اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے طلب شفاعت

جو لوگ ہر زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وسیلہ قرار دینے اور آپ کے ذریعے شفاعت مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ امر آپ(ص) کی خلقت سے پہلے، آپ(ص) کی زندگی کے دوران اور آپ کی رحلت کے بعد اللہ تعالیٰ کی مرضی سے واقع ہو چکا ہے بلکہ قیامت کے دن بھی واقع ہو گا۔ یہاں اس سلسلے میں بعض دلیلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ خلقت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قبل آپ (ص)سے توسل

حاکم نے مستدرک میں اور اسی طرح بعض دوسرے محدثین نے حضرت عمربن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت آدمسے ترکِ اولیٰ ہوا تو انہوں نے کہا:

یا رب اسئلک بحق محمد لما غفرت لی

یعنی اے اللہ تجھے محمد کا واسطہ مجھے بخش دے۔

خدا نے پوچھا:

اے آدم! تو نے محمد کو کیسے پہچانا جب کہ میں نے ابھی اسے خلق نہیں کیا۔ حضرت آدم  نے کہا: اے میرے رب جب تو نے مجھے اپنے ہاتھوں سے خلق کیا اور میرے اندر اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا۔ تب میں نے عرش کے ستونوں پر یہ لکھا ہوا دیکھا:

لا الہ الا الله محمد رسول الله۔

پس میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ شامل نہیں کیا مگر اپنے محبوب ترین مخلوق کو۔

یہ سن کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:

اے آدم تو نے سچ کہا ہے۔ بیشک وہ میرے نزدیک مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اب جب تو نے اس کے حق کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کیا ہے تو میں تجھے بخش دیتا ہوں۔ اگر محمد(ص) نہ ہوتا تو میں تجھے خلق ہی نہ کرتا۔

طبرانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس جملے کا اضافہ کیا ہے:

وہ تیری ذریت میں سب سے آخری نبی ہو گا“۔,۱ 

محدثین اور مفسرین نے قرآن کریم کی آیت مبارکہ

وَ لَمَّا جَآئَھُمْ کِتٰابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْلا وَ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہز فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ۔

کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ جب مدینہ اور خیبر کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل اپنے قرب و جوار میں موجود اوس و خزرج کے مشرکین اور دیگر لوگوں سے جنگ کرتے تھے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر دشمن پر فتح و نصرت کی دعا کرتے تھے کیونکہ وہ آسمانی کتاب” توراة “ میں آپ(ص) کا ذکر دیکھتے تھے۔ چنانچہ وہ دشمنوں کے خلاف دعا کرتے ہوئے کہتے تھے:

اللھم انا نستنصرک بحق النبی الامی الانصرتنا علیھم۔

اے خدا ہم نبی امی(ص) کا واسطہ دے کر دشمنوں کے مقابلے میں تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں۔

 یا یوں کہتے تھے:

اللھم ربنا انصرنا علیھم باسم نبیک۔

اے اللہ اے ہمارے رب اپنے نبی(ص) کے نام کا واسطہ ہمیں ان پر فتح دے۔

اس دعا کے نتیجے میں ان کو نصرت حاصل ہوتی تھی لیکن جب ان کے پاس خدا کی کتاب یعنی قرآن مجید، ان کے ہاں موجود کتاب یعنی تورات و انجیل کی تصدیق کے ساتھ آئی اور وہ شخص جسے وہ جانتے تھے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آئے اور انہیں اس میں کوئی شبہ بھی نہ رہا تو انہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر دیا کیونکہ آپ کا تعلق نبی اسرائیل سے نہ تھا۔,2

۲۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں آپ( ص) سے توسل

احمد بن حنبل، ترمذی،ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عثمانبن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص جو آنکھوں سے معذور تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا:

میرے لئے عافیت کی دعا کیجئے۔

فرمایا:

اگر تم چاہتے ہو تو دعا کروں لیکن صبر کرو تو بہتر ہو گا۔

وہ بولا:اللہ سے دعا کیجئے آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اچھے طریقے سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھے:

اللھم انی اسئلک واتوجہ بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد انی توجہت بک الیٰ ربی فی حاجتی لیقضی لی اللھم شفعہ فیّ۔

خدایا میں تیرے نبی(ص) جو نبی رحمت ہیں کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں تیرا واسطہ دے کر اپنےرب سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں تاکہ وہ پوری ہو۔ اے اللہ انہیں میرا شفیع قرار دے۔3

اس روایت کو بیہقی اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔


source : http://www.ahlulbaytportal.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی كامنصب
امام زمانہ سے منسوب جزیرہ برمودا ٹرائنگل
کیا عباس بن عبدالمطلب اور ان کے فرزند شیعوں کے ...
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں

 
user comment