اس سورہ کی آیات کے ظاہر سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ شب قدر منزل ِ قرآن اور پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی۔ بلکہ دنیا کے اختتام تک اس کا ہرسال تکرار ہوتا رہے گا۔
فعل مضارع (تنزل)کی تعبیر، جو استمرار پر دلات کرتی ہے ، اور اسی طرح جملہ اسمیہ ” سلام ھی حتی مطلع الفجر“ کی تعبیر بھی ، جو دوام کی نشانی ہے ، اسی معنی کی گواہ ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سی روایات بھی ، جو شاید حدِ تواتر میں ہیں ، اس معنی کی تائید کرتی ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ کیا گزشتہ امتوں میں بھی تھی یا نہیں ؟ متعدد روایات کی تصریح یہ ہے کہ یہ امت پر مواہب الٰہیہ میں سے ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے آیاہے کہ آپ نے فرمایا: ” انّ اللہ وھب لامتی لیلة القدر لم یعطھا من کان قبلھم“” خدا نے میری امت کو شب قدر عطا کی ہے ، گزشتہ امتوں میں سے کسی بھی یہ نعمت نہیں ملی تھی“۔۱
اوپر والی آیات کی تفسیر میں بعض وارد شدہ روایات اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ۔
۱۔ ” در المنثور“ ج۶ ص ۳۷۱۔
source : http://www.makaremshirazi.org