نام ونسب
جو اپنے جدِ برزگوار حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بالکل ہمنام اور صورت و شکل میں ہو بہو ان کی تصویر ہیں ۔ والدہ گرامی آپ کی نرجس خاتون علیہا السلام قیصر ِروم کی پوتی اور شمعون وصی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے تھیں ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی ہدایت سے حضرت علیہ السلام کی بزرگ مرتبت ہمشیرہ حکیمہ خاتون علیہا السلام نے ان کو مسائل ِ دینیہ اور احکام ِ شرعیہ کی تعلیم دی تھی
القاب وخطابات
غالباً ائمہ معصومین میں حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب کے بعد سب سے زیادہ القاب ہمارے امام علیہ السلام عصر کے ہیں جن میں زیادہ مشہور ذیل کے خطابات ہیں ۔
1۔ المہدی علیہ السلام
یہ ایک ایسا خطاب ہے جو نام کاقائم مقام بن گیا ہے اور پیشینگوئیاں جو آپ کے وجود کے متعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر آئمہ معصومین علیہ السلام کی زبان پر آئی ہیں وہ زیادہ تر اس لفظ کے ساتھ ہیں اسی لیے آنے والے مہدی علیہ السلام کا اقرار تقریباً ضروریاتِ اسلام میں داخل ہوگیا ہے جس میں اگر اختلاف ہوسکتا ہے تو اوصاف و حالات کے تعین میں لیکن اصل مہدی علیہ السلام کے ظہو رکا عقیدہ مسلمانوں میں ہر شخص کو رکھنا لازمی ہے ۔ ان حضرات کا ذکر نہیں جو اپنے کو مسلمان صرف سوسائٹی کے اثر یاسیاسی مصلحتوں سے کہتے ہیں مگر ان کے دل میں حاضر وناظر معدلت پسند رب الارباب کاعقیدہ ہی موجود نہیں تو اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کسی خبر غیبی کی تصدیق جو ابھی وقوع میں نہیں آئی ان کے حاشیہ خیال میں کہاں جگہ پاسکتی ہے ؟
مہدی علیہ السلام کے لفظ ”ہدایت ہائے ہوئے “کے ہیں ، اسی لحاظ سے کہ ”اصل ہادی راستہ بتانے والی ذات خالق ہے جس کے لحاظ سے خود پیغمبر سے خطاب کرکے قرآن کریم میں یہ آیت آتی ہے انک لاتھدی من احببت ولکن الله یھدی من یشاء ) تمہارے بس کی بات نہیں ہے کہ جس کو چاہو تم ہدایت کردو بلکہ الله جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے) ۔ اور اسی کے اعتبار سے سورہ الحمد میں بارگاہ الٰہی میں دعا کی گئی ہے ۔اھدنا الصراط المستقیم ہم کو سیدھے راستے پر لگا دے ۔ اس فقرہ کو خود پیغمبر اور آئمہ معصومین بھی اپنی زبان پر جاری کرتے تھے اس لیے خداوند ِ عالم کی ہدایت کے لحاظ سے ا ن رہنما یانِ دین کو مہدی کہنا صحیح تھا جو صفت کے لحاظ سے سب ہی بزرگوار تھے اور خطاب کے لحاظ سے حضرت امام منتظر علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہوگیا ۔
2 ۔القائم
یہ لقب ان احادیث سے ماخوذ ہے جس میں جناب پیغمبر نے فرمایا ہے کہ ”دنیا ختم نہیں ہوسکتی جب تک میری اولاد میں سے ایک شخص قائم کھڑا ) نہ ہو جو دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے ۔
3 ۔صاحب الزمان علیہ السلام
اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ آپ ہمارے زمانے کے رہنمائے حقیقی ہیں۔ 4 ۔حجتِ خدا علیہ السلام
ہرنبی علیہ السلام اورامام علیہ السلام اپنے دور میں خالق کی حجت ہوتا ہے جس کے ذریعے سے ہدایت کی ذمہ داری – جو الله پر ہے – پوری ہوتی ہے اور بندوں کے پاس کوتاہیوں کے جواز کی کوئی سند نہیں رہتی ۔ چونکہ ہمارے زمانے میں رہنمائی خلق کی ذمہ داری حضرت علیہ السلام کے ذریعے سے پوری ہوئی ہے اس لیے قیامِ قیامت ”حجت خدا “ آپ ہیں ۔
5 ۔ منتظرعلیہ السلام
چونکہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی بشارتیں برابر رہنمایانِ دین دیتے رہے ہیں ، یہاں تک کہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی چاہے نام کوئی دوسرا ہو مگر ایک آ نے والے کا آخر زمانہ میں انتظار ہے ۔ ولادت کے قبل سے پیدائش کاانتظار رہا اور اب غیبت کے بعد کو ظہور کاانتظار ہے ا س لیے خود حضرت حکم الٰہی کے منتظر ہوتے ہوئے تمام خلق کے لیے منتظَر یعنی مرکز انتظار ہیں ۔
پشین گوئیاں
آپ کے دنیا میں آ نے سے پہلے پشین گوئی متواتر طریقے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی زبانوں پر آتی رہی تھی جن میں سے ہر معصوم علیہ السلام کی صرف ایک خبر اس موقع پر درج کی جاتی ہے ۔
حضرت خاتم النبین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
حضرت کی زبان مبارک سے احادیث سے ا س کثرت سے اس موضوع پر وارد ہوئے ہیں کہ صحاح و مسانید ان سے معمور ہیں ا ور متعدد علمائے اہلسنت نے اُن کو مستقل تصانیف میں جمع کیا ہے جیسے حافظ محمد بن یوسف کنجی شافعی نے البیان فی اخبار صاحب الزمان میں حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ذکر ” لغت المہدی “ میں اور اس کے علاوہ ابو داؤد سجستانی نے اپنے سنن میں جس کا صحاح ستہ میں شمارہوتا ہے کتاب”المہدی“کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اس طرح ترمذی نے صحیح میں اور ابن ماجہ قزوینی نے اپنی کتاب ”سنن“میں اور حاکم نے ”مستدرک “‘ میں بھی ان احادیث کو وارد کیا ہے۔
صرف ایک حدیث یہاں درج کی جاتی ہے جسے محمد بن ابراہیم حموی شافعی نے اپنی کتاب فرائد السمطین میں درج کیا ہے ، ابن عباس نے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا اناسیدالنبین وعلی سید الوصین وامااوصیائی بعدی اثناعشرا اولھم علی وآخرھم المھدی ۔” میں انبیا کاسردار ہوں اور علی علیہ السلام اوصیا کے سردار ہیں ۔ میرے اوصیا (قائم مقام) میرے بعد بارہ ہوں گے جن میں میں اوّل علی علیہ السلام ہیں اور آخری ”مہدی“ ہوں گے ،، ۔
حضرت سیدة النساء فاطمہ سلام الله علیہا
کلینی کی الکافی میں جابر بن عبدالله انصاری کی روایت ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے پاس ایک لوح تھی جس میں تمام اوصیاء اور ائمہ کے نام درج تھے ، جناب سیّدہ علیہا السلام نے ا س لوح سے بارہ اماموں کے ناموں کی خبر دی جن میں تین محمد اور چار علی ، ان کا آٓخری فرد آپ کی اولاد میں سے وہ ذات ہے جو قائم ہوگا ۔
حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام
جناب شیخ صدوق محمد بن علی بن بابویہ قمی نے ” اکمال الدین،، میں امام رضا علیہ السلام کی حدیث آپ کے آبائے طاہرین کے ذریعے سے نقل کی ہے کہ جناب امیر علیہ السلام نے ا پنے فرزند امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا: تیری نسل میں نواں وہ ہوگا جوحق کے ساتھ قائم ، دین ظاہر ہونے والااور عدل وانصاف کاپھیلانے والاہوگا ۔
امام حسنِ مجتبیٰ علیہ السلام
صدوق اکمال الدین) میرے بھائی حسین علیہ السلام کی نسل سے نواں جب پیدا ہوگا تو خدا وند عالم اس کی عمر کو غیبت کی حالت میں طولانی کرے گا پھر جب وقت آئے گا تو اسے اپنی قدرت کاملہ سے ظاہر کرے گا توخداوند الله زمین کو موت کے بعد زندگی عطا کرے گا -
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام
نواں میری نسل سے وہ امام ہے جو حق کے ساتھ قائم ہو گا - جس کے ذریعے سے دینِ حق کو تمام مذاہب پر غلبہ حاصل ہوگا اس کی ایک طولانی غیبت ہوگی جس میں بہت سے گمراہ ہوجائیں گے جنھیں ایذائیں برداشت کرنا پڑیں گی اور ان سے لوگ کہیں گے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ۔ جو اس غیبت کے زمانے میں اس اذیت اور انکار پر صبر کریں گے انھیں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرنے کاثواب حاصل ہوگا ۔
امام زین العابدین علیہ السلام
ہم میں سے قائم وہ ہوگا جس کی ولادت لوگوں سے پوشیدہ رہے گی ۔ یہاں تک کہ عام لوگ کہیں گے وہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔
امام محمد باقر علیہ السلام
(کافی کلینی) حسین علیہ السلام کے بعد نو امام علیہم السلام معینّ ہیں جن میں سے نواں امام قائم علیہ السلام ہوگا ۔،،
امام جعفر صادق علیہ السلام
علل الشرائع شیخ الصدوق میں روایت ہے کہ فرمایا حضرت علیہ السلام نے کہ میرے فرزند موسی علیہ السلام ٰ کی نسل سے پانچواں قائم ہوگا ۔
امام موسیٰ کاظم
(کمال الدین صدوق) کسی نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ قائم بحق ہیں حضرت نے فرمایا حق کے ساتھ قائم وبرقرار تومیں بھی ہوں مگر اصل میں قائم وہ ہوگا جو زمیں کو دشمنان خدا سے پاک کردے گا اور اسے عدل وانصاف سے مملو کردے گا وہ میری اولاد میں سے پانچواں شخص ہوگا ۔ ا س کی ایک طولانی غیبت ہوگی جس میں بہت سے مرتد ہوجائیں گے اور کچھ ثابت قدم رہیں گے ۔
امام رضا علیہ السلام
دعبل نے آپ کے سامنے جب اپنامشہور قصیدہ پڑہا اور اس میں ان دوشعروں تک پہنچے۔
خروج الامام لامحالة قائم
زمانہ میں ظہور ِ قائم آلِ عبا علیہ السلام ہوگا
یبین لناکل حق و باطل
جہاں میں امتیازِ حق وباطل آکے کردے گا
یقوم علی اسم الله و البرکات
مد د سے جوخدا کے نام وبرکت کی کھڑا ہوگا
و یجزی علی النعماء والنفمات
وہ دے گا مومن وکافر کو ہر کردار کا بدلہ
یہ سنتے ہی امام رضا علیہ السلام نے گریہ فرمایا اور پھر سر اٹھا کر کہا اے دعبل یہ شعر تمہاری زبان پر روح القدس نے جاری کرائے ہیں ۔ تمھیں معلوم بھی ہے کہ یہ امام علیہ السلام کون ہے اور کب کھڑا ہوگا؟
دعبل نے کہا یہ تفصیلات تو مجھے معلوم نہیں مگر یہ سنتا ہوں کہ آپ میں ایک امام ایساہوگا جو زمین کو فساد سے پاک اور عدل وانصاف سے مملو کردے گا ۔
حضرت رضا علیہ السلام نے فرمایا اے دعبل میرے بعد امام میرا فرزند محمد علیہ السلام ہوگا ۔ اور ا س کے بعد اس کا فرزند علی علیہ السلام اور علی علیہ السلام کے بعد اس کا بیٹا حسن علیہ السلام اور حسن علیہ السلام کے بعد اس کا بیٹا قائم ہوگا جس کی غیبت کے دور میں اس کاانتظار رہے گا اور ظہور کے موقع پر دنیا اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے گی ۔
امام محمدتقی علیہ السلام
قائم ہم میں سے وہی مہدی ہوگا جو میری نسل میں تیسرا ہوگا ۔
امام علی نقی علیہ السلام
میرا جانشین تو بعد میرے میرا فرزند حسن علیہ السلام ہے مگر اس کے جانشین کے دور میں تمھارا کیا عالم ہوگا ؟ سننے والوں نے پوچھا: کیوں؟ اس کا کیا مطلب؟
فرمایا اس کے کہ تمھیں اسے دیکھنے کا موقع نہ ملے گا ۔ بعد ا س کے نام لینے کی اجازت نہ ہوگی ، عرض کیا گیا پھر ان کا نام کس طرح لیا جائے گا ؟ فرمایا بس یوں کہنا کہ ”الحجة من آلِ محمدعلیہم السلام۔،، علیہ السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے آبائے طاہرین علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ زمین حجت خدا سے قیامت تک کبھی خالی نہیں ہوسکتی؟ اور جو مرجائے اور اپنے امام زمانہ کی معرفت اسے حاصل نہ ہوئی ہو وہ جاہلیت کی موت دنیا سے گیا۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک یہ اسی طرح حق ہے جس طرح روز روشن حق ہوتا ہے ۔
عرض کیا گیا: پھر حضور کے بعد حجت اور امام علیہ السلام کون ہوگا ؟ فرمایا جو پیغمبر خدا کاہمنام ہے میرے بعد امام وحجت ہوگا ۔ جو شخص بغیر اس کی معرفت حاصل کئے ہوئے دنیا سے اٹھا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ بیشک اس کی غیبت کا دور اتنا طولانی ہوگا جس میں جاہل لوگ حیران اور سرگرداں پھریں گے اور باطل پرست ہلاکت ِ ابدی میں گرفتار ہونگے ۔ وقت مقرر کرکے پشین گوئیاں کرنے والے غلط گو ہونگے ۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت سے لے کر برابر ہر دور میں ا س ذات کی خبر جاتی رہی تھی ۔ جومہدی دین ہوگا ۔ بلکہ دعبل کی روایت سے ظاہر ہے کہ یہ امر اتنا مشہور تھا کہ شعراء تک اسے نظم کرتے تھے ۔ا س کے ساتھ تواریخ پر نظر کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوست و دشمن سب ان حدیثوں سے واقف تھے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات ان سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے ۔
چنانچہ سلسلہ عباسیہ میں سے محمد نام جس کا تھا اس نے اپنا لقب مہدی اسی لیے اختیار کیا اور نسل امام حسن علیہ السلام سے عبدالله محض کے فرزند محمد کے متعلق بھی مہدی ہونے کا عقیدہ قائم کیا گیا اور کیسانیہ نے محمد بن حنفیہ کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا مگر ائمہ اہلبیت علیہم السلام میں سے ایک معصوم ہستی کا اسی وقت پر وجود خود ان خیالات کی رد کے لیے کافی تھا اور یہ حضرات ان غلط دعویداروں کے غلط بتانے کے ساتھ ساتھ اصل مہدی کے اوصاف اوراس کی غیبت کاتذکرہ برابر کرتے رہے اس سے یہ حقیقت صاف ظاہر ہوگئی کہ اصل مہدی کی تشریف آوری کا انتظار متفقہ طور پر موجود تھا ۔
اس کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیثیں بھی متواتر صورت سے موجود تھیں کہ میری اولاد میں میرے بارہ جانشین ہوں گے تعداد خود ان غلط مدعیوں کے دعوے کے بطلان کے لیے کافی تھی لیکن اب امام حسن عسکری علیہ السلام تک گیارہ کی تعداد ائمہ کی پوری ہوگئی تو دنیا بے چینی کے ساتھ اسی امام کی طلبگار ہوگئی جو اپنی پیدائش سے قبل بھی منتظَر تھا اور پیدائش کے بعد بھی غیبت کی بناپر مصلحت الٰہی کے تقاضا تک منتظَر رہنے والا تھا ۔
ولادت
وہ وقت جس کا مصومین علیہم السلام کو انتظار تھا آخر کو آہی گیا اور پندرہ شعبان ۲۵۵ھ کی صبح کو سامرے میں اس مبارک و مقدس بچے کی ولادت ہوئی ۔
نشونماوتربیت
آئمہ اہل بیت میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ان کو ظاہری حیثیت سے تعلیم وتربیت کاموقع حاصل نہ ہوسکا ہو اور وہ بچپن ہی میں قدرت کی طرف کے انتظام ِ خاص کے ساتھ کمالات کے جوہر سے آراستہ کرکے امامت کے درجے پر فائز کر دیئے گئے ہوں اس کی نظریں حضرت”امامِ منتظر “ کے پہلے بھی کئی سامنے آچکی تھیں جیسے آپ کے جد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے والد امام محمد تقی علیہ السلام جن کی عمر اپنے والد امام رضا کے انتقال کے وقت آٹھ برس سے زیادہ نہ تھی ۔ ظاہر ہے کہ یہ مدت عام افراد کے لحاظ سے بظاہر اسباب ِ نشوونما اور تعلیم وتربیت کے لیے ناکافی ہے مگر جب خالق کی مخصوص عطا کو ان حضرات کے بارے میں تسلیم کرلیا تو اب سات اور چھ اور پانچ برس کے فرق کا بھی کوئی سوال باقی نہیں رہ سکتا ۔
اگر سات برس کے سن میں امامت کامنصب حاصل ہوسکتا ہے اور چھ برس کے سن میں حاصل ہوسکتا ہے جس کی نظیریں قبل کے اماموں کے یہاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آچکیں تو پانچ یاچار برس میں بھی یہ منصب اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
بارہویں امام کو اپنے والد کی آغوش ِ شفقت وتربیت سے بہت کم عمر میں جدا ہونا پڑا یعنی پندرہ شعبان ۲۵۵ھء میں آپ کی ولادت ہوئی اور ربیع الاوّل ۲۶۰ھء میں آپ کے والد بزرگوار حضرت حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہوئی ۔ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ آپ کی عمر اس وقت صرف ساڑھے چاربرس کی تھی اور اسی کمسنی میں آپ کے سرپر خالق کی طرف سے امامت کا تاج رکھ دیا گیا ۔
حکومت ِ وقت کاتجسسّ
بالکل اسی طرح جیسے فرعون مصر نے یہ پشین گوئی سن لی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والابچہ میرے ملک کی تباہی کا باعث ہوگا تو اس نے اپنی کوششیں صرف کردیں کہ کسی طرح وہ بچہ پیدا ہی نہ ہونے پائے اور پیدا ہو تو زندہ نہ رہنے پائے اسی طرح متواتر احادیث کی بنا پر عباسی سلطنت کے فرمانروا کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ حسن عسکری علیہ السلام کے یہاں اس مولود کی پیدائش ہوگی جس کے ذریعے باطل حکومتیں تباہ ہوجائیں گی تو اس کی طرف سے انتہائی شدت کے ساتھ انتظاما ت کیے گئے کہ ا یک ایسے مولود کی پیدائش کا امکان باقی نہ رہے اسی لیے امام حسن عسکری علیہ السلام کو مسلسل قیدوبند میں رکھا گیا مگر قدرت الٰہی کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی مادی قوت بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔
جس طرح فرعون کی تمام کوششوں کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اسی طرح سلطنت عباسیہ کے تمام انتظامات کے باوجود”امام منتظَر علیہ السلام “ کی ولادت ہوئی مگر یہ قدرت کا انتظام تھا کہ آپ کی پیدائش کو صیغہ راز میں رکھا گیا اور جسے قدرت اپنا راز بنائے اس کے افشاء پر کون قادر ہوسکتا ہے ؟
بیشک ذرا دیر کے لیے خوداس کی مصلحت ا س کی متقاضی ہوئی کہ راز پر سے پردہ ہٹایا جائے ۔ جب امام حسن عسکری علیہ السلام کاجنازہ غسل وکفن کے بعد نماز ِ جنازہ کے لیے رکھا ہوا تھا ۔ شیعیانِ خاص کامجمع تھا اور نماز کے لیے صفیں بندھ چکی تھیں ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھائی جعفر نماز جنازہ پڑہانے کے لیے آگے بڑھ چکے تھے اور تکبیر کہنا چاہتے تھے کہ ایک دفعہ حرم سرائے امامت سے ایک کم سن بچہ برآمد ہؤا اور بڑھتا ہوا صفوں کے آگے پہنچا اور جعفر کی عبا کو ہاتھ میں لے کر کہا ”چچا ! پیچھے ہٹئیے ۔ اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا حق مجھے زیادہ ہے ۔،،
جعفر بے ساختہ پیچھے ہٹے اور صاحبزادے نے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی ۔ پھر صاحبزادہ حرم سرا میں واپس گیا ۔ غیر ممکن تھا کہ یہ خبر خلیفہ کو نہ پہنچی ہو اور اب زیادہ شدت و قوت کے ساتھ تلاش شروع ہوگئی کہ ان صاحبزادے کو گرفتار کرکے قید کردیا جائے اور ان کی زندگی کاخاتمہ کیا جائے ۔
غیبت
حضرت امام منتظرعلیہ السلام کی امامت کازمانہ اب تک دو غیبتوں میں تقسیم رہا ۔ ایک زمانہ ”غیبت صغریٰ “ اور ایک غیبتِ کبریٰ “ اس کی بھی خبر معصومین علیہم السلام کی زبان پر پہلے آچکی تھی جیسے پیغمبر خدا کاارشاد ”اس کے لیے ایک غیبت ہوگی جس میں بہت سی جماعتیں گمراہ پھرتی رہیں گی ،، اور اس کی غیبت کے زمانے میں اس کے اعتقاد پر برقرار رہنے والے ،، گو گرد سرخ “ سے زیادہ نایاب ہوں گے۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد ہے۔ قائم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ایک طولانی غیبت ہوگی ، میری آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے وہ منظر کہ دوستانِ اہلبیت علیہم السلام اس کی غیبت کے زمانے میں سرگرداں پھر رہے ہیں جس طرح جانور چارہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں ۔
دوسری حدیث میں اس کا ظہور ایک ایسی غیبت اور حیرانی کے بعد ہوگا جس میں اپنے دین پر صرف بااخلاص اصحاب یقین ہی قائم رہ سکیں گے ۔ امام حسن علیہ السلام کا قول ”الله اس کی عمر کو اس کی غیبت کی حالت میں طولانی کرے گا ،، امام حسین علیہ السلام کاارشاد”اس کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ بہت سے گمراہ ہوجائیں گے ،، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔”مہدی ساتویں امام کی اولاد میں سے پانچواں ہوگا ۔ ا س کی ہستی تمھاری نظروں سے غائب رہے گی ۔،، دوسری حدیث میں صاحب الامر کے لیے ایک غیبت ہونے والی ہے ۔ اس وقت ہر شخص کو لازم ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اور اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے ۔،،
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں ”ا س کی صورت لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہوگی مگر اس کی یاد اہل ایمان کے دلوں سے غائب نہ ہوگی ، وہ ہمارے سلسلے کا بارہواں ہوگا ۔،،
امام رضا علیہ السلام اس کی غیبت کے زمانے میں اس کا انتظار رہے گا ۔،، امام محمد تقی مہدی وہ ہے جس کی غیبت کے زمانے میں اس کاانتظار اور ظہور کے وقت اس کی اطاعت لازم ہو گی‘ امام علی نقی علیہ السلام صاحب الامر وہ ہوگا جس کے متعلق بہت سے لوگ کہتے ہوں گے ، وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ۔“امام حسن عسکری علیہ السلام ۔”میرے فرزند کی غیبت ایسی ہوگی کہ سوائے ان لوگوں کے جنھیں الله محفوظ رکھے سب شک وشبہ میں مبتلا ہوجائیں گے ۔،،
اسی کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی یہ بتا دیا تھا کہ ”قائم آلِ محمد کے لیے دو غیبتیں ہیں ۔ ایک بہت طولانی اور ایک اس کی بہ نسبت مختصر ۔،، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ” ایک غیبت دوسری کی بہ نسبت طولانی ہوگی ۔،، ان ہی احادیث کے پہلے سے موجود ہونے کا نتیجہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد ان کے اصحاب اور مؤمنین مخلصین کسی شک وشبہ میں مبتلا نہیں ہوئے اور انھوں نے کسی حاضر الوقت مدعی امامت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس ”امام غائب علیہ السلام کے تصور کے سامنے سرتصدیق خم کردئے ۔
غیبت ِ صغریٰ
پہلی غیبت کا دور ۲۶۰ھء سے ۳۱۹ھء تک انہتر سال قائم رہا ۔ اس میں سفراء خاص موجود تھے یعنی ایسے حضرات جو کو مخصوص طور پر نام متعین کے ساتھ امام علیہ السلام کی جانب سے نائب بتایا گیا تھا کہ شیعوں کے مسائل امام علیہ السلام تک پہنچائیں ۔ ان کے جوابات حاصل کریں اموال زکوٰة و خمس کو جمع کرکے انھیں مصارف خاصہ میں صرف کریں او جو قابل اعتماد اشخاص ہوں ان تک خود امام علیہ السلام کے تحرکات کی بھی اطلاع دیں ورنہ خودحضرت علیہ السلام سے دریافت کرکے ان کے مسائل کا جواب دے دیں ۔ یہ حضرات علم و تقویٰ اور رازداری میں اپنے زمانے کے سب سے زیادہ ممتاز اشخاص تھے اس لیے ان کو امام علیہ السلام کی جانب سے اس خدمت کا اہل سمجھا جاتا تھا ، یہ حسبِ ذیل چار بزرگوار تھے ۔
1 ۔ ابو عمر عثمان بن سعید عمر عمری اسدی: یہ پہلے امام علی نقی علیہ السلام کے بھی سفیر رہے تھے پھر امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں بھی اس خدمت پر مامور رہے اور پھر حضرت”امام منتظر علیہ السلام کی جانب سے بھی سب سے پہلے اسی عہدے پر قائم رہے ۔ چند سال ا سی خدمت کو انجام دے کر بغدادمیں انتقال کیا وہیں دفن ہوئے ۔
2 ۔ ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری: امام حسن عسکری علیہ السلام نے ان کے منصب سفارت پر برقرار ہونے کی خبر دی ۔ پھر ان کے والد نے اپنے وفات کے وقت بحکم امام علیہ السلام ان کی نیابت کا اعلان کیا ، جمادی الاوّل ۳۰۵ھ میں بغداد میں وفات پائی ۔
.3 ابو القاسم حسین بن روح بن ابی بحر نوبختی: علم وحکمت کلام ونجوم میں خاص امتیاز رکھتے ہوئے مشہور خاندان نوبختی کی یاد گار اورخود بڑے جلیل المرتبت پرہیز گار عالم تھے ۔ ابو جعفر محمد بن عثمان نے اپنی وفات کے بعد امام علیہ السلام کے حکم سے ان کو اپنا قائم مقام بنایا ۔پندرہ برس تک عہدہ سفارت انجام دینے کے بعد شعبان ۳۲۰ھ میں ان کی وفات ہوئی
4 ۔ ابو الحسن علی بن محمد سمری: یہ آخری نائب تھے ۔ حسین بن روح کے بعد بحکم امام علیہ السلام ان کے قائم مقام ہوئے اور صرف نو برس اس فریضے کو انجام دینے کے بعد ۱۵شعبان۳۲۹ھء میں بغداد میں انتقال کیا ۔ وقت ِ آخر جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد نائب کون ہوگا تو انھوں نے کہہ دیا کہ اب الله کی مشیت ایک دوسری صورت کاارادہ رکھتی ہے جس کی آخری مدت اسی کو معلوم ہے ۔
اب اس کے بعد کوئی نائب ِ خاص باقی نہ رہا ۔ اسی ۳۲۹ھ کے اندوہناک سال میں الکافی کے مصنف ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینی اور شیخ صدوق کے والد بزرگوار علی بن بابویہ قمی نے بھی انتقال فرمایا تھا اور ان حوادث کے ساتھ غیرمعمولی طور پر یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ آسمان پر ستارے اس کثرت سے ٹوٹ رہے ہیں کہ ا یک محشر معلوم ہوتا ہے اس لیے اس کا نام رکھ دیا گیا ”عام ثناالنجوم“ یعنی ستاروں کے انتشار کا بد سال ۔اس کے بعد اندھیرا چھا گیا ۔سخت اندھیرا چھا گیا۔ سخت اندھیرا، یہ اس لئے کہ کوئی ایسا شخص سامنے نہ رہا جو امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچنے کاوسیلہ ہو۔
غیبتِ کبریٰ
۳۲۹ھ کے بعد سے ”غیبت کبریٰ“ کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ اب کوئی خاص نائب بھی باقی نہیں رہا ہے ۔ اس دور کے لیے خود حضرت”امام عصر علیہ السلام،،نے یہ ہدایت فرمادی تھی کہ ”اس صورت میں دیکھنا جو لوگ ہمارے احادیث پر مطلع ہوں اور ہمارے حلال وحرام یعنی مسائل سے واقف ہوں ان کی طرف رجوع کرنا ۔یہ ہماری جانب سے تمہارے اوپر حجت ہیں ،،
اس حدیث کی بنا پر علمائے شیعہ اورمجتہدین کو نائب امام “ کہا جاتا ہے مگر یہ نیابت باعتبار صفات عمومی حیثیت سے ہے ۔ خصوصی طور پر باعتبار نامزدگی نہیں ہے ۔ یہی خاص فرق ہے ان میں اور نائبین خاص میں جو ”غیبت صغریٰ“ کے زمانے میں اس منصب پر فائز تھے ۔ اس زمانے میں بھی یقیناً امام علیہ السلام ہدایت خلق اورحفاظت حق کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور ہماری کسی نہ کسی صورت سے رہنمائی فرماتے ہیں خواہ وہ ہمارے سامنے نہ ہوں اور ہمیں محسوس ومعلوم نہ ہو۔ یہ پردہ اس وقت تک رہے گا جب تک مصلحت ِالٰہی متقاضی ہو ۔ اور ایک وقت ایسا جلد آئے گا خواہ وہ جلد ہمیں کتنی ہی دور معلوم ہوتا ہو یہ پردہ ہٹے گا اور امام علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل وانصاف سے معمور فرمائیں گے ۔ اسی طرح وہ اس کے پہلے ظلم وجور سے مملو ہو چکی ہوگی ۔اللھم عجل الله فرجہ وسھّل مخرجہ
source : http://rizvia.net