دنیا کے تمام مسلمان اور غیر مسلمان اس بات کے گواہ ہے کہ کچھ سالوں سے امریکہ اور صہیونیت کے زیر سایہ تربیت یافتہ وہابی نامی فرقہ مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کا قتل عام کر رہا ہے اور مظلوم اور نہتے عوام کو خاک و خون میں غلطاں کرنے میں مصروف ہے جبکہ انسانی حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے والی عالمی تنظیموں کے کانوں میں جوں تک بھی نہیں رینگ رہی ہے اور وہ خاموشی سے تماشائی بنی ہوئی ہیں اور عالمی استکبار جو ان ظالموں کی کھلے عام حمایت کر رہا ہے کے سامنے ان کی بولتی بند ہے!
ان واقعات اور حادثات کے پیش نظر ہم اس مقالے میں کوشش کریں گے کہ ان تشدد آمیز کاروائیوں کو وجود میں لانے والے اس فرقے پر ایک تحقیقی نگاہ ڈالیں جو سعودی عرب، قطر اور ترکی کی براہ راست حمایت سے انسان کشی اور حقیقی اسلام کی نابودی کے در پہ ہے۔ اس مقالے میں ہم یہ بیان کریں گے کہ یہ فرقہ جو محمد بن عبد الوہاب کے ذریعے معرض وجود میں آیا کیسے پیدا ہوا؟ اس کو وجود میں لانے کے اہداف و مقاصد کیا تھے؟ اور ان کے نظریات اور افکار کیا ہیں؟
اصلی گفتگو میں وارد ہونے سے پہلے درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:
۱: فرقہ وہابیت جو جزیرۃ العرب میں محمد بن عبد الوہاب تمیمی نجدی (۱۱۱۵۔۱۲۰۶ھ ق) کے ذریعے بارہویں صدی ہجری میں معرض وجود میں آیا ایک گمراہ، منحرف اور اسلامی تعلیمات سے دور فرقہ تھا کہ جس نے اب تک عالم اسلام کے اندر سوائے فتنہ پروری اور قتل و غارت کے کچھ نہیں کیا۔
۲: خالص توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی کرنے والا یہ فرقہ ضالہ عالمی استکبار اور استعمار کے ساتھ ساز باز کر کے اسلامی عقائد میں تحریف اور اسلامی آثار کو مٹا کر دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرنا چاہتا ہے۔
۳: امریکہ اور برطانیہ نے مسلمانوں کے اندر یہ فرقہ وجود میں لا کر مسلمانوں کو پاش پاش کرنے کے لیے اپنا آلہ کار بنایا اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو گہرا صدمہ پہنچایا۔
۴: اس فرقہ نے سر زمین وحی پر اپنا قبضہ جما کرایک طرف تو خالص توحید کا دعوی کیا اور دوسری طرف کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کر کے اسلامی سرمایے کو ان تک منتقل کر دیا۔
۵: فرقہ وہابیت نے وجود میں آتے ہی مذہب تشیع کے ساتھ دشمنی کا قد علم کر دیا تھا بلکہ یہ فرقہ در حقیقت مذہب تشیع ہی خلاف وجود میں لایا گیا تھا لیکن چودہویں صدی ہجری میں امام خمینی(رہ) کی رہبری میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد شیعوں کی نسبت اس فرقے کی تشدد آمیز کاروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور شیعت کے خلاف تبلیغ زور پکڑ گئی یہاں تک کہ دقیق رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں جو وہابیت کا مرکز ہے اس وقت ایک شب و روز کے اندر سینکڑوں مقالے، کتابیں اور میگزین شیعوں کے خلاف چھپتے ہیں، بڑے پیمانے پر کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں جن میں مختلف طرح کے مغالطوں سے شیعوں کو کافر ٹھہرایا جاتا ہے اور کئی ایسے تبلیغی سنٹر اور ایجنسیاں قائم کی گئی ہیں جن کا مقصد صرف شیعوں کے خلاف منصوبہ بندی کرنا اور سازشیں رچانا ہے۔
۱:محمد بن عبد الوہاب کون تھا؟
جزیرۃ العرب (سعودی عرب)(۱) میں بارہویں صدی ہجری میں وہابی نامی ایک فرقہ نے ظہور کیا جس کا بانی شیخ محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان تھا جو ۱۱۱۵ ھ ق میں شہر عُیَینہ میں پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپنے سے ہی تفسیری، حدیثی اور کلامی کتابوں کے مطالعہ کا شوق رکھتا تھا (۲) اس نے فقہ حنبلی کو اپنے باپ کے پاس پڑھا جو اس وقت علمائے حنبل میں سے تھا اور اس شہر کا قاضی تھا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے مزید علم حاصل کرنے اور علمی معلومات اکٹھا کرنے نیز لوگوں کے عقائد و افکار سے آشنا ہونے کے لیے مخلتف شہروں جیسے حریملا، مکہ، مدینہ، بصرہ اور احساء کا سفر کیا۔ اس کے ان تمام شہروں کے سفر ۱۱۳۹ ہجری قمری کے بعد ہی شروع ہوئے۔ ان شہروں کے سفر کے دوران محمد بن عبد الوہاب نے لوگوں کے بعض عقائد و افکار کو مورد تردید قرار دیا اور خانہ کعبہ کے طواف کے دوران مسلمانوں کے عبادتی اعمال، قبور کی زیارت، اولیاء سے توسل، شفاعت وغیرہ جیسے مسائل پر نکتہ چینی شروع کی جو خود اس کے والد عبد الوہاب اور مکہ اور مدینہ کے دیگر سنی علماء کے غصے کا باعث بنی۔ اس نے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ مسلمانوں مخصوصا شیعوں پر کفر کے فتوے لگانا شروع کئے اور اعلان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک کی زیارت اور آنحضرت سمیت تمام انبیاء اور اولیائے الہی سے توسل کرنا شرک ہے!
اس کے باپ نے اس سے کہا کہ اس طرح کی انحرافی باتیں نہ کرے(۵) اس کا باپ اور بھائی محمد بن عبد الوہاب کے تفکر کے ساتھ مبارزے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اس کے بھائی نے دو کتابیں اس کے افکار کی رد میں لکھیں ایک "الصواعق الإلهية فى الرّد على الوهابية" اور دوسری "فَصل الخطاب فى الرّد على محمدبن عبدالوهاب"۔ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے بھائی اور باپ کے درمیان نظریاتی اختلاف صرف کتابوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کی عملی زندگی اور عبادی امور جیسے مناسک حج، قبور کی زیارت، توسل اور شفاعت وغیرہ میں بھی سرایت کر گیا اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے درمیان بھی پھیل گیا۔ لوگ ابن عبد الوہاب کی باتوں سے سخت ناراض ہوتے تھے اور علماء اور بزرگان مخصوصا ان کے شاگردوں کے والدین عبد الوہاب کے پاس اس کی شکایت کرتے تھے۔ عبد الوہاب اپنے بیٹے کو منع کیا کرتے تھے لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ (۶) آخر کار اس کا باپ سن ۱۱۵۳ ھ میں فوت کر گیا۔
باپ کے انتقال کے بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب کو اپنے افکار پھیلانے اور اس کی ترویج کرنے کا بہترین موقع مل گیا اس نے اپنے کچھ مرید تیار کر لئے جو اس کی انحرافی باتوں کی تبلیغ کرتے جبکہ کچھ لوگ اس کی مخالفت میں احتجاج بھی کرتے اور اس کے قتل کا منصوبہ بھی بناتے تھے، یہاں تک کہ ۱۱۴۵ ھ میں اس نے رسمی طور پر علی الاعلان اپنے عقیدہ کا اظہار کر دیا (۷) اور ایک نئے فرقے ‘‘وہابیت ’’ کی بنیاد ڈال دی۔
قابل ذکر ہے کہ نجد اور حجاز کے بعض ان علاقوں کا بھی محمد بن عبد الوہاب نے دورہ کیا جن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کئی افراد گزرے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب ان جھوٹے نبیوں کی داستانوں کا مطالعہ کرنے کا بڑا شوقین تھا۔ بنوت کے جھوٹے دعویداروں میں سے بعض لوگ یہ تھے:
مسیلمہ وائلی یا مسیلمہ کذاب عُیینہ کے علاقے میں پیدا ہوا۔ اسلام کے ظہور کے بعد یہ علاقہ مسلمانوں کے اختیار میں آگیا مسیلمہ کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر کیا گیا لیکن وہ پیغمبر کے آگے تسلیم نہیں ہوا اور پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں ایک خط لکھ کر نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔
اس نے خط میں یوں لکھا: ’’مسیلمہ سے پیغمبر خدا محمد رسول اللہ کی طرف، سلام علیکم، میں بھی نبوت میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔ لہذا آدھی زمین میری ہے اور آدھی قریش کی ہے اگر چہ قریش ظالم لوگ ہیں‘‘۔
رسول خدا(ص) نے اس کے جواب میں لکھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد رسول اللہ سے مسیلمہ کذاب کی طرف، سلام اس پر جو ہدایت کا پیرو ہے اما بعد، زمین خدا کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور عاقبت صاحبان تقویٰ کی ہے‘‘۔(۸)
خلیفہ اول کے دور میں لشکر اسلام نے بنی حنیفہ جہاں مسیلمہ کذاب رہتا تھا کے علاقے پر حملہ کیا اور سَن ۱۲ ہجری کو اسے ہلاک کر دیا۔
۲: سحاح بنت حارث تمیمی نامی خاتون نے بھی رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اس کے قبیلہ والوں میں سے بعض لوگ اس کے ساتھ ہوگئے اور مسیلمہ کذاب اور سحاح کے درمیان ہونے والی ایک جنگ کے دوران سحاح نے مسیلمہ کذاب سے شادی کر لی۔ مسیلمہ کی ہلاکت کے بعد وہ مصر بھاگ گئی اور معاویہ کے دور حکومت میں مر گئی۔(۹)
۳: اسعد ذوالحنار تاریخ اسلام کا پہلا مرتد ہے جس نے مسلمان ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور رسول اسلام(ص) کے حکم سے سن ۱۱ ہجری کو اس کا قتل کر دیا گیا۔(۱۰)
۴: طلیحہ بن خویلد جو عرب کے بہادر لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا ہجرت کے نویں سال کئی افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا لیکن کچھ عرصے کے بعد مرتد ہو گیا اور خود نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اور اس کے بعد اس نے اپنے بہت سارے مرید جمع کر لیے اور مدینہ پر چڑھائی کر ماری۔ لیکن مسلمانوں نے ان کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور آخر کار طلیحہ، نہاوند میں قتل ہو گیا۔(۱۱)
محمد بن عبد الوہاب شہر حریملا کے لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے عُیینہ کوچ کر گیا۔ اس شہر کے حاکم عثمان بن حمد معمر نے اسے اپنے ساتھ حکومت میں شراکت کے لیے ابھارا اس نے عثمان بن حمد معمر کی دعوت قبول کر کے حکومت میں قدم جما لئے اور حکومت میں داخل ہونے کے بعد پہلا قدم یہ اٹھایا کہ خلیفہ دوم کے بھائی شہید زید بن الخطاب کی قبر کو مسمار کیا۔ احساء اور قطیف کے حاکم سلیمان بن محمد بن عزیز کو خبر ملی انہوں نے شہر عیینہ کے حاکم کی طرف خط لکھ کر محمد بن عبد الوہاب کے قتل کا حکم دیا۔ لیکن عثمان اس کو قتل نہیں کر سکتا تھا چونکہ اس نے خود اس کو حکومت میں حصہ لینے کی دعوت دی تھی اس وجہ سے اس نے ابن عبد الوہاب کو شہر سے نکال دیا۔ آخر کار محمد بن عبد الوہاب سن ۱۱۶۰ ہجری میں شہر درعیہ میں اس جگہ منتقل ہوا جہاں مسیلمہ کذاب رہتا تھا وہاں اس نے محمد بن سعود کے ساتھ سیاسی مذاکرات کئے اور آپس میں عہد و پیمان باندھے۔ ان دو افراد کا اتحاد اس بات کا باعث بنا کہ محمد بن عبد الوہاب کے انحرافی نظریات اسلامی ممالک میں پھیلیں اور ایک نئے فرقے ’’وہابیت‘‘ کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنیں۔
محمد بن عبد الوہاب نے ۱۱۴۳ ہجری میں اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اپنے فرقے کی ترویج کی اور لوگوں کو خالص توحید کے نام اپنے انحرافی افکار کی طرف دعوت دینا شروع کی اور اس نے اعلان کیا کہ وہ حقیقی اسلام کی تعلیم دینا چاہتا ہے جو اسلام کے اسلاف و اکابر شخصیات کی آئین ہے(۱۳)
(۲)اساتید
محمد بن عبد الوہاب نجد میں تقریبا ۱۱۲۰ سے ۱۱۳۹ ہجری تک اپنے باپ کے پاس رہا اور احمد بن حنبل کے مذہب کے مطابق تاریخ، حدیث اور فقہ کے مختلف دروس ان سے حاصل کئے اور کہا جاتا ہے کہ ۱۱۳۵ سے ۱۱۴۹ تک سفر حج کے دوران وہاں کے بعض علماء جیسے شیخ عبد اللہ بن ابراہیم (متوفیٰ ۱۱۴۰ق) اور ابراہیم بن عبد اللہ( متوفیٰ ۱۱۸۹ ق) وغیرہ سے بھی علم حاصل کیا جسا کہ اس کے بعض مکتوبات سے یہ چیز معلوم ہوتی ہے۔ شہر بصرہ میں بھی اس نے شیخ محمد المجموعی سے کچھ مسائل کے متعلق جانکاری حاصل کی۔(۱۴)
(۳)سفر
محمد بن عبد الوہاب نے جو سفر کئے ان کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے جیسا کہ اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کیا اس نے مکہ مدینہ اور بصرہ کے علاوہ دوسروں شہروں کے سفر بھی کئے یا نہیں؟ چنانچہ بعض مورخین کے مطابق محمد بن عبد الوہاب نے جزیرہ عرب سے باہر بھی سفر کیا ہے۔ ذیل مورخین کے اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دو گروہوں کے نظریات بیان کرتے ہیں جو اس کے بیرون ملک سفر کے قائل ہیں اور جو منکر ہیں:
الف: قائلین
محمد تقی سپہر لکھتے ہیں: محمد بن عبد الوہاب نے عراق سے ایران کا سفر کیا اور اصفہان میں وہاں کے علماء سے علم حاصل کیا ۔۔۔ وہ بہت ساری چیزوں کو بدعت جانتا تھا منجملہ ائمہ اور انبیاء علیہم السلام کی قبور پر مقبرے تعمیر کرنا اور ان مقبروں کو سونے چاندی سے آراستہ کرنا اور متبرک مقامات پر قیمتی چیزیں رکھنا، روضوں کا طواف کرنا اور اس طرح کے اعمال انجام دینے والوں کو بت پرست سمجھتا تھا(۱۵)
احمد امین مصری لکھتے ہیں: شیخ محمد بن عبد الوہاب نے بہت سارے اسلامی ممالک کا سفر کیا تقریبا چار سال بصرہ میں رہا، پانچ سال بغداد میں، ایک سال کردستان میں، دو سال ہمدان اور اس کے بعد اصفہان میں چلا گیا۔ اصفہان میں اس نے فلسفہ اشراق اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اصفہان سے قم گیا اور وہاں سے اپنے شہر میں واپس چلا گیا۔ اس نے اپنے شہر میں واپسی کے بعد آٹھ مہینے تک گوشہ نشینی اختیار کی اس کےبعد لوگوں کو ایک نئے دین کی طرف دعوت دینا شروع کی۔(۱۶)
مسٹر ہمفری [Mr.Humphrey] کا کہنا ہے: بصرہ میں، میں ایک آدمی سے آشنا ہوا جو ترکی، فارسی اور عربی زبان جانتا تھا اور دینی طالبعلموں کا لباس پہنےہوئے تھا۔ اس کا نام محمد بن عبد الوہاب تھا وہ لمبے قد والا جوان اور تند خو تھا اور عثمانی حکومت پر تنقید کرتا تھا ۔۔۔ محمد بن عبد الوہاب نے ایران کے شہر اصفہان کا سفر کیا۔ (۱۸)
ایرانی اور اسلامی دانشنامے میں آیا ہے: محمد بن عبد الوہاب نے بہت سارے اسلامی ممالک جیسے بصرہ، بغداد، کردستان، ہمدان، دمشق اور قاہرہ کا سفر کیا(۱۹)۔
ایک دوسرے رائٹر مرجلیوث [Margoliouth] کا کہنا ہے: محمد بن عبد الوہاب نادر شاہ کی تاج پوشی کے سال اصفہان گیا اور چار سال تک اس شہر میں اس نے فلسفہ مشاء، اشراق اور تصوف کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اس نے قم کا سفر بھی کیا جہاں اس نے مذہب حنبلی کے حامی ہونے کا اعلان کیا۔(۲۰)
عبد اللطیف شوشتری کہتے ہیں: ’’۔۔۔ اس کے بعد اس نے اپنے وطن میں کچھ عربی علوم اور فقہ حنبلی کا علم حاصل کیا پھر اصفہان کا سفر کیا او وہاں بزرگ علماء اور حکماء سے حکمت اور فلسفہ کے مسائل سیکھے اس کے بعد اپنے وطن واپس پلٹ گیا ایک دو سال کے بعد یعنی سن ۱۱۵۳ ہجری میں اس نے ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈالی۔(۲۱)
ابوطالب اصفہانی (محمد بن عبد الوہاب کے ہمعصر) کہتے ہیں: محمد بن عبد الوہاب نے اصفہان اور عراق کے اکثر شہروں، ایران اور حتی افغانستان کے شہر غزنین کا سفر کیا۔ (۲۲)
مدرسی طباطبائی کا بھی کہنا ہے کہ شیخ محمد عبد الوہاب نے اپنے وطن سے بصرہ اس کے بعد بغداد اور پھر عراق کے شہر کردستان کا سفر کیا کردستان سے ہمدان گیا اور دو سال وہاں مقیم رہا۔ اور وہاں پر اس نے شرح تجرید، شرح مواقف میر سید شریف اور حکمۃ العین کو میرزا خان اصفہانی ۔۔۔ کے پاس پڑھا اس کے بعد اصفہان سے رے اور وہاں سے قم گیا قم میں ایک مہینہ رہنے کے بعد بلاد عثمانی، شام اور مصر کا کا سفر کیا اور مصر سے دوبارہ جزیرۃ العرب واپس لوٹ گیا۔(۲۳)
ب: مخالفین
مذکورہ اقوال کے مقابلے میں خود وہابی مورخین کے اقوال بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب نے جزیرۃ العرب سے دوسرے ملکوں منجملہ ایران کا سفر کیا اور اس سفر کے دوران اس نے بہت ساری معلومات کا ذخیرہ جمع کیا اور اہم مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کی۔
مثال کے طور پر ایک مورخ نے لکھا ہے کہ : «امّا ما تجاوز الحدّ من أنه سافر الى الشام كما ذكره خيرالدين الزركلى فى «الأعلام» و الى فارس و ايران و قم و اصفهان كما يذكره بعض المستشرقين و نحوهم فى مؤلفاتهم المعروفة بالأخطاء و مجانبة الحقيقة كمرجليوث فى دايرة المعارف الاسلامية و بِرائجس و هيوجز و زُويمر و بالغريف و كتاب لُمعَ الشهاب فى سيرة محمدبن عبدالوهاب و من تأثر به فهو امرٌ غير مقبول لانّ حفيد الشيخ ابن حسن و ابنه عبداللطيف و ابن بِشر نصّوا على َانّ الشيخ محمدبن عبدالوهاب لم يتمّكن من السفر الى الشام كما قدمنا. و اما ما زُعم ان الشيخ رحل الى فارس و ايران و قم و اصفهان فاِنّ عبدالحليم الجُندى يذكر فى كتابه الإمام محمدبن عبدالوهاب او انتصار المنهج السلفى انه ناقش فى هذه الواقعة الشيخ عبدالعزيزبن باز فى الرياض فانكر ما أورده المؤلّفون من رحلة الشيخ الى كردستان و ايران و قرّر انه تلقى هذا عن أشياخه و منهم حفدة الشيخ و بخاصّة شيخه محمدبن ابراهيم...». (24)
ترجمہ: ’’جو یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ شیخ نے شام، ایران، قم، اصفہان کا سفر کیا جیسے خیر الدین زرکلی نے کتاب ’’اعلام‘‘ اور بعض مستشرقین نے اپنی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے ان کی اس بات کا غلط ہونا معروف ہے چونکہ یہ حقیقت سے دور ہیں جیسے مرجلیوث نے ’’دائرۃ المعارف الاسلامیہ‘‘ اور ’’ برائجس‘‘ ’’ ہیوجز‘‘، زویمر‘‘ اور ’’ بالغریف‘‘ نیز کتاب ’’لمع الشھاب فی سیرۃ محمد بن عبد الوہاب نے واضح طور پر اس بات کو قبول نہیں کیا ہے، اس لیے کہ شیخ عبد الوہاب کے پوتے ابن حسن اور اس کے بیٹے عبد اللطیف اور ابن بشر نے صراحت سے لکھا ہے کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے شام کا سفر نہیں کیا چنانچہ عبد الحلیم الجندی نے کتاب الامام محمد بن عبد الوہاب او انتصار المنھج السلفی میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے نیز شیخ عبد العزیز بن باز نے بھی کتاب ریاض میں اس بات کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ شیخ نے کردستان اور ایران کا سفر نہیں کیا اور انہوں نے یہ بات اپنے اساتید کے عقیدے کے مطابق اور شیخ کے پوتوں کی تائید سے لکھی ہے خاص طور پر ان کے استاد محمد بن ابراہیم کا یہی عقیدہ تھا کہ عبد الوہاب نے کسی ملک کا سفر نہیں کیا‘‘۔
وہابی مورخین کے نزدیک محمد بن عبد الوہاب کے کہیں سفر نہ کرنے پر اہم ترین دلیل کتاب المع الشہاب فی سیرۃ محمد عبد الوہاب ہے جبکہ دوسروں نے بھی شیخ کے سفر کی تائید میں اپنی دلیلوں کو اسی کتاب سے لیا ہے جیسے احمد امین مصری (۲۵) شیخ خزعل (۲۶) اور منیر العجلانی (۲۷) نے اسی کتاب سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شیخ محمد عبد الوہاب نے ایران اور دوسرے ممالک کا سفر کیا ہے (۲۸)۔ واللہ اعلم
مآخذ و حوالہ جات
۱: الأمين العاملى؛ كشف الإرتياب عن[ فی] أتباع محمدبن عبدالوهاب: 100
۲: دحلان، احمد بن زينى؛ الدرر السنيّة فى الرد على الوهابية: 42؛ الآلوسى، محمود شكرى؛ تاريخ نجد: 111؛ الزركلى، خيرالدين؛ الأعلام 6: 257؛ ابن غنام؛ روضة الأفكار و الافهام لمُرتاد حال الإمام و تعداد غزوات الإسلام 1: 25؛ ابن بِشر، عثمان؛ عنوان المجد فى تاريخ نجد 1: 138 بنقل از عقيدة الشيخ محمدبن عبدالوهاب السلفية: 76
۳: وہ شہر عُیینہ میں پیدا ہوئے فقہ حنبلی کو وہی پڑھا اور ایک مدت تک شہر عیینہ اور حریملا کے قاضی کے عہدہ پر رہے اور ۱۱۵۳ میں وفات پائی۔
۴: فقہ و حدیث کا علم حاصل کرنے کے بعد جب انہوں نے اپنے بھائی کی انحرافی باتیں سنی تو اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور آخر کار ۱۲۰۸ ھ میں وفات پائی۔
۵ـ دحلان، احمدبن زينى؛ الفتوحات الإسلامية 2: 357؛ العقّاد، عباس محمود؛ الإسلام فى القرن العشرين: 126.
۶ـ الآلوسى، محمود شكرى؛ تاريخ نجد: 111؛ العُثيمين، عبدالله؛ الشيخ محمدبن عبدالوهاب حياته و فكره46.
۷ـ أمين، احمد؛ زعماء الإصلاح فى العصر الحديث: 10. کہتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب نے اپنے حامیوں کو ’’اھل توحید‘‘، ’’سلفیت‘‘ اور ’’موحدین‘‘ ناموں کے ذریعے دعوت دینا شروع کیا اور انہی ناموں کو اہلسنت اور اہل تشیع نے جو اس کے مخالف تھے ان کے سلسلے میں استعمال کیا ہے۔ وہابیت نام کے سلسلے میں کہ یہ نام کب وجود میں آیا اور اس کی وجہ کیا تھی کوئی معقول دلیل نظر نہیں آئی۔ صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کے افکار پھیلنے اور خاص طور پر حاکم نجد محمد بن سعود کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے نیز مکہ و مدینہ میں ان افکار کی حاکمیت کے بعد مخالفین نے اس گروہ کو اس نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ فرید وجدی لکھتے ہیں کہ اس بات کی وجہ کہ اس فرقہ کو خود محمد بن عبد الوہاب کی طرف نسبت نہیں دی یعنی اسے محمدیہ نہ کہا یہ ہے کہ کہیں بعد میں اس انحرافی فرقے اور دین محمد(ص) میں اشتباہ نہ ہو جائے اور اس نام سے سوء استفادہ نہ ہونے لگے۔ [دايرة المعارف القرن العشرين 10: 871؛ آيين وهابيت: 25، شناخت عربستان: 118].
۸ـ ابن هشام؛ السيرة النبوية 3: 74.
۹ـ كحالة، عمر؛ أعلام النساء 2: 177.
۱۰ـ ابن الأثير، عزالدين؛ الكامل فى التاريخ 2: 336؛ الزركلى، خيرالدين؛ الأعلام؛ 5: 234.
۱۱ـ الدينورى، ابوحنيفه؛ الأخبار الطِوال: 119[ مزید مطالعہ کے لیے جھوٹے پیغمبروں کے واقعات سے متعلق کتابیں جیسے: 1) «تاريخ سياسى اسلام» تأليف دكتر حسن ابراهيم حسن و 2) «ترفند پيغمبرسازان و دساتیر آسمانى» تأليف على اصغر مصطفوى کی طرف رجوع کریں ].
۱۲ـ زید خلافت ابوبکر کے دور میں مسلمانوں اور مسیملہ کذاب کے ساتھ ہوی جنگ یمامہ میں مارا گیا۔
۱۳ـ سَلَف کے لغت میں معنی ’’پہلے‘‘ کے ہیں اور اس کے مقابلے میں خلف آتا ہے جس کے معنی ’’بعد‘‘ اور جانشین کے ہیں اصطلاح میں سلف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے صدر اسلام میں اسلامی احکام پر عمل کیا اور قرآن کریم کو سمجھا۔ اسی وجہ سے انہیں ’’سلف صالح‘‘ کہا جاتا ہے اور صدر اسلام اور قرآن کریم کی طرف پلٹے والی تحریک کو ’’تحریک سلفیت‘‘ کہتے ہیں۔ [نهضت بيداری گرى در جهان اسلام...: 268].
۱۴ـ ابن بشر، عثمان؛ عنوان المجد فى تاريخ نجد 1:7 بنقل از عقيدة الشيخ محمدبن عبدالوهاب السلفيه: 105.
۱۵- سپهر، محمدتقى؛ ناسخ التواريخ، جلد قاجاريه (1): 118؛ فقيهى، على اصغر؛ وهابيان...: 76.
۱۶ـ امين، احمد؛ زعماء الاصلاح فى العصر الحديث: 10، بنقل از وهابیان...؛120.
۱۷ـ مسٹر ہمفری جو اسلامی ممالک میں انگلستان کا جاسوس تھا نے اپنی کتاب ’’یادوں‘‘ میں جو کئی زبان میں ترجمہ ہوئی ہے لکھا ہے کہ تقریبا ۱۱۲۲ ھ میں جب میری عمر بیس سال تھی میں برطانیہ کے وزارت خارجہ کی طرف سے اسلامی ملکوں مین جاسوسی کے لیے مامور ہوا تو میں نے اس غرض سے عراق، ترکی، ایران، سعودی عرب، کے شہروں استنبول، بغداد، بصرہ، اصفہان، اور تہران کا سفر کیا۔ اسی دوران ۱۱۲۶ ھ میں جب میں بصرہ پہنچا تو وہاں محمد بن عبد الوہاب کے ساتھ آشنا ہوا میں نے اسے عربی اور ترکی زبان میں ماہر شخص پایا جو اجتہاد کی بہترین قوت کا ملک اور تقلید سے بےنیاز شخص تھا!۔ ايران و جهان اسلام، پژوهش هايى تاريخى پيرامون چهره ها، انديشه ها و جنبش ها؛ عبدالهادى حائرى، مشهد: مؤسسه چاپ و انتشارات آستان قدس رضوى، 1368.
۱۸- دست هاى ناپيدا(مسٹر ہمفری کی کتاب کا فارسی ترجمہ )، ترجمه احسان قرنى:32.
۱۹ـ احسان يار شاطر و[ديگران]؛ دانش نامه ايران و اسلام شماره 5: 6946، تهران، 1356، ترجمه از مقاله:
{679-677 vol.m pp. H.laoust "Lbn Abdal – Wahaaab" . F. }
۲۰- D.S.Margoliouth. "Wahaaablyn:SEF.PP 618 .
۲۱ـ شوشترى، عبداللطيف؛ تُحفة العالم و ذِيل التحفة(سفرنامه و خاطرات) 477؛ دنبلى، عبدالرزاق؛ مآثر سلطانيّة: 82.
۲۲ـ اصفهانى، ميرزا ابوطالب؛ مسير طالبى: 409.
۲۳ـ.فقيهى، على اصغر؛ وهابيان...:120 (به نقل از مجله بررسی های تاریخی شماره 4، سال 11).
۲۴ـ صالح بن عبداللّه، عقيدة الشيخ محمدبن عبدالوهاب السلفية: 108 و 109 به نقل از محمدبن عبدالوهاب او انتصار المنهج السلفى: 92 هامش 1؛ رويشد، عبدالله؛ الإمام الشيخ محمدبن عبدالوهاب فى التاريخ 1:38 به نقل از مقدمه كتاب «المسائل الجاهلية...» 1:25.
۲۵ـ أمين، احمد؛ زعماء الاصلاح فى العصر الحديث: 10.
۲۶ـ خزعل، حسين؛ تاريخ الجزيرة العربية فى عصر الشيخ محمدبن عبدالوهاب 1:56.
۲۷ـ العِجلانى، منير؛ تاريخ البلاد العربية السعوديه: 195.
۲۸ـ صالح بن عبدالله؛ عقيدة الشيخ محمدبن عبدالوهاب السلفية: 109.
source : http://www.abna.ir