اس کے باوجود کہ اکثر مسلمان حدیث غدیر کی صحت اور امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرتے ہیں اور غالبا حدیث غدیر کو قطعی اور متواتر سمجھتے ہیں پھر بھی ایک گروہ یہ سوال کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اگر واقعہ غدیر رونما ہوا اور اتنے کثیر تعداد میں لوگ اس کے شاہد تھے تو پھر کیوں امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی حقانیت کے اثبات کے لیے اس کے ذریعے احتجاج نہیں کیا؟ اور اس کو دلیل کے طور پیش نہیں کیا؟
اس گروہ کے وہم و گمان میں یہ بات ہے کہ یا تو واقعہ غدیر کا تاریخ اسلام میں کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ شیعوں کا منگھڑت واقعہ ہے یا اگر اس کا وجود تھا تو مسئلہ امامت سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔
جواب:
اس اشکال کے جواب میں یہ کہیں گے کہ اگر حدیث غدیر کو یقینی اور متواتر نہ سمجھیں تو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث میں سے کوئی حدیث بھی قطعی الصدور اور متواتر نہیں ہے۔ رہی بات یہ کہ امیر المومنین [ع] نے اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث سے احتجاج نہیں کیا اسے اپنی امامت کے اثبات پر دلیل کے طورپر پیش نہیں کیا یہ تاریخ سے ناآشنائی اور واقفیت نہ رکھنے کی علامت ہے۔
معتبر اور متفق علیہ کتابوں کی چھان بین سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی [ع] نے ۲۲ موارد سے زیادہ اپنے حق کے اثبات کے لیے حدیث غدیر کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک موارد کو اس مختصر سے مقالہ میں بیان کرتے ہیں اور باقی موارد کے صرف منابع کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
وہ موارد جہاں حضرت علی علیہ السلام نے حدیث غدیر سے احتجاج کیا:
۱:مسجد النبی [ص] میں
تاریخی منابع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا وہ مقام جہاں حضرت علی علیہ السلام نے حدیث غدیر کو اپنے حق کی حقانیت پر دلیل کے طور پر پیش کیا مسجد البنی ہے۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد جب آپ خلیفہ اول کی بیعت کے لیے مسجد النبی میں لے کر آئے تو آپ نے خلافت مسلمین کو اپنا حق قرار دیتے ہوئے بیعت کرنےسے منع کر دیا۔ اور اس حدیث سے استدلال کیا۔ بشیر بن سعد انصاری کھڑے ہوئے اور کہا : اے ابو الحسن! اگر انصار ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی اس گفتگو کو سنتے تو قطعا ابوبکر کی بیعت نہ کرتے اور حتی دو آدمی بھی آپ کی بیعت کرنے میں اختلاف نہ کرتے۔ امیر المومنین [ع] نے جواب دیا:
«يا هؤلاء أكنت أدع رسول الله مسجى لا أواريه و أخرج أنازع فى سلطانه؟ و الله ما خفت أحدا يسمو له و ينازعنا أهل البيت فيه و يستحل ما استحللتموه، و لا علمت أن رسول الله صلى الله عليه و آله ترك يوم غدير خم لأحد حجة و لا لقائل مقالا. فأنشد الله رجلا سمع النبى صلى الله عليه و اله يوم غدير خم يقول: «من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله» أن يشهد الان بما سمع». [1]
"کیا رسول خدا [ص] کے جنازے کو زمین پر رکھ دیتا اور انہیں غسل و کفن کرنے سے پہلے میں خلافت کے چکر میں پڑ جاتا؟ خلافت کا مسئلہ تو اتنا واضح تھا کہ میں یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کی لالچ میں پڑ جائے گا۔ اور اس مسئلہ میں اہلبیت نبوت کے ساتھ معرکہ آرا ہو جائے گا۔ مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غدیر خم کے دن حجت کومسلمانوں پر تمام نہیں کیا تھا؟ مگر کسی کے لیے کوئی عذر باقی تھا؟
میں سب کو خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے بھی غدیر کے دن رسول اسلام [ص] کے بیان کو سنا ہے،کھڑا ہو کر گواہی دے جو آپ[ص] نے فرمایا: "جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں ، خدایا جو علی کو دوست رکھے اسے دوست رکھ جو علی سے دشمنی کرے اس سے دشمنی کر، جو علی کی نصرت کرے تو اس کی نصرت کر اور جو علی سے روگردانی کرے تو اس سے روگردانی کر ۔"
زید بن ارقم کا کہنا ہے کہ علی علیہ السلام کے اس بیان کے بعد اصحاب بدر میں سے بارہ لوگ اٹھے اور گواہی دی۔ لیکن میں نے اس کے باجود کہ اس کلام کو رسول اسلام [ص]کی زبانی سنا تھا گواہی دینے سے انکار کیا اور امیر المومنین کی اسی نفرین کی وجہ سے میری آنکھوں کی روشی ختم ہو گئی۔
۲: خطبہ وسیلہ میں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے ساتویں دن امیر المومنین علی علیہ السلام نے مدینہ میں ایک طویل خطبہ پڑھا جو خطبہ وسیلہ کے نام سے معروف ہے۔ اس خطبہ میں آپ نے واقعہ غدیر اور آیہ اکمال دین کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا اور مخاطبین کے سامنے اپنے خلافت کے حق کو اثبات کیا۔ ثقۃ الاسلام کلینی، نے روضہ کافی میں اس خطبہ وسیلہ کو نقل کیا ہے اس خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے:
«... و قوله صلى الله عليه و اله حين تكلمت طائفة فقالت: نحن موالى رسول الله(صلی الله علیه و آله و سلم) فخرج رسول الله صلى الله عليه و آله إلى حجة الوداع ثم صار الى غدير خم، فأمر فأصلح له شبه المنبر ثم علاه و أخذ بعضدى حتى رئى بياض إبطيه رافعا صوته قائلا فى محفله: «من كنت مولاه فعلى مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه» فكانت على ولايتى ولاية الله و على عداوتى عداوة الله. و أنزل الله عزو جل فى ذلك اليوم: اليوم اكملت لكم دينكم و أتممت عليكم نعمتي و رضيت لكم الاسلام دينا [2] فكانت ولايتى كمال الدين و رضا الرب جل ذكره...» [3]
" پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر مبارک کے آخری ایام میں جب ایک گروہ نے کہا: ہم پیغمبر کے بعد اس امت کے رہبر ہیں تو رسول خدا [ص] حجۃ الوداع کے لیے مدینہ سے نکل پڑے اور حج کے اعمال و ارکان بجا لانے کے بعد جب غدیر خم کے میدان میں پہنچے تو حکم دیا کہ ایک منبر آپ کے لیے تیار کیا جائے اس کے بعد اس منبر پر تشریف لے گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اس طریقے سے کہ میری بگل کی سفیدی بھی ظاہر ہو گئی اس کے بعد بلند آواز سے فرمایا:
جس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں خدایا اس کے دوست کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن۔ پس میری ولایت خدا کی ولایت کا معیار اور میری دشمنی خدا کی دشمنی کا معیار قرار پائی۔ اور خدا وند عالم نے اسی دن اس آیت کا نزول فرمایا: آج میں نے دین کو کامل کر دیا اور نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو تمہارا دین منتخب کر دیا۔
پس میری ولایت دین کے کامل ہونے اور پروردگار کی رضایت کا وسیلہ قرار پائی۔ ۔۔۔
۳: چھہ آدمیوں کی شوریٰ میں
خلیفہ دوم نے اپنا جانشین معین کرنے کے لیے چھہ آدمیوں کی شوریٰ تشکیل دی جن میں سے ایک امیر المومنین علی علیہ السلام تھے اس شوریٰ میں امیر المومنین نے کئی سارے استدلال پیش کئے جو تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں " حدیث الانشاد" اور " حدیث المناشدہ" مشہور ہیں جو اس واقعہ کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں۔ آپ نے اس مقام پر حدیث غدیر سے استدلال پیش کیا۔
ابن مغازلی شافعی [۴۸۳] کتاب المناقب میں حضرت علی علیہ السلام کی گفتگو کو اس انداز میں نقل کرتے ہیں:
«فأنشدكم بالله، هل فيكم أحد قال له رسول الله صلى الله عليه و آله: «من كنت مولاه فعلى مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه، ليبلغ الشاهد منكم الغائب» غيرى؟ [4] قالوا: اللهم لا.»
آپ لوگوں کو خدا کی قسم دیتا ہوں[ کہ یہ بتلائے] آپ کی اس مجلس میں میرے علاوہ کوئی ہے جس کے بارے میں پیغمبر[ص] نے فرمایا ہو: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے" خدا اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور اس کے دشمنوں کو دشمن۔ اور حاضرین اس خطاب کو غائبین تک پہنچا دیں؟ شوریٰ کے افراد نے کہا: خدا کی قسم کوئی نہیں ہے۔"
۴:عثمان کے زمانے میں
عثمان کی خلافت کے زمانے میں انصار اور مہاجرین کا ایک گروہ مسجد النبی میں جمع ہوا اور قریش اور انصار کے فضائل بیان کرنا شروع کر دئیے اور پیغمبر اسلام [ص] کے اقوال کے ذریعے قریش اور انصار کی فضیلتوں پر دلائل بیان کئے۔ حضرت علی علیہ السلام بھی اس مجلس میں موجود تھے خاموشی سے بیٹھے ان کی باتوں کو سنتے رہے کچھ لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ بھی کچھ کہیں آپ نے پیغمبر اسلام [ص] سے منقول اپنے بارے میں حدیثیں بیان کرنا شروع کیں سامعین ایک ایک حدیث پر اقرار کر رہے تھے اور آپ حدیث پر حدیث بیان کر رہے تھے یہاں تک کہ حدیث غدیر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«افتقرون أن رسول الله صلى الله عليه و آله دعانى يوم غدير خم فنادى لى بالولاية ثم قال : ليبلغ الشاهد منكم الغائب؟»قالوا: اللهم نعم. [5]
کیا آپ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ رسول خدا [ص] نے غدیر خم کے دن مجھے اپنے پاس بلایا اور میری ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا: حاضرین اس بات کو غائبین تک پہنچا دیں؟ سب نے کہا: بلکل ہم اقرار کرتے ہیں۔
۵:جنگ جمل کے میدان میں
جنگ جمل کے شروع ہونے سے پہلے امیر المومنین کے طلحہ و زبیر پر حجت تمام کرنے کے لیے ان سے ملاقات کرنے کا پیغام دیا طلحہ نے قبول کر لیا امیر المومنین علیہ السلام نے اس ملاقات میں اس سے یوں فرمایا:
«نشدتك الله هل سمعت رسول الله صلى الله عليه و آله يقول: «من كنت مولاه فعلى مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه»؟ قال: نعم. قال ـ عليه السلام ـ «فلم تقاتلنى؟» قال: لم اذكر. [6]
تجھے میں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم نے رسول خدا [ص] سے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں خدایا اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے۔؟ طلحہ نے کہا: ہاں میں نے رسول خدا سے سنا ہے۔
آپ نے کہا: پھر کیوں میرے ساتھ جنگ کر رہے ہو؟
طلحہ نے کہا: میں بھول گیا تھا۔
۶: صفین کے موقعہ پر
جنگ صفین میں جب معاویہ کے بھیجے ہوئے نمائندہ امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تاکہ معاویہ اور آپ کے درمیان صلح کروائیں تو آپ نے ایک خطبہ بیان کیا جس میں فرمایا:
«أنشد كم الله فى قول الله: (يا ايها الذين آمنوا أطيعوا الله و أطيعوا الرسول و أولى الأمر منكم) [7] و قوله: (إنما وليكم الله و رسوله و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة و يؤتون الزكاة و هم راكعون) [8] ثم قال: (و لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين وليجة)، [9] فقال الناس: يا رسول الله، أخاص لبعض المؤمنين أم عام لجميعهم؟ فأمر الله عز و جل رسوله أن يعلمهم فيمن نزلت الايات و أن يفسر لهم من الولاية ما فسر لهم من صلاتهم و صيامهم و زكاتهم و حجهم. فنصبنى بغدير خم و قال: «إن الله ارسلنى برسالة ضاق بها صدرى و ظننت أن الناس مكذبونى، فأوعدنى لأبلغنها أو يغذبنى، قم يا على» ثم نادى بالصلاة جماعة فصلى بهم الظهر ثم قال: «ايها الناس، إن الله مولاى و أنا مولى المؤمنين و أولى بهم من أنفسهم، ألا من كنت مولاه فعلى مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه، و انصر من نصره و اخذل من خذله.» فقام إليه سلمان الفارسى فقال: يا رسول الله ولائه كماذا؟ فقال: «ولائه كولايتى، من كنت اولى به من نفسه فعلى أولى به من نفسه.» و أنزل الله تبارك و تعالى : (اليوم اكملت لكم دينكم و أتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الإسلام دينا) [10] ...» [11]
میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ان آیات کے بارے میں کیا کہتے ہو" اے صاحبان ایمان خدا، پیغمبر اور اولی الامر کی اطاعت کرو" اور" بیشک تمہارا ولی خدا اس کا رسول اور وہ شخص جو نماز قائم کرتا ہے اور حالت رکوع میں زکات دیتا ہے" اور" خدا ، پیغمبر اور مومنین کے علاوہ کسی کو اپنا صمیمی دوست نہ بناو" جب لوگوں نے رسول خدا [ص] سے سوال کیا تھا کہ ان آیات میں مومنین سے مراد سب مومنین ہیں یا ان میں سے بعض ہیں؟ خدا نے پیغمبر اسلام کو حکم دیا کہ انہیں بتائیں کہ یہ آیات کس کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ولایت کو ان لیے تفسیر کریں جیسا کہ نماز، روزہ، زکات اور حج کی تفسیر کی۔ پیغمبر اسلام[ص] نے حکم خدا کی تعمیل میں غدیر خم میں مجھے خلافت کے منصب پر منصوب کیا۔ اور فرمایا: خد وند عالم نے مجھے ایسی ذمہ داری سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ بھاری ہو گیا ہے میں سوچ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے لوگ مجھے جھٹلائیں گے لیکن خدا وند عالم نے مجھے ڈرایا ہے کہ اس پیغام کو پہنچا دو ورنہ میرے عذاب میں مبتلا ہو جاو گے۔ اے علی اٹھو"۔ اس کے بعد لوگوں کو نماز جماعت کی دعوت دی اور نماز ظہر کو جماعت کے ساتھ بجا لائے۔ اس کے بعد فرمایا: اے لوگو خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور مومنین پر میرا اختیار خود ان سے زیادہ ہے جان لو جس جس کامیں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔ خدا وندا جو علی کو دوست رکھے اسے دوست رکھ جو علی سے بغض رکھے اس سے نفرت کر۔ جو علی کی مدد کرے اس کی مدد کر۔ اور جو علی کی مدد نہ کرے اس کو ذلیل و خوار کر دے۔
یہاں پر سلمان فارسی اٹھے اور کہا: یا رسول اللہ علی کا لوگوں پر اختیار اور ان کی ولایت کیسی ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: اس کا اختیار میرے اختیار کی طرح ہے جس شخص پر میں اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں علی بھی اس شخص پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں۔ خدا وند عالم نے اسی اثنا اس آیت کو نازل کیا: میں نے آج دین کو کامل کیا اور نعمت کو تمہارے اوپر تمام کیا اور راضی ہو گیا ہوں کہ اسلام تمہارا دین ہے۔"
۷: مسجد کوفہ میں
امام علی علیہ السلام نے کئی بار لوگوں کو مسجد کوفہ میں جمع کیا اور فرمایا کہ جو شخص بھی غدیر خم میں حاضر تھا اس نے حدیث غدیر کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے سنا کھڑے ہو کر گواہی دے۔
کئی بار آپ نے لوگوں سے مطالبہ کیا اور اصحاب پیغمبر میں سے کئی آدمیوں نے گواہی دی کہ ہم نے غدیر خم میں رسول اکرم [ص] سے اس بات کو سنا۔
احمد بن حنبل اپنی مسند میں امیر المومنین کے گواہوں میں سے ایک کی داستان یوں نقل کرتے ہیں:
علی [رضی اللہ عنہ] نے لوگوں کو رحبہ [ کوفہ کا ایک چوراہا] میں جمع کیا اور فرمایا: «أنشد الله كل امرئ مسلم سمع رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام.»
میں خدا کی قسم دیتا ہوں ہر مسلمان کو جس نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام کے خطبہ کو سنا ہے اٹھے اور گواہی دے۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں: ابی الطفیل کے بقول تیس لوگ اٹھے لیکن ابو نعیم نقل کرتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں نے اٹھ کر گواہی دی کہ پیغمبر اسلام [ص] کو غدیر خم میں مشاہدہ کیا اس حال میں علی [ع] کا ہاتھ پکڑے یہ فرما رہے تھے: آیا آپ یہ جانتے ہیں کہ میں مومنین پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں یا رسول اللہ آپ ہم سے زیادہ ہم پر اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔ خدایا اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔
ابی الطفیل جو اس روایت کے راوی ہیں کہتے ہیں: میں لوگوں کے مجمع سے باہر نکلا اس حال میں کہ اس حدیث کو قبول کرنا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا اور میں شک کی حالت میں تھا لہذا زید بن ارقم کے پاس گیا اور جوکچھ میں نے علی [ع] سے اس دن سنا اس کو بتایا۔ زید بن ارقم نے کہا: حق وہی ہے جو تم نے سنا ہے۔ میں نے خود ان تمام حدیثوں کو رسول خدا [ص] سے سنا ہے۔ [12]
۸:کوفہ میں
امام علی [ع] کوفہ میں اپنے ایک خطبہ میں واقعہ غدیر اور پیغمبر اسلام [ص] کی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اپنے حق کے اثبات کی طرف اشارہ کررہے تھے اور لوگوں سے گواہی لے رہے تھے، اسی محفل میں انس بن مالک بھی موجود تھے لیکن انس نے کسی مصلحت کے تحت گواہی دینےسے انکار کر دیا۔
ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں یوں نقل کرتے ہیں:
«المشهور أن عليا ـ عليه السلام ـ ناشد الناس الله فى الرحبة بالكوفة، فقال: أنشدكم الله رجلا سمع رسول الله صلى الله عليه و آله، يقول لى و هو منصرف من حجة الوداع: من كنت مولاه فعلى مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه، فقام رجال فشهدوا بذلك. فقال ـ عليه السلام ـ لانس بن مالك: «لقد حضرتها فما بالك؟. فقال: يا اميرالمؤمنين كبرت سني و صار ما أنساه اكثر مما اذكر. فقال [على عليه السلام ] له: ان كنت كاذبا فضربك الله بها بيضاء لا تواريها العمامة. فما مات حتى أصابه البرص». (13)
مشہور ہے علی علیہ السلام نے کوفہ کے رحبہ میں لوگوں کو قسم دی اور کہا کہ خدا کی قسم دیتا ہوں جس شخص نے رسول اسلام کے حجۃ الوداع سے واپسی پر آپ سے سنا کہ میرے بارے میں آپ [ص] نے فرمایا: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ" اٹھے اور گواہی دے۔ اس کے بعد علی علیہ السلام نے انس بن مالک سے فرمایا: تم بھی اس دن موجود تھے کیوں گواہی نہیں دیتے۔ انس بن مالک نے کہا: یا امیر المومنین میری عمر زیادہ ہو چکی ہے مجھے بھولنے کی بیماری ہے جو کچھ مجھے یاد ہے اس سے زیادہ میں بھول چکا ہوں۔ امیر المومنین نے فرمایا: اگر تم جھوٹے ہو تو خدا تمہیں ایسی سفیدی کی بیماری میں مبتلا کرے کہ سفید عمامہ بھی اسے نہ چھپا سکے۔ اس کے بعد انس اس سے پہلے کہ دنیا سے جائیں برص کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔
۹: جنگ نہروان کے بعد
جنگ نہروان کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایک خط شیعوں کو لکھا اور کوفہ کے بزرگوں میں سے دس لوگوں کو حکم دیا کہ ہر جمعہ لوگوں کے حضور میں اس خط کو قرائت کیا جائے۔ آپ نے اس خط کے ایک حصہ میں اپنی ولایت پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا:
«و انما حجتى أنى ولى هذا الأمر من دون قريش، أن نبى الله صلى الله عليه و آله قال: «الولاء لمن أعتق» فجاء رسول الله صلى الله عليه و آله بعتق الرقاب من النار، و أعتقها من الرق، فكان للنبى صلى الله عليه و آله، ولاء هذه الأمة، و كان لى بعده ما كان له، فما جاز لقريش من فضلها عليها بالنبى صلى الله عليه و آله، جاز لبنى هاشم على قريش، و جاز لى على بنى هاشم يقول النبى صلى الله عليه و آله يوم غدير خم «من كنت مولاه فعلى مولاه»، الا أن تدعى قريش فضلها على العرب بغير النبى صلى الله عليه و آله. فإن شاءوا فليقولوا ذلك...» [13]
اس بات پر دلیل کہ میں صاحب امر ہوں نہ قریش ، یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا: "ولایت اش شخص کے لیے ہے جو آزاد کرے" اور چونکہ پیغمبر اسلام نے لوگوں کو پتوں کی پرستش اور آتش جہنم سے آزاد کیا لہذا امت پر ولایت رکھتے ہیں۔ آنحضرت کے بعد وہی ولایت میری طرف منتقل ہوئی ہے اس لیے کہ ہر فضیلت جو قریش امت پر رکھتے ہیں پیغمبر ہی کی وجہ سے ہے اس بنیاد پر بنی ہاشم تمام قریش پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اور میں اسی فضیلت کو بنی ہاشم پر رکھتا ہوں اس لیے کہ رسول خدا نے غدیر کے دن میرے بارے میں فرمایا ہے: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ مگر یہ کہ قریش دعوی کریں کہ پیغمبر اسلام سے رشتہ داری کے علاوہ کوئی اور فضیلت رکھتے ہیں۔
دوسرے موارد کے منابع
۔ شیخ طوسی، مصباح المجتھد ص۷۵۲
۔علامہ مجلسی،بحار الانوار ج ۹۷
۔ابن الصباح المالکی، الفصول المھمہ، ۱۵
۔ابن الجوزی، تذکرۃ الخواص، ص ۱۰۳
۔حموینی، فوائد السمطین، ج۱ ص۴۲۷
۔شیخ مفید، الفصول المختارۃ، ج۲، ص۷۰
۔طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۴۲۹
۔قندوزی حنفی، ینابیع المودۃ، ص۷۸
۔علامہ امینی، الغدیر، ج۲، ص۳۲
۔ ابن مغازلی شافعی، المناقب، ص۲۱
............
[1] احتجاج طبرسى، ج 1، ص 184؛ الامامة و السياسة، ص 29 ـ 30؛ بحارالانوار، ج 28، ص .185
[2] مائدة .3
[3] الروضة من الكافى، ج 8، ص .27
[4] مناقب ابن المغازلى، ص 114؛ مناقب الخوارزمى، ص 222؛ امالى، شيخ طوسى، ص 333؛ همان، ص 546؛ همان، ص 555؛ الاحتجاج، طبرسى، ج 1، ص 333 و 213؛ كشف اليقين، ص 423؛ نويسنده؟؛ فرائد السمطين، ج 1،ص 315؛ نويسنده؟؛ ارشاد القلوب، ج 2، ص .259
[5] كتاب سليم بن قيس، حديث 11، ص 641؛ فوائد السمطين، ج 1، ص 312؛ الغدير، ج 1، ص .163
[6] مناقب الخوارزمى، ص 182؛ مستدرك حاكم، ج 3، ص 371؛ مروج الذهب، ج 2، ص 373؛ تذكرة الخواص، ابن الجوزى، ص 73؛ مجمع الزوائد، ج 9، ص .107
[7] النساء، .59
[8] المائده، .55
[9] التوبة، .16
[10] المائده، .3
[11] كتاب سليم بن قيس، ص 758؛ الغدير، ج 1، ص 195؛ احتجاج طبرسى، ج 1، ص 341؛ فرائد السمطين، ج 1، ص 314؛ كمال الدين، ج 1، ص 274؛ بحارالانوار، ج 33، ص .147
[12] مسند احمد بن حنبل، ج 4، ص 370؛ اين حديث در صدها كتاب شيعه و سنى با عبارات مختلف نقل شده است.
[13] كشف المحجة، سيد بن طاووس، ص .246 معادن الحكمةفى مكاتيب الائمة، فصل 2؛ بحار، ج 30،ص .7
source : http://www.alhassanain.com