اردو
Wednesday 20th of November 2024
0
نفر 0

قرآن سوزی تمام ادیان الٰہی نیز عالمی امن کے لئے حقیقی خطرہ

افغانستان کے دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن سوزی کے خلاف مسلسل احتجاج ہو رہا ہے۔ اب تک ان مظاہروں میں کم ازکم تیس افغانی شہری جاں بحق اور دو امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی حکام اپنے فوجیوں کے ہاتھوں قرآن جلائے جانے کی بابت معافی مانگ چکے ہیں، لیکن ان کی معذرت خواہی سے صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اس توہین آمیز اقدام کی وجہ سے معافی مانگی ہے۔ وہائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری نے اس واقعہ کو نہایت ہی افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس سے امریکی فوجیوں کے عقائد کی نشاندہی نہیں ہوتی ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عالم اسلام کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم کی بےحرمتی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے غیظ و غضب کو برانگیختہ کر دیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس ملک کے فوجیوں نے بگرام بیس میں بےکار دستاویزات اور کاغذوں کو جلاتے ہوئے قرآن مجید کے متعدد نسخے بھی نذر آتش کر دیئے۔ جو واقعہ بگرام میں رونما ہوا ہے وہ نہ تو اسلامی مقدسات کی پہلی مرتبہ توہین ہے اور نہ ہی آخری توہین شمار ہو گی، جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے امریکہ اور یورپ میں متعدد مرتبہ اسلام دشمنی کے واقعات سامنے آئے ہیں، کچھ سال پہلے ڈنمارک کے ایک اخبار نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک کارٹون شائع کیا تھا۔ اسی طرح ہالینڈ کے ایک سیاسی لیڈر نے قرآن کے خلاف ایک توہین آمیز فلم بنائی تھی اور اس کا نام "فتنہ" رکھا تھا، اس نسل پرست اور انتہا پسند نے مسلمانوں کو یورپ سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ان دنوں امریکہ میں بھی اسلام دشمنی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جنوبی امریکہ میں ایک انتہاپسند پادری نے اپنے دسیوں ماننے والوں سے کہا تھا کہ وہ گیارہ ستمبر کی برسی کے موقع پر قرآن کو نذرآتش کر دیں۔ چند سال پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ امریکہ کے تفتیشی فوجی افسروں نے گوانتا نامو جیل میں دہشتگردوں سے تفتیش کے دوران قرآن کی بےحرمتی کی تھی تاکہ ان افراد کو اعتراف کرنے پر مجبور کر دیں۔ غاصب نیٹو کے فوجی گزشتہ ایک عشرے کے دوران افغانستان کے بے گناہ عوام کا قتل اور بہت سوں کو بے گھر کرنے کے علاوہ ان کے اعتقادات کی توہین کر رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں قرآن سوزی کے خلاف مظاہرے ہوئے، کیونکہ قرآن مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے اور اس کو جلانا مسلمانوں کی بہت بڑی توہین ہے۔

اگرچہ قرآن جلانا ایک تلخ اور نفرت انگیز واقعہ ہے، لیکن یہ واقعہ تازہ اور نیا نہیں ہے۔ دور جاہلیت سے لیکر اب تک باطل طاقتوں نے حق کو نابود کر نے کے لئے بہت زیادہ کوشیش کی ہیں۔ انھوں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی آواز کو خاموش کر نے کے لئے آگ روشن کر کے انھیں منجنیق میں رکھکر آگ میں پھینکا، اور ایک زمانے میں توحید اور خدا پرستی کی بساط کو لپیٹنے کے لئے خانہ خدا کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر حملہ کر دیا اور یہ واقعہ اصحاب فیل کے نام سے مشہور ہے۔

اس کے بعد کچھ لوگ اسلام کی ترقی اور فروغ کو روکنے کی غرض سے پیغمر اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر اور مجنون کہنے لگے اور کلام وحی کو نہ سننے کی غرض سے اپنے کانوں کو بند کر لیتے تھے۔ بنابرایں اگر عصر حاضر میں سلمان رشدی جیسے افراد کتاب آیات شیطانی لکھ کر یا تقریر کے ذریعہ یا فلم، مقالات، کتاب، اور کارٹونوں کے ذریعہ قرآن کریم، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی دیگر مقدسات کی توہین کر رہے ہیں تو یہ لوگ درحقیقت دور جاہلیت کے طریقوں پر عمل کر رہے ہیں۔

چنانچہ تاریخی تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ دشمنی اور منطق کے فقدان کی و جہ سے زمانہ جاہلیت کے طور و طریقہ پر عمل کرتے ہیں اس کا ہمیشہ منفی نتیجہ نکلا ہے۔ کافروں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے جو آگ روشن کی تھی وہ لوگوں کی ہدایت کا موجب بن گئی اور اصحاب فیل کو شکست اٹھانی پڑی اور خانہ خدا آج بھی صدیوں کے بعد اپنی عظمت و شکوہ کے ساتھ پا برجا ہے اور دسیوں لاکھ توحید پرستوں کی میزبانی کر رہا ہے اور ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ 

بنابرایں واضح ہے کہ مغرب مسلمانوں، پیغمبر اسلام اور کتاب بزرگ قرآن مجید کے مقابل خود کو بے بس و لاچار محسوس کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود لجاجت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اسلام ستیزی کو ہوا دے رہا ہے اور اسلام دشمنی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں مغرب غیر معقول اور دوران جاہلیت کی طرح جدید اور نئی روشوں سے کام لے رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب نے اپنے غیر منطقی کردار کے ذریعہ اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لئے جو اقدامات انجام دیئے، اس سے اسلام کی طرف لوگوں کی توجہ کے بڑھنے کے اسباب اور بھی زیادہ بڑھ گئے لیکن اس کے باوجود وہ اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ جو اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ مغرب خواستہ یا ناخواستہ طور پر دوران جاہلیت کی طرح عمل کر رہا ہے، کیونکہ قرآن کو جلانے کا عمل دوران جاہلیت کے تعصبات سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے۔

اس وقت مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ آزادی اور جمہوریت کا کچھ زیادہ ہی دفاع کر رہا ہے۔ یہ لوگ بظاہر عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کو عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور دنیا کے ممالک سے چاہتے ہیں کہ وہ اس اعلامیہ کے مطابق اپنے اپنے ممالک میں انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔ اس اعلامیہ میں کسی بھی قسم کے نسلی، قبائلی اور مذھبی اختلافات پر توجہ دیئے بغیر تمام انسانوں کے حقوق کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ مغربی حکام انسانی حقوق اعلامیہ میں تمام تر نقائص کے باوجود اس پر فخر کرتے ہیں اور اسے انسانی حقوق کو پورا کرنے میں ایک اہم اور بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ مغرب کے دعووں اور اس کے عمل وکردار میں تضاد پایا جاتا ہے، اس لئے کہ مغرب میں قرآن سوزی کا مسئلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بالاتر ہے اس لئے کہ قرآن مجید کی توہین یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی توہین ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ مغرب کے سیاست دان اور روشن خیال لوگوں نے سن انیس سو اٹھاسی میں برطانیہ میں توہین آمیز کتاب آیات شیطانی کو جلانے پر اعتراض کیا تھا اور اس عمل کو کتاب سوزی کے بارے میں جرمن نازیوں کے عمل سے تشبیہ دی تھی، حالانکہ اس کتاب میں مسلمانوں کے مقدسات کی بڑی توہین کی گئی ہے۔ لیکن کسی بھی مغربی سیاستداں اور روشن خیال شخص نے قرآن سوزی کے عمل کو جرمن نازیوں کے نسل پرستانہ اقدام اور عمل سے تشبیہ نہیں دی۔ یہ ایسے وقت ہے کہ یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی قدر و قیمت کا دنیا کی کسی بھی توہین آمیز افسانوی کتاب کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 

افغانستان میں قرآن سوزی سے قبل اس عمل کو سن دو ہزار دس میں امریکہ کے ایک پادری ٹیری جونز نے انجام دیا تھا، جو اہل مغرب کی طرف سے قرآن سوزی کے بارے میں بہت بڑا منصوبہ تھا۔ امریکی پادری نے اپنے اس توہین آمیز عمل کی توجیہ کے لئے اسلام کو گیارہ ستمبر کے واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ایک سروے کے مطابق منجملہ امریکہ کا معروف ادارہ گیلوپ کی طرف سے کئے جانے والے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ امریکی صیہونیوں کا ہی تیار کردہ پلان تھا، تاکہ اپنے خیال میں وہ امریکہ کے عوام سمیت عالمی رائے عامہ کو افغانستان و عراق اور ایران پر ممکنہ حملہ کے لئے آمادہ کرنا چاہتے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے چار سال بعد یعنی سن دو ہزار پانچ میں امریکہ کے دو اہم اداروں کیرنگی اور امریکن انٹرپرایز نے اپنی الگ الگ تحقیقات میں اعلان کیا تھا کہ اس وقت کے صدر بش کی طرف سے صلیبی جنگ کے اعلان اور گیارہ ستمبر کے بعد مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے بعد مغربی عوام میں غیر متوقع طور پر قرآن کی طرف رجحان کافی بڑھ گیا اور بہت سے لوگوں نے حقیقت اسلام میں جس طرح سے امریکہ اور صیہونی حکام پیش کر رہے تھے، فرق پایا جس کے نتیجہ میں امریکی شہریوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہو گئی۔ امریکہ میں وارننگ کمیٹی کے نام سے موسوم گروہ نے بھی اس نظریہ کا جائزہ لینے کے بعد اس نکتہ پر تاکید کی تھی۔ 

بنابرایں اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف انجام پانے والے تمام اقدامات کے نتائج نہ صرف اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے مقدسات کو مخدوش نہیں کر سکے، بلکہ اس کے برخلاف اسلام اور قرآن کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ لیکن مغرب والے گاہے بگاہے اس عمل کی مسلمانوں کے امتحان اور آزمایش کے لئے تکرار کرتے ہیں اور اپنی نرم جنگ کے نتیجہ کا جائزہ لیتے رہتے ہیں کیونکہ مغرب والے نرم جنگ میں مختلف قسم کے تشہیراتی وسائل کا استفادہ کرتے ہیں اور لوگوں کے عقاید، سیاست، رفتار و کردار اور ان کی زندگی کے اہم امور کو نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت کو متاثر کر دتیے ہیں۔

افغانستان میں حالیہ قرآن سوزی کے واقعہ سے اگرچہ افغان مسلمان غم و غصہ میں آ گئے، لیکن افغان عوام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے اپنے عقائد خاص طور پر قرآن کا دفاع کیا ہے کہ تیس برس سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے کہ داخلی جنگ اور بے گھر ہونے کی بلاؤں نے ان کے سروں پر سایہ کر رکھا ہے اور وہ زندگی کی ابتدائی سہولیات جیسے پینے کے پانی، صحت عامہ اور بجلی وغیرہ سے محروم ہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے افغانستان پر ایک عشرے سے زائد قبضے کے دوران اس ملک میں ٹی وی چینلز، اخبارات اور غیراخلاقی فلموں کی سی ڈیز وغیرہ فراہم کر دی ہیں، تاکہ اس ملک کی جوان نسل کو اسلامی تہذیب سے دور کر دے۔

امریکہ افغانستان میں نرم جنگ کے ذریعہ اس ملک کے معاشرے کے فکری، ثقافتی، دینی اور سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے بہت سے مبصرین افغانستان میں قرآن سوزی کے واقعہ کو نہ صرف ایک اتفاق نہیں جانتے ہیں بلکہ اسے افغان مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی آزمائش قرار دیتے ہیں۔ اس طرح دنیا خاص طور پر افغانستان کے مسلمانوں کا رد عمل مغرب کے حکام اور سیاستدانوں کے لئے مایوس کن رہا ہے۔

مغرب والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم دین اسلام ميں خیمہ کے ستون کی مانند ہے، لہذا انھوں نے قرآن کے بارے میں ان کے عقائد کو کمزور کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کو اس طرح کی توہینوں سے نہ صرف کوئی نقصان نہیں پہونچے گا بلکہ اس کے برخلاف مسلم و غیر مسلم معاشرے میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گا۔ بہرحال جب تک مغرب میں اسلام دشمنی کا سنجیدگی سے مقابلہ نہیں کیا جائے گا، افغانستان جیسے ممالک میں قرآن جلانے اور مسلمانوں کی توہین کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ صورتحال صرف مسلمانوں ہی کے لئے خطرناک نہیں ہے، بلکہ تمام ادیان الہی اور عالمی امن کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ دوّم )
حجابِ حضرت فاطمہ زھرا (س) اور عصر حاضر کی خواتین
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
آیت اللہ العظمٰی صافی گلپایگانی
قرآن سوزی تمام ادیان الٰہی نیز عالمی امن کے لئے ...
کردارِ شیعہ
اعمال مشترکہ ماہ رجب
بیت المقدس خطرے میں ہے/ فلسطین کی آزادی صرف ...
عظیم مسلمان سا‏ئنسدان " ابو علی سینا "

 
user comment