اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

اسلام اور اقتصادی انصاف

انصاف اسلام کے مرکزی اقدار میں سے ایک ہے اورکوئی بھی معاشی نظام جو انصاف پر مبنی نہیں ہے وہ اسلام کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے۔ قرآن تقسیمی انصاف پر بہت زور دیتا ہے اور معاشرے  کے سب سے کمزور طبقے جسے قرآن مستعضفون کہتا ہے ان کی مکمل اور غیر مشروط حمایت اور تکبر کرنے والی حکمراں جماعت (جنہیں مستکبرون کہتا ہے) جو کمزور طبقات کو دباتے ہیں،ان کی مذمت کا اظہار کرتا ہے۔ ہم اس مضمون میں اس پر مزید روشنی ڈالنا چاہیں گے۔

مجھے امریکہ میں شروع کی گئی تحریک سے اس مضمون کو لکھنے  کا حوصلہ ملا جوخاص طور سے یوروپ کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں میں  پھیل گئی۔اس  تحریک نےایک دلچسپ نعرہ دیا ہے، ‘ہم ننیانوے فیصد ہیں’ اس تحریک کے رہنماؤں کے مطابق ، ایک فیصد امریکیوں کے ہاتھوں میں ساری دولت مرکوز ہے اور 99فیصد امریکیوں کوان کے اپنے حقوق سے محروم  کر رہے ہیں۔ بیجز پہنے ہوئے سینکڑوں 'ہم99فیصد ہیں اور اس کے جیسے دوسرے نعرے لے کر امریکہ کے مالی ضلع کہے جانے والے وال اسٹریٹ اور دیگر اہم  مقامات پر   بھی ان لوگوں نے قبضہ جمایا۔

امریکہ جو سرمایہ دارانہ نظام  کا قلعہ ہے اور یہاں منافع ہی صرف مقدس لفظ اورتقسیمی انصاف  تقریبا ایک گندا لفظ  ہے۔ امریکہ میں آزادی کو بہت بنیادی قدر سمجھا جاتا ہے لیکن اس آزادی میں سوشلسٹ ہو نے کہ آزادی شاید ہی شامل ہو اور کمیونسٹ ہونے کی ےو بات ہی مت کیجئے۔ اسی  امریکہ سے ایک تحریک شروع ہعئی ہے جو  سوشلزم اورتقسیمی انصاف کی حمایت کر رہی ہےاور مال و دولت جمع کرنے کی مخالفت کر رہی ہے اور ایسے جمع کرنے کو جو ایک فیصد امریکیوں کو امریکی عوام کی تقریبا ساری دولت  کا مالک بناتی ہو۔ 

اس کو مکہ میں اسلام کے ظہور سے قبل  کیا ہو رہا تھا  اس سے موازنہ کرنا دلچسپ ہوگا۔جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں، مکہ مکرمہ  تمام بین الاقوامی تجارت اور مالیات کا مرکز تھا  اور مختلف قبائلی سرداروں نے بین قبائلی کارپوریشن کا قیام بین الاقوامی تجارت پر  اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے کر رہے تھے اور مال و دولت جمع کر رہے تھے اور کمزور طبقات کی دیکھ بھال کے تئیں قبائلی اخلاقیات کو نظر انداز کر رہے تھے۔  دوسرے لفظوں میں،  جیسے ہمارے  آج کے وقت میں معیشت کی گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کچھ لوگوں کو دولت جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔  مکہ مکرمہ میں بھی اسلام کی ظہور سے قبل امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت اضافہ ہو گیاتھاجس کے نتیجے میں سماجی کشیدگی پیدا ہوئی۔  سماجی کشیدگی بہت زیادہ دھماکہ خیز ہو گئی تھی  جس کا  وسیع طور پر قرآن کی آیت نمبر 104 میں ذکر کیا گیا ہے۔

یہ سورۃ کہتی ہے کہ وہ آدمی جس نے مال جمع کیا اور اسے  بار بار شمار کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کا یہ  مال اسے ابدی بنا دے گا۔لیکن اسے یقیناًحطمہ میں پھینک دیا جائے گا۔حطمہ  کیا ہے؟ یہ وہ آگ ہے جو اس کے قلب کو  نگل جائے گی۔ ایک اور مکی سورۃ میں قرآن کہتا ہے کہ ‘بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لیے( لوگوں کو) ترغیب نہیں دیتا’ (107)۔

اسلام کے ظہور سے قبل مکہ مکرمہ بین الاقوامی تجارت اور مالیات کو مرکز بن گیا تھا اور اس شہر سے ہوکر  عیش و آرام کے سامانوں سے لدے کارواں گزرا کرتے تھے  اور قبائلی سردار، جو پہلے   مکہ اورسلطنت روما کے  درمیان کے وسیع سہرا کو پار کرانے والے گائیڈ ہوا کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ خود ہی ماہر تاجر بن گئے اور یہ تاجر زیادہ اور بھی زیادہ دولت کے لالچی بن گئے اور اپنے وسائل کو کاروبار میں لگاتے رہے تاکہ اور زیادہ منافع کما سکیں۔  

تجارت اور منافع کے اس عمل نے انہیں اس میں اس قدر مصروف  رکھا کہ قرآن کی سورۃ 102 کہتی ہے کہ لوگوں مال کی طلب نے تم کو غافل کر دیا یہاں تک کہ تم اپنی قبریں جادیکھیں۔ جبکہ مکہ کے قبائلیوں کے سربراہان کا غالب حصے بہت ہی زیادہ امیر ہو رہا تھا، غریبوں ، یتیموں، بیوائوں، اور غلاموں کو  مکمل طور پر نظرانداز کیا جا رہا تھااور ان کا استحصال اور بھی زیادہ مال جمع کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا۔ یہ لوگ  غربت اور محرومی کی زندگی گزار رہے تھے۔امیروں کو کسی بات نے متاثر نہیں کیا جبکہ پہلے کےقبائلی معاشرے میں غریب کا کوئی تصور نہیں تھا۔  

ان حالات کے پس منظر میں قرآن کی یہ آیتیں نازل ہوئیں۔انصاف قرآنی اخلاقیات میں اس قدر مرکزی حیصیت رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کا ایک نام عادل بھی ہے اورقرآن بھی یہ کہتا ہے کہ ، ‘انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے’(5:8)۔  اس طرح وہاں ایک جانب تقسیمی انصاف کی مکمل طور پر غیر موجودگی تھی اور دوسری جانب  دولت کاجمع کرنا تھا۔جو کچھ امریکہ میں  ہو رہا ہے اس کے ساتھ اس کا موازنہ کریں۔ امریکہ میں  جہاں فراوانی کے سبب لوگ بھول گئے تھے کہ غربت کی زندگی کیا ہے  وہاں 1فیصد آبادی کے ہاتھوں میں دولت جمع ہو رہی ہے اور باقی کے 99فیصد لوگوں کو مشکلوں کا سامنا ہے، روزگار سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے  اور فاکہ کشوں کی زندگی گزارنے لگے ہیں۔

ان حالات کے تحت یہ تحریک شروع ہوئی  اور ہزارو  کی تعداد میں  افراد وال سٹریٹ پر یا دوسرے بہت سے اہم  مقامات پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یقیناً میڈیا کی اس طرح کی نقل و حرکت میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوری اجاگر کرے اور اس وجہ سے اسےزیادہ رپورٹ نہیں کرتاہے۔ دونوں پرنٹ  کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیامیں اسے زیادہ سے زیادہ ظاہر کئے بغیر صرف کبھی کبھار ہی اس کے بارے میں لکھنے کو مجبور ہوتے ہیں۔ مجھے ان سے بہت کچھ کہنا ہے جومیڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔

مکہ مکرمہ میں ان دنوں نہ تو جمہوریت تھی اور نہ ہی اپنے  حقوق کے بارے میں بیداری، اور نہ ہی کوئی جمہوری تحریکیں اور اس لئےلوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں بیدار کرنے کا واحد ذریعہ علم الٰہی تھا اور اس وجہ سے قرآن کریم، محمدﷺ کے ذریعے الٰہی الہام کو نازل کرنےکا  ایک ذریعہ بنا اور ان آیتوں میں مال و دولت کے جمع کرنے اور لوگوں کو محروم  کرنے کے عمل کی مذمت کی گئی۔ ان آیات نے اپنے ماننے والوں کے درمیان تقسیمی انصاف کے بارے میں بیداری پیدا کی۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ  قرآن ضرورت پر مبنی زندگی کے حق میں ہے اور لالچ یا عیش و عشرت پر مبنی زندگی کے تصور کی مخالفت کرتا ہے۔قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ  آپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچ گیا وہ عفو ہے۔ تاہم، نبی کریم ﷺ کے کچھ صحابہ نے آپ ﷺ کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی اس پر  عمل کیا اس کے علاوہ مسلمانوں نے اس پر کبھی عمل نہیں کیا۔  اصل میں نبی کریمﷺکے بہت سے صحابہ سونے یا چاندی کے برتن میں پانی پینے کو  گناہ سمجھتے تھے۔ لیکن اس خیال  کی مدت بہت مختصر تھی۔

اگر مسلمانوں نے ان آیات کو سنجیدگی سے لیا ہوتا اور ان پر عمل کیا ہوتا تو وہ پوری دنیا کے لئے تقسیمی انصاف کے لئے رول ماڈل ہوتے اور ایک تنازعات سے عاری دنیا، اور جنگوں اور خون خرابے کے بغیر دنیا اور ایک پر امن دنیا جہاں سبھی اپنے کو محفوظ سمجھتےاور اسی دنیا کو حقیقی جنت بنانے کے عمل میں مدد گار ہوتے۔لیکن امریکہ نے اپنے لوگوں کی زندگی کو فراوانی کی زندگی  ترتیب دینے کے عمل میں پوری دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر

 
user comment