اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

کیا امام زمان (عج) قرآنی آیات "وراثتِ زمین "کا مصداق ہے ؟!!

حضرت مھدي عجل‌اللہ تعالي فرجہ کے بارے میں ایک شبھہ جو بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت،  قرآن کریم کی وراثتی آیات اور عالمی حکومتی روایات کے مصداق نہیں ہے!!۔ اس تحریر میں، قرآن کریم اور روایات شریفہ کے تناظر میں عالمی انقلاب ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ، شیعہ اور سنی فرقوں کی ، حدیث ثقلین اور امام کی شناخت لازمی ہونا وغیرہ جیسی چار قسموں کی معتبر روایات ، بیان  کرکے اس شبھ کا بھی جواب دی جائے گا اور شیعی عقیدہ ثابت کیا جائے گا!!۔

قرآن کریم میں خداوند متعال کا ارشاد گرامی ہے :

"و لقد کتبنا في الزّبور من بعد الذّکر انّ الارض يرثها عبادي الصّالحون ؛ (1) اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے!۔ "

پہلی بات!

پہلی بات کے طور پر یہاں پر جو بیان کی جائے گی وہ عالمی عمومی انقلاب ہے!،  جس کے بارے میں قرآن کریم (چند جگہوں پر) اشارہ کرتا ہے۔

۱۔ سورہ مبارکہ  نور کی  پچپنویں(۵۵ ) آیہ کریمہ میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

" وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۔۔۔ ! " ؛

" اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا ۔۔۔ !"

2۔  سورہ مبارکہ قصص کی پانچویں اور چھٹی (۵ و ۶)  آیہ کریمہ میں باری تعالی کا ارشاد اس طرح ہوتا ہے :

"وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الأرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ " ؛

" اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں اور انہی کو روئے زمین کا اقتدار دیں اور فرعون وہامان اور ان کے لشکروں کو ان ہی کمزوروں کے ہاتھوں سے وہ منظر دکھلائیں جس سے یہ ڈر رہے ہیں!!۔ "

3۔سورہ مبارکہ انبياء کی ایک سو پانچویں (105) آیہ کریمہ میں خداوند متعال فرماتا ہے :

"وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ" ؛

" اور ہم نے ذکر کے بعد زبور (داوود)میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے!! ۔"

یہ انقلاب اس وقت رونما ہوگا جس  دوران مستکبرین اور ظالمین لوگوں پر  حکومت کرتے ہوں گے ،  خداوند متعال کے بندوں کو کمزوری اور ضعیفی کے عالم میں غرق کرتے ہوں گے ، لوگوں کے اقدار، عقل اور ضمیر کا سودا اور لوٹ مار کرتے ہوں گے اور اس طرح ساری بشریت ہوکے عالم میں کھڑی ہو کے رہ جائے گی!۔ اسی وقت یہ ، ارادۂ خداوندی عملی ہوجائے گا ، مستکبر ظالمین کے ہاتھ سے خکومت اور  ریاست لے لی جائے گی اور کمزور و ضعیف لوگوں کے ہاتھوں میں سپرد کی جائے گی!۔

اس طرح کا عالمی انقلاب گذشتہ زمانے میں پیش آیا ہے۔ جیسے کہ، بنی اسرائیل کی تاریخی تبدیلی ہے، اس زمانے میں فرعون نے ، استکباری سے کام لیا اور زمین پر فساد مچایاتھا۔ خداوند متعال اس بارے میں فرماتا ہے:

"إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الأرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ " ؛

"فرعون نے روئے زمین پر(مصر میں) بلندی اختیار کی اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا وہ لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا، وہ یقینا مفسدین میں سے تھا!۔ " (۲)

یہ سب سے پہلا ایسا تاریخی یقینی واقعہ ہے، جس میں مستکبرین سے خکومت نکل کر صالح اور نیک ضعیف و کمزور لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی ہےنیز مخلتف اقدار ، مختلف سرزمینوں اور   مختلف عہدوں اور  حکومتوں میں یہ عمومی سطح  کا انقلاب رونما ہوسکتا ہے جو کہ خداوند متعال کی ایک یقینی اور قطعی سنت ہے!۔

دوسری بات!

جو شخص عام اور ہمہ جانبہ  عالمی انقلاب کی رہبری اور ہدایت کرے گا، وہ رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کی ذریت میں  ان کا ایک نواسہ مھدی موعود (علیہ السلام) ہے!۔ یہ بات متواتر  صحیح روایات میں موجود ہے۔ (۔ تواتر : ایک فقہی اور اصولی اصطلاح ہے جو روایات اور احادیث کی وثاقت اور ان کے اعتبار اور قابل عمل ہونے کے لئے، متعدد طریقوں میں ایک طریقہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی روایت اگر کسی معصوم سے (قول، فعل اور تقریر کے لحاظ سے) نقل کی گئی ہو تو اس کے نقل کرنے والے روایوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ  یقین ہوجائے ، یہ روایت معصوم سے نقل ہوئی ہےکیونکہ انتی زیادہ بڑی تعداد کسی جھوت اور کذب پر جمع نہیں ہوسکتے ہیں!۔ اور جس روایت میں تواتر ثابت ہوجائے تو اس میں کی شک و گمان کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہےاور اطمیناں سے اس پر عمل و اجراء کیا جاسکتا ہے! جس روایت میں تواتر پایا جائے ، اسے " روایت متواتر" کہا جاتا ہے!۔

 صحیح: یہ ایک فقہی اور اصولی اصطلاح ہے ، صحیح اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے سارے راوی اور ناقل ثقہ ، معتبر اور امامی ہوں ۔ صحیح حدیث کی صفت ہے اور کھبی " روایۃ " کی صفت " صحیحۃ " لائی جاتی ہے،لہٰذا صحیح اور صحیحۃ میں کوئی فرق نہیں سواے اپنے موصوف کے !۔ نیز موثق : یہ بھی ایک فقہی اور اصولی اصطلاح ہے ۔ موثق اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے سارے راوی اور ناقل ثقہ ، معتبر اور امامی ہوں ، لیکن ان میں کم  از کم ایک راوی  مذہب کے اعتبار سے غیر امامی ہو ۔ موثق حدیث کی صفت ہے اور کھبی " روایۃ " کی صفت " موثقۃ " لائی جاتی ہے،لہٰذا موثق اور موثقۃمیں کوئی فرق نہیں سواے اپنے موصوف کے !۔)

 یہ دوسری بات  ہے  کہ جسے حدیث نبوی ثابت کرتی ہےاور مسلمین اس بات پراجماع اور  اتفاق نظر رکھتے ہیں اور اسے حق اور صحیح بات قرار دیتے ہیں۔(۔ اجماع: یہ ایک فقہی اور اصولی اصطلاح ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی بھی حکم پر فقھاء کا اتفاق نظر ہو تو  اس وقت کہا جاتا ہے کہ اس حکم پر اجماع ہے، یہ اصطلاح تقریباً دوسرے علوم نیز ہمارے گفتگو ؤں میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتی ہے!!۔) چنانچہ وہ مذکورہ دوسری بات، قرآن کریم کے حکم سے بھی  ثابت شدہ جانتے ہیں!۔ ان دو بیان کردہ باتوں (۱۔ عالمی عام اور ہمہ جانبہ  انقلاب کا رونما ہونا، ۲ ۔ اس کا رہبر اور  لیڈر  رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کا ایک نواسہ مھدی موعود (علیہ السلام) ہونا!)ان  میں تھوڑا سا بھی شک و شبھہ نہیں پایا جاتا ہے!!۔

تیسری بات!

مھدي منتظر عجل‌اللہ تعالي فرجہ الشریف کہ جس کی خبر حضرت رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے دی ہے، وہ  حجۃ بن علي عليہم‌السلام ہے جو 255 ھجري  کے سال میں، سامراء  کے مقام پر متولد ہوگیا اور خداوند متعال نے اسے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی رکھا!۔

خداوند تعالی نے ظلم و ستم کے زندان سے لوگوں کی نجات دینے کے لئے، شرک اور غیرخدائی کی جڑ اکھاڑ پھیکنے، توحید کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے لئے اور انسان کی طرف سے خداوند متعال کی عبادت و پرستش عملی کرنے کے غرض سے مھدی موعود بھیجے گا اور وہی ہوگا جو پروردگار عالم کی شریعت و قانون اور حدود و احکام احیاء اور اجراء کرے گا!!۔

اھل بيت‌عليہم‌السلام  سے نقل شدہ بہت ساری روایات اور احادیث مبارک سے بخوبی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ مھدی منتظر جس کی بشارت  اور خوشخبری رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے دی ہے!؛ وہ حجت بن حسن عسکري، اھل بيت‌عليھم‌السلام  میں سے بارواں امام ہے۔ ہماری بحث اور گفتگو اسی موضوع پر مرکوز ہے اور اس بحث کے دوران ہمارے مخاطب، وہ لوگ ہیں جو اھلبيت‌عليہم‌السلام  کی حدیث کے حجیت (متواتراور قابل عمل و اطاعت) پر اعتقاد رکھتے ہیں، نیز یہ  کہ وہ بہت ساری کافی، واضح اور صریح (روشن اور  غیر مجمل) دلائل کی بنیاد پر ، امامیہ عقیدہ مخصوصاً یہ کہ  آل محمد عليھم‌السلام کا مھدي منتظر معيّن و مشخص فرد ہے ، اسے علمی طور پر ثابت کرنے کے درپی ہیں!!۔

شیعہ امامیہ اور دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان ، اصلی مسٔلہ " مھدویت"  پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لئے کہ سارے مسلمان بجز کچھ قلیل افراد، اس بات پر اعقتاد رکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کے اھل بیت میں سے مھدی، کو ایک عظیم عالمی انقلاب کے لئے باقی رکھا ہے تا کہ بشریت کو اس کے ہاتھ سے نجات دلائے!۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے اور اس بارے میں نبوی روایات و احادیث ، صحیح اور متواتر ہے۔ جبکہ شیعہ امامیہ اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ فقط "مھدی"  کے معین اور مشخص فرد ہونے میں ہے!!۔

شیعہ امامیہ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مھدي منتظر عجل‌اللہ تعالي فرجہ الشریف،  حجت بن حسن بن عليھم‌السلام  ہیں جو دو سو پچپن(255)ھجري  کے سال میں، سامراء  کے مقام پر دنیا میں آگیا اور خداوند متعال نے اپنی حکمت اور مصلحت کی وجہ سے، اسے پردۂ غیبت میں رکھا، نیز وہ ہی ایسا شخص ہے جسے عظیم خداوند نے بشریت اور انسانیت کی نجات اور آزادی کے لئے باقی رکھا ہے اور پیغمبروں اور الٰھی کتابوں نے پہلے ہی اس کی بشارت اور  خوشخبری بھی دی ہیں!۔ جبکہ غیر شیعہ مسلمین اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ مھدی جس کی بشارت رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے دی ہیں، وہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے ، یا  دنیا میں آیا ہے لیکن ہم اس کا نام وغیرہ نہیں جانتے ہیں!!۔

یہاں پر امامیہ عقیدہ  ثابت کرنے کے لئے دو قسموں کے  دلائل سے ، استدلال اور بحث کریں گے!۔

پہلی قسم کی روایات اور احادیث عمومی اور کلی ہے جو  امام مھدی علیہ السلام سے مخصوص نہیں ہے ،لیکن یقیناً امامیہ عقیدہ  کی بحث میں امام مھدی علیہ السلام کے حق میں بھی جاری ہوتی ہے اور اس میں قابل بیان ہےکیوں کہ وہ بھی بارہ اماموں علیھم السلام میں ایک امام  ہیں جس کا مسلمین عقیدہ بھی رکھتے ہیں!۔ اگر امامیہ عقیدہ  ان روایات میں شامل نہ کیا جائے تو اس طرح کی روایات کے بارے میں کوئی بھی صحیح  اور درست تفسیر و تشریح ہاتھ میں نہیں آئے گی۔ یہ روایات بلا شک و شبہ صحیح ہے!۔ ان میں بعض امامیہ منابع اور مواخذ میں متواتر ہیں اور ان میں کوئی اشکال نہیں پایا جاتا ہے!۔ نیز ان روایات کی بہت بڑی تعداد ہم اہل سنت کے معتبر اور قطعی مواخذ اور مصادر میں بھی ، معتبر یا متواتر اسناد  کی بنیاد پر موجود دیکھتے ہیں!!۔

ان احادیث اور روایات کے صحیح اور حقیقی ہونے پر  ایمان اور اعتقاد  رکھنے سے، امام منتظر کے مشخص اور معین ہونے میں ،  امامیہ عقیدہ علمی طور پر  ثابت ہوجاتا ہے!۔ اس لئے کہ یہ روایات امامیہ کے معروف عقیدے  پر صادق اور جاری ہےنیز ہم ان احادیث اور روایات مبارک کا دوسرا کوئی مصداق ، یا ان کی دوسری کوئی تفسیر  وتشریح   نہیں پاتے ہیں!!۔

 

اس قسم کی روایات اور احادیث  مبارکہ کے  چند نمونے  کچھ اس طرح ہے:

۱ ۔ " حديث ثقلين "  !!

حديث ثقلين: پہلا ایسا حدیث مبارک ہے جس کی بنیاد پر ہم مذکورہ مسٔلہ بیان کرے گے، وہ " حديث ثقلين " ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے جبکہ تواتر کی رو سے، رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم تک اس کی سند پہونچ جاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقوں کے محدثین اس حدیث کے صحیح ہونے پر، اجماع اور اتفاق نظر رکھتے ہیں!۔ مسلمان علماؤں میں میں کوئی بھی ایسا فرد نہیں پایا جاتا ہے جس نے اس روایت کے صحیح اور درست ہونے نیز رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم سے اس کے صادر اور بیان ہونے میں کوئی شک و تردید کا اظہار کیا ہو!۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ مندرجہ ذیل افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے:

جناب مسلم نے کتاب صحيح میں، جناب ترمذي اور  جناب دارمي نے کتاب سنن میں، جناب احمد بن حنبل نے کتاب مسند میں، جناب نسايي نے کتاب خصائص میں، جناب حاکم نے کتاب مستدرک میں، جناب ابو داوود اور جناب ابن ماجہ نے کتاب سنن میں، اس حدیث شریف کو نقل و بیان کیا ہیں !!۔

شیعہ امامیہ کتبابوں میں اس حديث اور روایت کے نقل کرنے کے ذرائع، مدارک اور اسناد اس سے زیادہ ہے کہ اس مختصر تحریر  میں شمار  اور بیان کئے جائے!!۔

اس حدیث شریف " حديث ثقلين" کی تحریر اور متن جو اکثر مواخذ اور مصادر میں نقل ہوا ہے،  یوں ہے:

" اے لوگو!یقیناً  میں انسان ہوں (دوسروں کی طرح)، قریب ہے کہ (موت کے فرشتے کی طرف سے) مجھے پکارا  جائے اور میں بھی اسے جواب دوں گا(موت کا وقت آجائے گا اور مجھے بھی تسلیم کرنا ہے)!۔ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں باقی چھوڑ کے جارہاہوں!۔ وہ دو چیزیں، کتاب خدا اور میری عترت ، میرے اھلبیت ہیں۔ یہ دونوں کھبی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوجائے گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض(کوثر) پر پہونچ جائے!۔ ان پر سبقت نہ لیں کہ (اس طرح) ہلاک ہوجاؤ گے اور انہیں کچھ نہ سکھاؤ، اس لئے کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں!!۔"

یہ حدیث مبارک واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ :

پیغبر اکرم(ص) نے اپنے بعد، امت کی ہدایت اور رہبری کے لئے دو چیزیں باقی چھوڑ دیں جو  اس کے خداوند متعال کا نازل کردہ قرآن کریم اور  اس کے اہلبیت ہیں!!۔

رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے حکم دیا کہ  : ان دونوں کا دامن تھام لوتاکہ (اس طرح) گمراہی سے محفوظ رہ سکو!!۔

دامن تھامنے اور متمسک ہوجانے کے معنی "پیروی اور اطاعت " ہے۔ اس کا مطلب یعنی "حجّت "  ہے جبکہ حجّت اور حجّیت کا مطلب،"پیروی "اور  "اطاعت " کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے!!۔

اس حدیث میں اگر پہلی بات " دو گرانقدر چیزیں باقی چھوڑنا  " کو دوسری بات " ان دونوں کا کھبی بھی ایک دوسرے سے جدا  نہ ہوجانا " سے ایک دوسرے کے ساتھ ملا لیں ، تو ایک اہم قاعدہ ہاتھ میں آجاتا ہے!۔  وہ قاعدہ اور قانون یہ ہے کہ  "ہر زمانے میں اھل بيت‌عليھم‌السلام  میں سے ایک حجّت اور امام موجود ہوتا ہے جو کھبی بھی کتابِ خداوند سے الگ اور جدا نہیں ہوتا ہے!!۔"

ابن حجر صواعق میں یوں بیان کرتے ہیں :

وہ احادیث اور روایات جو کتاب(قرآن کریم) اور اہل بیت کا دامن تھامنے اور متمسک ہوجانے کی ضرورت کی طرف  دعوت دیتی ہے ، وہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ روز قیامت تک ہرگز ، نیک افراد اہل بیت  کا سلسلہ ختم نہیں ہوجائے گا، قرآن بھی اسی طرح باقی رہے گا!!۔ اس لحاظ سے اھلبیت اہل زمین کے امن و نجات اور سکون و آرام  کا ذریعہ ہے،(چنانچہ بعد میں بیان کیا جائے گا)۔ اس بات کا گواہ، ماضی کی خبر  ہے یہ کہ (پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ) : " میری امت کی ہر ایک نسل میں باقی رہنے والے لوگوں میں ، (سب سے) عادل لوگ میرے اہلبیت ہیں!!۔" (۳)

بغیر کسی شک کے، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہمیشہ اھل بيت‌عليھم‌السلام  میں سے ہی ایک حجّت لوگوں کے  امام  کے طور پر ، موجود رہے گا!۔ اس حدیث شریف کے لئے حضرت امام مھدی عجل‌اللہ تعالي فرجہ الشریف کے وجود مبارک، نیز ان  کی حیات،بقاء ، غیبت اور مسلمین پر ان  کی امامت، جیسے کہ شیعہ امامیہ اس کا عقیدہ رکھتے ہیں،  کے علاوہ کوئی اور تفسیر یا مصداق ممکن و میسر نہیں ہے!!۔  اگر ہم اس بات کا اعتقاد نہ رکھیں، تو مسلمانوں کی تاریخ میں جو  صدیاں گذر گئی ہے، ان میں ہرگز اس طرح کا نہ  کوئی مصداق اور  نہ ہی کوئی تفسیر ہاتھ میں آئے گی!۔ نیز نہ ہی آج، اور نہ ہی اس سے پہلے، مسلمانوں میں کوئی ایساشخص پایا جاتا ہے جو یہ دعوی کرے کہ وہ سب سے زیادہ بڑا عالم اور دانا ہے ، لوگوں کو چاہیے اس کی اطاعت کریں، اس پے کوئی سبقت نہ لیں اور اس سے سیکھ لیں نہ کہ  اسے سکھائیں!!۔

اگر یہ پوچھا جائے کہ اس امام کا جو لوگوں کی نظروں سے غائب اور پوشیدہ ہو، اس کا کیا فائدہ ہے؟!، تو ہم یہ کہے گے کہ عظیم خداوند نے، ہمیں امام کی غیبت کے اسرار و رموز سے ، بجز قلیل افراد کے ، آگاہ نہیں کیا ہے!۔ جو بھی خداوند متعال نے اپنا علم ہم سے پوشیدہ و پنھاں رکھا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے اور تھوڑا سا علم و دانش ہمیں عطا کیا ہے!!۔ حضرت رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے ہمیں خبر دی کہ اس کے اہلبیت سے ایک حجّت، لوگوں کے درمیان زمین پر ، روز قیامت تک باقی رہے گی !۔ ہم پیغمبر اکرم (ص) کی فرمائش تعبّداً  اور اطاعت  کے طور پر قبول کرتے ہیں اور جو بھی نہیں جانتے ہیں، اسے جو بھی وہ جانتا ہے ، اس پر چھوڑ دیتے ہیں!!۔

۲ ۔ حدیث شریف "  جو اپنے امام کی معرفت بغیر مرجائے وہ۔۔۔ !! "

یہ حدیث مبارک کہ جو مرجائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو۔۔۔ (4) ، اسے جناب مسلم نے اپنی کتاب صحيح میں نقل کیا ہے!۔ " رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم  سے مروی ، اس حدیث شریف کی نصّ اور عبارت  اس طرح ہے: جو بھی مرجائے اور اس نے اپنے ذمہ پر (امام حقّ) کی بیعت  نہ کی ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔" (۵)

جناب بخاري نے بھی اپنی صحيح جناب نبي‌اکرم صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم  سے روايت نقل کی ہے:

"جو بھی (شرعي) حاکم کی (وسیع حکومت کے دائرے) سے باہر نکل جائے، اگرچہ یہ ایک ہی انچ ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔ " (6)

جناب احمد نے مسند میں، جناب رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم سے نقل کر کے یوں روايت بیان کی ہے:

"جو بھی مرجائے اور اس نے اپنے ذمہ پر  (امام حقّ) کی موجود اطاعت نہ کی ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔" (7)

جناب طيالسي نے بھی اپنے مسند میں، جناب رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم سے نقل کر کے اس طرح روايت بیان کی ہے:

"جو شخص مرجائے بغیر اس کے اپنے عھدے پر موجود (امام حقّ) کی اطاعت کی ہو، وہ جاہلیت کی موت لیکر دنیا سے چلا  گیا ہے!!۔ " (8)

جناب حاکم نے یہی حديث ، مستدرک میں اس طرح نقل کی ہے:

"جو بھی مرجائے اور اس نے اپنے ذمہ پر لوگوں کے(حقّ پرست )  امام کی موجود (اطاعت)  نہ کی ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔ " (9)

جناب حاکم نے شيخين- جناب بخاري و جناب مسلم ۔ کی شرط پر اس حدیث کو صحیح مانا ہے  اور جناب ذھبی نے تلخيص المستدرک  میں اس حديث  کو نقل کیا ہے (10)  اور شيخين کی شرط پر  اسے صحيح قرار دیا ہے ۔ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جناب ذھبی مستدرک کے احادیث کو  صحیح قرار دینے  میں بہت سخت ہے۔ جناب ھمتی نے مجمع‌الزوائد‌ (11) میں،  اس حدیث کو  بہت زیادہ اسناد اور راویوں کے ساتھ نیز مختلف طریقوں سے  بیان کیا ہے!!۔

راویوں کا طریق (ذریعۂ نقل) اور حدیث کے الفاظ، استفاضہ کی حد تک نقل ہوئے ہے۔ (۔استفاضہ: یہ ایک فقہی اور اصولی اصطلاح ہے ، جس سے مراد وہ  روایت ہے جو نہ خبر واحد ہو ( خبر یعنی روایت ، خبر واحد یعنی ایک راوی سے نقل شدہ روایت جو اکثر طور پر ظنی اور  شک کے ہمراہ ہوتی ہے اور قابل عمل نہیں ہوتی ہے لیکن کھبی خاص شرائط کی بنا پر قابل عمل ہوتی ہے!) اور نہ ہی  خبر  متواتر ہو بلکہ اس کے راویوں کی تعداد  ، تواتر  کی تعداد سے کم ہو، لیکن اتنی تعداد ہی یقین اور عمل کے لئے کافی ہو۔ جو روایت اس طرح کی ہو اسے "مستفیض " کہا جاتا ہے۔ مستفیض حدیث کی صفت ہے اور کھبی " روایۃ " کی صفت " مستفیضۃ " لائی جاتی ہے،لہٰذا مستفیض اور مستفیضۃ میں کوئی فرق نہیں سواے اپنے موصوف کے !۔)  لہٰذا  اس طرح ہم نے جان لیا جیسے کہ جناب ذھبی نے بھی گواہی دی ہے ، یہ حدیث صحیح ہے !!۔

امامیہ فرقہ کے موثق و معتبر محدثین نے بھی اس حدیث کو   نقل و بیان کیا ہے۔ ان کے بھی طرق(ذرائع نقل یعنی متعدد اور مخلتف راویان) بہت زیادہ ہیں کہ ان میں بعض صحیح ہیں۔ اس حدیث کا عمومی مضمون اور متن تقریباً متواتر ہے۔ جناب مجلسی (رہ) نے بحار الانوار میں اس کے لئے، " من مات و لم يعرف امام زمانه، مات ميته جاهليّه " کے عنوان سے، ایک باب بیان کیا ہے، نیز  بہت سارے راویوں سے اسی معنی اور مفھوم میں، چالیس احادیث جن کے الفاظ ایک دوسرے سے نزدیک ہے،  نقل کئے ہے!!۔ (12)

الف) پہلا طریقہ اور  ذریعہ :

پہلا طریقہ اور  ذریعہ : وہ کتاب محاسن میں معتبر سند کی بنیاد پر جناب برقي(رہ)  کی، امام صادق عليہ‌السلام سے،  نقل کردہ روایت ہے!۔ اس نے یوں روایت بیان کی ہے:

"زمین (پر بشریت کے تمام حالات ) امام کے بغیر صحیح اور بہتر   نہیں ہوگی اور  جو بھی مرجائے اور اس نے اپنا امام نہ پہچانا ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔" (۱۳)

ب) دوسرا طریقہ اور  ذریعہ :

دوسرا طریقہ اور  ذریعہ :جناب کشّي(رہ)  نے جناب ابن احمد (رہ)  سے ، اس نے جناب صفوان (رہ)  سے ، اور اس نے جناب ابي يسع (رہ)  سے ، روايت نقل کی ہے:

" میں نے امام صادق عليہ‌السلام سے عرض کیا : مجھے اسلام کی بنیادیں بتائیں۔ حضرت نے فرمایا: توحید کی شھادت ۔۔۔، یہاں تک کہ فرمایا:  رسول اللہ نے فرمایا ہے : جو بھی مرجائے اور اس نے اپنا امام نہ پہچانا ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔"  (14)

اس سند اور مدرک کے سارے رجال (راویان) موثق و معتبر ہیں۔ اگرچہ ہمیں اس طرح کی روایات میں، جو کہ شیعہ اور  سنی کی طرف سے بہت زیادہ نقل و بیان ہوئے ہے، سند اور مدرک کی توثیق اور تصدیق کی ضرورت  نہیں ہیں ۔  یہ روایات اور احادیث، چند مندرجہ ذیل حقائق پر دلالت کرتی ہے:

الف۔ امام کے بغیر، زمین پر  امن و امان اور سکون و آرام بحا ل اور قائم نہیں ہوگا!۔

ب)  ہر زمانے میں لازم اور ضروری ہے کہ انسان اپنے زمانے کے امام کو پہچانتا ہو!۔ اس کی معرفت اور شناخت دین کا حصہ اور جز ہے اور امام کی پہچان نہ ہونا اور  اسے قبول  نہ کرنا، جاہلیت ہے!۔

ج)  ہر زمانے میں لازم اور ضروری ہے کہ سارے لوگ  اپنے زمانے کے امام کی پیروی اور اطاعت کریں اور یہ مناسب اور صحیح نہیں ہے کہ اپنے زمانے کے امام کی اطاعت سے سرکشی اختیار کی جائے!۔

د) جو بھی مرجائے اور اس نے اپنے امام کے سامنے سرتسلیم نہ کیا ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔

ھ ) ہر زمانے میں لازم اور ضروری ہے کہ ایک ایسا امام ، جس کی معرفت اور اطاعت واجب اور ضروری ہے ، موجود ہو۔ نیز مختلف زمانے کے دوران  اماموں کا سلسلہ متصل اور قائم رہنا چاہیے اور کسی بھی زمانے میں زمین ان کے وجود سے خالی نہیں رہنی چاہیے!!۔

(۔ توجہ کریں کہ منطق (Logic) میں قضیہ سے مراد  کوئی خبر اور  بات ہے جو مرکب تام  (اور  کامل )ہے کہ جس کے موضوع(Subject) پر صدق یا کذب ، سچ یا جھوٹ ہونے کا حکم  (محمولPredicate)جاری کیا جاسکے اور اس حکم سے اس خبر کو متصف کرسکے!۔ قضیہ کی دو اہم قسمیں ۱۔ حملیہ،  اور  ۲۔  شرطیہ ہے۔

 قضیہ حملیہ سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا قضیہ ہو جس میں ایک چیز کا دوسری کسی چیز کے لئے ہونے نہ ہونے (ثبوت او ر نفی ثبوت) کا حکم موجود ہو ۔ جیسے کہ  سود حرام ہے، انسان مدنی الطبع ہے۔

قضیہ شرطیہ سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا قضیہ جس میں ایک قضیہ اور دوسرے قضیہ کے درمیان پائی جانے والی نسبت اور رابطہ کے ، ہونے یا نہ ہونے (وجود یا عدم) کا حکم موجود ہو۔ جیسے اگر  آفتاب طلوع  ہوجائے ، تو دن موجود ہوگا۔

قضیہ شرطیہ نسبت کے اعتبار سے دو قسموں ، ۱۔ متصلہ ، اور ۲۔ منفصلہ میں تقسیم ہوجاتا ہے!۔

جبکہ قضیہ حملیہ بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی چار قسموں ، ۱۔ شخصیہ ، ۲ ۔ طبیعہ ، ۳ ۔ مھملہ ، اور  ۴۔ محصورہ ، میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

قضیہ خواہ حملیہ ہو خواہ شرطیہ ہو ، اپنے تمام اقسام کے ساتھ ، موجبہ اور سالبہ( مثبت اور منفی ) میں تقسیم ہوجاتا ہے!۔

قضیہ حملیہ موجبہ ، اپنے موضوع کے موجود ہونے اور ثبوت کی وجہ سے تین قسموں ، ۱۔ ذھنیہ ، ۲۔ خارجیہ، اور ۳۔ حقیقیہ ، میں تقسیم ہوتا ہے۔

۱۔ قضیہ ذھنیہ :  کھبی موضوع صرف ذھن میں  موجود ہوتا ہے ، اس صورت میں اسے " قضیہ ذھنیہ" کہا جاتا ہے ، جیسے کہ ہر اجتماع نقیضین ، اجتماع ضدین کے ساتھ فرق کرتا  ہے، ہر کوہ  یاقوت ممکن الوجود ہے۔

۲ ۔ قضیہ خارجیہ : کھبی موضوع خارج  اور ذھن کے باہر  موجود ہوتا ہے، اس طرح کہ اس کے افراد اور مصادیق ، تینوں زمانوں میں سے صرف ایک زمانے؛ ماضی ، حال یا مستقبل میں مدںطر  ہوں ، اس صورت میں اسے  "قضیہ جارجیہ" کہا جاتا ہے، جیسے کہ ہر طا لب علم جو اسکول میں ہوتاہے محنتی ہوتا ہے۔

۳ ۔ قضیہ حقیقیہ : کھبی موضوع حیققت، واقعیت  اور نفس الامر  میں  موجود ہوتا ہے ، اس طرح کہ اس قضیہ کا حکم ، ان افراد اور مصادیق کے لئے بھی ہے جو ابھی اور بالفعل موجود ہیں ، اور ان افراد وار مصادیق کے لئے بھی ہے جن کا وجود فرض اور تصور کیا گیا ہے ۔ اس صورت میں ہر فرد اور مصداق جس کا وجود مفروض اور تصور شدہ ہے، اگر چہ کھبی بھی حقیقی طور پر وجود میں نہ آئے لیکن قضیہ کے موضوع میں شامل ہے اور اس کا حکم اس پر جاری اور لاگو ہوگا  ؛ یعنی جب بھی موضوع وجود میں آجاائے گا تو اس کا حکم بھی آجائے گا ، حکم کا وجود ، موضوع کے موجود پر متوقف اور منحصر و مشروط ہے ۔ اسے " قضیہ ذھنیہ" کہا جاتا ہے ، جیسے کہ ہر انسان عالی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہے، ہر پانی پاک ہے۔

نیز قضیہ حقیقیہ میں حکم  ، موضوع کے موجود ہونے کی شرط پر ، یا حکم،  موضوع کے وجود پر معلق، ہوتاہے!!۔ ایک قضیہ حقیقیہ ، اپنے موضوع کے ثابت اور وجود ہونے پر دلالت نہیں کرتا ہے، بلکہ موضوع کے محقق اور موجود ہونے کے فرض پر، حکم اور محمول ثابت اور جاری ہوجاتا ہے ۔ قضیہ حقیقیہ، ہمیشہ اپنے موضوع کے وجود ہونے  کی شرط پر  محقق اور موجود ہوتا ہے۔

 مزید توضیحات اور تفصیل سے جاننے کے لئے ، منطق کی ابتدائی ،  یا متوسطہ یا  عالی سطح کی کتب کا رجوع کریں!۔)

یہ صحیح  اور مناسب نہیں ہے کہ کہا جائے:

یہ مسٔلہ بھی،  ہر منطقی قضیہ حقیقیہ میں حکم (محمولPredicate) موضوع(Subject) کے موجود ہونے کی شرط پر ، یا حکم موضوع کے وجود پر معلق، ہونے   کی طرح ہے!!۔ اس لئے کہ صحیح ہے ایک قضیہ حقیقیہ ، اپنے موضوع کے ثابت اور وجود ہونے پر دلالت نہیں کرتا ہے، بلکہ موضوع کے محقق اور موجود ہونے کے فرض پر، حکم اور محمول ثابت اور جاری ہوجاتا ہے ، لیکن اس مسٔلہ میں نقل شدہ روایات ، ایک قضیہ حقیقیہ کے معنی سے زیادہ اور الگ مطلب بیان کرتی ہے!۔ یہ روایات اس بات کے ارتباط کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے کہ  لوگوں کے پاس امام کی معرفت ہونا اور اسے قبول کرنا ،  مسلمان ہونے کی ایک شرط ہے اور اگر اس طرح نہ ہو ، تو اسے جاہلیت کی موت درپیش ہے!!۔ یہ مسٔلہ اور قضیہ ہر زمانے میں امام کے وجود ہونے پر دلالت کرتا ہے، جبکہ اس معنی اور مطلب میں نہیں ہے کہ  ایک قضیہ حقیقیہ، اپنے موضوع کوثابت نہیں کرتا ہے۔ قضیہ حقیقیہ، ہمیشہ اپنے موضوع کے وجود ہونے  کی شرط پر  محقق اور موجود ہوتا ہے، لیکن ہم یہاں پر یہ کہتے ہیں کہ جو بھی روایات اور احادیث سے ہم سمجھتے ہیں وہ ، موضوع کا ماضی سے حال اور حال سے مستقبل تک سلسلہ وار استمرار ، دوام اور  دائمی باقی ہونا، یعنی ہر زمانے میں  امام حجّت کا وجود ہونا، ہے جبکہ اس کے یہ نہیں ہے کہ موضوع کے وجود کو ثابت کیا جائے!!۔

دوسری عبارت میں اس باب اور مسٔلہ میں نقل شدہ روایات اور احادیث، خداوند متعال کے قانون اور سنت سے پردہ اٹھاتی ہے، اس کا تقاضا اور مطالبہ، عادل امام کا وجود ہونا ہے،  جس کی اطاعت اور پیروی خداے متعال نے واجب اور ضروری قرار دی ہے اور اس کی پیروی سے سرکشی اور مخالفت کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ہر زمانے میں، ان روایات میں نقل شدہ حکم شرعی ، سنّت الٰھی اور قانون خداوندی کو نمایاں کرتا ہے جو  ،یہی ہے کہ ہر زمانے میں امام کی اطاعت واجب اور ضروری ہونا ہے!!۔

جو سنّت  اور قانون الٰھی اس حکم سے سمجھا جاتا ہے،  وہ سارے زمانوں میں امام کا موجود ہونا ہے، ورنہ  کس طرح یہ ممکن  ہے انسان سے یہ مطالبہ اور تقاضا کیا جائے کہ موت کے وقت بھی وہ اپنے زمانے کے امام کی پیروی اور اس کی بیعت اور اطاعت پر پاپند اور قائم رہے، نہ یہ کہ وہ اپنا عھد و پیمان توڑ دے اور یا اپنے امام کو نہ پہچاننے!!۔ نیز اگر اس نے اطاعت سے  شرکشی کی  یا  وہ اپنی بیعت توڑ دے یا اپنے امام کو نہ پہچاننے، تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے!!۔ اگر اس طرح نہیں ہے، تو پھر کیوںکر سزا اور عقاب میں اتنی سختی سے کام لیا گیا ہے؟!!۔

یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ظالم حکمران اور کافر رہبران نیز وہ لوگ جو خداوند متعال اور اس کے رسول اکرم (ص) کے ساتھ جنگ کرنے نکلے ہیں، وہ اس امام کا مصداق نہیں ہیں جس  کی معرفت لوگوں پر واجب ہے اور ہز زمانے میں اس کے مطیع بن کے رہنا لازمی ہے!!۔ خداوند متعال فرماتا ہے:

" وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ "؛

" اور  خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہّنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست نہیں ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی!!۔ " (15)

نیز   ارشاد باری تعالی اس طرح ہوتا ہے :  " وَلا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ ،الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ وَلا يُصْلِحُونَ " ؛

"  اور زیادتی کرنے والوں کی بات نہ مانو ، جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ہیں  ۔"  (16)

نیز   اور ایک جگہ قرآن کریم میں فرمان الٰھی یوں ہوتا ہے : " ۔۔۔ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ و۔۔۔"؛

"۔۔۔اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کو اپنا حاکم بنائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں۔۔۔ !۔ " (17)

مذکورہ مطالب کی بنیاد پر ہم یہ نتیجہ بیان کرتے  ہیں کہ ان روایات اور  احادیث کی  واحد تفسیر ، فقط وہی ہے جو امامیہ بیان کرتے ہیں اور اس پر اعتقاد رکھتے ہیں!!۔  یعنی جناب رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کے وفات کے بعد، امامت کا سلسلہ اھل بيت‌عليھم‌السلام  کے یہاں موجود ،جاری اور  قائم رہا ہے نیز حضرت امام حسن عسکري علیہ السلام کی وفات کے بعد اس کا سلسلہ ختم نہیں ہوگیا ہے بلکہ ان کے بعد بھی یہ کاروان جاری ہے اور  حضرت مھدي منتظر  عجل‌اللہ تعالي فرجہ الشریف کی ذات  اقدس کی صورت میں ثابت اور قائم ہے!!۔ ہم اس بات کے معتقد نہیں ہیں ایسی اطاعت جو اسلام کے برابر ہے اور اس سے سرکشی جاہلیت کے برابر ہے،  ترک کی جائے!!۔ نیز   یہ اطاعت ان ظالم اور سرکش حکمران اور  روساء افراد کی پیروی کی نہیں ہے جن کے بارے میں خداوند متعال نے حکم دیا ہے اور  ان کے ساتھ دوستی اور رابطہ نہ رکھیں بلکہ  ان سے بیزاری اور دوری  سے کام لیں!!۔

جو بھی  روایات کی اس قسم کو، ابتدائی قسم کی روایات، کے کنارے میں قرار دے گا، تو ان کے درمیان واضح اور روشن تناسب، ہماہنگی اور مطابقت  دریافت کرے گا۔

حدیث شریف ثقلین میں اس طرح آیا ہے :

" یہ بندوں پر خداوند کی حجّت ہیں اور ان کا دامن تھامنا واجب ہے، اس لئے کہ وہ قرآن کے ہم مرتبہ اور برابر ہیں اور  جب تک لوگ ا ن کا دامن تھام لیں گے،ہزگز  گمراہ نہیں ہوجائیں گے !!۔ " (قرآن صامت اور قرآن ناطق ، نیز  اہلبیت (ع) حتی پیغمبر اکرم (ص) نے خود واضح طور پر فرمایا ہے جو  کچھ بھی ان سے کوئی بھی نقل  کرے لیکن وہ قرآن کریم کے ساتھ حقیقت میں ٹکراتا  ہو تو اس قول اور روایت وغیرہ کو دیوار پر پھینک دے اور اس پر عمل نہ کرے بلکہ وہ ہم پر بہتان ہے اور اس کی جھوٹی نسبت ہمارے ساتھ دی گئی ہے ، لہٰذ ا ان کی ہر بات اور عمل کا مرکز، محور اور بنیاد کلام خداوند متعال ہی ہے نہ اور کچھ، وہ قرآن کریم کے عام اور کلی موضوعات اور فرمائشات مکمل طور پر واضح اور کھول دیتے ہیں اور عام لوگوں تک زندگی کے تام شعبوں میں عمومی او رکلی مسائل کے علاوہ دوسرے جزئی امور کے بارے میں بھی قرآنی احکام نشاندہی اور بیان کرتے ہیں !!، لہذا ان دونوں کی معرفت رکھنا او ر دونوں کا دامن تھامنا جبکہ ان سے دوری اور  ان کی سرکشی کس طرح گمراہی کا باعث بنتی ہے ، اس طرح واضح ہوجاتا ہے۔ !!)

اور  دوسری قسم کی روایات میں اس طرح آیا ہے :

ان (جناب رسول‌اللہ اور  اھلبيت‌عليھم‌السلام ) کی  معرفت، دین خداوند کا حصہ اور جز ہے اور ان کی عدم جانکاری اور ناآشنائی گمراہی اور جاہلیت ہے !!۔

لہٰذا  ظالم حکمران احادیث کی اس قسم کا مصداق نہیں ہوسکتے ہیں!!۔

۳ ۔ حدیث شریف " زمین حجّت سے خالی باقی نہیں ہے ۔" !!

یہاں پر اس حدیث شریف  " زمین حجّت سے خالی باقی نہیں ہے !" (18) کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

اس حدیث کو جناب کليني(رہ) ، جناب صدوق (رہ) اور جناب  ابوجعفر طوسي(رہ) جیسے امامیہ کے موثق اور معتبر راویوں نے بہت زیادہ طریقوں اور ذریعوں سے نقل و بیان کیا ہیں نیز  اس روایت کے اسناد اور مدارک کے مختلف طبقات،  تواتر  کی حد تک پہونچ جاتے ہیں جو کہ قابل یقین ہے۔  جناب محمّد بن يعقوب کليني(رہ) نے ، "کتاب الحجه کافی" میں ایک باب "الارض لا تخلو من حجه" کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ (19) جناب علامہ‌ مجلسي(رہ)  نے بھی "بحارالانوار" میں  ایک باب، "الاضطرار الي الحجه و انّ الارض لا تخلو من حجه" کے نام سے بیان کیا ہے اور اس کے ذیل میں ایک سو اٹھارہ (118) احادیث ، اسی حدیث کے مضمون اور عبارت کے مطابق، نقل و بیان کئے ہیں!!۔

جناب محمّد کليني(رہ) ، کافی کے "کتاب الحجه " میں،  "الارض لا تخلو من حجه" باب کے ذیل میں کہتے ہیں:

ہمارے  اصحاب میں ایک جماعت نے جناب احمد بن محمد بن عيسي سے، اس نے جناب محمّد بن ابي عمير سے ، اور اس نے حسين بن ابي العلاء  سے روايت نقل کی ہے کہ اس نے  کہا : میں نے  امام صادق عليہ‌ السلام  کی خدمت میں عرض کیا: کیا زمين،  امام کے بغیر باقی رہے گی؟ ، حضرت نے فرمایا:  نہیں ۔ میں نے پھر پوچھا: دو امام ایک ساتھ موجود ہوسکتے ہیں؟ ، فرمایا : مگر  یہ کہ ایک امامت کی ذمہ داری نھبائے اور دوسرا خاموشی اختیار کرے!!۔ (20)

جناب محمّد کليني(رہ) ، جناب  علي بن ابراھيم (رہ)  سے ، وہ  اپنے والد سے، وہ  جناب محمد بن ابي عمير (رہ)  سے ، وہ  جناب منصور بن يونس (رہ)  اور  جناب سعدان بن مسلم (رہ)  سے ، اور وہ بھی  جناب اسحاق بن عمارسے ، امام صادق عليہ ‌السلام سے نقل شدہ روایت ، بیان کرتے ہیں:

" زمين،  امام کے بغیر باقی نہیں رہے گی !!۔"  (21)

جناب محمّد کليني(رہ)  نے ، جناب محمد بن يحيي سے، اور اس نے  جناب احمد بن محمّد سے ، اس نے جناب علي بن حکم سے، اس نے جناب ربيع بن محمد مسلي سے ، اس نے عبداللہ بن سليمان عامري سے، اور  اس نے امام صادق عليہ ‌السلام  سے روايت نقل کی ہے ،  جس میں حضرت نے فرمایا:

" ہمیشہ زمین پر، حجّت خداوند باقی رہے گی!!۔ " (22)

جناب محمّد کليني(رہ) ،جناب  علي بن ابراھيم سے، وہ  جناب محمّد بن عيسي سے، وہ  جناب يونس سے، وہ  جناب ابن مسکان سے، اور وہ  بھی  جناب ابوبصير سے، دو امام (امام باقر اور امام صادق علیھما السلام) میں ایک امام سے روایت نقل کرتے ہیں:

" خداوند نے ، زمين عالم کے وجود کے بغیر ،  نہیں چھوڑی ہے !!۔"  (23)

جناب محمّد کليني(رہ) ، جناب حسين بن محمّد سے ، وہ  جناب معلي بن محمد سے اور  وہ بھی  جناب وشّاء سے روايت بیان کرتے ہیں:

" میں نے امام رضا عليہ ‌السلام سے پوچھا : کیا زمين، بغیر امام باقی رہے گی؟!۔

حضرت نے فرمایا: نہیں! ، میں نے عرض کیا:  ہم(لوگوں سے) کہتے ہیں اگر عزیز اور عظیم خداوند لوگوں پر اپنے غصے اور قھر سے کام لے، تو زمین باقی نہیں رہے گی!۔

حضرت نےفرمایا : زمین باقی نہیں رہے گی  بلکہ اس  صورت میں ، نابود ہوجائےگی!!۔ " (24)

جناب شريف رضي (رہ) ، نھج البلاغہ میں حضرت اميرالمونین عليہ ‌السلام  سے ایک بات نقل کرتے ہیں جو ہماری بحث سے مربوط ہے ۔ امام عليہ ‌السلام نے فرمایا:

" زمین، اس حجّت سے جو خداوند کے لئے قیام کرے گا ، خالی و باقی نہیں رہے گی، چاہیے وہ عیاں اور مشھور ہو ، چاہیے وہ خوفزدہ اور نامعلوم ہو ، اس لئے کہ خداوند کی حجّتیں اور نشانیاں نابود نہیں ہونی چاہیے!!۔"  (25)

جو بھی یہاں بیان کیا گیا وہ بہت ساری ایسی روایات کا ایک نمونہ تھا جو  متواتر اور یقینی روایات ہیں اور بعض میں ان کے اسناد اور مدارک مکمل ہے!!۔

جو شخص اھل بيت‌عليھم‌السلام   کی فرمائشوں سے آگاہ ہے، وہ  حجّت کی اصطلاح  سے آشنا اور خبردار ہے اور  اس کے لئے  ان  احادیث اور  روایات کی بہت زیادہ شرح اور   وضاحت کی ضرورت بھی نہیں ہے نیز یہ سب اس  بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ امام کا وجود، ہر زمانے میں لازمی اور ضروری ہے!!۔

ان روایات اور  احادیث کی  واحد تفسیر ، فقط وہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر موجود نہیں ہے، جو امامیہ بیان کرتے ہیں اور جس پر  وہ اعتقاد رکھتے ہیں!!۔ یعنی امام  موجو د ہے ،  زندہ ہے اور غائب ہے!۔ اگر یہ اعتقاد معتبر اور صحیح نہ جان لیں، تو ان کثیر اور متواتر روایات کی دوسری کوئی تفسیر کہیں سے بھی  نہ ہی بیان کرسکتے ہیں اور نہ ہی حاصل کرسکتے ہیں!!۔

4 ۔  حديث شریف " بارہ امام " !!

جناب بخاري " کتاب الاحکام  " میں یہ حدیث اس طرح صحيح  قرار دیتے ہے کہ جناب جابربن سمره  نے کہا:

" میں نے سنا پیغمبرصلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے فرمایا : بارہ امیر (رہبر، سردار اور خلیفہ ) ہوں گے !۔ اس کے بعد ایک اور بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی!۔ میرے والد نے کہا کہ پیغمبر نے فرمایا : وہ سارے قریشی ہیں!!۔ "

جناب مسلم نے  " کتاب الاماره میں ، الناس تبع لقريش"، کے ذیل میں اس حدیث کو صحيح قرار  دیکر بیان  کرتے ہےکہ :

" جابربن سمره  نے کہا: میں نے سنا پیغمبر  نے فرمایا : اگر بارہ افراد لوگوں پر حکم جاری کریں گے، ہمیشہ ان کا عمل صحیح ہوگا !۔ اس کے بعد ایک اور بات فرمائی جو میں نہیں سمجھی !۔ میں نے والد سے کہا پیغمبر نے کیا فرمایا ؟ ، کہا کہ : وہ سارے قریشی ہیں!!۔"  (26)

جناب مسلم اسی کتاب میں اسی عنوان کے ذیل میں، جناب جابر بن سمره  سے نقل کرتے ہے کہ :

" میں نے سنا رسول صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے فرمایا : بارہ خلیفہ کے ساتھ (سایہ میں ) ، اسلام ہمیشہ  باعزت رہے گا !۔ اس کے بعد ایک اور جملہ فرمایا جو میں نہیں سمجھا !۔ میں نے والد سے کہا پیغمبر نے کیا فرمایا ؟ ، کہا کہ : وہ سارے قریشی ہیں!!۔"  (27)

جناب مسلم، " کتاب الامارہ " میں اس حدیث کو صحیح قرار دیکر ، جناب جابربن سمرہ سے نقل کرتے ہے:

" میں اپنے والد کے ساتھ پیغمبر کے پاس گیا  اور  میں نے سنا کہ  انہوں نے فرمایا : امّت کی حالت، بحال نہیں ہوگی مگر یہ کہ بارہ خلیفہ ان کے درمیان موجود ہوں۔ اس کے بعد ایک اور بات فرمائی جو میں نہیں سمجھی !۔ میں نے والد سے کہا پیغمبر نے کیا فرمایا ؟ ، کہا کہ : وہ سارے قریشی ہیں!!۔ " (28)

جناب ترمذي،  " کتاب الفتن " میں " ما جاء في الخلفاء" باب کے ذیل میں جناب جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ہیں: " رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم  نے فرمایا : میرے بعد، بارہ امیر (رہبر، سردار اور خلیفہ ) ہوں گے !۔"

جناب ترمذي مزید یوں بیان کرتے ہیں :

" ابوعيسي (ترمذي) کہتا ہے : یہ حديث صحيح ہے ۔ " (29)

جناب ابو داوود ،"  سنن " میں ، جناب جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ہیں:

" میں نے سنا رسول صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم نے فرمایا : بارہ خلیفہ کے ساتھ (سایہ میں ) ، یہ دین  ہمیشہ  باعزت رہے گا !۔لوگوں نے " اللہ اکبر " کی فریاد دی ۔  اس کے بعد ایک اور بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی!۔ میں نے والد سے کہا  :ابو! کیا  فرمایا ؟ ، کہا کہ : وہ سارے قریشی ہیں!!۔"  (30)

جناب حاکم ، " کتاب معرفہ الصحابہ "  میں ، مستدرک  کے حوالے سے ، جناب جابر سے یوں نقل کرتے ہیں:

"میں رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کے پاس تھا اور میں نے سنا، کہ فرمایا : بارہ خلیفہ کے ساتھ (سایہ میں ) ، امّت کی ذمہ داری اور صورتحال ہمیشہ  آشکار رہے گی !۔ "

جناب احمد بن حنبل، " مسند" میں اس طرح کہتے ہیں :

"یہ حديث جابر  سے ،  چونتیس طریقوں سے نقل ہوئی ہے!۔" (31)

جناب ابو عوانہ ، بھی اس حديث  کو اپنے "مسند " میں ذکر کرتے ہیں!۔  (32)

جناب ابن کثير نے البدایہ و النہايہ میں (ج 6/ ص 248)، جناب  طبراني نے المعجم الکبير میں (ص 94 و 97)، جناب المناوي نے کنوز الحقايق میں (ص 208)، جناب سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں (ص 61)، جناب عسقلاني نے فتح الباري میں (ج /13 ص 179)، جناب بخاري نے التاريخ الکبير میں (ج 2/ ص 185)، جناب خطيب نے تاريخ بغداد میں (ج 14/ ص 353)، جناب العيني نے شرح البخاري میں (ج 24/ ص 281) ، جناب حافظ حسکاني نے شواھد التنزيل میں (ج 1/ ص 455)  اور جناب قسطلاني نے ارشاد الساري میں (ج 10/ ص 328) وغیرہ  ،  مذکورہ حدیث نقل و ذکر کئے ہیں!!۔

بہت زیادہ متواتر طریقوں اور ذریعوں سے امامیہ محدثین نے ، اس حدیث کی سند بیان کی ہیں!۔ ان میں بعض اسناد صحیح بھی ہے جو ناقابل شک وگمان ہے!!۔

جناب شيخ حرّ عاملي (رہ)  نے  ، اپنی عظیم کتاب " اثبات الھداہ " کے دوسری جلد میں ،  بارہ اماموں کی امامت کے بارے میں، نو سو ستائیس (۹۲۷) روایات جن کی عبارت اور مضمون ایک دوسرے کے قریب ہے، نقل کئے ہیں، جبکہ ان میں بہت ساری روایات میں واضح اور روشن طور پر ، بارہ اماموں کی تعداد، اماموں کے نام بھی ذکر ہوئے ہے۔ بعض روایات کی اسناد اور مدارک، صحیح اور  بلااشکال ہے ارو بغیر کسی مشکل کے تواتر کی حد تک پہونچ جاتے ہے!۔ جیسے کہ :

پچانویں روايات کافي (کليني)میں ، ترپن احاديث عيون‌الاخبار (صدوق) میں ، بائیس احاديث معاني الاخبار (صدوق) میں ، بیانویں روايات کمال‌الدين (صدوق)، بائیس روايات امالي (صدوق) میں ، اٹھارہ احاديث الغيبہ (شيخ ابو جعفر طوسي) میں اور  گیارہ روايات مصباح المتھجد (طوسي)  میں ، ذکر  ہوئے ہیں !!۔

ہمارے پاس کوئی معقول دلیل نہیں ہے کہ ہم  ایسی روایت اور حدیث  میں شک اور گمان سے کام لیں جسے نو سو ستائیس طریقوں اور ذریعوں سے معتبر اور موثق راویوں نے نقل اور بیان کیا ہیں!!۔

اس حدیث کے بارے میں چند نکات ملاحظہ کریں :

۱ ۔  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حدیث شریف " اثنا عشرخليفہ (بارہ خلیفہ )"، رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم  سے مروی ہے جو دونوں شیعہ اور سنی  فرقوں نے بہت سارے طریقوں سے ذکر اور نقل کی ہیں!۔ اہل سنت کی طرف سےجناب  بخاري اور  جناب  مسلم ، نیز  اہل تشیع کی طرف سے جناب کليني  ،  جناب صدوق  اور  جناب  شيخ‌ طوسي کی طرف سے نقل کردہ روایت  کی وثاقت معلوم کرنے میں ،   ہمیں دوسرے راویوں سے بے نیاز کرتی ہے!!۔

۲ ۔ یہ احادیث اور روایات واضح اور آشکار  طور پر کہتی ہے کہ ان میں ذکر  ہونے والے امام، برحق ہیں نیز  معاویہ ، یزید ، ولید اور متوکل جیسے ظالم اور  غیر عادل حکمرانوں اور رہبروں کے صف میں شامل نہیں ہیں!۔

۳ ۔ ان اماموں کی تعداد بارہ ہے جو بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد بھی تھی !۔

عظیم خداوند یوں ارشاد فرماتا ہے : " وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا۔۔۔ " ؛

"  اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب بھیجے (جو ہر نسل کے پیشوا اور رہبر ہوں گے)۔۔۔ ۔" (33)

4۔ کوئی بھی زمانہ اور  وقت ، ان (اماموں) کے بغیر باقی نہیں ہوگا!!۔

ان تمام احادیث اور روایات کا مصداق اور ان کی تفسیر و تطبیق بارہ اماموں کے بغیر، جن کا آخری بارواں امام "مھدي منتظر عجل‌اللہ تعالي فرجہ الشریف"  ہیں نیز  وہ سب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے یہاں معلوم اور مشھور ہیں اور وہ  ان پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں،   کوئی بھی اور مصداق یا تفسیر ہاتھ میں نہیں آسکتی !!۔

اگر اس تلاش اور  سختی کا ملاحظہ کیا جائے جو جناب سیوطی جیسے علماء نے  اٹھائی ہیں تاکہ رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کے بعد بارہ امیر اور خلیفہ مرتب اور بیان کریں، تو یہ دیکھ کر  ہمارا دل مطمئن ہوجاتا ہے کہ رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کا مقصود اور  منظور ، بارہ امام اہلبیت علیھم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ جو دلیل اور وضاحت جناب سیوطی نے اس حدیث کے ذیل میں بیان کی ہے ، اس پر  محمود ابو ريہ نے اچھا حاشیہ لکھا ہے :

"خداوند اس شخص کو بخش دے جو یہ کہے سیوطی (اپنی اس دلیل اور وضاحت کی بنا پر) ایسے شخص کی طرح ہے جو رات بھر اندھیرے میں لکڑیاں  جمع  کرنے نکل جائے (تاکہ جو بھی وہاں ہاتھ میں آجائے اسے جمع کرے)!!۔"  (34)

جو بھی ہم نے یہاں پر ذکر کئے ، وہ چار قسم کی روایات اور احادیث مبارکہ پر مشتمل تھا  جو سند اور دلالت کے اعتبار سے ناقابل شک و شبھہ ہے۔ نیز اگر  ہم ان   احادیث  کو ایک دوسرے کے کنارے میں بھی بیان کریں گے تو ان کا حقیقی، دقیق اور عمیق مصداق اور مقصد ،  شیعہ امامیہ اثناعشریہ کے عقیدہ کے بغیر ہزگز کوئی اور نہیں بن سکتا ہے !!۔

وہ افراد جو  امام زمان (عج) کی غیبت اور انتظار قبول  نہیں کرتے ہیں، جیسے اسماعلیہ۔  اس طرح کے  افراد بھی ان چار قسموں کی روایات کی صحیح اور حقیقی تفسیر بیان نہیں کرسکتے ہیں، اس لئے کہ ان کا عقیدہ چوتھی قسم کی روایات، یعنی وہ احادیث جو اس بات پر واضح  دلالت کرتی ہے کہ رسول‌اللہ صلي‌اللہ عليہ والہ وسلم کے بعد خلیفوں کی تعداد بارہ امام یا امیر (رہبر، سردار) ہے  ، اس کے مطابق نہیں ہے!!۔

اسی بنا پر تاریخ اسلام میں ان احادیث اور روایات کی تطبیق و تفسیر اور مصداق ، شیعہ امامیہ کے عقیدہ میں منحصر ہے، نہ کہ دوسری طرح کے بیان ہونے والے یا مرتب کرنے والے مصادیق میں !!۔ مذکورہ یہ استدلال اور اثبات،  وہی  مطابقت، دلالت اور انحصار  ہے جو ابتداء میں ہم نے کہا تھا !۔

ان روایات کو بارہ امام اھلبیت(ع)  (ان کے بارویں غائب امام ، مھدی منتظر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) پر جاری اور تطبیق کرنا ، یقینی اور ضروری تطبیق اور تفسیر ہے اور  اس کام میں مزید بہت زیادہ علمی تلاش کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنی تعداد کی روایات اور احادیث مبارکہ  کا صحیح اور حقیقی مصداق معین کرنے اور اسے پانے کے لئے ، فقط کافی ہے کہ انسان پاک بینی اور نیک نیتی سے کام لے نیز   گذشتہ تعصبی افکار  او رغلط تصوروں سے اپنا ذہن خالی کرے!!۔

حوالہ جات :

1 ۔ سورہ مبارکہ انبياء / آیہ کریمہ  105.

2 ۔ سورہ مبارکہ قصص /آیہ کریمہ  4.

3۔الصواعق المحرقہ ، ص 149۔

4۔من مات و لم يعرف امام زمانہ مات ميتہ جاھلیہ ۔

5۔ صحيح مسلم، کتاب‌ الاماره، باب الامر بلزوم الجماعہ عند ظھور الفتن، ج 6، ص 22۔

6۔ صحيح البخاري، کتاب الفتن، باب دوم۔

7۔ مسند احمد، ج 1، ص 416۔

8۔ مسند الطيالسي، چاپ حيدرآباد، ص 259۔

9۔ المستدرک حاکم۔

10۔ تلخيص المستدرک، ذھبي، ج 1، ص 77۔

11۔ مجمع الزوائد، ميتمي، ج 5، ص 218 225۔

12۔ بحار الانوار، ج 23، ص 93- 76۔

13۔اس روایت کے رجال (راوی) سارے موثق ہیں ۔

14۔ بحار الانوار، ج 23، ص 90، رجال کشّي، ص 267- 266۔

15۔ سورہ مبارکہ ھود / آیہ کریمہ   113۔

16۔ سورہ مبارکہ شعراء / آیہ کریمہ   152- 151۔

17۔ سورہ مبارکہ نساء / آیہ کریمہ   60 ۔

18۔ لا تخلو الارض من حجہ  ۔

19۔ الکافي، ج 1، ص 178۔

20  ۔  مذکورہ حوالہ  ۔

21 ۔ مذکورہ حوالہ  ۔  اس روایت کے سارے راوی موثق ہیں ۔ ابراھيم بن ھاشم، علي بن ابراھيم  کے والد ہے۔ علامہ  نے، خلاصہ میں ، ان سے روایت اخذ  اور نقل کرنے  میں ترجيح  دی ہے۔ ان کے فرزند جناب علي بن ابراھیم نے  تفسير  میں ان سے بہت زیادہ روایت نقل کی ہے۔ وہ تفسیر کے مقدمہ میں  بیان کرتے ہیں کہ وہ موثق راویوں سے روایت نقل کرنے کا پاپند ہے۔ ابن طاووس ، امالي صدوق  سے روایت نقل کرتے وقت ، جس میں ابراھيم بن ھاشم   کی سند کا حوالہ  موجود ہے ، کہتے ہے : " حدیث کے سارے راوی موثق  ہیں!!"۔

22۔  مذکورہ حوالہ  ۔ علي بن حکم کی وثاقت کو ہمارے فقیھوں نے معتبر قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ اس کا نام علي بن ابراھیم قمي کی کتاب تفسير  کے اسناد میں ذکر ہوا ہے۔

23۔  مذکورہ حوالہ  ۔

24۔  مذکورہ حوالہ  ، ج 1، ص 179۔ سند معتبراور  کامل ہے۔ حسين بن محمد اشعري، شيخ کليني  کے پاس موثق ہے، معلي بن محمد بصري ہے ۔ تفسير قمي  میں ذکر ہواہے کہ وہ، ثقہ(موثق) ہے ۔ وشّاء، حسن بن علي بن زياد  ہے ۔  بعض افراد اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ : " اس کی وثاقت میں، شک و تردید جاری اور  مناسب نہیں ہے ۔ "

25۔ نھج‌البلاغہ، حکمت 147۔

26۔ صحيح مسلم، ج 6، ص 3، ح 6، "کتاب الاماره" کے " الناس تبع لقريش"  باب میں ۔

27۔  مذکورہ حوالہ  ، ج 8 ۔

28۔  مذکورہ حوالہ  ۔

29۔ سنن الترمذي، ج 4، ص 501، چاپ مصطفي البابي الحلبي ۔

30۔ سنن ابي داوود، ج 2، ص 421، چاپ مصطفي البابي الحلبي، " کتاب المھدي "    کے آغاز   میں ۔

31۔ مسند ابي عوانہ، ج 4، ص 396 و 398 و 399۔

32۔  مذکورہ حوالہ  ۔

33۔ سورہ مبارکہ مائده / آیہ کریمہ  12۔

34۔ اضواء علي السنہ المحمديّہ، ص 212، چاپ دار التأليف، مصر۔


source : http://www.theislamicworld.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا انسان میں برزخ اور قیامت کی نعمتوں اورعذ اب ...
کیا اسلام سے پہلے لفظ " اللہ" کا استعمال ہوتا ...
افسانه غرانیق کیا هے؟
کیا شب قدر اختیار کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟
جناب قمر بنی ہاشم کے لیے بجائے ولادت کے طلوع کا ...
آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟

 
user comment