آئین کے مطابق یہاں کا رسمی دین ، اسلام ہے ۔ لیکن عوام انتخاب دین اور مراسم دینی کے انجام دینے میں آزاد ہے ، حتی دیگر مذاہب کے افراد کو اپنے ہم مذہب کے درمیان تبلیغ کرنے کی اجازت ہے ۔
بادشاہ ، وزیر اعظم اور صوبوں کا حکمراں مسلمان ہی ہوگا، لیکن ضروری نہیں ہے کہ کیبنیٹ میں سب کے سب مسلمان ہوں ، غیر مسلم بھی اس میں رہ سکتا ہے ۔ صوبوں کا حاکم مذہبی رہبر کی حیثیت رکھتا ہے ، بادشاہ اور مذہبی پیشوا صوبوں کے حاکموں میں سے یکے بعد دیگرے انتخاب ہوتے ہیں ۔ ملیشیا کی حکومت نے ملک کی حفاظت اور مذہبی اختلاف کو روکنے کے لئے ” شورائے ملی اسلامی “ اور ” فتوا کمیٹی “ جیسے مختلف ادارے بنائے ہیں جو مسلمانوں کی فعالیت کی نگرانی کرتے ہیں ، اس طرح مذہبی امور کو حکومت کے ساتھ ہماہنگ کرتے ہیں اور دینی کتابیں ، مذہبی فتاوے مساجد کی فعالیت اور دینی مدارس کو اپنے زیر نظر رکھتے ہیں ۔
ثقافتی مسائل میں ملیشیا کی حکومت کی یہ سیاست رہتی ہے کہ اس بات کو ثابت کرے کہ اسلام نفع بخش دین اور جمہوریت سے ساز گار ہے ، اسی طرح اخوت اسلامی ، غیر مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک ، صداقت ، امانتداری ، نظم و ضبط ، اتحاد و ہماہنگی ، نظافت و پاکیزگی اور بزرگوں کا احترام جیسے بعض اسلامی اقدار کی اشاعت ، معاشرے حتی غیر مسلمانوں کے لئے مفید ہے ، اسی لئے ملیشیا کی حکومت شدت پسند نظرئیے کی مخالف ہے اور اس کو اسلام کے جمہوری نظام کے مغایر سمجھتی ہے ۔
زبان اور رسم الخط
ملیشیا کی رسمی زبان مالایو یا یا ہاسامالیز یا ہے ، پورے ملک میں یہی زبان بولی جاتی ہے ۔ برطانیہ کے قبضہ کرنے سے پہلے یہ زبان ، عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی ، مگر برطانیہ کے قبضہ کے بعد سامراجی اور اسلام مخالف سیاست کی وجہ سے اس کا رسم الخط ، انگریزی رسم الخط میں بدل گیا، گرچہ اس میں اب بھی بہت سارے عربی الفاظ پائے جاتے ہیں ۔
اس ملک کی دوسری زبان انگریزی ہے،مختلف قومیںمختلف زبانوںمیں باتیں کرتی ہیں جن میں چینی،ہندی،تامل،مون ضری ، پنجابی بنگالی،پشتو اور سینہالی ہیں ۔
ملک کی ترقی میں اسلام کاکردار
ملیشیاکے مسلمان صلح پسند ،بردباراورمتدین ہیں،وہ لڑائی جھگڑا،قانون شکنی اور بد نظمی سے پرہیز کرتے ہیں،دنیا کی بے نظیر مناروں والی سب سے بڑی مسجد ملیشیا کے پایتخت کوالا لامپورمیں بنائی گئی ہے ۔
source : http://www.taghrib.ir