اسلامی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رجعت سب لوگوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ اعمال صالحہ انجام دینے والے مومنین کے لئے ہے جو ایمان کے بلند درجہ پر فائز ہیں، اور اسی طرح ان ظالم و سرکش کفار کے لئے ہے جو کفر و ظلم میں غرق ہیں۔
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ زندگی مومنین کے لئے کمال کے درجات حاصل کرنے کے لئے ہے اور دوسرے گروہ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ وہ مخلص مومنین جو معنوی کمال حاصل کرنے میں موانع اور مشکلات سے دوچار ہوگئے تھے اور ان کی معنوی ترقی نامکمل رہ گئی تھی تو حکمت الٰہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسے مومنین کودوبارہ زندگی دی جائے اور وہ کمال کی منزلوں کو مکمل کریں، حق و عدالت کی عالمی حکومت کو دیکھیں، اور اس حکومت میں شریک ہوں کیونکہ ایسی حکومت میں شریک ہونا ہی بہت بڑا افتخار ہے۔
ان کے برخلاف کفار و منافقین اور بڑے بڑے ظالم و جابر روزِ قیامت عذاب کے علاوہ اس دنیا میں بھی سزا بھگتیں گے جیسا کہ گزشتہ سرکش اقوام جیسے قومِ فرعون ، قومِ عاد، قومِ ثمود اور قومِ لوط اپنے کیفر کردار تک پہنچی ہیں، اور یہ صرف رجعت کی صورت میں ممکن ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”إنَّ الرَّجْعةَ لَیْسَتْ بِعَامَةٍ، وَھِیَ خَاصَّةٍ لَا یَرْجعُ إلّاَ مَنْ مَحضَ الإیمَانُ مَحْضاً، اٴوْ مَحضَ الشِّرْکِ مَحَضاً“(7) ” رجعت عام نہیں ہوگی بلکہ خاصہوگی، رجعت صرف انھیں افراد کے لئے ہے جو خالص مومن یا جو خالص مشرک ہیں“۔
ممکن ہے کہ سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۹۵ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ ارشاد ہواہے: <وَحَرَامٌ عَلٰی قَرْیَةٍ اٴَہْلَکْنَاہَا اٴَنَّہُمْ لاَیَرْجِعُونَ >”اور جس بستی کو ہم نے تباہ کر دیا ہے اس کے لئے بھی نا ممکن ہے کہ قیا مت کے دن ہمارے پا س پلٹ کر نہ آئے“کیونکہ نہ لوٹایا جانا انھیں لوگوں کے بارے میں ہے جو اسی دنیا میں اپنے کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں، اور اس سے یہ بھی
روشن ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں ان کو دوبارہ اس دنیا میں لوٹا کر ان کو سزا دی جائے گی۔ (غور کیجئے )
یہاں یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ ان دو جماعتوں کی بازگشت تاریخ بشریت کے اس خاص زمانہ میں (قیامت کے لئے ) دو عظیم درس اور عظمت خدا کی دو نشانیاں ہوں گی ،تاکہ مو منین ا ن کو دیکھنے کے بعد معنوی کمال اور ایمان کے بلند درجات تک پہنچ جائیں اور کسی طرح کی کوئی کمی باقی نہ رہ جائے۔(8)
________________________________________
(1) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۵۱۱ (مادہ رجع)
(2)سورہ بقرہ ، آیت ۲۴۳
(3)سورہ بقرہ ، آیت ۵۶
(4) ”عقائد الامامیہ “شیخ محمد رضا المظفر صفحہ ۷۱
(5) بحار الانوار ، جلد ۵۳، صفحہ ۱۲۲
(6) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۵، صفحہ ۵۵۵
(7) بحار الانوار ، جلد ۵۳، صفحہ ۳۹
(8) تفسیر نمونہ ، جلد۱۵، صفحہ ۵۵۹
source : http://www.ahl-ul-bayt.org