ایک مختصر
"وجہ اللہ" ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ خداوند متعال اپنی مخلوق کے لئے ظاہر ھوتا ہے، اور اس کی مخلوق بھی اس کے ذریعہ اس کی بارگاہ کے بارے میں متوجہ ھوتی ہے۔ اور یہ وہی خداوند متعال کی حیات، علم، قدرت، سمع و بصر کی صفات کریمہ ہیں اور صفات فعل میں سے خلقت، رزق، مغفرت اور رحمت جیسی ہر صفت اس کی نشانی اور "وجہ اللہ" ہے۔ ایک جانب شیعوں کی روایتوں میں معصومین ﴿ع﴾ کو "وجہ اللہ" کے واضح مصادیق کے عنوان سے متعارف کیا گیا ہے، کیونکہ وہ اسماء و صفات الہی کو منعکس کرنے والے آئینہ ہیں، اور حضرت علی ﴿ع﴾ کو بھی "وجہ اللہ" کہا گیا ہے، کیونکہ وہ خداوند متعال کے اسماء و صفات کے مکمل مظہر ہیں۔
جب یہ افراد اسماء و صفات الہی کے مکمل مظہر و آئینہ بن گئے، تو ذات مقدس الہی کے مانند نابود ھونے والے نہیں ہیں، اس بنا پر اگر چہ، اس وقت، ہم امام علی ﴿ع﴾ کو حسی، مادی اور دنیوی لحاظ سے نہیں دیکھتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ موجود ہیں اور اسی طرح حضرت صاحب الزمان ﴿عج﴾ اسی نور واحد اور "وجہ اللہ" کے اس مادی دنیا میں موجود جاری سلسلہ ہیں۔
تفصیلی جوابات
" وجہ" کے معنی
دو لفظ" وجہ" اور " جہت"کے ایک ہی معنی ہیں۔عرف عام میں ہر چیز کی " وجہ" کے معنی اس چیز کا علاقہ ہے جو دوسری چیزوں سے روبرو ھوتا ہے اور ان کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے، اسی طرح ہر جسم کی " وجہ" اس کی بیرونی سطح ہے اور انسان کی " وجہ" وہ طرف ہے جس کے ساتھ لوگ اس سے روبرو ھوتے ہیں۔[1]
وجہ اللہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ خداوند متعال اپنی مخلوق کے لئے ظاہر ھوتا ہے، اور اس کی مخلوق بھی اس کے ذریعہ اس کی بارگاہ کے بارے میں متوجہ ھوتی ہے۔ اور یہ وہی خداوند متعال کی حیات، علم، قدرت، سمع و بصر کی صفات کریمہ ہیں اور صفات فعل میں سے خلقت، رزق، مغفرت اور رحمت جیسی ہر صفت اس کی نشانی اور "وجہ اللہ" ہے۔[2]
آیہ شریفہ میں " وجہ اللہ " سے مراد:
یہ کہ آیہ شریفہ " کل شیء ھالک الا وجھہ" میں ذکر ھوئے " وجہ اللہ" سے مراد کیا ہے؟ کے بارے میں مفسرین قرآن نے دو احتمال بیان کئے ہیں:
١۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ " وجہ" سے مراد ذات ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال کی ذات اقدس کے علاوہ ہر چیز نابود ھونے والی ہے۔[3] اس احتمال کے مطابق، پیش کئے گئے سوال سے آیہ شریفہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
۲۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ " وجہ" سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی نہ کسی طرح خداوند متعال سے منسوب ہے، اسماء و صفات الہی سے لے کر ادیان اور صالح بندوں، مقربین بارگاہ الہی، انبیاء ﴿ع﴾ ملائکہ، شہداء اور مغفرت الہی میں شامل ھوئے مومنین تک سب کے سب " وجہ اللہ " ہیں۔[4]
اس احتمال کے مطابق، جس مخلوق کے بارے میں ہم تصور کریں، بذات خود وہ ہلاک شدہ و باطل ہے اور خداوند متعال کی طرف سے کی گئی عنایت کی علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہے، اور جو کچھ خداوند متعال سے منسوب نہ ھو وہ کلی طور پر حقیقت سے عاری ہے اور وہم گمان کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، یا ایک ایسا سراب ہے کہ تصور نے اسے حقیقت کے روپ میں ظاہر کیا ہے، جیسے بتوں کے مانند کہ پتھر، لکڑی یا دھات کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ھوتے،[5] اس کے علاوہ انسان کے مانند کہ ایک ایسی مخلوق ہے کہ خداوند متعال نے اس کی تخلیق میں روح اور جسم سے اسفادہ کیا ہے اور اسی طرح انسانی کمال کی صفات، سب خداوند متعال کی تخلیق اور اس سے منسوب ہیں۔ پس ہمارے پاس حقیقت میں سے صرف اسی قدر ہے کہ خداوند متعال نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کی ھو اور یہ عطیہ اس کی آیات اور اس کی صفات کریمہ ہیں، جو، رحمت، رزق، فضل، احسان وغیرہ پر دلالت کرتی ہیں۔ پس در واقع جو حقیقت ثابت ہے، اور کبھی نابود اور باطل نہیں ھوتی، وہ خداوند متعال کی صفات کریمہ اور اس کی نشانیاں ہیں جو اس کی مقدس ذات کے ثبوت سے چمکتی ہیں۔[6] چونکہ یہ عالم، تحول و تبدل کی بنا پر ختم ھوگا، اس لئے نا گزیر ہے کہ اس کے بعد ایک کامل تر وجود آئے گا اور اس مادی دنیا کے ختم ھونے کے معنی بالکل ہلاکت و نابودی نہیں ہیں، بلکہ اس کے معنی دنیا سے آخرت و قیامت میں منتقل ھونا ہے۔[7]
بہر حال دونوں احتمالوں کی بنا پر آیہ شریفہ سے مراد یہ ہے کہ: خداوند متعال کے علاوہ جس موجود کے بارے میں بھی تصور کیا جائے، وہ ممکن الوجود ہے اور اگر چہ اس موجود نے خداوند متعال کی طرف سے ایجاد کرنے پر وجود پایا ہے، لیکن ذاتی طور پر نابود اور ہلاک ھونے والا ہے، صرف ایک وجود ہے جس میں ذاتی طور پر نابودی و ہلاکت ممکن نہیں ہے، وہ ذات باری تعالی ہے۔[8]
آیہ شریفہ کے بارے میں دوسرے احتمال کے مطابق واضح ھونا چاہئیے کہ " وجہ اللہ" کی واضح مصداق اور حقیقت کون لوگ ہیں؟
" وجہ اللہ کون لوگ ہیں؟
کلی طور پر، ہر وہ چیز جو الہی پہلو رکھتی ھو اور کسی نہ کسی صورت میں خداوند متعال سے منسوب ھو۔۔۔ جیسا کہ دوسرے احتمال میں آیہ شریفہ کے بارے میں بیان کیا گیا۔۔۔ " وجہ اللہ "ہے۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" اور اللہ کے لئے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، لہذا تم جس جگہ بھی قبلہ کا رخ کرلو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے، وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی ہے۔"[9] جہاں پر نظر ڈالی جائے وہاں پر " وجہ اللہ" ہے، کیونکہ خداوند متعال کا علم اور طاقت ہر جگہ موجود ہے اور ہر چیز پر احاطہ کئے ھوئے ہے، جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی ﴿ع﴾ فرماتے ہیں:" وہ خدا سزا وار ستائش ہے جو اپنی تخلیق سے اپنی مخلوقات کے لئے تجلی و ظہور فرماتا ہے۔[10]" پس تمام ہستی، خداوند متعال کی تجلی کا آئینہ ہے اور وہ خود کو اس میں دکھاتا ہے۔
چونکہ انسان، خداوند متعال کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے اور زمین پر خداوند متعال کا جانشین ہے، جیسا کہ ارشاد الہی ہے: " اے رسول! اس وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا: میں زمین میں اپنا خلیفہ ﴿ ایک نمایندہ﴾ بنانے والا ھوں۔ ۔ ۔ [11]" اس لئے یہ بلند ترین مقام ہے جس کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ خداوند متعال کائنات کے مالک اور اصلی صاحب کے عنوان سے ایک بلند مقام و منزلت رکھتا ہے، اس لئے اس کا جانشین بھی اس کے اسماء و صفات کا مظہر و تجلی اور " وجہ اللہ" ہے، اور یہ کرامت، شرافت اور بزرگواری تمام انسانوں کی ذات میں مضمر ہے۔
اس لئے انسان کامل، حضرت حق کی تمام صفات جمال و جلال کا مکمل آئینہ ہے اور الہی اسماء و صفات سے نسبت رکھنے کی وجہ سے کائنات کی تمام مخلوقات میں برتر ہے اور ایک انسان کامل کا ہر کلام، کام، بیان، خاموشی، خلاصہ زندگی کا ہر پہلو خدا کی نشانی ہے، کیونکہ اس کی ہر چیز خداوند متعال کے لئے ہے۔[12] بس، انسان کامل، تمام دوسری مخلوقا میں برتر اور " وجہ اللہ اعظم " ہے۔
اس سلسلہ میں موجود احادیث کے پیش نظر معلوم ھوتا ہے کہ رسول اکرم ﴿ص﴾ ، امام علی ﴿ع﴾، حضرت زہراء ﴿ع﴾ اور دوسرے ائمہ اطہار ﴿ع﴾ خاص مقام و منزلت کے مالک ہیں اور انسان کامل اور " وجہ اللہ" کے حقیقی مصداق ہیں اور عالم وجود میں بلند رتبہ رکھتے ہیں، کیونکہ یہ ہستیاں خداوند سبحان کے " اسم اعظم" کے مظہر ہیں۔
اسی طرح امام علی ﴿ع﴾ بھی ایک مخلوق و موجود ہیں، کہ انھوں نے ایک مخلوق کے عنوان سے اپنا حق بخوبی ادا کیا ہے اور ان میں اسمائے حسنائے الہی نے بخوبی تجلی کی ہے اور حضرت حق کے جمال و جلال مطلق کی عکاسی کرتے ہیں اور اس طرح حضرت ﴿ع﴾ " اسم اعظم" خدا کے مظہر ہیں۔
" اسم اعظم" ایک ایسا مقام ہے، جو بھی اس مقام پر فائز ھوتا ہے، وہ عالم میں تصرف کرسکتا ہے اور غیر معمولی کام انجام دے سکتا ہے۔[13] اور اس کے معنی یہ ہیں کہ امام علی ﴿ع﴾ اور دوسرے ائمہ اطہار ﴿ع﴾ " وجہ اللہ" ہیں۔
بہت سی روایتوں میں انبیاء ﴿ع﴾ اور ائمہ معصومین ﴿ع﴾ کو " وجہ اللہ" کہا گیا ہے، ذیل میں ہم ان روایتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
١۔ امام رضا ﴿ع﴾ ابا صلت سے فرماتے ہیں:" ۔ ۔ ۔ "وجہ اللہ" انبیاء ﴿ع﴾ رسل ﴿ع﴾ اور حجت خدا ہیں کہ ان کے وسیلہ سے لوگ خداوند متعال، دین اور معرفت کی طرف متوجہ ھوتے ہیں اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:" کل شیء ھالک الا وجھہ"[14]
۲۔ امام صادق ﴿ع﴾ نے آیہ شریفہ" کل شیء ھالک الا وجھہ" کے بارے میں فرمایا ہے: " ہم " وجہ اللہ" ہیں کہ اس راہ سے خدا کی طرف جانا چاہئیے۔"[15]
پس امام علی ﴿ع﴾ اور دوسرے ائمہ اطہار ﴿ع﴾ ۔۔۔ جو سب کے سب ایک ہی نور سے ہیں[16] ۔۔۔ اسماء و صفات الہی کے مظہر ہیں، اس لئے نابود نہیں ھوتے اور اگر ہم ان کو اس وقت مادی دنیا میں مادی جسم کی صورت میں نہیں دیکھتے، لیکن وہ معنوی اور گوہر روح کے لحاظ سے اپنی ذات میں ثابت اور باقی ہیں۔[17]
خلاصہ:
امام علی ﴿ع﴾ کے۔۔۔ جو انسان کامل کے حقیقی مصداق ہیں۔۔۔" وجہ اللہ" ھونے کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ﴿ع﴾ خداوند متعال کی صفات و اسماء کے مظہر کے مکمل آئینہ ہیں، اور اگر چہ ہم حضرت ﴿ع﴾ کو اس دنیا میں حسی، طبیعی اور مادی لحاظ سے مادی جسم میں نہیں دیکھتے، لیکن روحانی اور " وجہ اللہ" ھونے کے لحاظ سے، ذات الہی کے مانند نابود نہیں ھوئے ہیں اور باقی ہیں۔
اس موضوع کے بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ ھونے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل موضوع کا بھی مطالعہ کرسکتے ہیں:
عنوان:" معنای زندہ بودن پیامبر ﴿ص﴾ و اہل بیت ﴿ع﴾ و دلائل آن" سوال: ۷۲۳٦
[1] طباطبایی، سید محمد حسین، تفسیر المیزان، ترجمه موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 16، ص 134، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع پنجم، 1374ش؛ قرشى، سيد على اكبر، قاموس قرآن، ج 7، ص 184، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع ششم، 1371ش.
[2] ترجمه تفسیر المیزان، ج 16، ص 134.
[3] مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 16، ص 189، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع اول، 1374ش؛ طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مترجمان، ج 18، ص 246، انتشارات فراهانی، تهران، طبع اول، 1360ش.
[4] ترجمه تفسیر المیزان، ج 7، ص 144 و ج 16، ص 134.
[5] البتہ بت پرست اگر چہ بت کو خداوند متعال سے منسوب جانتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ بتوں کا وجود خدا کی طرف سے ہے۔ البتہ انھیں تدبیر میں مستقل جانتے ہیں اور اسی لئے ان کی پرستش کرتے ہیں اور خداوند متعال کی پرستش نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی مخلوق کسی بھی اثر میں مستقل نہیں ہے، پس عالم ہستی می خدا کے علاوہ کوئی مخلوق پرستش کی مستحق نہیں ہے۔ ﴿ ترجمہ تفسیر المیزان ج ١٦ ، ص ١۳۵﴾
[6] ایضا،ج 16، ص 134 - 135.
[7] ایضا، ج 16، ص 137 - 138.
[8] ایضا، ج 16، ص 136.
[9] بقره، 115:«وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ واسِعٌ عَليم ».
[10] نهج البلاغه (صبحی الصالح)، ص 155، مؤسسه دارالهجرة:« الْحَمْدُ للَّهِ الْمُتَجَلّي لِخَلْقِهِ بِخَلْقِه ».
[11] بقره، 30:« وَ إِذْ قالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَليفَة...».
[12] جوادی آملی، عبدالله،علی (ع) مظهر اسمای حسنای الاهی، تنظیم: بندعلی، سعید،ص 13، مرکز نشر اسراء، قم، طبع اول، 1380ش.
[13] علامه حسن زاده آملی، حسن، انسان کامل از دیدگاه نهج البلاغه، ص 58 - 59، انتشارات قیام، طبع یاران، قم، طبع سوم، 1381ش؛ علی (ع) مظهر اسمای حسنای الاهی، ص 14؛ محمد شجاعی، انسان و خلافت الاهی، ص 25 - 38، مؤسسه خدمات فرهنگی رسا، تهران، طبع اول، 1362ش.
[14] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج4، ص 3، طبرسی، مؤسسة الوفاء بیروت، لبنان، 1404ق.
[15] ایضا، ص 5، ح 10.
[16] ایضا،ج36، ص 281 و 223:«يَا مُحَمَّدُ إِنِّي خَلَقْتُ عَلِيّاً وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ الْأَئِمَّةَ مِنْ نُورٍ وَاحِد...».
[17] ملاحظہ ھو:علامه حسن زاده، حسن، نهج الولایة، ص 8 - 14، نشر الف، لام، میم، طبع نوید اسلام، قم، طبع دوم، 1385ش.
source : www.islamquest.net