ولآيت رکھنے والا معاشرہ وہ ہوتا ہے کہ اس معاشرے ميں اولاً تو ولي متعين ہو ‘اور ثانياً وہ ولي اس معاشرے کي تمام قوتوں ‘ تمام سرگرميوں اور تمام فعالآيتوں کا سرچشمہ اور مرکز ِہدآيت ہو‘ ايک ايسانقطہ ہو ‘ جس پرسماج کے چھوٹے بڑے دھارے کر ملتے ہوں‘ ايک ايسا مرکز ہو جس سے تمام احکام وفرامين جاري ہوتے ہوں ‘ جوتمام قوانين کا اجراونفاذ کرتا ہو‘ سب کي نگاہيںاسي کي طرف لگي رہتي ہوں ‘سب اسي کي پيروي کرتے ہوں‘ زندگي کا انجن وہي اسٹارٹ کرتا ہو‘ کاروانِ حآيت کا قافلہ سالار وہي ہو ۔ ايسا معاشرہ ‘ ولآيت رکھنے والا معاشرہ کہلائے گا۔
رسولِ مقبول صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کي رحلت کے بعد پچيس برس تک معاشرے کي باگ ڈورامير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے ہاتھ ميں نہيں تھي۔ پيغمبر۰ کے بعد پچيس سال تک اسلامي معاشرہ ولآيت کے بغير رہا تھا۔اس معاشرے ميں کچھ مسلمان ولآيت کے حامل تھے ‘ ابوذر۱ ذاتي طور پر ولآيت کے حامل تھے ‘مقداد۱ ذاتي طور پر ولآيت رکھتے تھے ‘ کچھ اور لوگ ذاتاً ولآيت کے مالک تھے ‘ ليکن اسلامي معاشرہ ولآيت کا حامل نہ تھا ۔يہاں تک کہ اسلامي معاشرے پر حضرت علي ٴ کي حکومت قائم ہوئي اور اسلامي معاشرہ ولآيت کا حامل ہوگيا۔
جب معاشرے ميں امرونہي کا مرکزامام ٴہو‘جب تمام امور کي باگ ڈورامام ٴ ہي کے ہاتھ ميں ہو‘جب عملاً معاشرے کانظم ونسق امام ٴ کے اختيار ميں ہو ‘جب امام ٴ ہي جنگ کا حکم دے ‘جب امام ٴہي حملے کا فرمان جاري کرے‘جب امام ٴہي صلحنامہ تحرير کرے ‘توايسي صورت ميں معاشرہ ولآيت کا حامل ہوتاہے۔بصورتِ ديگر معاشرہ ولآيت کا حامل نہيںہوتا ۔
اگر پ ايسے معاشرے ميںزندگي بسر کرتے ہوں‘ تو خدا کا شکر ادا کيجئے ۔اگريہ نعمت پ کو ميسّرہو‘ تو خدا کا شکربجا لايئے ۔کيونکہ ولآيت کي نعمت سے بڑھ کر کوئي اور نعمت نہيں۔ اور اگرپ کو ايسا معاشرہ ميسّر نہيں‘ تو اسکے قيام کے لئے کوشش کيجئے اور اپني ذات ميںاور انساني معاشرے ميں ولآيت قائم کيجئے۔
ہميں کوشش کرني چاہئے کہ علي ٴکي طرح زندگي بسر کريں ‘ کوشش کرني چاہئے کہ علي ٴکے نقشِ قدم پر چليں‘کوشش کرني چاہئے کہ اپنے اور علي ٴکے درميان‘ جو خدا کے ولي ہيں تعلق قائم کريں۔
ان باتوں کے لئے کوشش کي ضرورت ہے ‘جدوجہد کي ضرورت ہے‘ان کے لئے خونِ دل پينا پڑتا ہے۔اُسي طرح جيسے امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کي شہادت کے بعد ائمہ ہديٰ عليہم السلام نے ولآيت کے لئے جدوجہد کي‘اسکے لئے صعوبتيں اٹھائيں ۔
ائمہ ٴ نے ولآيت کو زندہ کرنے اوراسلامي معاشرے کے احيا کے لئے بھرپور جد وجہد کي ‘ تاکہ وہ پودہ جوانسان کے نام سے اس زمين اور اس باغ ميں کاشت ہوا ہے‘ ولآيت کے جاں بخش اورحآيت فريںخوشگوار پاني سے اُس کي نشوونما کريں ۔ائمہ ٴ نے اس مقصد کے لئے کوشش کي۔ معاشرے ميں ولآيت کے قيام کے لئے ہماري کوشش يہ ہوني چاہئے کہ ہم اس بات کا جائزہ ليں کہ اسلام کے ولي کو قوت بخشنے کے لئے ہميں کيا کام کرنے چاہئيں ۔
جيسا کہ پہلے کہا گيا ‘کبھي علي ابن ابي طالب ٴ‘ حسن ابن علي ٴ‘ حسين ابن علي ٴ‘ علي ابن حسين ٴ سے لے کر امامِ خر تک تمام ائمہٴ اپنے ناموں اور خصوصآيت کے ساتھ معين ہوتے ہيںاورکبھي ايسا ہوتا ہے کہ ولي کا تعين نام کے ساتھ نہيں ہوتا ‘بلکہ ايک ولي کے توسط سے يا بعض صفات بيان کرکے اُس کا تعين کيا جاتا ہے ۔ جيسا کہ فرمايا گيا ہے :
’’اَمَّا مَنْ کٰانَ مِنَ الْفُقَھٰائِ‘صٰائِناً لِنَفْسِہِ حٰافِظاً لِدِيِنِہِ مُخٰالِفاً عَليٰ ھَوٰائُ مُطِيعاًلِاَمْرِمَولَاٰہُ فَلِلْعَوَامِ اَنْ يُقَلِّدُوہُ۔‘‘(١)
ان خصوصآيت کو بيان کر کے ولي کاتعين کياگيا ہے‘ اور يہ تعين بھي خدا کي طرف سے ہے۔ ہاں‘ اُس ولي کو نام لے کر معين کيا گيا ہے اور اِس ولي کي خصوصآيت بيان کي گئي ہيں۔پ نے خود حساب کيا‘اندازہ لگايا‘نمونہ تلاش کيا‘حضرت آيت ا العظميٰ قائے بروجردي نظر ئے۔
جب انسان اپنا مقصد يہ بنائے کہ وہ معاشرے ميںاسلامي قوانين اور الٰہي فرامين کااس انداز سے اِحيا کرے گا‘اُنہيں اس طرح زندہ کرے گا جس طرح ولآيت تقاضا کرتي ہے‘تو پھر وہ اس مقصد کے لئے جدوجہد کرتاہے‘اور اسکے لئے راستے اور طريقے تلاش کرتا ہے۔ في الحال ہماري گفتگوراستوں اور طريقوںکے بارے ميں نہيں ہے ۔
ايسا معاشرہ جو ولآيت کا حامل ہوجائے‘وہ ايک ايسے مُردے کي مانند ہے جس ميں جان پڑگئي ہو۔ پ ايک بے جان مُردے کا تصور کيجئے۔اس کا دماغ ہے ليکن کام نہيں کرتا‘نکھيں ہيں ليکن وہ ديکھتي نہيں ‘ دَہان ہے ليکن غذا نگل نہيں سکتا ‘ معدہ ‘کليجہ اور نظامِ ہضم ہے ليکن غذا کوہضم نہيں کرتا ‘ رگ ہے جس ميں خون ہے ليکن خون رواں نہيں ہے‘ ہاتھ ہيں ليکن ايک چھوٹي سي چيونٹي کو بھي اپنے پ سے دور نہيں کرسکتا۔
ايسا کيوں ہے ؟
ايسا اس لئے ہے کہ اُس ميں جان نہيں ہے ۔ليکن جب اس ميں جان ڈال دي جاتي ہے ‘
تواس کا دماغ کام کرنے لگتا ہے ‘ اعصاب کام کرنے لگتے ہيں ‘ اسکے ہاتھ چيزوں کو گرفت ميں لينے لگتے ہيں‘ اس کادَہان کا م کرنے لگتاہے ‘ معدہ ہضم کرنے لگتا ہے ‘ نظامِ ہضم جذب کرنے لگتا ہے ‘ خون گردش کرنے لگتا ہے اور رواں ہوکر پورے بدن کوطاقت فراہم کرنے لگتا ہے ‘ بدن کو گرم کرتا ہے ‘ اسے کوشش اور جدوجہد پر لگاتا ہے ‘ اور انسان چلتا ہے ‘ دشمن کو مارتا ہے ‘ دوستوں کو جذب کرتا ہے ‘ اپنے پ کو زيادہ سے زيادہ کامل کرتا ہے ۔
ايک معاشرے ميں ولآيت کي اہمآيت سمجھنے کے لئے پ اس مثال کواپني نگاہوں کے سامنے رکھئے۔ مُردہ جسم ہٹا کراُس کي جگہ انساني معاشرہ لے يئے ‘جان اور روح کي جگہ ولآيت کو رکھ ديجئے ۔ ايک ايسا معاشرہ جس ميں ولآيت نہ ہو‘ اُس ميں صلاحآيتيں ہيں ليکن ناکارہ ہوجاتي ہيں ‘ برباد چلي جاتي ہيں ‘ نابود ہوجاتي ہيں ‘ ضائع چلي جاتي ہيں‘ يا اس سے بھي بدتر يہ کہ انسان کو نقصان پہنچانے ميںاستعمال ہوتي ہيں۔ دماغ ہوتا ہے اور سوچتا ہے ‘ ليکن فساد پھيلانے کي بابت ‘ انسان کشي کي بابت ‘ دنيا کو جلا ڈالنے کي بابت ‘انسانوں کو برباد کر دينے کے بارے ميں ‘ استحصال‘ استبداد اور استکبار کي جڑيں مضبوط کرنے کے بارے ميں ۔اُس کي نکھيں ہوتي ہيں ليکن جو چيزيں اسے ديکھني چاہئيں اُنہيں نہيں ديکھتا اور جنہيں نہيں ديکھنا چاہئے اُنہيں ديکھتا ہے۔اُس کے کان ہوتے ہيں ليکن حق کي بات نہيں سنتا۔اُس کے اعصاب حق کي بات کو دماغ تک پہنچاتے ہيں ليکن دماغ اعضاو جوارح کو حق کے مطابق حکم نہيں دآيتا ‘اعضا و جوارح حق کے مطابق عمل انجام نہيں دآيتے ‘دنيا کے حالات انسان کو حق کے مطابق عمل کرنے کي اجازت نہيں دآيتے ۔
بے ولآيت معاشرے ميں چراغوں کي لَو بلند نہيں ہوتي اور اُن کي روشني نہيں بڑھتي ۔ اگر اُن ميںتيل کا کوئي قطرہ ہوتا بھي ہے تو وہ ختم ہوکر يکسر خشک ہوجاتا ہے۔ وہ چراغ جنہيں پيغمبر ۰نے تيل فراہم کيا تھا ‘ وہ بجھنے لگتے ہيں اور پ نے ديکھا کہ وہ کيسے خشک ہوئے۔
پ نے ديکھا کہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کي وفات کے بعد کچھ دنوں تک ان چراغوں کي لَو بلند تھي‘يہ روشني پھيلا رہے تھے ‘ماحول کو منور کر رہے تھے ‘ کيونکہ انہيں پيغمبر۰ نے تيل ديا تھا ۔ليکن کيونکہ ان چراغوں اور مشعلوں کے سر پر ولآيت کا سايہ نہيں تھا ‘لہٰذاان کا تيل تہ ميں بيٹھ گيا‘ خشک ہوگيا ‘ اِن سے دھواںاٹھنے لگا ‘اِن کي روشني مدہم ہوگئي‘ يہاں تک کہ معاويہ کا دور گيا جنہوں نے اسلامي معاشرے کي باگ ڈوريزيد کے سپرد کردي ‘ اور پھر پ نے ديکھا کہ کيا ہوا ۔
وہي باتيں جوحضرت فاطمہ زہراعليہاالسلام نے انصار اور مہاجر خواتين سے کہي تھيں ‘ ليکن انہوں نے سني اَن سني کردي تھيں۔اُن ابتدائي ايام ميں فاطمۃ الزہرا ٴ نے جو پيش گوئياں کي تھيں‘ليکن اُس دور کے غافل لوگوں نے نہ انہيں سنا نہ سمجھا ‘وہ تمام کي تمام پيش گوئياں پوري ہوئيں۔وہ’’سيف ِصارم ‘‘ وہ خونريز شمشير‘ وہ تلوار جو حقيقتوں اور فضيلتوں کو قتل کررہي تھي‘ وہ ہاتھ جو انسان اور انسانآيت کا گلاگھونٹ رہے تھے ‘ ان سب کے متعلق فاطمہ زہراٴ نے بتاديا تھا ‘بلکہ اُن سے بھي پہلے پيغمبر ۰نے گاہ کر ديا تھا ۔يہ لوگ ديکھ رہے تھے ‘ سمجھ رہے تھے ‘ بتا رہے تھے‘ليکن اسلامي معاشرہ نہيں سمجھا۔اِس کے کان بند اور بہرے ہوگئے تھے۔
ج فاطمہ زہراٴکي صدا کانوں ميںگونج رہي ہے۔ اے حساس اور ہوشيارسماعتو سنو!جس معاشرے ميںولآيت ہو‘ وہ معاشرہ ايک ايسا معاشرہ بن جاتا ہے جو تمام انساني صلاحآيتوں کو پروان چڑھاتا ہے‘وہ تمام چيزيں جنہيں خدا نے انسان کے کمال اور بلندي کے لئے ديا ہے ‘يہ معاشرہ اُن کي نشوونما کرتا ہے‘انسانآيت کے پودے کو تناور درخت ميں تبديل کرتا ہے‘انسانوں کو کمال تک پہنچاتا ہے‘انسانآيت کي تقوآيت کا باعث بنتا ہے۔اس معاشرے ميں ولي ‘ يعني حاکم ‘ يعني وہ ہستي جس کے ہاتھ ميں تمام امور کي باگ ڈور ہوتي ہے ‘پورے معاشرے کو خدا کي راہ پر ڈالتا ہے‘ اوراسے ذکر ِ خدا کا حامل بناتاہے ۔مال و دولت کے لحاظ سے‘ دولت کي منصفانہ تقسيم کرتا ہے ‘ کوشش کرتا ہے کہ نيکيوں کو عام کرے‘ کوشش کرتا ہے کہ برائيوں کي جڑ اکھاڑ دے ‘اُن کا خاتمہ کر دے:
’’اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔‘‘ (2)
وہ لوگ جنہيں اگر ہم زمين ميں اقتدار عطا کريں ‘ تو وہ نماز قائم کرتے ہيں۔ نماز خدا کے ذکر اور اسکي جانب معاشرے کي توجہ کي علامت ہے ۔
اَقَامُوا الصَّلٰوۃ:نماز قائم کرتے ہيں ‘ خدا کي طرف قدم بڑھاتے ہيں ‘ احکامِ الٰہي کے مطابق اپنے لئے راہ ِ عمل کا تعين کرتے ہيں۔
وَ ٰاتَوُاالزَّکٰوۃ:دولت کي عادلانہ تقسيم کرتے ہيں‘ زکات ادا کرتے ہيں۔ قرآن مجيدکي رو سے زکات کا دامن انتہائي وسيع ہے۔ قرآن مجيدميںزکات کي اصطلاح تمام مالي انفاقات اور صدقات پر محيط ہے ۔وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ‘کلي اور مسلمہ طور پر اسکے معني يہ ہيں کہ دولت کے لحاظ سے سماج ميںتوازن پيدا ہو۔ زکات کے بارے ميں ايسي روآيت بھي ہيں‘ جو کہتي ہيں کہ زکات دولت ميں توازن کا موجب ہے ۔
وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَر: نيکيوں کو عام کرنا‘ اچھائيوں کو فروغ دينااورمنکرات کا قلع قمع کرناان حکمرانوں کے اوصاف ميںسے ہے ۔
عام طور پر ہم سمجھتے ہيں کہ امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کے معني فقط يہ ہيں کہ ميں پ کو تلقين کروں کہ جنابِ عالي! پ فلاں برا کام نہ کيجئے ‘ فلاں اچھا کام کيجئے ۔ جبکہ تلقين کرنا اور زباني کہنا امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کے مظاہر ميں سے ايک مظہر ہے۔
لوگوں نے امير المومنين حضرت علي عليہ السلام سے کہا : پ معاويہ کے خلاف جنگ کيوں کر رہے ہيں ؟ امام ٴنے فرمايا:’’ اس لئے کہ امر بالمعروف اور نہي عن المنکر واجب ہے ۔‘‘اچھي طرح سنئے اور نتيجہ نکالئے۔ جنگ ِصفين ميں امام ٴسے کہاجارہا ہے کہ پ کو معاويہ سے کيا واسطہ ‘ پ کوفہ جائيے وہ شام کا رُخ کرتاہے ۔امام ٴ فرماتے ہيں: خدا نے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کو واجب کياہے ۔
امام حسين ٴمدينہ سے نکلتے ہوئے فرماتے ہيں :اُريدُاَنْ اَمُرَبِالْمَعْرُوفِ وَاَنْھيٰ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ ميں امر بالمعروف اور نہي عن المنکرکرنا چاہتا ہوں ۔
ديکھئے امر بالمعروف اور نہي عن المنکرکا دائرہ کس قدر وسيع ہے ۔جبکہ ہماري نظر ميں يہ کس قدر چھوٹا اور تنگ ہو چکا ہے ۔
بہر حال جب کسي معاشرے ميں ولآيت ہو‘ تووہاں نماز قائم ہوتي ہے‘زکات ادا کي جاتي ہے ‘امربالمعروف اور نہي عن المنکر ہوتا ہے۔مختصر يہ کہ بے جان جسم ميں جان پڑ جاتي ہے ۔
١۔’’فقہا ميں سے جو فقيہ اپنے نفس پر مسلط ہو‘ خدا کے دين کامحافظ ہو‘نفساني خواہشات کي مخالفت کرتاہواوراحکامِ الٰہي کا مطيع و فرمانبردارہو ‘توعوام کو چاہئے کہ اسکي تقليد کريں ۔‘‘ (وسائل الشيعہ۔ج١٨۔ ص٩٥)
2۔ وہ لوگ جنہيں اگرہم زمين ميں اقتدار ديںتووہ نمازقائم کرتے ہيں ‘زکات ادا کرتے ہيں ‘ نيکيوں کا حکم دآيتے ہيں‘ بُرائيوں سے روکتے ہيں اور يہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختيارميں ہے ۔ (سورہ حج ٢٢۔آيت ٤١)
source : http://shiastudies.net