گذشتہ دو عشروں سے عالم اسلام پر الیکٹرانک میڈیا کی یلغار ہے۔ ٹی وی چینلوں کے سیلاب کے ذریعے معاشرتی واخلاقی اقدارکو بدل کررکھ دیا ہے۔ اگرچہ اخبارات و رسائل میں بھی روزافزوں ترقی کاعمل جاری رہا لیکن ٹی وی چینلوں نے اسلامی ثقافت پر گہری ضرب لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
مغرب کا ہدف کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک فرانسیسی رسالے ”لے موند ڈپلومیٹ “میں شائع شدہ مضمون سے ہوسکتا ہے جس میں یہ واضح طورپر لکھا گیا ہے : ”اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میں نہیں ہوگی بلکہ ثقافتی اورتہذیبی میدان میں بھی معرکہ آرائی ہوگی۔“ امریکی فلمی مرکز ہالی ووڈ اسلام مخالف سازشوں کا مرکز گردانا جاتا ہے۔ ایک صدی سے زائد مدت سے یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و کدورت، بغض وکینہ پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔
بیسویں صدی کی آخری دودہائیوں میں ہالی ووڈنے مسلم دشمنی پرمبنی فلمیں ’ڈیلٹافورس‘ ، ’انتقام‘، ’آسمان کی چوری‘ بنائیں، جب کہ ورلڈٹریڈ سنٹرکا تجرباتی ڈراما اسٹیج کرنے کے لیے ۱۹۹۲ء میں”حقیقی جھوٹ‘ ‘اور ”حصار‘ ‘و غیرہ نامی فلمیں تیار کی گئیں۔ ان فلموں میں اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بری طرح مجروح کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو امن دشمن اوردہشت گرد بنا کرپیش کیا گیا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور مغربی ممالک نے اسلحہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جدید میڈیا ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے۔ امریکا عالم اسلام کے وسائل، معدنیات اور تیل پرقبضے کا خواہاں ہے۔ افغانستان اورعراق پرقبضہ اور نائن الیون کا خودساختہ ڈراما اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عالم اسلام پرامریکی جارحیت اور مغربی میڈیا کا بے بنیاد اورمن گھڑت پروپیگنڈا چہار اطراف سے امتِ مسلمہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
مغرب نے دنیا بھر کی معیشت اور میڈیا پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔ مصرسمیت کئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات مغرب کے زیراثر ہیں۔
اسلام کے خلاف پروپیگنڈا مہم مغربی میڈیا کا مستقل موضوع ہے۔
کبھی مغربی ممالک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈ میں قرآن اور اسلامی شعائرکے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو”دہشت گرد“، ”جہادی‘ ‘اور ”بنیادپرست“ ثابت کرنے کے لیے اپنی مہم چلائے رکھتا ہے۔
مسلم حکومتوں اوراداروں کا فرض ہے کہ وہ مغربی میڈیاکی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دیں۔ عالم اسلام کے حکمرانوں کی بےحسی کایہ عالم ہے کہ اس اہم مسئلے سے پہلوتہی برتی جا رہی ہے۔ آج میڈیا کے محاذ پر سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم تنظیموں اور اسلامی تحریکوں کو میڈیا کے میدان میں سرگرم عمل ہونا چاہیے اور اپنے اپنے دائرے میں ایسے افراد تیار کرنے چاہییں جو میڈیا ٹیکنالوجی کو سمجھ سکیں اور تعمیری جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنی روایات، ثقافت اورنظریاتی اساس کے پیش نظر اپنی میڈیا پالیسی ترتیب دیں۔
حالات حاضرہ کے پروگرام ”ٹاک شو“ قومی ونظریاتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے چاہییں۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو مغرب کی اندھی تقلید اورنقالی نہیں کرنی چاہیے۔
ٹی وی ڈراموں میں اسلامی تاریخ وثقافت کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اگر احساس زندہ ہو تو آج بھی مثبت اور تعمیری تفریح کومسلم ممالک میں فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تعمیری، اصلاحی، تاریخی اورمعلوماتی پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم کے میدان میں ایران نے خاصی ترقی کی ہے اور عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ہیں۔ ایسی فلمیں جو اصلاح وتطہیر کا فریضہ سرانجام دیں اورجن کے ذریعے اسلامی معاشرے میں تعلیم وتربیت کا عمل بڑھ سکے ان کو مسلم ممالک میں رواج دینے کی ضرورت ہے۔
مغرب کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے جذبات کو جانچنے کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایشوز اٹھاتا رہتا ہے۔ اسلامی شعائر کی توہین کی جاتی ہے، تو مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ہی ردِعمل سامنے آتا ہے، لیکن میڈیا کے ذریعے اس کا جواب نہیں دیا جاتا۔ مسلم دنیا کو الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ پراسلامی تشخص کوعام کرنے اور مغربی پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کے لیے اپنے دائرہ کار اورکاوشوں کو موثر اور منظم اندازمیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مسلم ممالک اورمغرب میں موجود مسلم تنظیمیں بڑے محدود دائرے میں میڈیا کا کام کر رہی ہیں۔ مغرب نے جس سطح پر میڈیا سے کام لیا ہے، وہ مغربی ایجنڈا دنیا پرمسلط کرنے کے لیے خاصا کارگرثابت ہوا ہے۔ مسلم تنظیموں، اداروں اور تحریکوں کے لیے بے حد ضروری ہے کہ میڈیا کے لیے مناسب بجٹ مختص کریں۔ الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں کو ہدف بنا کر کام کیا جائے۔ ”پروڈکشن ہاوس“ کے ذریعے اینکرپرسنز اور پروڈیوسرز کی تربیت کا بند و بست کیا جائے۔ آیندہ 10 سال کا منظرنامہ سامنے رکھا جائے تو مسلم دنیا میں الیکٹرانک میڈیا میں ایسے افراد بڑی تعداد میں دستیاب ہو سکیں گے جو قومی و دینی سوچ اور نظریاتی شناخت کے حامل ہوں گے۔
مسلم ممالک میں تنظیموں اور اداروں کو”میڈیا تھنک ٹینک‘ ‘کا قیام عمل میں لانا چاہیے، ایسے ”میڈیا تھنک ٹینک‘ ‘جو مغرب سے مکالمہ کر سکیں۔ امریکا اوریورپ کے ”میڈیا تھنک ٹینک‘ ‘اسلام مخالف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں۔ میڈیا تھنک ٹینک کے ذریعے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکتا ہے اور حالات و واقعات کی اصل تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے۔
مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ کے منتظمین اپنی سطح پر محدود دائرے میں کام کر رہے ہیں۔ مکمل ادراک (وڑن) نہ ہونے اور موثرحکمتِ عملی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات صحیح طور پر مرتب نہیں ہو رہے۔ مسلم ممالک کی تنظیموں، اداروں اورتحریکوں کے میڈیا سے متعلق افراد کے نیٹ ورک کومنظم اورمربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ اگرعالم اسلام کی ”میڈیا کانفرنس‘ ‘کا انعقاد ایک تسلسل سے ہو تو نہ صرف میڈیا کے میدان میں پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکتا ہے بلکہ درپیش چیلنجوں کے لیے موثر حکمت عملی بھی تشکیل دی جا سکے گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں الیکٹرانک میڈیا اورانٹرنیٹ کی ٹکنالوجی پھیلنے سے مطالعے کا رجحان کم ہو گیا ہے۔ اب لوگ ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات اورتفریح حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت مسلم دنیا کے لیے ناگزیر ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کے حقیقی پیغام کوعام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدید خطوط پر پروگراموں کی تیاری کے لیے ”پروڈکشن ہاوس‘ ‘بنانے چاہییں۔
اس کی ایک کامیاب مثال Peace TV کی ہے، جہاں سے نشر ہونے والے پروگرامات پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پرپھیل چکے ہیں۔
مختلف ممالک میں ایسے ٹی وی چینلوں کو قائم کرنے کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جومعاشرے کی تعلیم وتربیت اور شعوروآگہی کو پروان چڑھا سکیں۔
اسلامی دنیا میں میڈیا سے وابسطہ افراد کی فنی تربیت اور میڈیا کو عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے معیاری ”میڈیاانسٹی ٹیوٹ“ قائم کرنے بھی ضرورت ہے جو ایسے افراد تیار کرسکیں جو اسلامی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کرسکیں۔
امریکا اور یورپ میں الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں جدید ٹکنالوجی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو امریکا اور یورپ میں شہروں کی سطح پرحکومت اور این جی اوز کی سرپرستی میں پبلک براڈکاسٹنگ سینٹر بنائے جا رہے ہیں۔ ان ٹریننگ سینٹروں میں میڈیا سے دل چسپی رکھنے والے افراد کو اینکر پرسنز، پروڈیوسرز، سکرپٹ رائٹرز اورکیمرہ و ایڈیٹنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان سمیت مسلم ممالک میں بھی ایسے پبلک براڈکاسٹنگ سنٹرزکاقیام ضروری ہے۔ ان نشری تربیتی مراکز سے بہترین اینکر پرسنز، پروڈیوسر اور دیگر باصلاحیت افراد تیار کیے جا سکتے ہیں جو مسلم دنیا میں گہرے شعور و ادراک کے فروغ کے لیے کام کرسکیں۔
مغربی میڈیا کی جدید ٹکنالوجی کے جواب میں اگرچہ عالم اسلام میں بھرپور پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم ایران ، سعودی عرب، کویت، قطر اور ترکی نے میڈیا کے میدان میں پیشرفت کی ہے۔ انٹرنیٹ اورٹی وی چینلوں کے ذریعے اسلام کی دعوت احسن اندازمیں پیش کی جا رہی ہے۔ تاہم مسلم ممالک میں جدید میڈیا ٹکنالوجی سے ابھی تک خاطرخواہ استفادہ نہیں کیا جا سکا۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں پیش رفت کے لیے موثراورجامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں، میڈیا ادارے اور مسلم تنظیمیں ہرسطح پر اس کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پر منظم اور احسن انداز میں اقدامات اٹھائے تو امت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا بھرپور اور موثر جواب دے سکے گی ۔
source : http://www.ahlulbaytportal.com