قرآن مجيد نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوايا ھے، اور تمام انسانوں کو خدا کي عبادت کي دعوت دي ھے، اس کا شريک اس کي ضدو مثل اوراس کا کفوقرار دينے سے سخت منع کيا ھے اور اس کو غفلت و جھالت کا نتيجہ بتايا ھے، اور کسي چيز کو اس کے خلاف بيان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کيا ھے، اس عالم ہستي ميں صحيح غور و فکر کرنے کي رغبت دلائي ھے، اور فطري، عقلي، طبيعي اور علمي دلائل و شواہد کے ذريعہ غير خدا کے خالق ھونے کو باطل قرار ديا ھے، اور اس جملہ کو بے بنياد، بے معني اور مسخرہ آميز بتايا ھے کہ ”يہ چيزيں خود بخود وجود ميں آگئي ھيں“ اس کي شدت کے ساتھ ردّ کي ھے اور علمي منطق اور عقل سليم سے کوسوں دور بتايا ھے، المختصر: قرآن مجيد نے اپني آيات کے اندر انسان کے جھل اور غفلت جيسي بيماريوں کا علاج بتايا ھے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ھوئے عقل و دل کي آنکھوں کے سامنے سے شک و ترديد اور اوھام کے پردوں کو ہٹاديا ھے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کيا ھے ، نيز اس معني پر توجہ دلائي ھے کہ آئينہ ہستي کي حقيقت روز روشن سے بھي زيادہ واضح ھے، اور خدا کي ذات اقدس ميں کسي کے لئے شک و ترديد کا کوئي وجود نھيں ھے:
(( اَفِي اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ يَدْعُوکُمْ لِيَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ))-
”کيا تمھيں اللہ کے وجود کے بارے ميں بھي شک ھے جو زمين و آسمان کا پيدا کرنے والا ھے اور تمھيں اس لئے بلاتا ھے کہ تمھارے گناھوں کو معاف کردے--“-
((يَااَيُّھا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِي خَلَقَکُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ- الَّذِي جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اَندَادًا وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ))-
”اے انسانو! پروردگار کي عبادت کرو جس نے تمھيں بھي پيدا کيا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھي خلق کيا ھے -شايد کہ تم اسي طرح متقي اور پرھيز گار بن جاو-اس پروردگار نے تمھارے لئے زمين کا فرش اور آسمان کا شاميانہ بنايا ھے اور پھر آسمان سے پاني برسا کر تمھاري روزي کے لئے زمين سے پھل نکالے ھيں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسي کو ھمسر اور مثل نہ بناو“-
جي ھاں! اس نے ھميں اور ھم سے پھلے انسانوں کو خلق کيا، آسمانوں کو بنايا، تمھاري زندگي کے لئے زمين کا فرش بچھايا، تمھارے لئے بارش برسائي، جس کي وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پيدا ھوئے، اگر يہ تمام عجيب و غريب چيزيں اس کا کام نھيں ھے تو پھر کس کا کام ھے؟
اگر کوئي کھتا ھے کہ ان تمام عجيب و غريب خلقت کي پيدائش کي علت ”تصادف“(يعني اتفاقي) ھے تو اس کي مستحکم منطقي اور عقلي دليل کيا ھے؟ اگر کھا گياکہ يہ چيزيں خود بخود پيدا ھوگئيں تو کيا اس کائنات کي چيزيں پھلے سے موجود نھيں تھيں جو خود بخود وجود ميں آگئيں، اس کے علاوہ جو چيز موجود ھے وہ خود بخود وجود ميں آجائيں اس کے کوئي معني نھيں ھيں، پس معلوم ھوا کہ ان تمام چيزوں کا خالق اور ان کو نظم دينے والا عليم و بصير و خبير ”اللہ تعاليٰ“ ھے جس نے ان تمام چيزوں کو وجود بخشا ھے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کي بنياد ڈالي ھے، لہٰذا انسان پر واجب ھے کہ اس کے حکم کي اطاعت کرے، اس کي عبادت و بندگي کرے تاکہ تقويٰ، پاکيزگي اور کمال کي معراج حاصل کرے:
(( اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِي خَلَقَکُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون))-
تم لوگ اس پروردگار کي عبادت کرو جس نے تمھيں بھي پيدا کيا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھي خلق کيا ھے -شايد کہ تم اسي طرح متقي اور پرھيز گار بن جاو“-
مفضل بن عمر کوفي کھتے ھيں: مجھ سے حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا:
وجود خدا کي سب سے پھلي دليل اس دنيا کا نظم و ترتيب ھے کہ تمام چيزيں بغير کسي کمي و نقصان کے اپني جگہ پر موجود ھيں اور اپنا کام انجام دے رھي ھيں-
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=219173