شرعی نقطہ نگاہ سے ایسے کسی بھی نظام کی سپورٹ کرنا جائز نہیں ہے جو ظلم کا حامی ہو اور عدالت کا گلہ کاٹ رہا ہو۔ لیکن عصر حاضر میں اگر انسان ایسے جمہوری نظام میں رہ کر اس میں بغیر کسی قسم کی شراکت کے اپنا حق حاصل کر سکتا ہے تو اسے ایسے نظام سے دلی بیزاری کے ساتھ ساتھ عملی بیزاری بھی اختیار کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا چاہیے لیکن اگر جمہوری نظام حکومت میں انسان کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے مسلمانوں کی جان و مال کو تحفظ نہیں ہو رہا ہے اور یہ انسان صاحب نفوذ ہے اور حکومت میں اس کی شمولیت سے شیعہ کمیونیٹی کے حقوق کا کسی حد تک تحفظ ممکن بن سکتا ہے تو ایسی صورت حال میں شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ دلی طور پر ایسے نظام حکومت سے بیزاری رکھتے ہوئے بظاہر اپنی شراکت یا شمولیت یا حمایت کر کے اپنے اور اپنی شیعہ کمیونیٹی کے حقوق کا تحفظ کروائے۔اسلام تو در حقیقت موجودہ جمہوری نظام کا کسی بھی صورت میں قائل نہیں ہے اس لیے کہ جمہوریت میں صاحب صلاحیت افراد بر سر اقتدار نہیں آتے ہیں بلکہ یہاں ان لوگوں کی حکومت ہوتی ہے جو زیادہ جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتے ہوں جو زیادہ فریب اور دھوکا دینے میں مہارت رکھتے ہوں دوسرے الفاظ میں یہ سقیفائی نظام ہے نہ محمدی اور علوی نظام۔ لہذا مومن افراد کو کبھی بھی جمہوری نظام حکومت پر دل خوش نہیں کرنا چاہیے۔ دلی اور عملی طور پر مومن کا الہی نظام حکومت کی ہی سپورٹ کرنا چاہیے۔ لیکن جہاں مومن افراد کی آبادی اقلیت میں ہو اور یہ امکان نہ پایا ہو کہ وہاں ان کی جمہوری نظام کی مخالفت سے الہی نظام حکومت قائم کر پائیں گے تو ایسے میں موجودہ نظام کے ساتھ چلنا ان کی مجبوری ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۲
source : www.abna.ir