اول یہ کہ:روایتوں میں یہ مذمت عورت کے اصل وجود سے متعلق نہیں ہے اس لئے کہ قرآن کریم کی نظر میں مرد اور عورت دونوں کا وجود ،کامل ہے ،مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے بلکہ یہ مذمت فقط بعض عورتوں سے متعلق ہے ۔در حقیقت یہ مذمت مردوں کے لئے ایک یاددہانی ہے کہ وہ بے تقویٰ اور گنہگار عورتوں کے فریب سے بچیں، اس بناء پر یہ مذمت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں بلکہ مردوں سے بھی مربوط ہے ، جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ منافق، شریر، بدمعاش، احمق، حاسد، بخیل، جھوٹے اور فاسد لوگوں کی ہمنشینی اختیار نہ کی جائے اور ان سے مشورہ نہ لیا جائے یہ ایک ایسا عقلی قانون ہے کہ جسے دنیا میں تمام عقلمند انسان قبول کرتے ہیں کہ اگر کوئی سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے تو اس طرح کے لوگوں سے دوری اختیار کرے۔
لہٰذا مرداور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگر چہ مرد کی بہ نسبت عورت کے اندر کشش اور جاذبہ زیادہ پایاجاتا ہے ،مگر اسلام سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ صرف ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو عورت کی مذمت میں آئی ہے پھر بھی سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔
source : http://www.ahlulbaytportal.ir