بھشت میں داخل ھونا ، کسی عنوان یا دعویٰ کے تحت نھیں ھے ، بلکھ بهشت میں داخل ھونے کا معیار " ایمان" اور "عمل صالح" پر استوار ھے ، اس بنا پر جو بھی شخص مذکوره دوھرے زاد راه کو دنیا سے اپنے ساتھه لے جائے گا ، وه آخرت میں اپنے لئے بھشت کی راه کو کھول دے گا ورنھ جھنم میں داخل ھوگا ، مگر یھ کھ مستضعفین میں سے ھو اور خداوند متعال کی وسیع رحمت کےسائے میں قرار پائے یا کسی شفیع کے توسط سے شفاعت پا کر عذاب سے نجات پائے گا۔
اس سلسلھ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے: " جو لوگ بیشک ایمان لائے یا یھودی ، نصاری اور ستاره پرست ھیں ان میں سے جو واقعی اللھ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کےلئے پروردگار کے یھاں اجر وثواب ھے اور کوئی غم اور خوف نھیں ھے" [1]
مذکوره آیھ شریفھ ، اس سے قطع نظر کھ یھود و نصاری وغیره کو بھشت میں داخل ھونے کےلئے کافی نھیں جانتی ھے ، بھشت میں داخل ھونے کے معیار یعنی " ایمان" اور" عمل صالح" کےلئے تاکید کرتی ھے۔
چونکھ ھر دین کا پیرو بننے کےلئے شرط ھے کھ وه دین ، بعد میں آنے والے دین کے ذریعھ منسوخ نھ ھوا ھو۔ اس لئے حضرت موسی علیھ السلام کی پیروی کرنے میں صرف اسی صورت میں شرعی جواز تھا کھ ابھی حضرت عیسی علیھ السلام مبعوث نھیں ھوئے تھے اور اسی طرح حضرت عیسی علیھ السلام کی پیروی اس وقت تک شرعی جواز رکھتی تھی کھ ابھی پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم مبعوث نھیں ھوئے تھے اور گزشتھ ادیان کو منسوخ نھیں کرچکے تھے۔
اس کے علاوه پیری کا صرف دعویٰ کرنا کافی نھیں ھے ، بلکھ اس کے لئے ایمان ضروری ھے اور ایمان ، اعتقادی ، عملی ، اور اخلاقی لوازمات کی پابندی کے بغیر حقیقی ایمان نھیں ھوگا ، اس بنا پر حضرت موسی علیھ السلام کی طرف میلان رکھنے کےلئے ضروری ھے کھ ان کے بعد والے نبی یا انبیاء پر بھی ایمان لایا جائے ، اور حضرت عیسی علیھ السلام کی طرف رجحان رکھنے کےلئے ضروری ھے کھ پیغمبر موعود خاتم الانبیاء کی نبوت کو قبول کیا جائے ، اور نتیجھ کے طور پر نبی اکرم صلی اللھ علیھ آلھ وسلم پر ایمان کا لازمھ ، آپ (ص) کے اوامر اور سفارشات کے سامنے تسلیم محض ھونا ھے پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی سفارشات میں امیر المؤمنین حضرت علی علیھ السلام اور آپ کے گیاره فرزندوں (ع) کی ولایت کو قبول کرنا ھے ، جب تک یھ چیز حاصل نھ ھوجائے اسلام شناسی اور حقیقی دین کی پیروی مکمل نھیں ھوتی ھےاور بھشت میں داخل ھونے کا اجازت نامھ نھیں ملتا ھے۔ [2]
دوسرے الفاظ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی بعثت کے بعد باقاعده مقبول اور مشروع دین "صرف" اسلام ھے [3]، اور ولایت سے عاری اسلام اور واقعی اسلام اور خدا و رسول خدا صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اور قیامت پر مکمل ایمان شمار نھیں ھوتا ھے، کھ بھشت میں داخل ھونے کا اجازت نامھ حاصل ھوجائے ، لھذا ، بھشت تک پھچنے کی تنھا راه تشیع ھے ، پھر بھی صرف شیعھ ھونے کا دعوی کرنا کافی نھیں ھے اور مومن (شیعھ ) کو واقعی ، اور عمل صالح انجام دینے والا ھونا چاھئے تا کھ وه بھشتی بن جائے یا شفاعت میں شامل ھونے کی صلاحیت پیدا کرلے۔
لیکن مستضعفین ( قاصر جاھل ، دیوانے اور بچے وغیره ) جو حقیقت تک پھنچنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے ، وه حکم الھی اور اس کی وسیع رحمت میں شامل ھونے کے منتظر ھوں گے ، ایسے لوگ مذکوره قاعده سے مستثنی ھوتےھیں۔ [4]
البتھ یھاں پر چند تذکروں کی طرف توجھ کرنا فائده بخش ھے :
۱۔ جاھل قاصر وه ھے کھ اس تک حق نھ پھنچے اور حق کو پانے میں اس نے کوتاھی نھ کی ھو ( یعنی تنگ ھے لیکن کوتاھی نھیں کی ھے ) اس لحاظ سے اس کےلئے کوئی گناه نھیں ھے ، کیونکھ اس فرض کے مطابق اس پر حجت تمام نھیں ھوئی ھے اور جب تک حجت الھی تمام نھ ھو، مکن نھیں کھ پروردگار عالم کسی کو سزا دے۔ [5]
لھذا کم از کم تین گروه جاھل قاصر کے زمرے میں تصور کئے جاسکتے ھیں:
الف ) جو لوگ ماحول وغیره کےلحاظ سے ایسی حالت میں زندگی بسر کرتے ھیں کھ حق کا پیغام ان تک نھیں پھنچتا ھے۔
ب ) فکری طورپر مستضعف لوگ: یعنی وه لوگ جو حقائق کو درک کرنے کی طاقت نھیں رکھتے ھیں ، اور ان کی فکر کا چراغ بجھه چکا ھے۔
ج ) وه لوگ،جو جھل مرکب سے دوچار ھیں اور یقین رکھتے ھیں کھ "الف ب" ھے اور یقیناً انکی سنجیده تلاش و کوشش کا نتیجھ ھے ، جب کھ حقیقت میں "الف ب" نھیں ھے۔
لیکن مقصر ، جو عذاب الھی سے دوچار ھوتا ھے ، وه ، ایسا شخص ھے کھ حق اس پر واضح ھوتا ھے اور وه حق کوپھچانتے ھوئے بھی عمدا حق سے منھ موڑ لیتا ھے یا حق تک رسائی کی طاقت رکھتا ھے ، لیکن پھنچنے میں کوتاھی کرتا ھے۔
۲۔ یھ بات قابل توجھ ھے کھ ایمان و کفر صرف عملی و فکری کوششوں کا نتیجھ نھیں ھے ، بلکھ اس میں افکار و طرز عمل کی اجتماعیت کا رول ھے اور اس بنا پر قرآن مجید یادھانی کرتا ھے کھ " اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ھوا کھ انھوں نے خداکی نشانیوں کو جھٹلادیا اور برابر انکا مذاق اڑاتے تھے۔"[6]
لھذا کھنا چاھئے ؛ اگر کوئی شخص کسی برے عمل کا مرتکب ھوئے بغیر اور یا سیاسی اجماعی اور گروھی مسائل میں الجھے بغیر ، ( یعنی جن کاموں کو عقل و شعور کو قبول نھیں کرتا ھے ) سے اجتناب کرے اور اسی حالت میں عالم ھستی کی حقیقت کو پانے کے لئے فکری کوشش بھی کرتا ھو ، لیکن خداوند متعال کے وجود کے بارے میں یقین پیدا نھ کرسکے یا دین و مذھب حق کو نھ پاسکے یا اگر واقعی طورپر کسی نتیجھ تک پھنچے مگر ( نعوذ باللھ ) وه نتیجھ کفر ھو ، تو عدل الھی کی بنیاد پر اس قسم کے انسان سے باز پرس نھیں ھوگی۔
البتھ یھ عقل کے حکم کے لحاظ سے ھے ، لیکن قرآن مجید میں وعده کیا گیا ھے کھ اگر کچھه لوگ خدا کی راه میں سنجدگی کے ساتھه تلاش و کوشش کریں گے ، تو انھیں راھیں دکھائی جائیں گی اور ان کی ھدایت کی جائے گی۔ [7]
۳۔ جو اطفال اس دنیا سے چلے جاتے ھیں ان کے بارے میں اسلامی روایت میں یوں آیا ھے:
الف ) اگر اطفال مومنین کے ھوں:
۱۔ برزخ میں حضرت ابراھیم و ساره ( علیھما السلام ) یا حضرت فاطمھ زھرا سلام اللھ علیھا کی خدمت میں ھوں گے اور وھاں پر ضروری تعلیم پاتے ھیں اور روحانی ترقی سے کمال تک پھنچ جاتے ھیں۔
۲۔ سوره طورکی آیت نمبر ۲۱ کی تفسیر کے ذیل میں آیا ھے کھ : اپنے مومن ماں باپ سے ملحق ھوکر ان کےلئے بھشت میں خوشحالی کا سبب بن جاتے ھیں " [8]
ب) اگر اطفال کفار و منافقین کے ھوں:
۱۔ آیھ شریفھ : " یطوف علیھم ولدان مخلدون" [9] کی تفسیر میں آیا ھے کھ مشرکین اور کفار کے اطفال قیامت میں اھل بھشت کے خدمت گزار ھوں گے ، البتھ یھ ان کے لئے کوئی سزا شمار نھیں ھوگی اور دنیا کی خدمت کے مانند نھیں ھے جو بے احترامی اور تھکن وغیره کا سبب بنے ، بلکھ یھ کام ان کےلئے نشاط ، طراوت اور زیبائی کا سبب ھوگا۔
۲۔ بعض روایات میں اس قضیھ کا علم خداوند متعال پر چھوڑدیا گای ھے اور فرمایا گیا ھے: " خداوند متعال بخوبی جانتا ھے کھ وه کونسا کام انجام دیتے یا کس چیز کے مرتکب ھوتے " [10]
۳۔ خداوند متعال ایک فرشتھ کے ذریعھ ایک آگ کو جلاتا ھے اور انھین حکم دیتا ھے کھ اس آگ میں کود پڑیں۔ ان میں سے ایک گروه ( کے بچے ) آگ میں کود پڑیں گے اور آگ ان کے لئے سرد ھوکر سلامتی کا باعث ھوگی ، جس طرح حضرت ابراھیم علیھ السلام کے لئے ھوئی تھی اور دوسرے گروه ( والے ) آگ میں نھیں کودیں گے صرف پھلے گوه والے اھل نجات ھیں ۔ البتھ دیوانے اور زمانھ فترت ( یعنی دو پیغمبروں کا درمیانی زمانھ جس میں نھ کوئی پیغمبر ھوتا ھے اور نھ حجت ) میں زندگی بسر کرنے والے لوگ ، جن پر حجت تمام نھیں ھوئی ھے ، بھی اس حکم میں ان کے ساتھه شریک ھیں ۔ [11]
۴۔ بعض متکلمین اس امر کے قائل ھیں کھ کفار اور مشرکین کے اطفال نھ بھشت میں ھوں گے اور نھ جھنم میں، بلکھ " اعراف" [12]نامی ایک جگھ پر ھوں گے جھاں پر ان کےلئے نھ کوئی عذاب ھوگا اور نھ کوئی نعمت[13]۔
مرحوم علامھ طباطبائی ، بچوں اور دیوانوں وغیره کے بارے میں فرماتے ھیں: جو کچھه بچوں اور دیوانوں وغیره کے بارے میں قرآن مجید میں بیان ھوا ھے ، وه ایسے جملے ھیں ، جن سے جزئیات ( اور یھ کھ کیا وه اخروی سعادت و بدبختی سے دوچار ھوں گے یا نھیں ) کے حکم کا استفاده نھیں کیا جاسکتا ھے ، کیونکھ آخرت میں لوگوں کے حالات کے جزئیات کوئی ایسی چیز نھیں ھے کھ عقل میں آسکے ، مگر یھ کھ ھم کھیں کھ گناه و مغفرت صرف تکلیف شرعی کی خلاف ورزی تک محدود نھیں ھے ، بلکھ مغفرت کے بعض مراحل دل کی بیماریوں اور برے حالات سے مربوط ھوتے ھیں جو دل پر واقع ھوکر دل اورپروردگار عالم کے درمیان پرده بن جاتے ھیں ، صحیح ھے کھ اس قسم کے افرد عقل کی کمزوری یا عقل کے فقدان کی وجھ سے تکلیف شرعی سے مستثنی ھیں ، لیکن ایسا بھی نھیں ھے کھ برے کام کا مرتکب ھونا ان کے دل پر اثر نھ ڈالے گا اور ان کے دلوں کو آلوده کرکے حق کے درمیان پرده نھ بن جائے گا ، بلکھ اس لحاظ سے وه دوسروں کے مساوی ھیں اور مختصر یھ کھ یھ لوگ بھی تقرب الھی کی نعمت اور بارگاه الھی میں تقرب پیداکرنے کے سلسلھ میں ان بیماریوں کے معالجھ اور ان پردوں کو ھٹانے کے محتاج ھیں اور ان چیزوں کو دور کرنے میں انکی کوئی مدد نھیں کرسکتا ھے ، سوائے پروردگار کی عفو و بخشش کے ، بعید نھیں ھے کھ اس روایت کی مراد ، کھ جس میں کھا گیا ھے کھ: " خداوند متعال لوگوں کو محشور کرتا ھے اور آگ کو بھی خلق کرتا ھے ، پھر لوگوں کو حکم دیتا ھے کھ آگ میں کود پڑیں ، پس جو شخص اس آگ میں کود پڑے گا ، بھشت میں داخل ھوگا اورجو اس حکم کی نافرمانی کرے گا ، جھنم میں داخل ھوگا۔" کے یھی معنی ھوں گے کھ ، آگ سے مراد ان پردوں کو ھٹانا اور ان بیماریوں کا علاج ھے۔ [14]
[1] سوره بقری / ۶۳، مائده ، ۶۹۔ سوره حج،۱۷، ملاحظھ ھو المیزان ج ۱ ص ۱۹۶، ۱۹۲۔
[2] ملاحظھ ھو عنوان " شیعھ اور بھشت " سوال نمبر ۲۴۸۔
[3] سوره آل عمران ئ ۹۱ ۔ ۸۱۔
[4] سوره نساء / ۹۹۔ ۹۷۔
[5] ما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ، اور ھم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نھیں ھین جب تک کھ کوئی رسول نھ بھیج دیں" سوره اسراء / ۱۵۔البتھ انبیاء کو بھیجنے کا مقصد ھر گز صرف احکام صادر کرنے پر ختم نھیں ھوتا ھے ، بلکھ وصول بھی کیا جانا چاھئے ، یعنی اگر کوئی پیغام صادر ھوجائے ، لیکن مخاطب تک نھ پھنچ پائے تو حجت تمام نھیں ھوتی ھے اور حکم کی علت باقری رھے گی۔
[6] سوره روم / ۱۰۔
[7] "و الذین جاھدوا فینا لنھدینم سبلنا " اور جن لوگوں نے ھمارے حق مین جھاد کیا ھے ، ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کرین گے۔۔۔" ( سوره عنکبوت / ۶۹)
[8] بحار الانوار ، ج ۵ باب ۱۳، ص ۲۹۰ ، ج ۶ ص ۲۲۹۔ امالی صدوق ، ص ۲۶۹۔ ۲۷۱۔
[9] سوره واقعھ / ۱۷۔
[10] اللھ اعلم بما کانو عاملین " ۔ " اللھ اعلم بما کانو فاعلین" ۔ ملاحظھ ھو : بحار الانوار ض ۵ ، ص ۲۸۸۔ أ ۲۹۷ ، باب ۱۳۔
[11] بحار الانوار ج ۶۔ ص ۲۹۲۔ ح ۱۴۔ بحار الانوار ، ج ۵ ص ۲۹۵، ح ۲۲۔
[12] مرحوم علامھ طباطبائی متعدد دلائل کی بنا پر قائل ھین کھ سوره اعراف کی آیت نمبر ۴۸ میں " و نادی اصحاب الاعراف رجالا یعرفونھم بسیماھم" رجال اعراف سے مراد مستضعف نھیں ھے ، مزید معلومات کے لئے ملاحظھ ھو ، ترجمھ فارسی المیزان ، ج ۸ ، ص ۱۵۴۔۔ ۱۵۶۔
[13] بحار الانوار ، ج ۵ باب ۱۳ ، ص ۲۹۸۔
[14] ترجمھ فارسی المیزان ، ج ۶ ، ص ۵۳۵۔ و ۵ ۳۶۔
source : http://www.ahl-ul-bayt.org