اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

پیامبر رحمت(ص) کی عملی زندگی کے چند نمونے ۱

مومن سے ملاقات کے وقت
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دولت خانہ پر ایک شخص آیا اور آنحضرت سے ملاقات کی درخواست کی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص سے ملاقات کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے پانی کا ایک برتن سامنے رکھا اپنے بالوں کو مرتب کیا اس کے بعد اس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔

جناب عائشہ نے آپ کے اس عمل سے تعجب کیا اور واپس آتے ہی آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ ! ملاقات سے پہلے کیوں آپ پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوئے اور بالوں اور چہرے کو مرتب کیا؟

فرمایا: اے عائشہ! خداوند عالم دوست رکھتا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائے تو اپنے آپ کو مرتب اور مزین کرے۔[1]

کھانا کھاتے وقت
منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تواضع اور انکساری کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تھے، اپنا وزن اپنے بائیں پہلو پر ڈالتے تھے اور کھانا کھاتے وقت کسی چیز سے ٹیک نہیں لگاتے تھے، اللہ کے نام سے شروع کرتے اور لقموں کے درمیان بھی اللہ کو یاد کرتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ 
آپ کا یہ عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ نعمتیں عطا کرنے والے کی یاد میں رہنا چاہیے۔
 آپ کھانا کھانے میں زیادہ روی نہیں کرتے تھے، جب کسی کھانے کو ہاتھ لگاتے تھے تو فرماتے تھے: "بسم اللہ، پروردگارا! اس میں برکت عطا فرما"۔ آپ کسی بھی کھانے کو خراب نہیں کہتے تھے اگر دل چاہتا تھا تو کھاتے تھے ورنہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ آپ کبھی بھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے آپ چاہتے تھے کہ دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ دسترخوان پر آپ سب سے پہلے شروع کرتے تھےاور سب سے آخر میں ہاتھ کھینچتے تھے تاکہ دوسروں کو کھانا کھانے سے شرم محسوس نہ ہو اور بھوکے دسترخوان سے نہ اٹھ جائیں۔ آپ ہمیشہ کھانا اپنے سامنے سے کھاتے تھے اور گرم کھانا نہیں کھاتے تھے، آپ کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا جیسے جو کی روٹی اور نمک۔ آپ نے کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ آپ کھانے میں خرما زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔[۲]

بیٹھتے وقت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کا انتخاب نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی وہاں بیٹھ جاتے چاہے دروازے کے پاس ہی جگہ مل جائے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اٹھتے یا بیٹھتے وقت کوئی آپ کے احترام کے لیے اٹھے۔ آپ اس بارے میں فرماتے تھے: "جو شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے احترام میں کھڑے ہوں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔"[۳]

جنگ پر لشکر بھیجتے وقت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنگ کے لیے لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے تھے تو لشکر کو اپنے پاس بلاتے تھے اور ان سے فرماتے تھے: اللہ کے نام سے اس کی راہ میں اور اس کے پیغمبر کے بتائے ہوئے راستے سے جنگ پر جانا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ خیانت نہ کرنا، انہیں مثلہ(ناک،کان کاٹنا) نہ کرنا، ان کے ساتھ مکاری اور دغہ بازی نہ کرنا۔ بوڑھے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ مت کرنا۔ درختوں کو مت کاٹنا مگر یہ کہ جہاں مجبوری ہو۔ مسلمانوں میں سے ہر کوئی چھوٹا بڑا مشرکین کو پناہ دینے کا حق رکھتا ہے اگر کوئی کسی کو پناہ دے تو وہ اس کی پناہ میں رہے گا تاکہ پیغام اسلام کو سن سکے اور اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو تم مسلمان بھائیوں میں سے ہو جائے گا اور اگر اس نے انکار کر دیا تو اس کو اس کے گھر تک پہنچا دینا اور خدا سے مدد چاہنا۔ [۴]
برے پڑوسی کے ساتھ سلوک
ایک آدمی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ سے اپنے ہمسایہ کی طرف سے پہنچنے والی اذیت و آزار کی شکایت کی۔ رسول خدا [ص] نے فرمایا: (اگر وہ اذیت کرتا ہے تو) تم صبر کرو۔ دوسرے دن پھر آیا اور دوبارہ اس کی شکایت کی۔ آپ نے پھر صبر کرنے کی تلقین کی۔ تیسری بار پھر وہ شخص اپنے ہمسایہ کی شکایت لے کر آن پہنچا۔ آنحضرت نے اس سے فرمایا: جمعہ کے دن جب لوگ نماز جمعہ کے لیے مسجد کی طرف جا رہے ہوں تو اپنے گھر کا سامان نکال کر گلی میں رکھ دینا اور جب لوگ تم سے وجہ معلوم کریں تو سارا قصہ ان سے بتانا۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ وہ اذیت دینے والا پڑوسی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: سامان کو واپس گھر میں رکھ دو میں خدا کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اس کے بعد تمہیں اذیت نہیں کروں گا۔[۵]
علم و دانش کی اہمیت
انصار کا ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ایک طرف جنازہ رکھا ہو اور دوسری طرف علماء کی مجلس ہو تو میں کس کو ترجیح دوں اور کس میں شرکت کروں؟ [ یعنی نماز جنازہ میں شرکت کروں یا علماء کی بزم میں بیٹھوں؟] رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر جنازے کو کفن و دفن کرنے والے اتنے لوگ ہوں کہ تمہاری گردن سے تکلیف ساقط ہو جائے تو علماء کی بزم میں شرکت کرنا ہزار جنازوں کی تشییع کرنے، ہزار مریضوں کی عیادت کرنے، ہزار شب و روز نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے، ہزار فقیروں کو صدقہ دینے، ہزار مستحبی حج بجا لانے اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے ہزار جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ یہ سب چیزیں ایک عالم کے حضور میں شرفیاب ہونے کی فضیلت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ کیا نہیں سنا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور بندگی علم اور معرفت سے وابستہ ہے؟ دنیا اور آخرت کی خیر و خوبی علم کی مرہون منت ہے؟ اور دنیا اور آخرت کی بدبختی جہالت  کی وجہ سے ہے؟[۶]

دوسروں کا احترام کرنا
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے تو جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرلے آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے پیچھے نہیں کھینچتے تھے۔ کوئی بھی اگرکوئی کام آپ کے سپرد کرتا تھا تو آپ اس کو فورا انجام دیتے تھے مگر یہ کہ وہ خود اس سے منصرف ہو جائے۔ جب آپ کسی سے گفتگو کرتے تھے تو جب تک سامنے والا خود خاموش نہ ہو جائے آپ سے محو گفتگو رہتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ کسی دوسرے کے پاس پاوں پھیلا کر بیٹھے ہوں۔[۷]

بچوں کا احترام
 ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف فرما تھے  کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام وارد خانہ ہوئے۔ آنحضرت ان کے استقبال کے لیے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور ان کا انتظار کرنے لگے چونکہ بچے دھیرے دھیرے چل رہے تھے کچھ لمحوں کے بعد پیغمبر اکرم خود ان کی طرف بڑھے اور دونوں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور لے کر چل پڑے اور فرما رہے تھے: میرے عزیز بچو!  تمہاری سواری کتنی اچھی ہے اور تم سوار بھی کتنے اچھے ہو۔ [۸]

والدین کا احترام
ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ ! میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کے دروزے اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لوں۔ لہذا کیا کروں؟

آنحضرت نے فرمایا: اپنی ماں  کے پیروں اور باپ کی پیشانی کا بوسہ لو۔[یعنی اگر ایسا کرو گے تو اپنی مراد کو پہنچ جاو گے]

اس نے کہا: اگر والدین مر چکے ہوں تو کیا کروں؟

آپ نے فرمایا: ان کی قبروں کا بوسہ لو۔ [۸]

مومن کا احترام
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کی طرف نگاہ کر کے فرمایا:

خوش نصیب ہے تو اے گھر! جسے عظیم سمجھا جاتا ہے اور جس کا احترام کیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم مومن اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ محترم ہے اس لیے کہ خداوند عالم نے تیرے لیے ایک چیز کو حرام کیا ہے وہ یہ کہ تیرے پاس قتل و غارت حرام ہے۔ لیکن مومن کے لیے تین چیزوں کو حرام کیا ہے مومن کی جان، اس کا مال، اور اس کی نسبت برا گمان کرنا حرام قرار دیا ہ[۹]

کام کی اہمیت
ابن عباس کہتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی شخص سے ملاقات کرتے تھے تو سب سے پہلے اس سے اس کے مشغلے اور کام کے بارے میں سوال کرتے تھے، اگر وہ کہتا تھا کہ بیکار ہوں تو آپ فرماتے تھے: میری نظروں سے گر گئےہو۔ اور جب اس کی وجہ معلوم کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: جب مومن بیکار ہو جاتا ہے تو مجبورا اپنے دین کا اپنے معاش سے سودا کرتا ہے۔[۱۰]
اصول کی پابندی
عبد اللہ بن ابی، منافقین کا سردار جس نے بظاہر کلمہ شہادت پڑھ کر امان حاصل کر رکھی تھی لیکن باطنی طور پر وہ رسول خدا کی مدینہ ہجرت اور اپنی حکومت کی بساط سمٹنے سے سخت رنجیدہ تھا اور اپنے دل میں رسول خدا اور اسلام کی نسبت عداوت پال رہا تھا۔ اور اسلام کے دشمن یہودیوں کے ساتھ مل کر، اسلام کے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا۔ آنحضرت نہ صرف اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے اصحاب اسے اس کے عمل کی سزا دیں بلکہ مکمل احترام کے ساتھ اس کے ساتھ برتاو رکھتے تھے اور بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنے جاتے تھے۔

غزوہ تبوک سے پلٹتے وقت بعض منافقین نے آنحضرت کی جان لینے کی سازش کی اس طرح سے ایک گھاٹی سے گزرتے وقت آپ کی سواری کو گرایا جائے۔ اس کے باوجود کہ سب منافقین نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے پیغمبر اکرم(ص) نے سب کو پہچان لیا لیکن اپنے اصحاب کے درمیان ان کا راز فاش نہیں کیا اور انہیں کسی قسم کی سزا دینے سے صرف نظر کرلیا۔ [۱۱]

سماج کے لیے نمونہ عمل
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا لباس خود سیتے تھے، اپنے کپڑوں کو خود ٹانکتے تھے، اپنی گوسفند کو خود دوتے تھے غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور گدھے پر سوار ہوتے تھے۔ اور بازار جانے سے شرم نہیں کرتے تھے خود گھر میں ضرورت بھر کی چیزوں کو خرید کر لاتے تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے اور جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے  نہ کرے آپ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے۔ سب کو سلام کرتے تھے اور جب کوئی آپ کو دعوت کرتا تھا چاہے خرما پر ہی کیوں نہ ہوتو آپ اس کی دعوت کو کبھی ٹھکراتے نہیں تھے۔ آپ اسراف اور فضول خرچی سے شدید پرہیز کرتے تھے اور ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ کا چہرہ خشاش بشاش ہوتا تھا اور آپ کا رنج و غم غصہ کے ساتھ آمیختہ نہیں تھا۔ تواضع و انکساری میں ذلت و رسوائی نہیں تھی، آپ بخشش کرنے والے اور مہربان دل انسان تھے، سب مسلمانوں کے ساتھ مہربانی کرتے تھے۔ کبھی بھی دسترخوان سے سیر ہو کر نہیں اٹھتے تھے اور کسی چیز کی طرف طمع کا ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ [۱۲]
امتیاز کا قائل نہ ہونا
نقل ہوا ہے کہ ایک دن  رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ ایک سفر پر  تھے کھانے کے لیے آپ نے ایک گوسفند کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! گوسفند کو ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا: اس کی کھال اتارنا میری ذمہ داری ہے۔ تیسرے نے کہا: اس کو پکانا میرا کام ہے۔ آنحضرت [ص] نے ان کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے فرمایا: لکڑیاں جمع کر کے لانا میرا کام ہے۔ اصحاب نے کہا: رسول اللہ ! ہم ہیں نا، لکڑیاں خود اکھٹا کریں گے۔ آپ زحمت نہیں اٹھائیں۔ فرمایا: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے آپ کو تمہارے درمیان ممتاز سمجھوں۔ یقینا خداوند عالم کو بھی اس بات سے نفرت آتی ہے کہ اس کا بندہ اپنے دوستوں کے درمیان خود کو ممتاز سمجھنے لگے۔[۱۳]
انصاف
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کی عمر مبارک سات سال تھی تو ایک دن آپ نے  اپنی  دائی حلیمہ سعدیہ  سے پوچھا : میرے بھائی کہاں ہیں [ چونکہ آپ جناب حلیمہ کے گھر میں رہتے تھے اور جناب حلیمہ کے بیٹوں کو اپنا بھائی سمجھتے تھے ] حلیمہ نے جواب دیا: بیٹا! وہ ان بھیڑ بکریوں کو لے کر چراگاہ گئے ہیں جنہیں خدا وند عالم نے آپ کے وجود کی برکت سے ہمیں عطا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: مادر گرامی! آپ نے میرے سلسلے میں انصاف سے کام نہیں لیا ۔ ماں نے پوچھا : کیوں؟ فرمایا: کیا مناسب ہے کہ میں گھر کی چھت کے سائے میں رہوں اور دودھ پیوں جبکہ میرے بھائی جنگلوں اور صحراوں کی تپتی دھوپ میں جائیں؟[۱۴]۔
حوالہ جات
[1] حمید رضا کفاش،۱۲۰ درس زندگی از سیرہ پیغمبر [ص]، ص۱۶۔
[۲] بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۶ سے ۲۴۶ تک۔
[۳] بحار الانوار، ج۱۶،ص۱۵۲۔
[۴] وسائل الشیعہ، ج ۱۱، ص۴۲۴
[۵] سفینۃ البحار، مادہ جور، ص ۱۹۰ با نقل از امام محمد باقر علیہ السلام۔
[۶] بحار الانوار،ج۱،ص۲۰۴۔
[۷] ۱۲۰ درس زندگی، حمید رضا کفاش،ص۲۰
[۸] بحار الانوار، ۲۸۵/۴۳ح۵۱، مناقب اب شھر آشوب،۳۸۸/۳۔
[۸] بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان،ص۷۹۔
[۹] سفینۃ البحار، مادہ امن۔
[۱۰] بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۹۔
[۱۱] صحیح بخاری، ج۵،ص۱۵۲۔
[۱۲] صحیح بخاری، ج۵، ص ۳۳۰۔
[۱۳] منتھی الامال، ج۱، ص۲۳۔
[۱۴] بحار الانوار، ۳۷۶/۱۵۔


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی كامنصب
امام زمانہ سے منسوب جزیرہ برمودا ٹرائنگل
کیا عباس بن عبدالمطلب اور ان کے فرزند شیعوں کے ...
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
امام جعفر صادق اورفکری جمود سے مقابلہ
جلال و جبروت حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام
امیر المومنین علی علیہ السلام کی نگاہ میں ...

 
user comment