"شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن "
ماہ رمضان قمری اور عربی سال کا نواں مہینہ ہے جو ماہ شعبان اور ماہ شوال کے درمیان واقع ہے۔ قرآن کریم میں رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ کا نام نہیں آیا ہے۔
آیت کا بیان ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ نازل کا مطلب نیچے آنا اور نیچے اترنا ہے ایک بلند سے۔ قرآن کریم میں نزول کے لیے دو لفظیں استعمال ہوئی ہیں " انزال اور تنزیل" ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ انزال وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں نزول دفعی اور یکبارگی ہو۔ اور تنزیل وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں نزول تدریجی ہو۔ قرآن کریم وہ کتاب ہے جسے خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل کیا ہے۔ اور اس لیے اسے قرآن کہا گیا چونکہ جب تک اللہ کے پاس تھا پڑھا نہیں گیا جب پیغمبر [ص] پر اتارا تو پڑھا گیا۔ اس لیے کہ قرآن کا مطلب ہے پڑھا ہوا۔ جیسا کہ ارشاد ہوا "انا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون" (1) ہم نے اس کو عربی زبان میں قرآن قرار دیا تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔ یہ کلمہ "قرآن" قرآن کے مجموعہ پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اس کے اجزاء پر بھی۔
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں ایک ساتھ دفعتا نازل ہوا۔ دوسری طرف سے اس آیہ کریمہ "و قرآنا فرقناه لتقراه على الناس على مكث، و نزلناه تنزيلا" (۲) کا ظاہر دلالت کرتا ہے اس بات پر کہ قرآن کریم تدریجی طور پر رسول اسلام کے دوران رسالت یعنی تئیس سال کے عرصے می نازل ہوا ہے اور تاریخ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے اسی وجہ سے بعض نے خیال کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔
بعض نے جواب دیا ہے کہ قرآن کریم دوبار نازل ہوا ہے ایک بار دفعی طور سے ماہ رمضان میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر، اور دوسری بار تدریجی طریقے سے آسمان دنیا سے زمین پر۔ یہ وہ جواب ہے جسے بعض مفسرین نے کچھ روایات سے اخذ کیا ہے۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین نے ان پر اشکال کیا ہے کہ جس آیت میں نزول دفعی کا ذکر ہے اس میں آگے فرمایا ہے " ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان" قرآن کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ لوگوں کی ہدایت کرے اور حق و باطل کو جدا کرے۔ یہ مقصد قرآن کے نزول کا اس کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کے ساتھ سازگار نہیں ہے اس لیے کہ آسمان پر نازل ہونا اور لوگوں کا اس کی تعلیمات سے بے خبر ہونا کیسے انہیں ہدایت کر سکتا ہے؟
بعض نے اس اشکال کا جواب یوں دیا کہ قرآن کا ہادی ہونا اس کے آسمان دنیا پر نازل ہونے اور کچھ مدت تک وہاں رہنے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا قرآن کا مقصد لوگوں کی ہدایت ہے اور حق و باطل میں جدائی ہے لیکن ایک مدت تک یہ ہدایت متوقف رہی ہے جب تک کہ اس کے لیے زمین فراہم ہوتی۔ جیسا کہ مجلس میں کچھ قوانین پاس کئے جاتے ہیں لیکن ان کا وقت نہ آنے کی وجہ سے ان پر عمل نہیں ہوتا۔ جب وقت آتا ہے انہیں لاگو کیا جاتا ہے۔
لیکن حق بات یہ ہے کہ قوانین و دستورات کے حکم اور خطابات کے حکم میں فرق ہے خطاب صادر ہونے سے پہلے مخاطب کا ہونا ضروری ہے بغیر کسی مخاطب کے خطاب بے معنی اور لغو ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں جو اشخاص کی طرف خطاب ہوئے ہیں جیسے "قد سمع الله قول التى تجادلك فى زوجها و تشتكى الى الله و الله يسمع تحاوركما" (۳) .
"و اذا راوا تجارة او لهوا انفضوا اليها و تركوك قائما". (۴) اور "رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه، فمنهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر، و ما بدلوا تبديلا". (۵) ان تینوں آیات میں یا اس طرح کی دوسری آیات میں خطاب ان افراد کی طرف ہوا ہے جو پہلے سے موجود تھے۔
علاوہ از ایں، قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ پایا جاتا ہے اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ناسخ و منسوخ دونوں ایک ہی وقت میں ہوں۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن نازل ہونے سے مراد قرآن کا وہ حصہ ہے جو قرآن میں نازل ہوا ہے۔
لیکن یہ بات بھی صحیح نہیں ہے اس لیے کہ مفسرین کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ رسول خدا [ص] ستائیس رجب کو مقام رسالت پر مبعوث ہوئے اور کیسے ممکن ہے کہ رجب سے رمضان تک جو ایک مہینہ سے زیادہ کا فاصلہ ہے اس دوران ان پر قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی ہو ۔ حالانکہ سورہ علق گواہی دیتا ہے کہ یہ سورہ بعثت کے روز نازل ہوا اسی طرح سے سورہ مدثر بھی یہ گواہی دیتا ہے کہ بعثت کے ابتدائی دنوں میں نازل ہوا ہے بہر حال یہ بہت بعید ہے کہ قرآن کی پہلی آیت ماہ مبارک میں نازل ہوئی ہو اس کے علاوہ خود جملہ " شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اس بات پر صریحا دلالت نہیں کرتا کہ قرآن سے مراد اس کا پہلا حصہ ہے پس اس آیت کا قرآن کے پہلے حصہ پر حمل کرنا ایسا حمل ہے جس کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔
اور اس بات پر دلالت کرنے والی کہ قرآن ایک ہی وقت میں نازل ہوا ہے اس آیت کے علاوہ دوسری آیتیں یہ ہیں:
"و الكتاب المبين اناانزلناه فى ليلة مباركة انا كنا منذرين" (۶) "انا انزلناه فى ليلة القدر" (۷) ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پورا قرآن ایک ہی وقت میں نازل ہوا ہے یہ بات کہ نزول قرآن سے مراد اس کا ایک حصہ ہے ان آیات کے ظاہر سے میل نہیں کھاتی۔ اور نہ کوئی دوسرا قرینہ پایا جاتا ہے کہ ہم خلاف ظاہر عمل کریں۔
جو چیز ان تمام آیات پر تدبر کرنے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آیات جو قرآن کے شب قدر میں نازل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں "انزال" کا لفظ استعمال ہوا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ قرآن ایک بار میں نازل ہوا ہے۔ ان آیات میں سے کسی ایک میں بھی تنزیل کی تعبیر نہیں ہے۔ مثلا:
"شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن" (۸) دوسری جگہ ارشاد ہوا: "حم و الكتاب المبين انا انزلناه فى ليلة مباركة" (۹) ، سورہ قدر میں فرمایا: "انا انزلناه فى ليلة القدر" (۱۰) .
قرآن کا دفعتا ایک ساتھ نازل ہونا دو طرح سے ہو سکتا ہے یا یہ کہ مجموعی طور پر قرآن ایک ساتھ نازل ہوا ہو اگر اس کی آیات ایک ایک کر کے نازل ہوئی ہوں جیسے بارش مجموعی طور پر ایک ساتھ نازل ہوتی ہے کہ اس کے قطرے ایک ایک کر کے آگے پیچھے نازل ہوتے ہیں لیکن بارش کے نازل ہونے کو بھی انزال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ " کما انزلناہ من السماء [۱۱] اسی وجہ سے یہ فرمایا: "كتاب انزلناه اليك مبارك ليدبروا آياته" (۱۲) ہم نے اس کو تمہاری طرف مبارک بنا کر نازل کیا تاکہ اس میں تدبر کریں۔
یا یہ کہ قرآن جو چیز ہم اس سے اپنی معمولی سوچ کے مطابق سمجھتے ہیں جس کا لازم یہ ہے کہ اس کی آیتیں دھیرے دھیرے اور تدریجی طریقے سے نازل ہوں تاکہ ہم تدبر کر سکیں اس سے مافوق ایک اور حقیقت ہے جو ایک ساتھ نازل ہوئی ہے جس کا نزول دفعی ہے نہ تدریجی۔
اس بات پر یہ آیت دلالت کرتی ہے: "كتاب احكمت آياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير" (۱۳) وہ کتاب ہے جس کی آیات محکم ہیں پھر حکیم اور خبیر کی طرف سے تفصیل پا گئی۔ چونکہ کلمہ "حکمت" احکام سے ہے اور احکام " تفصیل" کے مقابلہ میں آتا ہے در نتیجہ احکام کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح سے ہو کہ اس کے جزء جزء نہ ہوں اور اجزاء ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں۔ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ یہ تفصیل جو آج ہم قرآن میں مشاہدہ کر رہے ہیں ایسی تفصیل ہے جو بعد میں وجود میں آئی ہے۔ ورنہ ابتدا میں قرآن بغیر اجزاء اور تفصیل کے تھا۔
اس سے واضح تر یہ آیات ہیں: "و لقد جئناهم بكتاب فصلناه على علم هدى و رحمة لقوم يؤمنون.هل ينظرون الا تاويله يوم ياتى تاويله يقول الذين نسوه من قبل قد جاءت رسل ربنا بالحق" (۱۴) .
"و ما كان هذا القرآن ان يفترى من دون الله، و لكن تصديق الذى بين يديه و تفصيل الكتاب لا ريب فيه من رب العالمين"یہاں تک کہ فرمایا: "بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه و لما ياتهم تاويله" (۱۵)
ان آیات سے مکمل طور پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن میں تفصیل اور اجزاء میں تقسیم بندی بعد میں انجام پائی ہے۔
پس کتاب کی حقیقت ایک چیز ہے اور جو تفصیل اس پر عارض ہوئی ہے وہ دوسری چیز ہے۔ اور کفار نے جو قرآن کی تکذیب کی ہے وہ اس کی تفصیل کے مربوط ہے۔
اس آیت میں اور واضح تر ارشاد ہوتا ہے : "حم و الكتاب المبين، انا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون و انه فى ام الكتاب لدينا لعلى حكيم" (۱۶) چونکہ یہ آیت اس معنی میں ظہور رکھتی ہے کہ قرآن پہلے ایک کتاب مبین کی شکل میں تھا جو پڑھنے کے قابل نہیں تھا لہذا بعد میں اسے عربی زبان میں پڑھنے کے قابل بنایا اور عربی زبان کے الفاظ کا لباس اسے پہنایا تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں ورنہ خدا کے نزدیک یہ ام الکتاب ہونے کے عنوان سے موجود رہی ہے وہ کتاب جس تک کسی کی رسائی ممکن نہیں تھی جو کتاب حکیم تھی یعنی قرآن کی طرح آیت آیت اور سورہ سورہ نہیں تھی۔ ۔۔۔۔
پس ان آیات : "بل هو قرآن مجيد فى لوح محفوظ" (۱۷) ، "شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن" (۱۸) ، "انا انزلناه فى ليلة القدر" (۱۹) ، "انا انزلناه فى ليلة مباركة" (۲۰) کو ایک جگہ جمع کرنے بعد یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک حقیقت ہے جو لوح محفوظ میں ہے وہ کتاب مبین ہے جو دفعی طریقے سے قلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شب قدر کو نازل ہوئی اور یہ حقیقت جب تفصیلی طور پر عربی زبان میں پڑھنے کے قابل ہوئی تو اس کے لیے تئیس سال کا عرصہ درکار تھا جس میں دھیرے دھیرے بتدریج، مختلف زمان و مکان و مناسبتوں کے لحاظ سے یہی حقیقت قرآن کی صورت میں نازل ہوتی رہی۔
حوالہ جات
۱- سوره زخرف آيه 3"
۲- سوره اسراء آيه 106"
۳- سوره مجادله آيه 1"
۴- سوره جمعه آيه 11"
۵- سوره احزاب آيه 23"
۶- سوره دخان آيه 3"
۷- سوره قدر آيه 1"
۸- سوره بقره آيه 185
۹- سوره دخان آيه 3
۱۰- سوره قدر آيه 1
۱۱- سوره يونس آيه 24"
۱۲- سوره ص آيه 29"
۱۳- سوره هود آيه 1"
۱۴- سوره اعراف آيه 52 - 53"
۱۵- سوره يونس آيه 39 - 37"
۱۶- سوره زخرف آيه 1 - 4"
۱۷- سوره واقعه آيه 80"
۱۸- سوره بروج آيه 22"
۱۹- سوره بروج آيه 22"
۲۰۔سوره بقره آيه 185"
source : http://www.ahl-ul-bayt.org