اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

مسلمانوں کے نزدیک رسول خدا کے مرقد مطہر کی زیارت کا کیا حکم ہے ؟

اس سوال کا منصفانہ جواب یقیناً مسلمانوں کے درمیان وحدت اور یکجہتی کا محور بن سکتا ہے اور اس دور زمانہ میں جبکہ دنیا ،اسلام اور اسلامی تمدن و اقتدار کے دوبارہ زندہ ہونے اور مسلمانوں کی بیداری کا مشاہدہ کر رہی ہے مسئلہ زیارت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ ایک نورانی مرکزی نقطے کا کردار ادا کرسکتا ہے اور سارے مسلمانوں کوپروانہ وار رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ کے گرد جمع کر سکتا ہے اور دین کے بلند اہداف اور دنیوی سعادت تک پہونچنے میں مسلمانوں کی ہدایت اورصحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔

زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کی فضیلت اوراسکے مستحب ہونے کی دلیلیں

قرآن مجید اور زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کا استحباب

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ھے

وَلَوْْ ٲَنَّہُمْْ اِذْْ ظَلَمُوا ٲَنفُسَہُمْْ جَائُوکَ فَاسْْتَغْْفَرُوا اﷲَ وَاسْْتَغْْفَرَ لَہُمْْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا ً

سورۂ نساء /۴۶

اس آیۂ کریمہ کے مطابق ،''جب بھی کوئی اپنے اوپر ظلم کرے اور مرتکب گناہ ہو تو اگر وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور حاضر ہو کر پروردگار سے طلب مغفرت کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ بھی بارگاہ خدا میں اس کے لیئے استغفار کریں تو وہ شخص خدا کو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم پائے گا۔

اس آیۂ کریمہ میں سب سے اہم بات جملۂ ''جاؤوک'' یعنی گنہگاروں کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور آکر استغفارکرنا ہے ۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہونا ،آپ کی ظاہری زندگی سے مخصوص ہے یا یہ آیت ہر زمانہ کے لیئے ایک عمومی حکم بیان کررہی ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی ظاہری حیات طیبہ سے مخصوص نہیں ہے۔

اس کا جواب یہ ہے : انبیائ ، اولیائے الہٰی اور شہدائے راہ خدا کے لیئے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان کے زندہ رہنا،جسے آیات و روایات نے بیان کیا ہے اور حیات برزخی جو آیات ، روایات اور عقل سلیم کے ذریعہ ثابت ہے،ان سب کو مد نظر رکھکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور حاضر ہونا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی ظاہری زندگی سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ آپ کی رحلت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کے محضر مبارک میں حاضر ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور، خدا سے استغفار کرنا صحیح ہے اور یہ آیت تا قیامت ، ہرزمانہ کے لیئے حکم عام اور قانون کلی بیان کررہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مقامات مقدسہ میں داخل ہو نے کے لیئے جب اجازت چاہتے ہیں تو یہی کہتے ہیں 

واعلم ان رسولک و خلفائک احیاءٌ عندک یرزقون، یرون مقامی و یسمعون کلامی کتاب مفاتیح الجنان

پروردگارا ! میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ تیرے رسول اور اولیاء ﴿ائمہ معصومین علیهم السلام ﴾ زندہ ہیں اور تیری بارگاہ سے رزق پاتے ہیں ۔ وہ حضرات میرے اس قیام کو دیکھ رہے ہیں اور میری باتوں کو سن رہے ہیں

اہل سنت کی کتب ''صحاح ستہ '' میں بھی اس طرح کی روایات وارد ہوئی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا

''ما من احد یسلم علی الا رد اللّہ علی روحی حتی ارد علیہ السلام ''

سنن ابی داؤد،ج۱، کتاب الحج، باب زیارۃ القبور، ص۷۴

''جو بھی مجھ پر سلام بھیجے گا، خدا وندعالم اسے مجھ تک پہونچائے گا اور میں بھی اس کے سلام کا جواب دوں گا۔''

شیعہ اور اہل سنت کی روایا ت میں زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کا استحباب

زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کی فضیلت اور اہمیت کے سلسلہ میں روایات بہت زیادہ ذکر کی گئی ہیں اور ان میں سے بعض، تواتر کی حیثیت رکھتی ہیں۔

شیعہ کتب احادیث میں زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ سے متعلق اتنی زیادہ روایات پائی جاتی ہیں کہ ان کو جمع کرنا ایک مستقل کتاب کا طالب ہے۔ ابن قولویہ قمی نے کتاب کامل الزیارات میں ایسی روایات کے لیئے مختلف ابواب میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔ ،منجملہ ایک روایت یہ ہے،جس میں رسول اکرم نے ارشاد فرمایا

من زارنی فی حیاتی او بعد موتی کان فی جواری یوم القیامۃ۔ کامل الزیارات،ص۶۔۴۱

''جو شخص میری حیات میں یا میری رحلت کے بعد میری زیارت کرے گا، وہ قیامت کے دن میرے جوار ﴿پڑوس﴾میں ہوگا۔''

شیخ حر عاملی نے کتاب وسائل الشیعہ میں ابواب المزار کے چھ بابوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کی فضیلت اور آداب زیارت کے سلسلہ میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔

زیارت سرور کائنات  صلی اللہ علیہ و آلہ کے سلسلہ میں جو روایات شیعہ کتب احادیث میں وارد ہوئی ہیں ،ان سے ملتی جلتی روایات اہل سنت کی بہت سی کتب احادیث میں نقل ہوئی ہیں ۔ ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں سے بعض تواترکی حد تک ہیں ۔ لہٰذا ان روایات کی سند اور راوی کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں علمائے اہل سنت کی چالیس سے زیادہ کتابوں سے ان احادیث کو نقل کیا ہے ، یہاں پر ان کا خلاصہ بیان کیا جارہا ہے

رسول خدا ارشاد فرماتے ہیں

من زار قبری وجبت لہ شفاعتی۔ یہ روایت ۱۴ کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔

من جائنی زائراً لا تعملہ الا زیارتی کان حقاً علی ان اکون لہ شفیعاً یوم القیامۃ۔ یہ حدیث ۶۱ کتابوں میں مذکور ہے۔

من حج فزار قبری بعد وفاتی کان کمن زارنی فی حیاتی۔ اس حدیث کو اہل سنت کی ۵۲ کتابوں میں نقل کیا گیا ہے۔

من حج البیت ولم یزرنی فقد جفانی۔ ۹ کتابوں میں۔

من زارنی بعد موتی فکانما زارنی فی حیاتی۔ ۳۱ کتابوں میں ۔

من زارنی بالمدینۃ محتسباً کنت لہ شفیعاً۔  اسی کے مشابہ الفاظ میں ۱۲ کتابوں میں۔

من زارنی میتاً فکانما زارنی حیاً و من زار قبری وجبت لہ شفاعتی یوم القیامۃ و ما من احد من امتی لہ سعۃ ثم لم یزرنی فلیس لہ عذر۔ ۶ کتابوں میں ۔الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج۵،ص۶۸تا۸۰۱

زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کے استحباب پر مذاہب اسلامی کا اجماع

شیعہ علماء کے نزدیک زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کا مستحب ہوناایک متفق علیہ مسئلہ اور مسلمات مذہب میں سے ہے، جس میں شک و شبہہ کی کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔ محقق حلی ، شرائع الاسلام میں فرماتے ہیں

'' یستحب زیارۃ النبی للحاج مستحباً مؤکداً''

''حاجی کے لئے رسول خدا کی زیارت کرنا مستحب موکد ہے۔'' شرائع الاسلام،ج۲،ص۸۷۲

علامہ حلی ، تذکرۃ الفقہائ میں تحریر فرماتے ہی

رسول خدا کی زیارت کرنا مستحب ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا ہے

جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی، وہ اس شخص کے مانند ہے، جس نے میری حیات میں میری زیارت کی ہو اگر تم خود میری زیارت کو نہیں آسکتے تو کسی کے ذریعہ مجھے سلام بھیجو، وہ مجھ تک پہونچے گا۔

تذکرۃ الفقہائ ،ج۸ ،ص۹۴۴

اسی طرح دیگر مذاہب اسلامی کی نظر میں بھی زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کا مستحب ہو نا ، ایک واضح اور متفق علیہ مسئلہ ہے۔ کتاب شفائ السقام فی زیارۃ خیر الانام میں'' تقی الدین سبکی شافعی '' نے زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات کو ذکر کرنے کے بعد اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے علمائ اور فقہائ کے اقوال نقل کرنے کے لئے ایک خاص باب قرار دیا ہے اور زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کے مستحب ہونے کو ایک اجماعی اور متفق علیہ مسئلہ قرار دینے کے بعد وہ کہتے ہیں : اس سلسلہ میں سارے علمائ اور فقہائ کے کلام کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلہ پر سارے علمائ کا اجماع ہے۔  حنفی علمائ کہتے ہیں : مرقد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کرنا مستحبات میں سے سب سے افضل ، بلکہ واجبات کے نزدیک ہے۔ شفائ السقام،ص۸۴

عبد الرحمٰن جزیری تحریر کرتے ہیں

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے مرقد مطہر کی زیارت کرنا پروردگار سے نزدیک کرنے والے اعمال میں سب سے برتراوربالاہے۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ،ج۱،ص۴۹۵

ابن قدامہ حنبلی نے اپنی کتاب کافی میں تحریر کیا ہے

رسول خدا کی قبر کی زیارت مستحب ہے ،اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری یا میرے قبر کی زیارت کرے گا میں اس کا شفیع یا گواہ بنوں گا۔ المصادر الفقہیہ،ج۱۱،ص۴۹۵

قاضی عیاض مالکی نے کتاب شفائ میں تحریر کیا ہے

''و زیارۃ قبرہ سنۃ مجمع علیھا ''

'' رسول خدا کی قبر کی زیارت کرنا ایک متفق علیہ سنت ہے۔''

ابن ہبیرہ اپنی کتاب ''اتفاق الائمہ ''میں کہتے ہیں

''اتفق مالک و الشافعی و ابو حنیفہ و احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علی ان زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ مستحبۃ۔''

امام مالک ، شافعی ، ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا کی زیارت مستحب ہے۔ الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج۵،ص ۹۰۱تا۵۲۱

زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ اور حکم عقل

نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کی فضیلت اوراس کی اہمیت ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مندرجہ ذیل مقدمات کی روشنی میں ایک عقلی حکم قرار دیا جا سکتا ہے

الف: زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ، زیارت قبور کا ایک مصداق ہے، جس کے مستحب ہونے پر بہت سی شرعی دلیلیں موجو دہیں ۔

ب۔ جس نے انسان کی ترقی اور سربلندی کے لئے زحمتیں برداشت کی ہوں اور اس کی نجات کے لئے سعی و کوشش کی ہو اس کا شکریہ ادا کرنا ،اس کی تعظیم و تکریم کا وجوب ،انسان کے فطری بلکہ حیوانی خواہشات میں سے ہے ۔انسانی عقل و فطرت کا یہ حکم کہ استاد ، معلم اور والدین کے احترام کا وجوب اسی بنیاد پر قائم ہے۔ انسان کے لئے انجام پانے والے امور کی اہمیت جتنی زیادہ ہوگی، اس کو انجام دینے والے کا احترام اور شکریہ اتنا ہی زیادہ لازم ہوجائے گا۔ اسی لئے علمائے علم کلام نے توحید اور معرفت خدا کی بحثوں میں شکر منعم کے وجوب کے قاعدہ سے استفادہ کیا ہے۔عقل، ناشکری کو جفا اوربین ظلم قرار دیتی ہے۔ جوشخص اپنے معلم کی بے حرمتی کرے، ماں باپ پر جفا کرے ،عقل اس کے اس عمل کو ظلم اور مذموم سمجھتی ہے ۔

اس مقدمہ کی روشنی میں کوئی ایسا معلم اور مربی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے مکارم اخلاق ، شریعت الہٰی اور عقائد حقہ کو پھیلانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کی هو یہاں تک کہ قرآن کریم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سے یہ کہنا پڑا

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْْسَکَ ٲَلاَّ یَکُونُوا مُؤْْمِنِینَ کیا اپنی جان کو گنوا بیٹہو گے اگر یہ مومن نھیں بنتے ؟ْ

سورۂ شعرائ،آیت۳

کیا عقل اس نورانی شخصیت اور معلم بشریت کی تعظیم و تکریم کا حکم نہیں دیتی ؟

بے شک رسول خدا کی شان میں گستاخی اور جفا کرنا ، عقل کی نظر میں ایک نا قابل معافی جرم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کا احترام و اکرام ، مسلمانوں بلکہ تمام نوع بشر پر ایک واجب عقلی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کو جانا،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کے مرقد مطہر کا احترام بجا لانا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کے الہٰی اور آسمانی پیغامات اور تعلیمات کو زندہ رکھنا،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعظیم و تکریم کے نمایاں مصادیق میں سے ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کے آثار اور یاد کو دلوں سے مٹا دینا،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ پر ظلم و جفا کے صاف مصداق ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے خود ارشاد فرمایا

''جو شخص حج بجالائے اور وہ میری زیارت کونہ آے اس نے مجھ پر جفا کی ہے ۔''

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت نہ کرنا،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کے حق کو پامال کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ پر جفا کرنے کے مترادف ہے۔

ج۔ رسول خدا کی زیارت اور آثار نبوت و وحی کا مشاہدہ ، لوگوں کے لئے عبرت اور موعظہ کا بہترین ذریعہ ہے ۔ اس بات کا باعث ہے کہ انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی قبر مطہر کی زیارت کے ذریعہ حق کو قبول کرنے اور اس کی راہ میں پائیداری میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے اور راہ حق پر گامزن رہنے میںکسی کی ملامت کی کوئی پرواہ نہ کرے، یہاں تک کہ سعادت کی منزلوں پر فائز ہوجائے اور شیطان و ہوائے نفسانی سے دور ہوجائے۔

زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ اور سیرت عقلائ

عقلائے عالم کی ایک اہم سیرت جو تاریخ بشریت میں ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے ۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا احترام و اکرام ہے ،جنھوں نے مختلف میدانوں میں بشریت کی خدمت کی ۔ بشریت کے خادمین اور عالم انسانیت کے محسنوں کو بھلا دینے کو صاحبان عقل و خرد ایک ناقابل بخشش گناہ سمجھتے ہیں۔

انبیائ،اولیائے خدا اور راہ خدا میں جام شہادت نوش کرنے والے ﴿جن میں سر فہرست رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی ذات اقدس ہے﴾ کا احترام و اکرام اور ان کی یادوں کو زندہ رکھنا اسی سیرت عقلائ کا ایک واضح نمونہ ہے۔ اس تعظیم و تکریم کا ایک واضح مصداق ،جو صاحبان عقل و خرد کے درمیان آج بھی رائج ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کو جانا اور ان کی بے لوث زحمتوں کا احترام ہے۔

زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ اور سیرت مسلمین

رحلت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانہ سے ہی مسلمانوں کی یہ ایک سیرت رہی ہے کہ وہ شوق ورغبت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کو جاتے تھے ۔ہر دور و زمانہ میں مسلمانوں کی سیرت رہی ہے کہ حج اور عمرہ کرنے والے صرف مکہ مکرمہ کی زیارت پر اکتفائ نہیں کرتے تھے ،بلکہ وہ اپنے اوپر واجب جانتے تھے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کو فراموش نہ کریں اور اس طرح آثار نبوت و رسالت کو زندہ و پائندہ رکھیں ۔ یہ سیرت ائمہ، اہل بیت علیهم السلام، اصحاب، تابعین اور مختلف مذاہب اسلامی کے علمائ اور فقہائ کے زمانہ میں رائج تھی اور یہ کہیں بھی نقل نہیں ہوا ہے کہ ان حضرات نے مسلمانوں کو اس عمل سے منع کیا ہو ۔ بلکہ زیارت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کا ذوق و شوق کو ایک ایسا شعلہ تھا ،جو گردش ایام کے ساتھ ساتھ مزید بھڑکتا گیا اور مسلمانوں کی شمع محفل بنا رہا۔


source : http://alfazail.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...
پیغمبر اکرم {ص} جنسی خواہشات سے استفادہ کرنے میں ...
تقریظ
حجاب کیوں ضروری ہے؟
شیطان کی قید، ماہِ رمضان المبارک میں کیا حقیقت ...
امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟

 
user comment