دو نہروں کے درمیان پر فضا مقام پر مسجد تعمیر کی گئی اسد اللہ الغالب ‘ علی ابن ابی طالب (ع) کے لقب غالب کی رعایت سے نام مسجد غالب تجویز ہوا جس کے عدد بحساب ابجد ۱۰۳۳ ہوتے ہیں مسجد غالب میں اتنی ہی تعداد میں چراغ دان بنوائے گئے تھے۔
حسینی محل‘ عاشور خانہ تھا۔ جہاں محرم میں مجالس عزا برپا ہوتی تھیں خلیل اللہ خان کرمانی کے مقبرہ میں تخت کرمانی لکڑی کا منبر موجود تھا جسے محرم میں رسومات عزا کی ادائیگی کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا تھا۔
پہلے دکھنی مرثیہ نگار آذری کا ذکر صاحب خزانہ عامرہ نے کیا ہے اشرف بیابانی نے ۹ ابواب میں واقعہ کربلا بیان کیا‘ نظم مثنوی کا نام ”نوسرہار“ رکھا۔
عادل شاہ مرثیہ گو شاعر تھا اس کی کلیات میں کئی ایک مراثی موجود ہیں ابراہیم عادل شاہ مرثیہ کہتا تھا اسی کے عہد میں روضتہ الشہداء کا ترجمہ اردو میں ہوا۔
علی عادل شاہ ثانی نے مرثیہ گوئی میں نام پایا۔
مرزا بیچاپوری واحد شاعر ہیں جنہوں نے صرف مراثی سید الشہداء انشا کئے علی عادل شاہ کی فرمائش قصیدہ پر مرزا بیجاپوری نے قصیدہ مدحیہ نہیں لکھا ایک نو تصنیف مرثیہ سلطان کے نام سے منسوب کیا۔ سلاطین بہمنیہ کے دور میں اہل فرقہ و خانقاہ ہی مرثیہ نگاری کی جانب متوجہ ہوئے دوسرے مرثیہ گو شعرا میں۔
نصرتی ‘ شاہ ملک ‘ نادر ‘ ہاشمی شامل ہیں جنہوں نے بیجاپوری مرثیہ گوئی کی روایت مستحکم فرمائی قطب شاہی مملکت میں ایرانی اثر و رسوخ بڑھا گولکنڈہ میں عزاداری اہل بیت کی روایت تہذیبی زندگی کا حصہ ہو گئی۔
محمد قلی قطب شاہ‘ لباس شاہی اتار کرمحرم میں ماتمی لباس پہنتا تھا ملک بھر میں جام وسبو‘ چنگ و رباب کی مناہی ہو جاتی تھی۔
محمد قلی قطب شاہ نے بصرف کثیر بادشاہی عاشور خانہ تعمیر کرائی۔ محمد قلی قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بیت (ع) کے الفاظ لکھنا لکھنوانا پسند کرتا تھا۔
قطب شاہیہ پیشوائے سلطنت میر مومن تھا جو ایام محرم میں شہدائے کربلا ع کے اسمائے گرامی پر علم استادہ کراتا تھا۔ غیر مومن مذہب جعفریہ کی ترویج کے لئے ہمہ وقت درمے‘ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلی قطب شاہ‘ کا بھتیجا اور داماد سلطان بنا عزاداری کو اس کے عہد میں ترقی ہوئی۔
محمد قلی قطب شاہ‘ عبد اللہ قطب شاہ‘ قطبی‘ احمد شریف‘ وجہی‘ غواصی‘ عابد‘ فائز‘ محب‘ لطیف‘ شاہی‘ گولکنڈہ والے مرثیہ گو شعرا تھے۔