اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

اسلام میں وحدت و یگانگی کا تصور

بہت سی ایسی قرانی آیات ھیں جن میں انسان کو رحمت وحدت اور اسلامی ا انسانی اخوت انصاف اور حصول علم کی طرف دعوت دی گئی ھے اور ان امور کو اسلامی معا شرہ میں ضروری کہا گیا ھے ، سورت احزاب میں زکر باری تعالی ھے اللہ نے کسی انسان کے دل میں دو دل پیدا نہیں کئے یعنی کسی کو دو طرح سوچنے کی صلاحیت نہیں دی ھے یعنی اس میں اللہ ایک مسلمان کو ایک پاکباز آلائشوں سے پاک عہد و پیمان پر باقی رہنے والا انسان قرار دیا گیا ھے جس سے دین و ایمان مستحکم ھو جاتا ھے ھمیں پیروی رسول کا پابند کیا گیا ھے جو سراسر انسانیت کی بھلائی کی تعلیمات ھیں یہی وجہ ھے کے مسلمان آپس میں دوری اور انتشار کا شکار ھیں ھم نے دین کی اصل کو چھوڑ دیا بھلا دیا ھے۔

کچھ لوگ تو دین یا مزہب کی انتہا پسندی کے اتنا قائل ھیں کے کہ اپنے سوا کسی کو مسلمان نھیں سمجھے بلکہ کافی بار تو زندہ رھنے کا حق بھی نھیں دینا چاھتے جب کی قرآن میں ارشاد باری تعالی ھے جو شخص کسی کو نہ جان کے بدلے میں نا ملک میں فساد پھیلانے کی سزا کے بدلے میں بلکہ نا حق قتل کر دے تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا سورت مائدہ آیت نمبر 32،۔ اسی طرح سورت نسا میں ھے کسی ایماندار کے لئے یہ جائز نھیں کہ کسی مومن کو جان سے مار ڈالے اگر وہ ایسا کر گا تو اس کی سزا دوزخ ھے اور وہ ھمیشہ اس میں رھے گا ، امت اسلامی اور دوسرے اہل کتاب بھی اس بات پر اتفاق رکھتے ھیں کہ شریعت کا مقصد ضروریات دین جان مال نسل وعقل کی حفاظت ھے ان کا کہنا ھے کہ انسانی جان کے تحفظ پر اس قدر تاکید کی گئی ھے کہ قتل نفس پر قصاص رکھاگیا ھے اور عزاب خدا سے ڈرایا گیا ھے اور قتل نفس گناہ کبیرہ ھے جو شرک کے قریب ھے ۔

جس طرح نماز ایمان سے قریب ھے رسو ل خدا کا فرمان ھے اسامہ بن حارثہ سے میں نے سنا کہ انھوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ نے ھمیں جھنیہ قبیلے کے حرقہ طائفہ کی طرف روانہ فرمایا علی الصبح ھم لوگ وہاں پھنچ گئے اور انھیں شکست دے دی اسامہ کہتے ھیں میں نے اور ایک انصاری نے حرقہ کے ایک شخص کو قتل کر دیا جب ھم اس کو مارنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا جس سی انصاری نے تلوار ھٹا لی لیکن میں نے اس کو مار دیا جب ھم وہاں سے واپس آئے اور رسو ل اللہ کو یہ بات پتا چلی تو آپ برھم ھوئے اور بار بار فر مایا تم نے کلمہ پڑھنے کے باوجود اس کو قتل کیا آپ صلے اللہ علیہ وسلم نے اتنی بار کہا کہ اسامہ بن حارثہ کہتے ھیں کہ میں اس قدر شرمندہ ھوا کے خود کو کوستا رھا کی میں نے ایسا کیوں کیا ۔ایک اور حدیث پاک ھے کہ روز قیامت لا الا الہ اللہ تمھارا دامن تھام لے گا تو تم کیا جواب دو گے ۔


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1

 
user comment