اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

قوم یہود اسلام کے بدترین دشمن

عرب کی غیر متمدن بستی جو از نظر زمان بھی غیر متمدن تھی اور از نظرمکان بھی۔ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا باعث فخر و مباہات تھا۔ جگہ ایسی جگہ تھی جہاں صبح کو حلووں کے بت بنائے جاتے تھے اور دوپہر کو وہی زینت دستر خوان ہوتے۔ ایسے غیر متمدن ماحول میں رسول اسلام نے تمدن کی روح پھونکی ، اب تک جو عرب بیٹیوں کوزندہ دفن کرنا باعث عز و جاہ تصور کر رہاتھ۔پیغمبر اسلام کی تبلیغ کے نتیجے میں وہی بیٹیوں کی پرورش اور ان کے وجود سے خوش ہونے لگا۔360خداﺅں کے بجائے لاالٰہ الا اللہ کا نعرہ فضائے عرب کو نور افشاں کرنے لگا۔

ظاہر ہے کہ جہل کے اندھیروں میں رہنے والوں کو علم کی روشنیکبھی برداشت نہیں ہوسکتی وہ افراد جو تاریکی کو غنیمت شمار کر کے اپنی ریاست کا سکہ جمائے ہوئے تھے۔ اسلام کےے نورانی وجود کے سامنے ان تمام رئیسوں کی ریاست دھری کی دھری رہ گئی۔ وہ اب یہ سونچنے لگے کہ جسطرح بھی ممکن ہو اس نور کا خاتمہ کر دیا جائے۔ لیکن چونکہ خدا نے اپنے اس نورانی وجود کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی اس لئے وہ تمام طاقتیں جو اسلام کے خلاف اٹھیں انکا سر کچل دیا گیا اور اسلام کا سر بلند و بالا ہو کر کائنات کو یہ سمجھا گیا کہ جسکا محافظ خدا ہو آسمان و زمین کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسکا بال بیکا نہیں کر سکتی ہیں۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں بیچارے مسلمانوں کو کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، دہکتے پتھروں کے نیچے لٹایا گیا۔ اقتصادی پابندی لگائی گئی۔ ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔خود رسول مقبول پر پتھر پھینکے گئے ۳سال تک آپ کو ایک غار میں محبوس رہنا پڑا جو شعبِ ابو طالب کے نام سے موسوم ہے۔ لیکن یہ تمام پریشانیاں ایک طرف اور مسلمانوں کا جوش و ولولہ ایک طرف ۔ گویا کلمہ توحید نے ان کے وجود میں روح استقامت پھونک دی تھی۔ جس قدر اذیتوں میں اضافہ ہوتا تھا اتنا ہی ان کے فولادی ارادوں میں استحکام پیدا ہو رہاتھا۔ لیکن جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی۔ محسنین رسول اسلام اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اور اہل یثرب نے رسول اسلام سے گذارش کی کہ آپ یثرب تشریف لے آئیں ہم لوگ ہر طرح سے ساتھ دیں گے۔ شاید آپ کے وجود کی برکت سے ہمارے درمیان جو سالہا سال سے دشمنی چل رہی ہے وہ کافور ہو جائے۔ہماری دشمنی سے یہود فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں بار بار دھمکیاں دیتے ہیں کہ مکہ میں ایک نبی ان خصوصیات کے ساتھ مبعوث ہوا ہے ہم اس نبی کے ساتھ مل کر قوم عاد و ثمود اور قوم ارم کی طرح تمہارا خاتمہ کر دیں گے۔پیغمبر اسلام نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بحکم خدا مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ یہ آپ کے وجود کی برکت ہی تھی کہ وہ شہر جواب تک یثرب کے نام سے موسوم تھا اب مدینة الرسول کہا جانے لگا ۔مدینہ آکر آپ نے جو کارنامے انجام دئیے وہ تاریخ کے طالب علم سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن اپنے موضوع کے تحت کچھ باتیں کہنا مقصود ہیں ۔آپ نے جہاں اوس و خزرج کی دیرینہ دشمنی کو اپنی مسیحا نفسی سے اخوت و محبت میں تبدیل کر دیا وہیں مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارگی بھی قائم فرمائی۔احکام اسلامی کی اشاعت مثلا: نماز ، روزہ، حج،اسی مدینہ منورہ کے مرہون ہیں۔انہیں کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ ہے کہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں سے خوشرفتاری سے پیش آئے انکو اطمینان دلایا کہ تمہاری جان و مال محفوظ ہے۔ اسکے بعد یہ بھی حکم دیا کہ اگریہود مسلمانوں کی طرح جنگ میں شریک اور اسکے مخارج بھی برداشت کریں تو دوسر ے مسلمانوںں کی طرح مال غنیمت حاصل کر سکتے ہیں(ترجمہ الیہود فی القرآن ص 36 عبدالفتاح طبارہ)

پیغمبر اسلام نے مسالمت ،ہمزیستی اور اپنے خلق عظیم ہونے کے پیش نظر بحکم خدا وند بیت المقدس کو بعنوان قبلہ منتخب فرمایا اسی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے آپ نے یہودیوں کے ساتھ ایک دن روزہ بھی رکھا تھا(صحیح بخاری ج۱ص498) لیکن جب آپ نے انہیں اسلام کی طرف مدعو کیا تو وہی یہود جو اب تک اہل مدینہ کو دھمکیاں دیا کرتے تھے جان بوجھ کر مخالفت پر اتر گئے وہ تو یہ چاہتے تھے کہ رسول اسلام انکی جیسی کہتے رہیں اور حکم خداوندی پر عمل کرنے کے بجائے وہ ان کے اصول کے پابند ہو جائیں۔ولفنسون اسرائیلی مورخ پیغمبر اسلام اور یہود کے نزاع کی تحلیل یوں کرتاہے۔

اگر پیامبر کی تعلیم فقط بت پرستی سے مبارزہ کرنا ہوتا اور وہ یہودیوں کو اپنی نبوت کے اقرار کی دعوت نہ دیتے تو مسلمانوں اور یہودیوں میں کبھی در گیری نہ ہوتی۔یہود انکی تعلیمات کا اعتراف کرتے اور اپنی جان و مال کے ساتھ انکی مدد کرتے بشرطیکہ وہ ایک نئی رسالت کا اقرار نہ چاہتے ۔ اس لئے کہ یہود کا طرز فکر اصلاً اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی انکو اسکے دین سے جدا کر دے اور جو ایسا کرےگا یہود کبھی اسکا ساتھ نہ دیںگے وہ نبی جو بنی اسرائیل سے نہ ہو یہود اسکو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔(تاریخ الیہود فی بلاد العرب۔ ونفسون ص122)

یہ تھا اس یہودی مورخ کا نظریہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دعوت پیغمبر اسلام اپنے کسی فائدہ کے لئے نہ تھی اور نہ ہی آپ کی دعوت کا دائرہ کسی خاص گروہ سے مخصوص تھا بلکہ آپ کی دعوت خود کائنات کے فائدہ کے لئے تھی اور اسکا دائرہ لا محدود تھا اس لئے کہ وہ تمام عالم کے خدا کے پیغامبر تھے۔قل یا ایھا الناس انی رسول الیکم جمیعا

کہدو اے رسول ! اے لوگوں میں تم تمام لوگوں کی طرف خدا کا فرستادہ ہوں۔ عرب کی طرف آپکا مبعوث ہونا اسلئے نہ تھا کہ آپ عرب تھے بلکہ ہدف یہ تھا کہ وہ برائیوں اور غلط پرستیوں سے نجات پالیں۔ اسی طرح یہودیوں کی طرف رسول اسلام نے تو دعوت بھی نہیں دی تھی۔ دعوت تو خدا نے دی تھی آپ تو فقط واسطہ عبدو معبود تھے ۔

سورہ بقرہ کی آیت 39سے 41تک آپ اس مفہوم کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ جسمیں خدا نے فرمایا ہے کہ تم ہماری نازل کی ہوئی چیزوں پر ایمان لے آﺅ اور حق کو باطل کے ذریعہ چھپانے کی کوشش مت کرو۔

لیکن یہود اپنی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے خدا کے سامنے بھی کھڑے ہوگئے اور اسکے اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے۔ پیغمبر اسلام نے تو مسالمت اور ہمزیستی کی خاطر بیت المقدس کو قبلہ بنایا تھا۔ کہنے لگے مسلمانوں کے پاس تو کوئی قبلہ ہی نہیں ہے وہ ہمارے قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں پیغمبر اسلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ حکم خدا کے منتظر رہے فقط باربار آسمان کی طرف نگاہ کرتے لیکن زبان سے کچھ بھی نہ کہتے تھے۔ نہ معلوم اس نگاہ میں کون سی تڑپ تھی کہ خدا نے ان جملوں سے تحویل و تبدیلی قبلہ کا حکم صادر فرمادیا۔

قد نری تقلب وجھک فی السماءفلنولینک قبلةً ترضٰھا ۔فول وجھک شطر المسجد الحرام و حیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہ۔ بقرہ آیت 144(”اے رسول قبلہ بدلنے کے واسطے)بیشک تمہارا (باربار)آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں تو ہم ضرور تم کو ایسے قبلہ کی طرف پھیر دیں گے کہ تم نہال ہو جاﺅ(اچھا)تو (نماز ہی میں)تم مسجد حرام(کعبہ)کیطرف منہ کرلو اور (اے مسلمانو)تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ اسی طرف کر لیا کرو“

اب تک تو طعنہ زنی کر رہے تھے کہ ان کے پاس کوئی قبلہ ہی نہیں ہے اور جب اللہ نے پیغمبر کے دل کی آواز سن لی تو یہودیوں میں سے کچھ لوگ آکر کہنے لگے کہ آپ نے قبلہ کیوں بدل دیا ہم آپ کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں گے جب تک آپ اسی پہلے والے قبلہ کی طرف نماز نہ پڑھیں۔پیغمبر اسلام نے رفاعہ بن قیس قردم بن عمر کعب بن اشرف وغیرہ کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن خداوند عالم نے ان کی درخواست کو صاف صاف رد کر دیا بلکہ ان کی اس حرکت کو دیوانگی اور سفاہت پر محمول کر کے یہ فرمایا۔

سیقول السفہاءمن الناس ما ولّٰھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا قل للہ المشرق والمغرب یہدی من یشاءالی صراط مستقیم ۔بقرہ۔ آیت 142۔(ترجمہ بعض احمق لوگ یہ کہہ بیٹھیں گے مسلمان جس قبلہ (بیت المقدس) کیطرف پہلے (سجدہ کرتے تھے)اس سے (دوسرے قبلہ کی طرف ) مڑ جانیکا کیا باعث ہوا (اے رسول تم انکے جواب میں )کہو کہ پورب پچھم سب اللہ کا ہے جسے چاہتاہے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتاہے۔

ابتدائے مخالفت: آپ نے مخالفت کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمایا لیکن جب اسلام اپنے مقتضیات کے بموجب لوگوں کی فکری ترقی کے پیش نظر احکام بیان کرنے لگا اور یہودیوں کے بعض عقائد نسخ ہونے لگے تو کینہ و بغض کی وجہ سے یہود اسلام کی مزید مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ مثلا اونٹ کا گوشت شریعت یہود میں حرام تھا لیکن شریعت محمدی میں حلال ہے۔ تو یہ کہنے لگے اے محمد آپ تو کہتے ہیں کہ آپ آئین ابراہیم پر ہیں پھر کس طرح انکے حلال کو حرام کر رہے ہیں۔ خدا وند عالم نے ان کے اس اعتراض کا فورا جواب دیا۔کل الطعام جلا لبنی اسرائیل الا ما حرم الاسرائیل علی نفسہ من قبل ان تنزل التوراة قل فاتو ا بالتوراة فاتلوھا ان کنتم صادقین (آل عمران آیت 13)ترجمہ: تورات کے نازل ہونے کے قبل یعقوب نے جو چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں تھیں ان کے علاوہ بنی اسرائیل کے لئے تمام کھانے حلال تھے (اے رسول ان یہود سے )کہو اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچے ہو تو توریت لے آﺅ اور اسکو (ہمارے سامنے)پڑھو“)

لیکن جب توریت میں ایسا کچھ نہ ملا تو شرمندگی اور عاجزی کی خاک انکے چہرہ پر مل دی گئی۔

اسلام کے خلاف یہود کی سازشیں ۔ اب تک جن باتوں کو آپ کے سامنے پیش کیا گیا اسکا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نہ لانے کی وجہ سے یہود اسلام و مسلمین کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے۔ صدر اسلام سے لیکر آج تک یہود نے جو سازشیں اسلام کے خلاف رچی ہیں وہ سورج کی روشنی سے بھی زیادہ روشن ہیں ۔شرط ہے دیدہ بصیرت موجود ہو۔ یہاں فقط صدر اسلام کی کچھ سازشوں کو پیش کرنا مقصود ہے۔

(الف) اقتصادی ناکہ بندی: اپنی دشمنی کی سب سے پہلی سازش یہ رچی کہ مسلمانوں کا جو مال لیا تھا اسے دینے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے چونکہ تم نے دوسرا مذہب قبول کر لیا ہے اس لئے ہم تمہیں تمہارا مال واپس نہ کریں گے۔خداوند عالم نے اس موضوع کی طرف یوں اشارہ فرمایا ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقنطار یودہ الیک و منھم من تامنہ بدینار لا یودہ الیک الا مادمت علیہ قائما ذالک بانھم قالوا لیس علینا فی الامییّن سبیل و یقولون علی اللہ الکذب وھم یعلمون آل عمران آیت ۵۷ ترجمہ : اور اہل کتاب کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس روپئے کے ڈھیر امانت رکھ دو تو بھی اسے تمہارے حوالے کردیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ایک اشرفی بھی امانت رکھو تو جب تک تم ان کے سر پر کھڑے نہ ہوگے تمہیں واپس نہ دیں گے یہ اس وجہ سے ہے کہ انکا تو یہ قول ہے کہ جاہلوں کا حق مار لینے میں ہم پر کچھ نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

جب پیغمبراسلام نے اپنے ہدف میں کامیابی کے لئے اقتصادی ضرورت محسوس فرمائی تو حضرت ابوبکر کو روسائے یہود کے پاس بھیجا وہ سردار قبیلہ قینقاع کے پاس گئے پیغمبر اسلام کا نامہ دیا اور اپنے اہداف بیان کئے تو وہ ملعون طعن و تشنیع کرنے لگا بولا کیا تمہارا خدا ہماری کمک کا محتاج ہے؟یہ جملہ اتنا سخت تھا کہ فوراً وحی نازل ہوئی لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر و نحن اغنیاءسنکتب ما قالوا و قتلھم الانبیاءبغیر حق و نقول ذوقوا عذاب الحریق۔آل عمران آیت ۱۸۱۔           (ترجمہ : جو (یہودی) لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تو کنگال ہے اور ہم بڑے مالدار ہیں خدا نے انکی یہ بکواس سنی ان لوگوں نے جو کچھ کیا اور انکا انبیاءکو ناحق قتل کرنا ۔ہم ابھی اسے لکھے لیتے ہیں اور (آج جو جی میں آئے کہیں مگر) قیامت کے دن )ہم کہینگے کہ اچھا تو اپنی شرارتوں کے عوض میں جلا دینے والے عذاب کا مزہ چکھو۔

(ب)  ایجاد کینہ و بغض :اوس و خزرج میں جس دشمنی کی آگ کو رسول اسلام نے اپنے اخلاق کے پانی سے بجھا دیا تھا اسلام کے خلاف ان یہودیوں نے پھر اسمیں آگ لگانے کی بھر پور کو شش کی ۔ شاس بن قیس یہودی نے اوس و خزرج کو بہکانا شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ انکی رگ جاہلیت پھڑک اٹھی قریب تھا کہ جنگ کا بگل بج جائے لیکن رسول خدا کی سیاست مداری نے شاس کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ بن ہشام ج۲ص204۔205)۔

اسی جریان کے پیش نظر وحی نازل ہوئی قل یا اھل الکتاب لم تصدون عن سبیل اللہ من امن تبغونھا عوجا وانتم شھداءوما اللہ بغافل عما تعملون۔یا ایھا الذین آمنوا ان تطیعوا فریقا من الذین یردوکم بعد ایمانکم کافرین۔ آل عمران آیت ۹۹۔100(ترجمہ)اے رسول کہدو اے اھل کتاب دیدہ و دانستہ خدا کی (سیدھی )راہ میں (ناحق)کجی(ڈھونڈھ)کے ایمان والوں کو اس سے کیوں روکتے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے اے ایمان والو اگر تم نے اہل کتاب کے کسی فرقہ کا بھی کہنا مانا تو (یاد رکھو کہ )وہ تم کو ایمان لانے کے بعد (بھی) پھر دوبارہ کافر بنا چھوڑیں گے۔

(ج) اعتراض: اعتراض اگر فہم و ادراک کے لئے ہو تو بہترین صفت ہے لیکن اگر کسی کو ذلیل کرنے کے لئے اعتراض کے تیر برسائے جائیں تو یہ بدترین صفت۔ یہود نے اسلام کو نقصان پہچانے کے لئے یہ کہنا شروع کیا کہ اسلام میں تو کچھ ہے ہی نہیں فقط تورات کی باتوں کو تحریف کر دیا گیا ہے۔ آپس میں کہنے لگے ہم صبح میں اسلام قبول کر لیں گے اور شام میں اسلام ترک کر دیں گے تا کہ لوگ سمجھیں کہ اگر اسلام میں کچھ ہوتا تو ہم اسے کیوں ترک کرتے۔خدا وند عالم نے یہود کی اس خیانت کی طرف یوں اشارہ فرمایا: ودّت طائفة من اھل الکتٰب لو یضلونکم و ما یضلون الا انفسھم وما یشعرون۔ یا اھل الکتاب لم تکفرون باٰیات اللہ و انتم تشھدون۔ آل عمران آیت 69۔70(ترجمہ اھل کتاب سے ایک گروہ تو بہت چاہتاہے کہ کسی طرح تم کو راہ راست سے بھٹکا دیں حالانکہ وہ خود اپنے ہی کو بھٹکاتے ہیں اور اسکو سمجھتے بھی نہیں ہےں اے اہل کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود گواہ بن سکتے ہو۔

اہل کتاب یہودی تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے چونکہ قرآن میں تدبر نہیں کر پارہے ہیں اس لئے اپنے ہدف اصلی سے خود بھٹکے ہوئے ہین جسے وہ خود نہیں سمجھ پارہے ہیں۔

وقالت طائفة من اہل الکتاب آمنوا بالذی انزل علی الذین آمنوا وجہ النہار واکفروا اخرہ لعلھم یرجعون۔آل عمران۔ آیت 72(ترجمہ) اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اپنے لوگوں سے کہا مسلمانوں پر جو کتاب نازل ہو ئی ہے اس پر صبح سویرے ایمان لے آﺅ اور آخر وقت انکار کر دیا کرو شائد مسلمان (اس تدبیر سے )اپنے دین سے) پھر جائیں۔

(د) حسد مہلک مرض:سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اسلام جیسے دین کی مخالفت پر یہود کیوں کمر بستہ ہو گئے۔ جبکہ کفار عرب بت پرست تھے جو انکے آئین کے خلاف ہے لیکن بجائے اس کے رسول خدا کی مدد کرتے ان کے پیچھے پڑگئے۔اس علت کو خود خداوندعالم نے قرآن میں نقل فرمایا ہے ودّ کثیر من اہل الکتاب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق فاعفوا واصفحوا حتی یا تی اللہ بامرہ ان اللہ علیٰ کل شیءقدیر۔ بقرہ۔ آیت 109۔(ترجمہ (مسلمانو) اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافر بنا دیں اور لطف تو یہ ہے کہ ) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اسکے بعد بھی یہ تمنا باقی ہے پس تم معاف کردو اور در گزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی حکم بھیجے بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

(ھ)رسول کو بہکانا: اپنی سازشوں میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ رسول اسلام کو بہکانے کی کوشش کی اس لئے کہ اگر رسول خدا ہمارے شیشے میں اتر گئے تو پھر مسئلہ ہی حل ہے وہی ہوگا جو ہم چاہیں گے ۔خداوند عالم نے رسول اسلام کو فوراً اس سازش کی طرف متنبہ کرایا۔ وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوا ءھم واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک فان تولو فاعلم انما یرید اللہ ان یصیبھم ببعض ذنوبھم وان کثیرا من الناس لفاسقون ۔مائدہ۔ آیت 49(ترجمہ اور اے رسول جو احکام خدا نے نازل کئے ہیں تم اسکے مطابق فیصلہ کرو اور انکی خواہش نفسانی کی پیروی مت کرو بلکہ تم ان سے بچے رہو (ایسا نہ ہو ) کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل کیا ہے تم کو بھٹکا دیں پھر اگر یہ لوگ تمہارے حکم سے منہ موڑ لیں تو سمجھ لو کہ گویا خدا ہی کی مرضی ہے کہ انکے بعض گناہوں کی وجہ سے انہیں مصیبت میں پھنسا دے اور اسمیں تو شک نہیں کہ بہتیرے لوگ بد چلن ہیں۔

اسلامی تعلیمات کا عروج دقیق مطالعہ کی روشنی میں معلوم ہوتاہے۔ غور فرمائیے اس آیت میں خدا وند عالم نے رسول خدا سے یہ نہیں فرمایا کہ ان کی سازشوں کا جواب آپ جیسے چاہیں ویسے دیں۔ جبکہ رسول اللہ خدا کے خلاف ایک کام بھی نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی تاکید کے لئے کہہ دیا کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا ہے حکم خداوندی کے تحت کیجئے۔

یہود کی ثروت پرستی:مال و دولت اگر ایک ہدف بن جائے تو یہ بدترین صفت ہے یہود نے اپنی زندگی کا ہدف ہی مال بنا لیاہے ۔چاہے جیسے مال حاصل ہو حاصل کرو یہ فقط اس لئے ہے کہ وہ حیات بعد الموت کے قائل نہیں ہیں۔ اسی دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ویل ڈورانٹ لکھتے ہیں: یہود جہان حیات بعد از مرگ پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ جزا و سزا کو اسی دنیا میں منحصر شمار کرتے ہیں۔(تاریخ تمدن ویل ڈورانٹ ص 345 ج۲) لیکن یہود نے اپنے اس عقیدہ کو چھپانے کی کوشش کی اور یہ ادعا کیا کہ در حقیقت ایمان جزا وسزا کا معیار ہے خدا وند عالم نے انکے جھوٹے دعوے کے پردہ کو فاش کر دیا اور صاف صاف دعوے کی دلیل طلب کر لی جسمیں وہ ناکام ہو گئے ۔ قل ان کانت لکم الدار الاخرة عند اللہ خالصة من دون الناس فتمنوالموت ان کنتم صادقین ولا یتمنوہ ابدا بماقدمت ایدیہم واللہ علیم بالظالمین۔بقرہ آیت 94۔95)ترجمہ اے رسول کہدو کہ اگر آخرت کا گھر خاص تمہارے واسطے ہے اور لوگوں کے واسطے نہیں تو پس اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ لیکن وہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جو پہلے کر گذرے ہیں کبھی تمنا نہیں کر سکتے اور اللہ تو ظالموں سے خوب واقف ہے۔

انکی دنیا طلبی فقط اس لئے ہے تا کہ عذاب خدا سے بچ سکیں لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ روز قیامت کا عذاب عمر کی زیادتی یا کمی پر موقوف نہیں ہے۔ولتجدنھم احرص الناس علی حیوة ومن الذین اشرکو یود احدکم لو یعمر الف سنة و ما ہو بمزحزہ من العذاب ان یعمر واللہ بصیر بما تعملون۔ بقرہ آیت ۶۹ترجمہ اے رسول تم انہی لوگوں کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاﺅ گے اور مشرکوں میں سے ہر ایک شخص چاہتاہے کہ اے کاش اسکو ہزار برس کی عمر دی جاتی حالانکہ اگر انکو اتنی طولانی عمر دی بھی جائے تووہ خدا کے عذاب سے چھٹکارہ دینے والی نہیں ہے اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اسے خوب دیکھ رہاہے۔

اخلاق یہود: انسان کی سب سے بڑی دولت اسکا اخلاق ہے اگر کوئی اخلاق کی اعلی منزلوں پر فائز ہے تو وہی کامیاب ہے لیکن جتنے برے اخلاق ہیں سب کے سب یہودیوں کے لئے طرہ امتیاز ہیں۔ ان اخلاق رذیلہ میںسے بعض یہ ہیں:

۱۔خود خواہی: خود کو بزرگ شمار کرنا دوسروں کو ذلیل و رسوا سمجھنا سب سے بڑی بری عادت ہے اور متاسفاً یہ یہود میں موجود ہے اور یہ فقط اس لئے ہے تا کہ ثابت کر سکیں کہ ہم برتر ہیں مسلمان ہماری پیروی کریں لیکن خدا وند عالم نے انکے اس غرور کو خاک میں ملا دیا قالت الیہود والنصاریٰ نحن ابنا ءاللہ قل فلم یعذبکم بذنوبکم بل انتم بشر ممن خلق لیغفر لمن یشاءو یعذب من یشائ۔ مائدہ آیت 18

یہودی اور نصرانی تو کہتے ہیں ہم ہی خدا کے بیٹے ہیں تو اے رسول تم ان سے کہو کہ اگر ایسا ہے تو پھر تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتاہے بلکہ تم بھی انکی مخلوقات میں سے ایک بشر ہو خدا جسے چاہیگا بخشدیگا جسے چاہے گا سزا دے گا۔

۲۔ڈرپوک: مرد جوان وہ ہے جو حوادث میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم ہو ۔ جبن و ترس و ڈر ایک مرد کا طرہ امتیاز نہیں ہے لیکن یہ اخلاق کی گراوٹ بھی ہیہود کے اندر موجود اپنی اس بری صفت میں یہود تاریخ میں مشہور ہے لیکن اپنی اس صفت کو چھپانے کے لئے اس نے فریب دینا ۔لوگوں میں اختلاف پیدا کرنا جیسی دوسری بری صفتوں کو گلےءلگا لیا۔

جنایات و تباہکاری : اپنی بد اخلاقیوں کی وجہ سے یہودیوں نے وہ ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ ایک تاریخ کا طالب علم لرز اٹھتاہے۔اسلام کی دشمنی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے گروہ کا نام یہود ہے۔ ملت عرب ان خیانتوں کو فراموش نہیں کر سکتی جو یہودیوں نے فلسطینیوں پر ڈھائے ہیں صیہونزم جو یہودیت کا ایک شدت پسند ٹکڑا ہے وہ جو کہتے ہیں ”ایک تو کریلا اس پر نیم چڑھا “ایک تو یہود اسلام کا کٹر دشمن ہے جو کمی باقی رہ گئی تھی اسے صیہونزم نے آکر پورا کر دیا ۔ قریہ دیر یاسین میں صیہونزم نے حاملہ عورتوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے انکے بدنوں میں آگ لگادی انکے شکم پارہ کر کے بچوں کو باپ کے سامنے پارہ پارہ کر دیا۔ قریہ زیتون میں بے گناہ مسلمانوں کو مسجد میں جمع کر کے مسجد کو ڈینامیٹ سے اڑادیا۔ یہ خونخوار امت جس نے نبیوں کے قتل سے دریغ نہ کیا اور ایک ایک دن میں ۰۵۔۰۵انبیاءکو تہہ تیغ کیا۔ فلسطین کی مقدس سر زمین جو انبیاءکا مسکن تھی جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ہے صیہونزم نے استکبار جہانی امریکا کی مدد سے اپنے خونین چنگل سے فلسطینی جوانوں کو تہہ تیغ کر دیا جوان جوان مسلم خواتین کی عصمت تار تار اور ماﺅں کی آغوش کو ویران کر دیا۔ اسلام کی جتنی مقدس جگہیں ہیں صیہونزم کی لالچی آنکھیں ادھر گری ہیں فلسطین کو اپنے قبضہ میں لیا اسلئے کہ فلسطین ایک ایسا پل ہے جو ممالک عربیہ کو سوریہ سے دوسری طرف مصر و عراق سے ملاتاہے۔ یہودیوں نے اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے استکبار جہانی امریکا کے سایہ میں اسی جگہ کومشخص کیا تا کہ اسلام کہ یہ دو دیرینہ دشمن مسلمانوں کو نیست و نابود کر سکیں۔

وہ بیت المقدس جہاں کا ذرہ ذرہ ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے صیہونزم نے اسے خون کا دریا بنا دیا ہے آج ایک فلسطینی نوجوان کا قلب آتش فشاں ہو رہا ہے۔ جو یہی فریاد کرتاہے مجھے پہچانومیں غزہ و حیفا کا ساکن ہوں۔ میں بیت المقدس و یروشلم کا باسی ہوں۔ میں لاکھوں بچوں اور جوانوں کا غم اٹھائے ہوں۔ وہ زمانہ تھا جب میں بستر نرم پر آرام کرتاتھا اب صحرا کی ریگزار میرا بستر اور ریتوں کا ڈھیر میرا تکیہ ہے مجھے پہچانو میری ماں مجھ سے چھین لی گئی۔ میری ناموس کی عزت میرے سامنے تار تار کی گئی۔ انتقام کا آتش فشاں میرے دلوں میں کروٹیں لے رہاہے۔

اسی حساسیت اور مسلمانوں کی اس غم انگیز داستان نے پرور دہ آغوش اسلام آیة اللہ العظمیٰ سید روح اللہ الموسوی الخمینی کے دل کو خون خون کر دیا تھا جس نے اپنی انقلابی زندگی میں صیہونزم کے خونین و بے رحم ہاتھوں سے مسلمانوں کا قتل عام دیکھا۔ جس نے سسکتی جوانی ، اجڑتی مانگ ،لٹتی کوکھ کا منظر دیکھا اور یہ فیصلہ کیا کہ اسلام و مسلمان کے اس بدترین دشمن سے ضرور مقابلہ کریںگے۔اسکے خلاف احتجاج کریں گے۔اور جب وہ پیر جماران اپنے انقلاب میں کامیاب ہوگیا ایران سے بادشاہت کا جنازہ اٹھادیا جسکی امید نہ تو امریکا کو تھی نہ ہی صیہونزم کو تو اس نے ماہ رمضان کو یوم قدس کے نام سے اقطاع عالم میں رو شناس کرایا مرگ بر امریکا اور مرگ بر اسرائیل کے فلک شگاف نعرہ نے صیہونزم کے وجود کو لرزہ بر اندام کردیا۔ یہ نعرہ فقط نعرہ نہیں ہے بلکہ ایٹم بم ہے جو صیہونزم اور استکبار جہانی امریکا کو خاک کرنے کے لئے کافی ہے۔

 میرے مسلمان بھائیو! آج پاکستان میں جو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف خون کی ہولی کھیل رہے ہیں یہ اسی صیہونزم کی دین ہے۔ ہندوستان میں جو فرقہ واریت کی داغ بیل پڑی ،اسی یہودیت کی مرہون ہے۔عراق کے مظلوم عوام انہی اسلام دشمن عناصر کی نظروں کا نشانہ ہیں۔ افغانستان۔ افریقہ ۔ بوسنیا اسی صیہونزم و امریکا کی وجہ سے جل رہا ہے۔ مسلمانو!بزبان قرآن اپنے بدترین دشمن کو پہچانو۔

لتجدن اشد الناس عداوة للذین آمنوا الیہود۔ مائدہ اایت ۲۸۔ترجمہ تم ایمان لانے والوں کا دشمن سب سے بڑھ کے یہودیوں کو پاﺅ گے۔

میرے بھائیو! اس جمعة الوداع میں فلسطینیوں سے ہمدردی اور صیہونزم سے اعلان براءت کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے کہ تمہاری آوازیں بلند ہوں۔امریکا مردہ باد، اسرائیل مردہ باد۔ نوجوانان قوم تمہاری ہی کوششوں نے باطل کا قلع قمع کیا۔ تمہیں نے حیدرؑ کرار کی قیادت میںخیبر و خندق۔ بدر و احد میں دشمن کے پر خچے اڑائے ہیں۔ آج پھر وہ دن آگیا ہے کہ اپنے دشمن اور خدا کے دشمن یہود کو منہ توڑ جواب دو اسکا جینا حرام کردو۔ تمام ائمہ جماعت سے گذارش ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کی برکت و عظمت کا واسطہ دیگر خدا سے دعائیں کریں کہ خدا یا اس دشمن اسلام کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے جو ہماری جان ۔ مال ۔عزت ۔آبرو پر ڈاکہ ڈال رہاہے۔ ہم صیہونیت و یہودیت اور استکبار جہانی امریکا سے اعلان براءت کرتے ہیں اور ان جنایتکاروں اور تباہکاروں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ابھی جوانان اسلام میں وہ جوش و ولولہ باقی ہے جو مٹھی بھر اسرائیل کو اس صفحہ ہستی سے مٹا سکتاہے۔اپنی باتوں کو مختصر کرتے ہوئے اتحاد کے پیغامبر امام خمینی علیہ الرحمہ کے اس پیغام پر اپنی بات تمام کرنا چاہتاہوں جو انہوں نے یوم قدس کے موقع پر دیاتھا۔

”یوم قدس یوم فلسطین نہیں بلکہ یوم اسلام ہے۔ یوم حکومت اسلامی ہے اس دن تمام بڑی طاقتوں کو سمجھا دینا چاہئے کہ وہ اب اسلامی ممالک میں پیش قدمی نہیں کر سکتیں ہیں۔میں قدس کو یوم اسلام یوم رسول اکرم سمجھتا ہوں، اس دن ہمیں اپنی تمام طاقتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔مسلمانوں کو اس گوشہ نشینی سے نکل کر بھرپور طاقت سے اغیار کے مقابلہ میں ڈٹ جانا چاہئے۔ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ اغیار کے مقابلہ میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔ہم ان کو اپنے ملک میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلامیان عالم بھی اغیار کو اپنے ملکوں میںدخل اندازی کی اجازت نہ دیں ۔یوم قدس کے موقع پر عوام اپنی خائن حکومتوں کو متنبہ کریں۔ یوم قدس کے موقع پر یہ سمجھا جا سکتاہے کہ کون اشخاص اور حکومتیں بین الاقوامی سازشوں کی حامی ہیں اور اسلام کے خلاف ہیں۔ جو اشخاص اور حکومتیں یوم قدس کے مراسم میں شریک نہ ہوں گی وہ اسلام کی دشمن اور اسرائیل کی حامی اور مددگار ہوں گی۔ اور جو حکومتیں شریک ہوں گی وہ اسلام کی حامی اور اسلام دشمنوں کی جسمیں امریکہ اور اسرائیل سر فہرست ہیں مخالف ہوں گی یوم قدس یوم امتیاز حق و باطل ہے۔

اے مسلمانان عالم ،اے مستضعفین گیتی ، اٹھو اور مقدرات کو اپنے ہاتھ میں لو ،تم کب تک یہ تماشا دیکھتے رہے گے کہ تمہاری قسمتوں کا فیصلہ واشنگٹن یا ماسکو کرے؟ کب تک تمہارا قدس امریکہ کے نمک خوار اسرائیل کے قدموں تلے روندا جاتا رہے گا؟کب تک سر زمین قدس، فلسطین ، لبنان اور وہاں بسنے والے مظلوم مسلمان مجرموں کے پنجے میں اسیر رہیں گے؟ تم خاموش تماشا دیکھتے رہوگے اور تمہارے خائن حکمراں ان سفاکوں کی مدد کرتے رہیں گے؟ کب تک ایک ارب مسلمان اور تقریبا ۰۱کروڑ عرب ،وسیع ممالک ، اور بے انتہا قدرتی ذخائر کے مالک ہوتے ہوئے شرق و غرب کی غارتگری، خونریزی اور ظلم و ستم کا تماشا دیکھتے رہیں گے؟ کب تک افغانی اور لبنانی بھائیوں پر وحشیانہ ظلم اور انکی مظلومانہ فریاد دیکھتے اور سنتے رہیں گے لیکن ان کی مدد و نصرت کیلئے اقدام نہیں کریںگے؟ کب تک اسلام دشمنوں سے مقابلہ اور نجات قدس کیلئے آتشیں اسلحوں کے استعمال ، فوجی اور الٰہی طاقت کے استفادہ سے غفلت برتتے رہیں گے؟؟


source : http://www.ahl-ul-bait.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر
اسلامی جہاد اور عوامی جہاد میں فرق

 
user comment