عبدالباری عطوان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات، اچھے تعلقات نہيں ہیں اور جب تک مغرب ہمارے ملکوں پر قبضے کی پالیسی پر کاربند رہے گا اور اسرائیلی ریاست کے توسط سے ہمارے مقدسات کی توہین کی حمایت جاری رکھے گا اور فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی کی حمایت کرتا رہے گا ہمیں مغرب کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
العطوان جو روزنامہ القدس العربی کے چیف ایڈیٹر ہیں، نے لکھا: امریکہ ہم سے محبت نہیں کرتا، اور ہم سے محبت نہیں کرنا چاہتا؛ ہم امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت، عرب ڈکٹیٹروں کے سلسلے میں دوہرے معیار اور ایک گروہ کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت، اور تسلط پسندی اور استعمار اور علاقے میں اسرائیلی غنڈہ گردی کی حمایت، سے بیزار ہیں۔
العطوان نے مزید لکھا ہے کہ: کل ایک امریکی جج نے منہتن کے علاقے میں نیویارک کے ٹرانسپورٹ سینٹر کو اسرائیل کی حامی ایک امریکی تنظیم (American Freedom Defense Initiative) کا اعلامیہ نشر کرنے پر مجبور کیا جس میں لکھا ہے: "ایک مہذب انسان اور ایک وحشی انسان کے درمیان جنگ میں، میں مہذب انسان کا دفاع کروں گا ... اسرائیل کی حمایت کرتا ہوں ... جہادیوں کو شکست دو"۔
انھوں نے لکھا ہے: جہاد مسلمانوں کے اہم عقائد میں سے ایک ہے، لیکن اس امریکی جج کے خیال میں جہاد ایک وحشیانہ اقدام ہے؛ اس اعلامئے میں اسرائیل کو "مہذب اور ترقی یافتہ" شیئے کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے، بغیر اس کے کہ غزہ میں بچوں کی لاشیں جلانے کے لئے اسرائیل کی طرف سے وائٹ فاسفورس کے استعمال، جنوبی لبنان میں میزائلوں کے ذریعے بچوں کی لاشیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور صبرا اور شتیلا میں بے شمار انسانوں کے قتل عام کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔
العطوان نے مزید لکھا ہے: کیا امریکہ کا عراق پر قبضہ، فلوجہ میں امریکی فورسز کے جنگی جرائم اور انسانوں کا قتل عام اور لوگوں کے گھر ان کے سروں پر گرانا اور لوگوں کو مساجد میں پھانسی دینا، وحشیانہ اعمال نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کا احتجاج ـ جو مغربیوں کے خیال میں پسماندہ اور غیر مہذب ہے ـ وحشیانہ فعل ہے؟
العطوان نے لکھا: امریکی جج نے اجازت دی کہ یہ اعلامیہ میٹرو اسٹیشن پر لوگوں کے درمیان بانٹا جائے، کیا وہ جانتا ہے کہ اس نے ایسا کرکے تیس لاکھ امریکی مسلمانوں سمیت دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کردیا ہے؟ کیا وہ نہيں جانتا کہ اس قسم کے اعلامیئے کی اشاعت اور تقسیم دینی اور نسلی کشمکش کا سبب بن جائے اور بے شمار بےگناہ انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوجائے؟
اس عرب تجزیہ نگار و روزنامہ نویس نے بیان کی آزادی کے بہانے اسلام اور مسلمانوں کی توہین کا سلسلہ بند ہونے پر زور دیتے ہوئے لکھا: مسلمان جنگ نہيں چاہتے، اور جنگ کے درپے نہيں ہیں اور دوسروں کو بھی جنگ کی ترغیب نہيں دلاتے اور مشتعل نہیں کرتے بلکہ انسانیت کی بنیا پر باوقار اور باعزت زندگی اور تمام تہذيبوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی پالیسی کے تحت، پرامن زندگی گذارنے کے خواہاں ہیں اور مسلمان ہی ہیں جو مسلسل حملوں، بمباریوں اور میزائل حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
العطوان نے آخر میں لکھا ہے کہ مغربی طاقتوں کی خواہش ہے کہ ان کے ان حملوں کے سامنے شکایت نہ کریں اور بالکل چوپایوں کی مانند ان حملوں اور مارپیٹ کے سامنے خاموشی اختیار کئے رکھیں؛ لیکن مسلمانان عالم فریاد اور احتجاج کے مرحلے سے اپنے تحفظ اور دفاع کے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں اور وہ آج ایسی پوزیشن میں ہیں کہ طیارہ بردار بحری جہازوں کی مالک قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں؛ مسلمان افغانستان میں ان کو شکست دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کو اس ملک سے ذلت آمیز پسپائی پر مجبور کریں گے۔
source : http://www.abna.ir