مہربانی کر کے مکمل طور پر فرمائیے کہ "حنیف" کون ہیں؟ یہ مطلب کیوں قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے؟ جب ارشاد ہوتا ہے: " ابراھیم حنیفا" {آل عمران/۶۷ } "ابراھیم" ایک حنیف تھے" بظاہر اس مطلب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد{ص} بھی ایک حنیف تھے۔ حضرت محمد{ص} نے کیوں حضرت عیسیٰ {بن مریم} کے دین اور کتاب کی پیروی نہیں کی؟
ایک مختصر
قرآن مجید میں خود حضرت ابراھیم{ع} بھی ایک حنیف کے عنوان سے متعارف کیے گیے ہیں اور پیغمبراسلام{ص} بھی حنیف کے عنوان سے متعارف کیے گیے ہیں اور اس کے ضمن میں تمام مسلمانوں کو حنیف کے عنوان سے کسی انحراف کے بغیر آنحضرت{ص} کی پیروی کرنے کی دعوت دی گئی ہے، چونکہ اسلام کے مطابق انبیائےالہٰی کی تعلیمات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اس لیے حضرت ابراھیم{ع} کی پیروی، بذات خود حضرت موسی{ع} حضرت عیسی{ع} اور دوسرے انبیائےالہٰی کی پیروی ہوگی۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ پیغمبراسلام{ص} نے کبھی اپنے آپ کو یہودیت اور عیسائیت کی اصلی تعلیمات کا مخالف قرار نہیں دیا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ توریت اور انجیل سے، [تحریف شدہ صورت میں] ان ادیان کے پیرو استفادہ کرتے تھے اور ممکن تھا کہ یہودیت اور عیسائیت کے جھوٹے متولی، آنحضرت{ص} کے توسط سے نبوت سے پہلے ان کے دین کی پیروی کے اعلان سے ناجائز فائدہ اٹھاتے اور اس طرح اسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے اور حضرت ابراھیم{ع} کے دین کی پیروی کرنے کی صورت میں اس قسم کی مشکل کا پیدا ہونا ممکن نہیں تھا، کیونکہ اولاً: حضرت ابراھیم{ع} تمام ادیان میں قابل احترام شخصیت تھے اور ثانیاً: ان کے دین کا کوئی خاص متولی نہ تھا کہ بعد میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بن جاتا۔ اس سلسلہ مِں ممکن ہے کہ حضرت ابراھیم{ع} کی پیروی کی تاکید کی ایک دلیل، اس قسم کی مشکلات کو دور کرنا تھا۔
تفصیلی جوابات
آپ کا سوال دو حصوں میں تجزیہ و تحقیق کے قابل ہے:
۱} "حنیف" کون ہیں اور قرآن مجید میں "حنیف" کے کیا معنی ہیں؟
۲} پیغمبراسلام{ص} کیوں "حنیفی" تھے اور "عیسائی" نہیں تھے؟
ہم اسی ترتیب سے فوق الذکر مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں:
۱۔ پہلے موضوع پر روشنی ڈالنے سے پہلے چند نکات کا بیان کرنا ضروری ہے:
۱۔۱۔ لغت کی کتابوں میں جستجو کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ "حنیف" ان افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو حق کا میلان رکھتے ہیں اور گمراہ ادیان سے اجتناب کرتے ہیں[1]۔ اور وہ افراد جن کو دینی اور قومی تعصیات حق کی راہ سے جدا ہونے پر مجبور نہ کر سکیں۔ ۔ ۔
حضرت ابراھیم{ع} نبی بھی ایسے ہی تھے۔ حضرت امام صادق{ع} سورہ آل عمران[2] کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: " ابراھیم{ع} ایک مخلص شخص تھے کہ کسی صورت میں بتوں کی پرستش نہیں کی۔[3]" اسی وجہ سے قرآن مجید میں ان کی راہ کو راہ حنیف کہہ کر اعلان کیا گیا ہے۔
۲-۱ کیا حضرت ابراھیم{ع} کے پیروکار "حنیفان" کے نام سے ایک اجتماعی گروہ کی شکل میں جمع ہوئے تھے اور "یہودیت" اور "عیسائیت" کے مانند منظم تشکیلات کے مالک تھے اور ایک مستقل دین کی ہدایت کرتے تھے؟ کم از پیغمبراسلام{ص} کے ظہور کے زمانہ میں تاریخ اس قسم کے کسی گروہ کو ثابت نہیں کرتی ہے اور ایک منظم دین کے لوازمات کے عنوان سے اس زمانہ میں پیروان ابراھیم {ع} میں کوئی چیز مشاہدہ نہیں کی جاتی تھی۔ ان لوازمات میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
ایک: پیشوا، ایک دین کے پیرو، اپنے آپ کو اس کا پیرو جانیں۔
دو: کوئی متن یا مقدس متون، کہ اختلاف کی صورت میں اس کی طرف رجوع کیا جائے۔
تین: عبادت گاہ، جس میں اس دین کے پیرو عبادت بجا لائیں۔
چار: ایسے دانشوروں کا ہونا، کہ دینی مشکلات کو دور کرنے کے لیے لوگ ان کی طرف رجوع کریں۔
اگرچہ حضرت ابراھیم{ع} اس زمانہ میں بہت سے لوگوں کے لیے دینی پیشوا کے عنوان سے قابل قبول تھے، لیکن ان کی طرف سے کوئی مقدس کتاب، حتی کہ ان سے منسوب کوئی کتاب تحریف کی صورت میں بھی باقی نہیں تھی کہ حضرت ابراھیم{ع} کے پیرووں کے درمیان یہودیوں کی توریت اور عیسائیوں کی انجیل کے مانند قابل قبول ہوتی۔ اس کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کی "کلیسا" ، "کنیسہ" اور "دیر" کے مانند وہ خاص عبادت گاہیں نہیں رکھتے تھے اور دین حنیف کے پیرووں کے لیے کعبہ کے علاوہ کسی عبادت گاہ کا نام نہِں لیا گیا ہے، ضمناً، "کشیش"، "راہب" اور جاثلیق وغیرہ جیسے دانشور بھی ان میں نہیں تھے۔ بہ الفاظ دیگر حضرت ابراھیم{ع} کے پیرووں میں کوئی منظم جمیعت یا تنظیم نہیں تھی، صرف بعض موحد افراد، جو بت پرستی اور جاہل عقائد سے گریزاں تھے، خود کو اس عظیم پیغمبر{ع} سے منسوب کرتے تھے اور ان ہی افراد کے بارے میں "حنیف" کے عنوان سے روایات میں اشارہ کیا گیا ہے[4]۔ اس کے علاوہ، حضرت ابراھیم{ع} کی، حج، مہمان نوازی، یتیموں کے مال کی حفاظت، رشتہ داروں کا خیال جیسی تعلیمات، اسلام سے پہلے والے معاشرہ میں بھی موجود تھیں[5]۔
۳۔۱ خداوندمتعال نے قرآن مجید میں، "حنف" کے اصل کی مشتقات کے ذریعہ اکثر مواقع پر پیغمبراسلام{ص} سے ارشاد فرمایا ہے کہ دین ابراھیم{ع} کے پیرو بن جائیں، جو تحریف[6] سے محفوظ دین ہے اور بعض مواقع پر اعلان کیا گیا ہے کہ خود حضرت ابراہیم{ع} بھی "حنف" کی راہ پر گامزن تھے[7]۔
بہ الفاظ دیگر، قرآن مجید کی آیات ایک بار بیان کرتی ہیں کہ خود ابراھیم{ع} ایک حنیف شخص تھے اور دوسری بار اعلان کرتی ہیں کہ ان کے "حنیف" کی راہ کی پیروی کی جانی چاہئیے۔
ان تمام آیات میں غور و خوض کرنے کے بعد ہمیں اس نکتہ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک آیت سے یہ استبساط نہیں کیا جا سکتا ہے کہ "حنیف" کے نام سے کوئی دین موجود تھا، بلکہ اشارہ شدہ تمام مطالب، اس کی علامت ہیں کہ دین ابراھیم{ع} کی کسی تغیر و تحریف کے بغیر اس کی ابتدائی صورت میں پیروی کی جانی چاہئیے اور یہودیوں اور عیسائیوں اور بت پرستوں جیسے افراد، جو دین ابراھیم{ع} کی پیروی کا صرف دعویٰ کرتے تھے اور جن کا عمل ان کی تعلیمات کے خلاف ہوتا تھا، کی قرآن مجید نے کبھی تائید نہیں کی ہے۔
دوسری جہت سے ہم جانتے ہیں کہ یعقوب، یوسف، موسی و عیسی{علیہم السلام} جیسے بعد والے انبیاء، جو حضرت ابراھیم{ع} کی ذریت شمار ہوتے تھے، بھی ان ہی کے طریقے کو آگے بڑھانے والے تھے[8]۔ اور اگر توریت اور انجیل کسی قسم کی تحریف کے بغیر بعد والی نسلوں کے ہاتھ میں قرار پاتیں تو ان کا دین حنیف ابراھیم{ع} کے ساتھ کسی قسم کا اختلاف اور ٹکراو نہیں ہوتا اگرچہ وہ اس وقت بھی اپنے آپ کو ادیان ابراھیمی جانتے ہیں۔
اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ " دین حنیف" کے نام پر کسی منظم دین کا وجود نہیں تھا اور قرآن مجید اور روایتوں میں پیغمبراسلام{ص} کے قبل از اعلان نبوت دین ابراھیم{ع} پر ایمان رکھنے کا جو اشارہ کیا گیا ہے، وہ سب اس معنی میں ہے کہ پیغمبراسلام{ص} دوسرے ادیان کے پیرووں کی گمراہیوں اور لغزشوں سے دور تھے اور حضرت ابراھیم{ع} کے مانند راہ حق پر گامزن تھے۔
۲۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر انبیائےالہٰی کا پیغام مشترک تھا،تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے پیغمبر{ص} اپنے آپ کو دین ابراھیم{ع} کا پیرو متعارف کراتے ہیں، جبکہ حضرت ابراھیم{ع} کے بعد بہت سے انبیاء{ع} آئے ہیں، جنہوں نے یہودیت و عیسائیت جیسے بڑے ادیان پیش کیے ہیں اور فطری طور پر ہمارے پیغمبر{ص} کو آخری دین الہٰی یعنی عیسائیت کی پیروی کرنی چاہئیے تھی؟؛ کیا حضرت موسی{ع} و حضرت عیسیٰ{ع} راہ راست و حنیف پر نہیں تھے اور حضرت ابرھیم{ع} اور ان کے خدا کی راہ سے منحرف ہوئے تھے اور اسی لیے ہمارے پیغمبر{ص} نے اپنے آپ کو ان کا پیرو متعارف نہیں کیا ہے؟؛
شاید پہلے سوال میں موجود بعض نکات سے، اس سوال کے جواب کا ایک حصہ بھی مشخص ہوگا، لیکن ہم کچھ نکات کو بیان کر کے اس موضوع کی جدید صورت میں تحقیق کریں گے:
۱۔۲۔ پیغمبراسلام{ص} کے ظہور سے پہلے عرب کے جغرافیائی حدود، یعنی جزیرۃالعرب میں مختلف عقائد پائے جاتے تھے جو تمام اختلافات کے باوجود، حضرت ابراھیم{ع} کا احترام کرنے میں مشترک تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے حضرت ابراھیم{ع} کا احترام کرنے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بت پرست تک بھی، حضرت ابراھیم{ع} کے زمانہ کے حج کے مراسم جیسے رسومات کا احترام کرتے تھے اور اگر چہ اس میں بدعتیں اور انحرافات پیدا کر کے حضرت ابراھیم{ع} کی توحیدی راہ کو جہالت و شرک میں تبدیل کرچکے تھے، لیکن کبھی اپنے آپ کو حضرت ابراھیم{ع} کا دشمن نہیں جانتے تھے اور ان کی بے احترامی نہیں کرتے تھے۔
۲۔۲۔ اگرچہ پیغمبراسلام{ص} نے اپنے آپ کو حضرت ابراھیم{ع} کے پیرو کے عنوان سے متعارف کیا تھا، لیکن کبھی اپنی نبوت کے اعلان سے پہلے یا بعد میں یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ میں حضرت موسی{ع} و حضرت عیس{ع} کی تعلیمات کا مخالف ہوں، بلکہ قرآن مجید کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت و عیسائیت کی اصلی تعلیمات اسلام میں بھی قابل قبول ہیں[9]۔
بہ الفاظ دیگر، حضرت ابراھیم{ع} کی پیروی کا اعلان، حضرت موسی{ع} اور حضرت عیسی{ع} کی پیروی کی مخالفت نہیں ہے اور اسلام کے مطابق انبیاء کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور ان سب کی پیروی کرنا واجب اور ضروری ہے[10]، جس طرح ہم شیعہ اپنے آپ کو امیرالمومنین امام علی{ع} شیعہ کہلاتے ہیں یا اپنے آپ کو شیعہ جعفری کہتے ہیں، لیکن ان دو اماموں کے بعد تمام اماموں کے دستوروں پر عمل کرنا ضروری اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔
۳۔۲ پیغمبراسلام{ص}، نہ صرف اپنی نبوت سے پہلے ، حضرت ابراھیم{ع} کے پیرو تھے بلکہ ظہور اسلام کے بعد بھی اپنے آپ کو حضرت ابراھیم{ع} کا پیرو جانتے تھے[11]۔ اور یہ پیروی آپ {ص} کی اپنی پیغمبری سے چشم پوشی کے معنی میں نہیں تھی اور یہ موضوع اس امر کی بہترین دلیل ہے کہ آپ{ص} کا اپنی نبوت سے پہلے حضرت ابراھیم{ع} کی پیروی کا اعلان حضرت موسی{ع} اور حضرت عیسی{ع} کی پیغمبری سے چشم پوشی کے معنی میں نہیں تھا بلکہ اس کی دوسری وجوہات ہیں۔
۴۔۲۔ جیسا کہ بیان کیا گیا، دین ابراھیم{ع} اسلام کے ظہور کے زمانہ کے نزدیک ایک منظم دین کے عنوان سے نہیں تھا اور حق یا ناحق صورت میں خاص افراد اپنے آپ کو اس دین کا متولی نہیں سمجھتے تھے[12]، لیکن اس کے مقابلے میں، یہودی اور عیسائی بالکل منظم تھے اور ان دو ادیان کے دانشور، ایک طرف سے کوشش کرتے تھے کہ ان ادیان میں پیدا ہوئےانحرافات کی سرپوشی کر کے تحریف شدہ دین کا دفاع کریں اور دوسری جانب ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرنے اور قابل احترام شخصیتوں کو اپنے سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہودی حضرت ابراھیم{ع} کو یہودی جانتے تھے اور عیسائی انہیں عیسائی تصور کرتے تھے؛ کہ یہ اختلاف قرآن مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے اور اشارہ کیا گیا ہے کہ گویا وہ بھول گیے تھے کہ حضرت ابراھیم{ع} دونوں ادیان سے صدیوں قبل زندگی بسر کرتے تھے اور اسی بنیاد پر ان کے اختلافات کو ہٹ دھرمی اور خودغرضی پر مبنی جانا جا سکتا ہے[13]۔
اب ذرا غور کیجئیے کہ، جب ان ادیان کے جھوٹے متولی ، ان کے ادیان سے صدیوں سال پہلے زندگی گزارنے والے ایک پیغمبر کو اپنے سے منسوب کر کے ناجائز استفادہ کرنا چاہتے ہیں، تو ایک ایسے پیغمبر کے مقابلے میں کون سی پالیسی اپناتے جس نے ان کے دین کے بعد ظہور کیا ہے اور اگر اتفاق سے اس نے اپنی نبوت کے اعلان سے پہلے ان کے دین کی پیروی کا اعلان کیا ہوتا تو وہ لوگ کون سا رخ اختیار کرتے؟
ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں، اس امر کا سبب بنی ہیں کہ پیغمبراسلام{ص} نے حضرت موسی{ع} اور حضرت عیسی{ع} کا کافی احترام کرنے کے باوجود باضابطہ طور پر ان دونوں انبیاء{ع} کی پیروی کا اعلان کرنے سے اجتناب کیا ہے، تاکہ مستقبل میں ان افراد کی طرف سے پیدا کی جانے والی مشکلات سے دوچار نہ ہوں جو ناحق طور پر اپنے آپ کو یہودیت اور عیسائیت کا متولی متعارف کراتے تھے اور اتفاق سے منظم تشکیلات بھی رکھتے تھے، کیونکہ ان جھوٹے متولیوں کی ذہنیت اور گزشتہ کارکردگی کے پیش نظر ممکن تھا کہ وہ پہلے مرحلہ میں پیغمبراسلام{ص} کو اپنے نظریات کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے اور مخالفت کی صورت میں انہیں مرتد قرار دے کر ان کے دین کے خلاف عمل کرنے والا متعارف کرتے اور اس سازش کے ناکام ہونے کی صورت میں اعلان کرتے کہ یہ دین کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ ان کے ہی دین کا ایک حصہ ہے؛ وغیرہ۔
لیکن پیغمبراسلام{ص} کے توسط سے حضرت ابراھیم{ع} کے دین کی پیروی کا اعلان کرنے میں، اس دین کا کوئی متولی نہ ہونے کے پیش نظر اور حضرت موسی{ع} اور حضرت عیسی{ع} کے ادیان کی پیروی سے کوئی تضاد نہ ہونے کے علاوہ اس قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
[1] ابن منظور، لسان العرب، ج 9، ص 57، دار صادر، بیروت، 1414 ه ھ.
[2]"ما کان ابراهیم یهودیا و نصرانیا و لکن حنیفا مسلما و ما کان من المشرکین".
[3]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 2، ص 15، ح 1، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 ه.
[4]شیخ صدوق، کمال الدین، ج 1، ص 199، ح 43، دار الکتب الإسلامیة، قم، 1395 ه.
[5]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 4، ص 211، ح 19،
[6]بقره، 135؛ آل عمران، 95؛ نساء، 125؛ انعام، 161؛ نحل، 123.
[7]آل عمران، 67؛ نحل، 120.
[8]بقره، 133- 132؛ یوسف، 38.
[9]مائده، 47-43؛ شوری، 13 و ...
[10]بقره، 136؛ آل عمران، 84،"لا نفرق بین أحد منهم" و بقره، 285، "لا نفرق بین أحد من رسله".
[11]انعام، 161.
[12]شیخ صدوق، کمال الدین، ج 1، ص 199، ح 43.
[13]بقره، 140؛ آل عمران،67- 65، "...یا أهل الکتاب لم تحاجون فی ابراهیم و ما أنزلت التوراة و الإنجیل إلا من بعده أ فلا تعقلون"
source : islamquest