اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

تہران اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں کمی سے آل سعود کو تشویش

 تہران اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں کمی سے آل سعود کو تشویش

 

آل سعود نے اپنی قسمت صہیونی ریاست سے جوڑ رکھی ہے چنانچہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کم ہونے کا امکان سامنے آنے کی بنا پر آل سعود کی حکومت بھی صہیونی ریاست کی طرح تشویش میں مبتلا ہے۔ 

 

 تہران اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں کمی سے آل سعود کو تشویش

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی مطابق بعض مغربی اور اسرائیلی نیز عرب سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بحالی کا امکان سامنے آنے کی وجہ سے علاقے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور اگر امریکہ ایران کو رعایتیں دے تو یہ صورت حال سعودی عرب اور اسرائیل کی تشویش کا سبب ہوگی۔ اور وہ دونوں اس سلسلے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ 

آل سعود اور اسرائیل کو تشویش ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کم ہونے کی صورت میں ایران کے موقف کو تقویت ملے گی اور یہ ان کے مفاد کے خلاف ہے۔ 

ادھر امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" میں ایک مضمون کے ضمن میں "جی سالومن" نے کہا کہ سعودی عرب کی آج تک کوشش رہی ہے کہ مشرق وسطی اور ایشیا کی مسلمانوں کو ایک غیر رسمی اور غیر اعلانیہ محاذ کے طور پر ایران کے خلاف منظم کرے جس کی وجہ سے بعض امریکی حکام عالم عرب میں فرقہ واریت کی نئی لہر کے امکان کی بنا پر، فکرمند ہوگئے ہیں۔ آل سعود کے حکام کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان، ملائشیا اور انڈونیشیا سے قریب تر ہوجائیں اور ان سفارتی اور عسکری مدد سے بحرین میں اقلیتی حکام کے خلاف اکثریتی شیعہ آباادی کی تحریک کے شعلے بجھا سکیں۔ 

سالومن کے بقول بحرین کے انقلاب میں عرب حکمران عوام کی حمایت کرنے کے بجائے ان کے خلاف آل خلیفہ کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے وہ ایسا کرکے ایران کا مقابلہ کررہے ہیں۔ 

سالومن لکھتے ہیں: گوکہ آل سعود کی کوششیں ایران کے خلاف ہیں جو امریکہ اور آل سعود کا مشترکہ دشمن ہے لیکن اس کی وجہ سے آل سعود اور اوباما انتظامیہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ کیونکہ جب سعودی عرب پاکستان کو مشرق وسطی میں کردار ادا کرنے کی دعوت دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں جنوب ایشیا میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور سعودی کوششیں مشرق وسطی کے پرتناؤ حالات کو ایک پرامن نتیجے کی طرف لے جانے کی امریکی کوششوں کے لئے خطرناک ہے۔ 

بعض پاکستانی حکام کے مطابق، بندر بن سلطان نے مارچ 2013 میں بعض طاقتور پاکستانی جرنیلوں سے درخواست کی تھی کہ وہ بحرین میں آل سعود کی کاروائیوں کی مدد کریں۔ 

ان حکام کا کہنا تھا کہ بندر نے پاکستانی جرنیلوں سے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے یا جنوبی ایشیا میں پاکستان کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے امریکی وعدوں کو اہمیت نہ دیں ورنہ 

سعودی عرب سے متعلق امریکی عہدیداروں نے بھی امریکی پالیسیوں سے آل سعود کی مایوسی کی تائید کرچکے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ امریکہ اور آل سعود کے درمیان تعلقات میں آنے والی خرابیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ 

آل سعود نے 1990 سے 2003 تک عراق کے خلاف امریکہ کی مدد کی تھی لیکن وہ صدام حکومت کے خاتمے کے خلاف تھے اور صدام کو ایران کے مقابلے میں مستحکم مورچہ سمجھتے تھے لیکن امریکہ نے اس کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور جب سے اوباما برسراقتدار ہيں ال سعود نے ایران کے ساتھ امریکہ کے طرز سلوک کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کا خیال تھا کہ اوباما ایران کے ساتھ سفارتی تعامل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔  

سنہ 2009 میں آل سعود نے ایران کا مقابلہ کرنے کے بہانے شمالی یمن پر حملہ کیا اور ایک نئی پراکسی وار شروع کرنے کا عزم کیا لیکن ایک طرف سے حوثیوں نے آل سعود کے دانٹ کھٹے کردیئے اور سعودی افواج کو لینے کے دینے پڑگئے اور دوسری طرف سے اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا کہ انہیں شمالی یمن میں ایران کی کردار کا کوئی ّبوت نہیں ملا ہے۔ 

آل سعود جو مصر کے سابق حکمران حسنی مبارک کی سرنگونی کے سلسلے میں امریکہ سے شکایت کررہا تھا اس وقت مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد مصر کے حوالے سے اب سکھ کا سانس لے رہے ہیں اور مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد آل سعود کی حکومت نے سب سے پہلے نئی حکومت کو مبارک باد کا پیغام دیا۔ سعودی حکمران مرسی اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام سے فکرمند تھے گوکہ مرسی حکومت نے آل سعود، آل صہیون اور امریکہ سے عملی اظہار عقیدت کی غرض سے ایران کے ساتھ تعلقات مزید خراب کرنے کی وسیع کوششیں کیں لیکن وہ پھر بھی اخوانی تھے اور شاہ عبداللہ کے ہاتھ چومنے اور شمعون پیرز کو ذلیلانہ پیغات دینے اور امریکہ کی خواہشات کو محترم قرار دینے کے باوجود ان کے نزدیک لائق اعتماد نہ ٹہر سکے اور اس وقت نہ صرف وہ خود جیل می ہیں بلکہ انقلاب مصر بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 

ادھر سالومن کے مطابق سعودی عرب اور ایران دو الگ الگ کیمپوں کے طور پر ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ایران حکومت شام ، لبنانی حزب اللہ اور فلسطینی حماس کی حمایت کررہا ہے اور یہ تینوں اسرائیل کے شدید ترین دشمن ہیں جبکہ خلیج فارس کی عرب ریاستیں، مصر اور مراکش آل سعود کے حامی ہیں اور آل سعود شام میں دہشت گرد مسلح افراد، فلسطین میں اسرائيل کو تسلیم کرنے والے فتح گروپ اور ابو مازن کی حمایت کررہے ہيں جن کے مفادات کسی طور بھی اسرائیلی مفادات سے متصادم نہيں ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عراق میں ایران کے سینئر فوجی کمانڈر شہید
یورپ کی فٹ بال سوپرلیگ کے 17 کھلاڑی مسلمان ہوگئے
سانحہ پشاور۔۔۔۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یمن میں داعش کی سازش ناکام
علما‏ئے الازہر: وہابیت اسلام اور عالمی امن کے ...
اسلامی فیشن شو
علامہ ساجد نقوی: فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا ...
تہران میں اسلام اور ارتھوڈكس عيسائيت كے درميان ...
نائیجیریا میں سات سو سے زائد شیعہ لاپتہ ہیں
پاکستان میں شدید بارشیں، سینکڑوں دیہات زیر آب

 
user comment