اشارہ
بعض اوقات انسان اپنا کوئی اثر نھیں چھوڑتا اور بے نام و نشان مرجاتا ھے، بعض اوقات اس دنیا میں اپنا اثر چھوڑتا ھے اور مرنے کے بعد بھلا دیا جاتا ھے، لیکن کبھی ایسے افراد بھی پیدا ھوتے ھیں جو ھر زمانہ کے لئے اثر گزار ھوتے ھیں، تاریخ میں اس طرح کے افراد ان تین قسموں میں سے ھوتے ھیں:
تاریخی مادی اور ظاھری وجود۔
تاریخی فعلی اور رفتاری وجود۔
تاریخی نظری وجود۔
تاریخی مادی وجودمختلف صورتوں میں ظاھر ھوتا ھے، جیسے انسان کے وجود کا سلسلہ اس کی اولاد اور نسل کے ذریعہ اور آرامگاہ اور ملموس عینی آثار جیسے ھنرمندوں کی ھنر نمائی کے آثار۔
تاریخی فعلی اور رفتاری وجود، چاھے مثبت ھوں یا منفی، انسان کے ان طور طریقوں، عادتوں اور کردار کے ذریعہ ھوتا ھے جن کی انسان بنیاد رکھتا ھے اور ان کو رائج کرتا ھے، ھماری دینی زبان میں ایسے مستحکم اور باقی رھنے والے کردار کو ”سنت“ کھا جاتا ھے۔
تاریخی نظری وجودبھی انسانی اور دینی عظیم الشان تعلیمات اور بلند و بالا شخصیت کے ذریعہ ھوتا ھے جو سبھی (صاحب نظر سے لے کر عام افراد تک) کے لئے اور ھمیشہ کے لئے اپنی تعلیمات میں مشغول کردیتا ھے۔
خلاصہ یہ ھے کہ بعض افراد ان تین پھلوؤں میں سے کسی ایک یا تینوں پھلوؤں میں تاریخ میں باقی رھنے کی قابلیت اور صلاحیت رکھتے ھیں۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا تینوں پھلوؤں میں تاریخی روشنی اور بقارکھتی ھیں:
۱۔ مادی پھلو
حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کا مادی و عینی (یعنی ظاھری) وجود ان کی نسل کے ذریعہ جن کی تعداد تقریبا۰۰۰۰۰ً,۵۰۰ ھے اور ان سے پھلے ائمہ علیھم السلام اور صالح علماء کے ذریعہ ھے، اور یہ امتیاز صرف جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا سے مخصوص ھے اور تاریخ میں کوئی بھی خاتون ایسی نھیں ملے گی جس کا تاریخ کے اوراق پر اس قدر مستحکم اور مسلسل تذکرہ ملتا ھو۔
آرامگاہ کے لحاظ سے بھی تعجب خیز ھے کیونکہ دوسرے جیسے سعدی، حافظ، ابوعلی سینا، تاج محل (جو دنیا کے سات عجائب گھروں میں سے ھے) میں شاہ جھاں اور نور جھاں اپنی اپنی آرامگاھوں میں مادی وجود رکھتے ھیں اور حضرت زھرا سلام الله علیھا کی قبر کا معلوم نہ ھونے کے ساتھ ساتھ بھی حضور رکھتی ھیں جس کو آج کل ”تناقض نما“ کھا جاتا ھے۔
کبھی حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کا مادی وجودوسیع اور ممتاز صورت میں اس طرح ظاھر ھوا کہ جب افریقہ میں فاطمیوں نے حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے نام سے حکومت کی بنیاد رکھی۔
ناصر خسرو علوی کا باقی رھنے والا واقعہ اسی مادی حضور کا پرتو ھے جب انھوں نے یہ نعرہ دیا: ”فاطمی ام ، فاطمی ام ، فاطمی“(میں فاطمی ھوں، فاطمی ھوں، فاطمی)
استاد محمود عقّاد نے ”فاطمة و الفاطمیون“ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی جس میں فاطمیوں کی حکومت کے بارے میں تفصیل بیان کی۔
جامع الازھر (جو کہ اھل سنت کی سب سے بڑی یونیورسٹی ھے) کی بنیاد مصری فاطمیوں نے حضرت زھرا سلام الله علیھا کی یاد میں رکھی۔
۲۔ نظری پھلوی
نظری پھلو میں بھی حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کا حضور وسیع اور روشن ھے اور اس کی دو وجوھات ھیں:
ایک آپ کی باقی رھنے والی تعلیمات اور احادیث ھیں۔
دوسرے آپ کے سلسلہ میں ھونے والی تحقیقات ھیں۔
اس سلسلہ میں جس چیز کی طرف مزید توجہ کی ضرورت ھے وہ یہ ھے کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی بے انتھا عظمتوں کے سلسلہ میں ھونے والی تحقیقات ھر مذھب و ملت اور زمان و مکان سے بالاتر ھے ، حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی عظمت نے ھر زمانہ میں اور ھر مقام پر تمام انسانوں کی عقلوں کو مسخر کرلیا ھے۔
کتاب ”فاطمة الزھراء [1]کے موٴلف نے ۴۴/ قلمی کتابوں کے نام لئے ھیں جو گزشتہ زمانہ سے اس وقت تک مختلف مذھب کے علماء اور محققین نے لکھی ھیں اسی طرح ۲۹/ مطبوعہ کتابوں کا تذکرہ کیا ھے جو بی بی دو عالم کے سلسلہ میں تالیف ھونے والی بے شمار کتابوں کا ایک حصہ ھے۔
موصوف کی کتاب ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء میں تالیف ھوئی ھے، اس زمانہ سے آج تک حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے سلسلہ میں بہت زیادہ کتابیں تالیف ھوچکی ھیں جن کے پیش نظر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ھے کہ ان کتابوں کی تعداد ان سے کھیں زیادہ ھے جو اس (موصوف کے) زمانہ تک لکھی گئی ھیں، خود مذکورہ موٴلف نے تین سو مدارک و مآخذ کا ذکر کیا ھے جن میں حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی سوانح حیات موجود ھے۔
۱۳۸۷ھ میں جو واقعہ پیش آیا وہ بھی قابل توجہ ھے اور وہ یہ ھے کہ نجف اشرف میں کتابخانہ ”العلمین العامہ“ کی طرف سے ایک انعامی مقابلہ رکھا گیا جس میں حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی سلسلہ میں لکھی جانے والی بہترین کتابوں کو انعام دیا گیا، اس مقابلہ میں چودہ کتابوں نے حصہ لیا جن میں سے سب سے پھلا انعام لبنانی عیسائی مولف کی کتاب ”فاطمة الزھراء وتر فی غمہ“ کو ملا، دوسرا انعام عبد الزھراء عثمان محمد کی کتاب ”فاطمة الزھراء بنت محمد“ کو ملا اور تیسرا انعام فاضل میلانی حسینی کی کتاب ”فاطمة الزھراء امّ ابیھا“ کو نصیب ھوا۔
یھاں پر فرانسوی مستشرق ”کارلوئی ماسینیون“ کا تذکرہ کرنا بھی مناسب ھے جس نے مختلف زبانوں میں حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی بارے میں لکھی جانے والی دسوں ملین یاد داشتوں کو جمع کرتے ھوئے یہ کوشش کی کہ آپ کے سلسلہ میں سب سے بڑی کتاب تالیف کرے، اس کے مرنے کے بعد ”لوئی گاردہ“ اور فرانس کے چند اسلامی تحقیقات کے ماھرین نے اس کی تحریروں کی ترتیب و تنظیم کی اور ان کو شائع کرنے کے لئے کمر ھمت باندھی۔
فرانسوی دانشوروں میں سے جنھوں نے غلاة کی طرح حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی عظمت کے سلسلہ با شھرت ،بھادری اور الفت کی گفتگو کی ھے، ”پروفیسر ھانری کربن“ ھے جس نے اپنی عظیم و عمیق اور ماھرانہ کتاب جو کہ ”ارض ملکوت“ کے نام سے ھے،اس میں کربن نے صاف و شفاف ایمان اور مخصوص روشن نظر کے ساتھ حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے سلسلہ میںگفتگو کی ھے۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی تعلیمی میراث کے سلسلہ میں گفتگو بہت طولانی ھے، بے شک اگر آپ کا مقدس وجود اپنے پوتوں جیسے امام محمد باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کی طرح طولانی عمر پاتا تو نوع بشر کے لئے ایسی (عظیم) تعلیمات پر مشتمل میراث چھوڑتیں کیونکہ آپ ”محدثہ“ تھیں لیکن پھر بھی آپ کی باقی رھنے والی تعلیماتی میراث کم نھیں ھے۔
ایک مدت پھلے ”مسند فاطمة الزھراء“ زیور طبع سے مزین ھوچکی ھے جو ضخامت اور کیفیت کے لحاظ سے اھل سنت کے یھاں حدیث کے مجموعوں سے کھیں زیادہ بزرگ اور بہتر ھے۔
۳۔ فعلی پھلو
حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کا فعلی اور کرداری پھلو حقیقت میں تعجب خیز اور انقلاب پیدا کرنے والا ھے! ایک ایسی خاتون جس نے صرف ۱۸/ سال عمر پائی ھو ایک ایسی سنت کی بنیاد رکھے جو مکمل طور پر نمونہ عمل قرار پائے کہ حضرت امام مھدی (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) بی بی دو عالم کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:
”وَفِي ابْنَةِ رَسُولِ اللّٰہِ(صلی الله علیه و آله و سلم) لِی اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“۔[2]
”بنت رسول الله میرے لئے اسوہ حسنہ ھیں“۔
انسانی ماھرین کے یھاں ”بنیادی شخصیت“ کے نام کی ایک اصطلاح ھے ، اس اصطلاح کی بنا پر حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا شخصی قید و بند سے بالاتر ایک مطلق نمونہ ھیں جس کی وجہ سے ھمیشہ تاریخ میں باقی رھےں گی اور ایسا ھی ھے۔
سماجیماھرین کہتے ھیں: آج کل کے زمانہ میں جوان نسل کی بحرانی حالت کی اصلی وجہ کرداری نمونہ کا نہ ھونا ھے، اس سلسلہ میں حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا مشکل کُشا اور نجات دینے والی ھیں، کیونکہ آپ کی ایسی شخصیت بالکل اصلی اور تعجب خیز ھے کہ جن کی قداست اور پاکیزگی کا نور روشن و منور ھے۔
اس کے بعد بیان ھونے والے مطالب حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے کردار اور اخلاق کا ایک پرتو ھے جو آپ کے تاریخی فعلی اور رفتاری وجود کا پھلو ھے، اس کے بعد قدیم اور عصر حاضر کے علما و دانشور کے اقوال کو بیان کیا جائے گا جو بی بی دوعالم کے اخلاقی وجود کا ایک دوسرا پھلو ھے۔
ظاھری دنیاوی پریشانیوں کا برداشت کرنا
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) ایک روز جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے بیت الشرف میں تشریف لائے، اپنی لخت جگر کو دیکھا کہ ایک موٹا کپڑا پھنے ھوئے ھیں، اپنے ھاتھوں سے چکی چلا رھی ھیں، اور اسی عالم میں اپنے بیٹے کو دودھ بھی پلا رھی ھیں۔
یہ دیکھ کر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے اور جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا سے فرمایا: اے میری بزرگوار بیٹی! دنیا کی سختیوں کو برداشت کرو تاکہ آخرت کی شیرینی تک پھنچ جاؤ، جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: یا رسول الله! میں خداوندعالم کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکر کرتی ھوں اور اس کی کرامتوں پر بھی، چنانچہ اس موقع پر درج ذیل آیہ شریفہ نازل ھوئی:
<وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی>[3]،[4]
”اور عنقریب تمھارا پروردگار تمھیں اس قدر عطا کر دے گا کہ خوش ھو جاوٴ۔“
راہ خدا میں انفاق
ایک روز جناب سلمان فارسی ، حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے فرمان کے مطابق ایک تازہ مسلمان ھونے والے شخص کے لئے کھانا لینے کے لئے جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے بیت الشرف گئے، جناب سلمان کی درخواست کے بعد جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: خدا کی قسم بھوک کی وجہ سے حسن و حسین (علیھما السلام) کانپ رھے تھے اور بھوکے پیٹ سوگئے ھیں، لیکن میں کسی سائل کو واپس نھیں کرتی مخصوصاً جو میرے دروازہ پر آگیا ھو۔
اور پھر فرمایا: اے سلمان! یہ میرا پیراھن ”شمعون یھودی“ کے یھاں لے جاؤ اور ایک صاع خرما اور ایک صاع جو اس سے لے کر آجاؤ!
چنانچہ جناب سلمان نے وہ پیراھن لیااور شمعون کے پاس لے گئے، واقعہ بیان کیا، (واقعہ سن کر) شمعون کی آنکھوں سے اشک جاری ھوگئے اور اس نے کھا: یہ ھے دنیا کا زھد، اور اسی چیز کی خبر جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے توریت میں دی ھے، لہٰذا میں بھی کہتا ھوں:
”اشھد اٴن لا إلہ إلاَّ الله و اٴن محمّداً رسول الله“۔
(”میں گواھی دیتا ھوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور محمد ( (صلی الله علیه و آله و سلم) ) الله کے رسول ھیں“)
چنانچہ اس کے اسلام لانے کے بعد ایک صاع خرما اور ایک صاع جو جناب سلمان کو دئے اور وہ جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی خدمت میں لے کر آئے، اور بی بی نے اپنے ھاتھوں سے آٹا پیسا اور اس کی روٹی بناکر جناب سلمان کو دی، جناب سلمان نے کھا: اے بنت رسول! اس میں سے کچھ مقدار روٹی اور خرما حسن و حسین (علیھما السلام) کے لئے رکھ لیجئے، جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: جس چیز کو راہ خدا میں دیدیا ھے اس میں سے استعمال نھیں کرسکتی![5]
پھر بھی سوال کر
ایک عورت جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی خدمت میں مشرف ھوئی اور اس نے کھا: میری ماں بہت زیادہ بوڑھی اور ضعیف ھے جو نماز میں بہت زیادہ غلطی کرتی ھے، مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ھے تاکہ آپ سے سوال کروں کہ وہ کس طرح نماز پڑھے؟ جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: جو کچھ بھی سوال کرنا چاھے سوال کرلے۔
چنانچہ اس عورت نے اپنے سوالات بیان کئے یھاں تک کہ نوبت دسویں سوال تک پھنچ گئی اور بی بی ھر سوال کا جواب کُشادہ دلی سے دیتی رھیں، لیکن وہ عورت سوالات کی کثرت کی کوجہ سے شرمندہ ھوگئی اور اس نے کھا: میں آپ کو اس سے زیادہ زحمت میں نھیں ڈالوں گی! جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: پھر بھی سوال کر، اور اس عورت کی تسکین خاطر کے لئے فرمایا: اگر کوئی شخص کسی کو کام دے مثال کے طور پر اس سے کھے کہ یہ بھاری وزن کسی اونچی جگہ پر پھنچا دے اور اس کام کے بدلے تمھیں ایک لاکھ دینار انعام ملے گا تو کیا وہ شخص اس انعام کے پیش نظر اس کام میں تھکن کا احساس کرے گا؟ اس عورت نے جواب دیا: نھیں، جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: میں ھر سوال کے جواب میں خداوندعالم سے اس سے کھیں زیادہ جزا حاصل کرتی ھوں اور ھرگز ملول نھیں ھوتی اور تھکن کا احساس نھیں کرتی، میں نے رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) سے سنا ھے کہ قیامت کے دن اسلامی علما ء جب خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضر ھوں گے تو اپنے علم و دانش اور کوشش جو انھوں نے لوگوں کی تعلیم اور ھدایت کے لئے کی ھے، اس کے برابر اپنے خدا سے جزا حاصل کریں گے۔[6]
پڑوسی سے ابتدا
جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی رات بھر کی مناجات اور با سوز گریہ و زاری کبھی کبھی آپ کے فرزند کو نیند سے بیدار کردیا کرتی تھیں، امام حسن علیہ السلام کہتے ھیں: میں نے شب جمعہ اپنی والدہ گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں کھڑی ھوئی ھیں اور طلوع فجر تک رکوع و سجود کے عالم میں ھیں اور سب کے لئے دعا کرتی ھیں مگر اپنے لئے نھیں! میں نے عرض کی: اے مادر عزیز! کیوں اپنے لئے کوئی دعا نھیں کی ھے؟ تو جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: اے بیٹا! پھلے پڑوسی بعد میں خود۔
جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا اپنے فرزند کو بہت زیادہ رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی یاد دلاتی تھیں اور اپنے والد گرامی کی سفارش کی بنا پر بچوں کو پھولوں کا گلدستہ شمار کرتی تھیں اور قرآن و دعا کی تعلیم کے لئے پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں بھیجا کرتی تھیں۔[7]
قرآن سے اُنس و محبت
حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی لخت جگر قرآن مجید سے بہت زیادہ اُنس و محبت رکھتی تھی، جناب سلمان کہتے ھیں: پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے مجھے کسی کام کے لئے جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے گھر بھیجا، چنانچہ میں فوراً ھی بی بی کے دروازہ پر پھنچ گیا اور سلام کیا، میں نے سنا کہ جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا قرآن کی تلاوت کر رھی ھیں، اور چکّی چل رھی ھے اور کوئی بھی آپ کے پاس نھیں ھے۔[8]
بابرکت گردن بند
جناب جابر بن عبد الله انصاری سے روایت ھے کہ: پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نماز عصر کے بعد محراب میں لوگوں کی طرف رخ کئے تشریف فرما تھے اور اصحاب آپ کے پاس بیٹھے ھوئے تھے، چنانچہ اس موقع پر مھاجرین میں سے ایک بوڑھا شخص پُرانا لباس پھنے ھوئے حاضر ھوا جو کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑا نھیں ھوسکتا تھا، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کی احوال پرسی کی اور محبت کے ساتھ پیش آئے، اس ضعیف نے کھا:
یا رسول الله ! میں بھوکا ھوں ، مجھے سیر کردیجئے ، میں برھنہ ھوں مجھے لباس عطا کیجئے، میں غریب و نادار ھوں، میری فریاد کو پھنچئے ۔
رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: (افسوس کہ )اس وقت میرے پاس کچھ نھیں ھے کہ تم کو دوں، میں تمھیں خیر کی طرف راھنمائی کرتا ھوں اس شخص کی طرح جس نے تمھارے ساتھ خیر و نیکی کی ھو، لیکن تم کو ایسے گھر کی طرف بھیجتا ھوں کہ جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتی ھے اور خداو رسول بھی اس کو دوست رکھتے ھیں، اور وہ اپنے اوپر خدا کو ترجیح دیتی ھے، جاؤ فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے مکان پر جاؤ! اور فرمایا: اے بلال! اس شخص کو فاطمہ (سلام الله علیھا) کے گھر تک پھنچادو۔
وہ بوڑھا شخص جناب بلال کے ساتھ روانہ ھوا، اور جب جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے دروازے پر پھنچا تو اس نے بلند آواز میں کھا:
”السَّلامُ عَلَیْکُمْ یَااٴَھْلَ بَیْتِ النَّبُوَّةِ، وَمُخْتَلَفَ الْمَلائِکَةِ، وَمَھْبِطَ جِبْرِئیْلَ الرُّوحِ الاٴَمیْنِ بِالتَّنْزیلِ مِنْ عِنْدِ رَبِّ العالمینَ“۔
”درود و سلام ھو تم ایک اھل بیت نبوت، فرشتوں کے آمد و رفت کے محل، جبرئیل کے نازل ھونے کی جگہ، روح امین جو خداوندعالم کی طرف سے قرآن مجید لے کر نازل ھوتے ھیں“۔
جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا: نے جواب دیا: ”و عَلیکَ السّلامُ“، تم کون ھو؟ اس نے جواب دیا: ایک بادیہ نشین بوڑھا شخص، بہت دور سے آپ کے والد گرامی جو تمام انسانوں کے سید و سردار ھیں کے پاس آیا تھا، اور اے بنت محمد! میں بھوکا اور بے لباس ھوں، مجھ پر محبت کریں، خداوندعالم آپ پر رحمت نازل کرے۔
اس وقت تین روز گزر چکے تھے کہ حضرت رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم)، علی مرتضی، و فاطمہ زھرا (سلام الله علیھم) نے کچھ نہ کھایا تھا اور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) بھی ان حالات سے باخبر تھے۔
حضرت فاطمہ بھی گھر میں کچھ نہ رکھتی تھیں فقط ایک گوسفند کی کھال تھی کہ جس پر رات کو حضرت امام حسن واما م حسین سوتے تھے اس پوست کو اٹھا یا اور بوڑھے کو عطا کیا اور فرمایا: اس کولے لو، خداوند عالم تمھیں اس سے بہتر عنایت کرےگا ۔
بوڑھے نے کھال کو دیکھا اور پھر عرض کیا: اے بنت رسول! میں اپنی بھوک کا شکوہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ھوا ھوں، اور آپ یہ گوسفند کی کھال عطا کر رھی ھیں! میری بھوک میں یہ پوست کام نہ آئے گی !
جب بی بی نے اس کی باتوں کو سنا تو حضرت حمزہ کی بیٹی نے جو ھار آپ کو ھدیہ دیا تھا اپنی گردن سے نکالا اور بوڑھے شخص کو عنایت کردیا، اور فرمایا: اس گردن بند کو لے جا اور جاکر فروخت کردے، خداوندعالم تجھے اس سے بہتر عطا کرے گا۔
بوڑھا شخص وہ ھارلے کر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں مسجد میں آیا، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) اس وقت تک مسجد میں تشریف فرما تھے، اور اس بوڑھے شخص نے کھا: یا رسول الله! آپ کی لخت جگر جناب فاطمہ (سلام الله علیھا) نے یہ ھار مجھے عنایت کیا اور فرمایا ھے کہ اس کو فروخت کردے، امید ھے کہ خداوندعالم تیری حالت کو بدل دے۔
یہ سن کر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) رونے لگے اور فرمایا: کس طرح تیری حالت نہ بدلے گی جبکہ فاطمہ بنت محمد ((صلی الله علیه و آله و سلم)) جو سیدہٴ نساء العالمین ھیں تجھے اپنا ھار عطا کیا ھے۔
عمار یاسر اپنی جگہ سے کھڑے ھوئے اور کھا: یا رسول الله! کیا مجھے اجازت ھے کہ میں اس ھار کو خریدوں؟ آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: تم اس کو خرید لو کہ اگر جن و انس اس ھار کی خریداری میں شریک ھوں تو خداوندعالم ان کو آتش جھنم میں نھیں جلائے گا۔
جناب عمار نے کھا: اے برادر عرب! کتنے میں فروخت کرتے ھو؟ اس نے کھا: ایک نان و گوشت کی شکم سیر غذا، ایک بُرد یمانی جس سے اپنے بدن کو ڈھانپ لوںاور اپنے پروردگار کی نماز بجا لاسکوں اور ایک دینار جس سے میں اپنے گھر تک واپس ھوجاؤں۔
اس موقع پر جناب عمار نے کہ جن کوجنگ خیبر کی غنیمت ملی تھی لیکن اس کو فروخت کرچکے تھے اس شخص سے کھا: بیس دینار، دو سود رھم، ایک بُرد یمانی اور اپنی سواری تجھے دیتا ھوں تاکہ تو اپنے اھل و عیال تک پھنچ جائے اور گندم اور گوشت سے سیراب کرتا ھوں، اس اعرابی نے کھا: اے مرد! تو کتنا سخی اور کریم ھے، اس کے بعد وہ جناب عمار کے ساتھ گیا اور جناب عمار نے اپنے وعدہ کے مطابق وہ چیزیں اس کو دیدیں۔
اعرابی پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ھوا، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس سے سوال کیا: کیا تم شکم سیر ھوگئے ھو اور تمھیں لباس مل گیا ھے؟ اس شخص نے کھا: جی ھاں، (میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں) میں بے نیاز ھوگیا ھوں، اس وقت آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: پس جناب فاطمہ (سلام الله علیھا) کے کام کی جزا کیا ھے؟ اس اعرابی نے کھا: پروردگارا! تو خدا ھے، ھم تجھے حادث نھیں مانتے اور تیرے علاوہ کسی کو معبود قرار نھیں دیتے، تو بھر حال ھمیں روزی دینے والا ھے، خداوندا! فاطمہ زھرا کو ایسی چیز عطا کر کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی ھو اور نہ کسی کان نے سنی ھو۔
حضرت رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کی دعا پر آمین کھی، اور اپنے اصحاب کی طرف مخاطب ھوکر فرمایا: خداوندعالم نے فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کو یہ چیزیں عطا کی ھیں: میں ان کا پدر ھوں، اور دونوں عالم میں مجھ جیسا کوئی نھیں ھے، اور علی (علیہ السلام) ان کے شوھر ھیں، اگر علی نہ ھوتے تو فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے لئے کوئی کفو نہ ھوتا، اور ان کو حسن و حسین (علیھما ا لسلام)جیسے فرزند عطا کئے کہ دونوں عالم میں پیغمبر کے دو نواسے اور اھل جنت کے سردار کی طرح کوئی نھیں ھے۔
پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے سامنے جناب مقداد، جناب عمار اور جناب سلمان بیٹھے ھوئے تھے، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: کیا فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے اور بھی فضائل بیان کروں؟ انھوں نے کھا: جی ھاں یا رسول الله! آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: میرے پاس جناب جبرئیل روح الامین آئے اور مجھ سے کھا: جس وقت جناب فاطمہ (سلام الله علیھا) کی روح قبض ھوگی اور دفن ھوجائیں گی، اس وقت دو فرشتے ان کی قبر میں آئیں گے اور سوال کریں گے: آپ کاپروردگار کون ھے؟ جواب دیں گی: الله، اس کے بعد سوال کریں گے: آپ کے نبی کون ھیں؟ جواب دیں گی: میرے والد گرامی، سوال کریں گے: تمھارا ولی (امام) کون ھے؟ جواب دیں گی: یہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) جو میری قبر کے پاس کھڑے ھیں، میرے امام ھیں۔
آگاہ رھو کہ قبل اس کے کہ تمھارے سامنے فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی فضیلت بیان کروں، بے شک خداوندعالم نے فرشتوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ ھر طرف سے ان کی حفاظت کریں اور وہ زندگی اور قبر اور وفات کے وقت ان کے ساتھ رھیں اور ھمیشہ ان پر ان کے والد، ان کے شوھر اور ان کے فرزندوں پر درود و سلام بھیجتے ھیں، پس جو شخص میری وفات کے بعد میری زیارت کے لئے آئے گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی ھے، اور جس نے فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ھے، اور جس شخص نے حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی زیارت کی اس نے گویا فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی زیارت کی ھے، اور جس شخص نے حسن و حسین (علیھما السلام) کی زیارت کی گویا اس نے علی (علیہ السلام) کی زیارت کی ھے، اور جس نے ان دونوں کی ذریت کی زیارت کی ھے گویا اس نے ان دونوں کی زیارت کی ھے۔
جناب عمار نے یہ فضائل سن کر اس ھار کو اٹھایا اور مُشک سے معطر کیا اور بُرد یمانی میں رکھ کر اپنے غلام کو دیا او رکھا: یہ ھار پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں لے جا اور (آج سے ) تو انھیں کا غلام بن جا۔
چنانچہ غلام نے اس ھار کو اٹھایا اور پیغمبر خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ھوگیا، اور عمار کے قول کو بیان کیا، رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: یہ ھار فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی خدمت میں لے جا اور تو بھی ان کا غلام ھے۔
غلام نے وہ ھار لیا اور جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی خدمت میں حاضر ھوا، اور رسول اکرم کا قول نقل کیا، جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) نے وہ ھار لے لیا اور اس غلام کو خدا کی راہ میں آزاد کردیا۔
غلام کو ھنسی آگئی !بی بی دو عالم نے سوال کیا: مسکراتے کیوں ھو؟ غلام نے کھا: مجھے اس ھار کی برکت پر ھنسی آتی ھے، ایک بھوکے کو سیراب کردیا، ایک برھنہ کو لباس پھنا دیا، ایک غریب کو مالدار کردیا اور ایک غلام کو آزاد کردیا اور سر انجام وہ بابرکت ھار اپنے مالک کی طرف لوٹ آیا!![9]
حضرت فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے اوقاف
جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے سات باغ تھے جن کو بنی ھاشم اور بنی مطلب پر وقف کردیا تھا۔
سید محسن امین کہتے ھیں: حضرت فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے سات باغ تھے جن کو بنی ھاشم اور بنی مطلب پر وقف کردیا اور حضرت علی علیہ السلام کو ان کا متولی قرار دیا اور امام علیہ السلام کے بعد امام حسن علیہ السلام کو اور امام حسن کے بعد امام حسین علیہ السلام کو اور اسی طرح ھر زمانہ میں آپ کی نسل سے ولد اکبر کو ان کا متولی اور ناظر قرار دیا۔
ثقة الاسلام علامہ کلینی (علیہ الرحمہ) حضرت امام صادق اور امام باقر علیھما السلام سے نقل کرتے ھیں کہ جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا)نے درج ذیل باغوں کی وصیت کی:
”العوان، الدلال، البرقة، المثبب، الحسنی، الصافیة، ومالامّ ابراھیم۔“[10]
حضرت فاطمہ زھرا کے سلسلہ میں مشھور دانشوروں کے اقوال
زین العرب ، شرح المصابیح سے نقل کرتے ھوئے رقمطراز ھیں:
جناب فاطمہ ، کا بتول (پاکیزہ) نام ھوگیا کیونکہ فضیلت و دیانت اور نسل کے لحاظ سے عورتوں میں کوئی بھی عورت آپ کے ھم پلّہ نہ ھوسکی۔
المناقب سے نقل کرتے ھوئے جناب ھروی لکھتے ھیں:
جناب فاطمہ، کا نام (یعنی منقطع) نام پڑا کیونکہ آپ کی کوئی نظیر نھیں ھے۔
کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ھیں:
( جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا) منصوص عظیم الشان فضیلتیں رکھتی ھیں جو صرف انھیں سے مخصوص ھیں، اور ایسے فضائل و کمالات سے آراستہ ھیں جن کا بیان احادیث نبوی میں آیا ھے، اور ایسے صفات سے ممتاز ھوئیں کہ بڑی بڑی گرانقدر ہستیاں ان صفات میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے کے لئے آپس میں رقابت کرتی ھیں
شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذھبی تحریر کرتے ھیں:
آپ کے افتخارات بہت زیادہ ھیں، آپ بُردبار، دیندار، نیکوکار، قانع اور شکر گزار تھیں۔
سلیمان کتانی، لبنانی عیسائی موٴلف:
جناب فاطمہ، پاکدامن اور فضیلتوں کے پیغمبر کی لخت جگر تھیں، اخلاق اور خلاقیت کے ظھور سے آراستہ تھیں ان کا ناتوان جسم پاکیزہ اور شفاف روح کا مسکن تھا یھاں تک کہ جس سرچشمے سے ان کے والد نے طلوع کیا (وہ سرچشمہ ان کی پاکیزگی میں) محو ھوگیا
عائشہ :
میں نے کسی کو فاطمہ سے افضل (ان کے والد کے علاوہ) نھیں دیکھا۔
بنت الشاطی ، مصری دانشور
وہ (پیغمبر) کی بیٹیوں میں سب سے زیادہ محبوب بیٹی تھیں، اور اخلاق و عادت میں اپنے والد سے سب سے زیادہ مشابہ تھیں خداوندعالم نے مقدر کیا ھے (ان کی بھنوں کے درمیان سے صرف انھیں) نسل مطھر کا ذریعہ قرار دیا اور آپ کے ذریعہ آل بیت پیغمبر(صلی الله علیه و آله و سلم) کا عظیم الشان درخت پھلا پھولا۔[11]
استاد احمد شمس باصی اپنی کتاب ”نفحات من سیرة السیدة زینب“ میں تحریر کرتے ھیں:
جناب فاطمہ، دنیا کی خواتین میں سب سے بہتر اور آخرت میں سیدہٴ نساء العالمین ھوں گی۔
ڈاکٹر علی ابراھیم حسن کہتے ھیں:
جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی زندگی کا ورق سب سے الگ ھے ، ھم تاریخ کے صفحات میں آپ کے مختلف فضائل کا مشاھدہ کرتے ھیں، ھم ایسی شخصیت کے روبرو ھیں کہ جو اس عالم میں ظاھر ھوئی اس حال میں کہ ان کے چاروں طرف حکمت و شکوہ کا دائرہ تھا، ایسی حکمت جس کا منبع و مرکز فلاسفہ اور دانشوروں کی کتاب نھیں ھے، بلکہ دنیا کے تجربات ھیں جس میں اچانک ھونے والے انقلاب اور واقعات ھیں اور ایسا شکوہ جو بادشاھوں یا دولت کی وجہ سے نھیں بلکہ آپ کی روح کی گھرائیوں سے سرچشمہ لیتا ھے، شاید جناب فاطمہ کی عظمت تھی کہ عائشہ کو کھنا پڑا:
میں نے کسی کو فاطمہ سے افضل (ان کے والد کے علاوہ) نھیں پایا۔[12]
حواله جات:
[1]علی محمد علی دخیل۔
[2] بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۷۸، باب۳۱، حدیث۹.
[3] سورہٴ ضحیٰ (۹۳)، آیت۵
[4] مناقب، ج۳، ص۳۴۲؛ بحارا لانوار، ج۴۳، ص۸۵، باب۴، حدیث۸.
[5] ریاحین الشریعة، ج۱، ص۱۳۰؛ بحار الانوار، ج۴۳، ص۷۱، باب۳، حدیث۶۱۔
[6] محجة البیضاء، ج۱، ص۳۰۔
[7] مسند احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۳۶۔
[8] بحار الانوار، ج۴۳، ص۴۶، باب۳۔
[9] بشارة المصطفیٰ، ص۱۳۷؛ بحار الانوار، ج۴۳، ص۵۶، باب۳، حدیث۵۰۔
[10] اعلام النساء، علی محمد علی دخیل ،اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۸۸کی نقل کے مطابق، اصول کافی، ج۷، ص۴۸
[11] موصوف نے یہ بات اپنے عقیدہ کے لحاظ سے کہی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹیوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں ۔۔۔ لیکن علمائے شیعہ مستحکم دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ آنحضرت کی صرف اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) تھیں۔(مترجم)
[12] یہ مطلب استاد علی محمد دخیل کی کتاب اعلام النساء سے ماخوذ ھے۔
source : http://www.fazael.com