سول اکرم (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی مروت کا تقاضا یہ ہے کہ جو ہم پر ظلم کرے اسے معاف کردیں اور جو ہمیں محروم رکھے اسے عطا کردیں۔( تحف العقول ص 38)۔
298۔ ابوعبداللہ الجدلی ! میں نے حضرت عائشہ سے رسول اکرم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت کوئی فحش بات نہ کہتے تھے اور نہ کوئی ایسا کام کرتے تھے، بازاروں کی طرح شور مچانا بھی آپ کا کام نہیں تھا اور برائی کا بدلہ برائی سے بھی نہیں دیتے تھے بلکہ عفو اور گذر سے کام لیا کرتے تھے۔( سنن ترمذی 4 ص 369 /2016، مسند ابن حنبل 9 ص 32 / 25472 ، 10 ص 75 /26049 ، 94 / 26150۔
299۔ عبداللہ ! میں نے پیغمبر اسلام کا یہ پیغمبرانہ طریقہ دیکھاہے کہ لوگوں نے آپ کو زخمی کردیا تو آپ چہرہ سے خون صاف کرتے جارہے تھے اور فرمارہے تھے ، خدایا میری قوم کو معاف کردینا کہ یہ جاہل ہیں۔( صحیح بخاری 6 ص 2539 / 6530 ، 3 ص 1282/3290 ، صحیح مسلم 3 ص 1417 /1792 ، سنن ابن ماجہ 2 ص 1335 /2025 ، مسند ابن حنبل 2 ص125 / 4017)۔
300۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم کے پاس اس یہودی عورت کو حاضر کیا گیا جس نے آپ کو زہر دیا تھا... تو آپ نے دریافت کیا کہ آخر تو نے ایسا قدم کیوں کیا ؟ اس نے کہا کہ میرا خیال یہ تھا کہ اگر یہ نبی ہیں تو انھیں نقصان نہ ہوگا اور اگر بادشاہ ہیں تو لوگوں کو آرام مل جائے گا۔! یہ سن کر آپ نے اسے معاف کردیا اور کوئی بدلہ نہیں لیا۔( کافی 1 ص 108 /9 روایت زرارہ)۔
301۔ معاذ بن عبداللہ تمیمی ! خدا کی قسم میں نے اصحاب امیر المومنین (ع) کو دیکھا کہ و ہ عائشہ کے اونٹ تک پہنچ گئے ہیں اور کسی نے آواز دی کہ اونٹ کے پیر کاٹ دیئے جائیں اور لوگوں نے کاٹ بھی دیئے اور اونٹ گر پڑا لیکن حضرت نے فوراً آواز بلند کردی کہ جو اسلحہ رکھ دے گا وہ امان میں ہے اور جو میرے گھر میں آجائے گا وہ بھی امان میں ہے، خدا کی قسم میں نے ایسا کریم انسان نہیں دیکھاہے۔( الجمل ص 365 ، مروج الذہب 2 ص 378 ، الاخبار الطوال ص 151 ، تاریخ یعقوبی 2 ص 182 ، شرح الاخبار 1 ص 395 /334)۔
302۔ امام علی (ع) ! اہل بصرہ پر فتح پانے کے بعد خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ بے شک پروردگار وسیع رحمت کا مالک اور دائمی مغفرت کا مختار ہے، اس کے پاس عظیم معافی بھی ہے اور دردناک عذاب بھی، اس نے یہ فیصلہ کردیاہے کہ اس کی رحمت و مغفرت و معافی صاحبان اطاعت کیلئے ہے اور اس کی رحمت سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں... اور اس کا عذاب ، غضب ، عقاب سب اہل معصیت کے لئے ہے اور ہدایت و دلائل کے بعد کوئی گمراہ نہیں ہوسکتاہے۔
اہل بصرہ ! اب تمھارا کیا خیال ہے جبکہ تم نے میرے عہد کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف دشمن کا ساتھ دیا ہے؟ ایک شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ تو اچھا ہی خیال رکھتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے میدان جیت لیاہے، اب اگر سزا دیں گے تو ہم اس کے حقدار ہیں اور اگر معاف کردیں گے تو یہ طریقہ پروردگار کو پسند ہے۔ فرمایا جاؤ میں نے معاف کردیا لیکن خبردار اب فتنہ برپا نہ کرنا کہ تم نے عہد شکنی بھی کی ہے اور امت میں تفرقہ بھی پیدا کیا ہے، یہ کہہ کر آپ بیٹھ گئے اور لوگوں نے بیعت کرنا شروع کردی۔( ارشاد 1 ص 257 ، الجمل 407 روایت حارث بن سریع)۔
گل
303۔ امام زین العابدین (ع) ! میں مروان بن الحکم کے یہاں گیا تو کہنے لگا کہ میں نے تمھارے دادا سے زیادہ کریم کوئی انسان نہیں دیکھا کہ انھیں روز جمل ہم پر غلبہ حاصل ہوگیا لیکن انھوں نے منادی کرادی کہ خبردار کسی بھاگئے والے کو قتل نہ کیا جائے اور کسی زخمی کا خاتمہ نہ کیا جائے۔( السنن الکبریٰ 8 ص 214 / 46 167 روایت ابراہیم بن محمد عن الصادق (ع) ، المبسوط ص 264 عن الصادق (ع))۔
304۔ ابن ابی الحدید ! امیر المومنین (ع) حلم و درگذر کے معاملہ میں تمام لوگوں سے زیادہ معاف کرنے والے اور حلیم تھے جس کا صحیح مظاہرہ روز جمل ہوا ہے جب آپ نے مروان بن الحکم پر قابو حاصل کرلیا جو آپ کا شدیدترین اور بدترین دشمن تھا لیکن اس کے باوجود اسے چھوڑ دیا۔
یہی حال عبداللہ بن زبیر کا تھا کہ برملا آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور روز جمل بھی اپنے خطبہ میں آپ کو لئیم اور ذلیل جیسیا الفاظ سے یاد کیا تھا اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک یہ بدبخت جو ان نہیں ہوا زبیر ہمارے ساتھ تھا اور اس کے بعد اس نے گمراہ کردیا، لیکن اس کے باجود جب قبضہ میں آگیا تو اسے معاف کردیا اور فرمایا کہ میرے سامنے سے ہٹ جاو، میں تجھے دیکھنا نہیں چاہتاہوں۔
یہی کیفیت جمل کے بعد سعید بن العاص کی تھی کہ جب وہ مکہ میں پکڑا گیا تو سخت ترین دشمن ہونے کے باوجود آپ نے کچھ نہیں کہا اورا سے نظر انداز کردیا، پھر عائشہ کے بارے میں تو آپ کا سلوک بالکل واضح ہے کہ آپ نے انھیں بیس عورتوں کے ساتھ مدینہ واپس کردیا اور عورتوں کو سپاہیوں کا لباس پنھا دیا اور تلواریں ساتھ کردیں، لیکن آپ راستہ میں بھی تنقید کرتی رہیں کہ ہمیں مردوں کے لشکر کے حوالہ کردیا، یہ تو جب مدینہ پہنچ کر ان عورتوں نے فوجی لباس اتارا تو عائشہ کو علی (ع) کے کرم کا اندازہ ہوا اور شرمندہ ہوگئیں۔
خود اہل بصرہ نے آپ سے جنگ کی ، آپ کو اور آپ کی اولاد کو تلواروں کا نشانہ بنایا لیکن جب آپ نے فتح حاصل کرلی تو تلوار نہیں اٹھائی اور اعلان عام کرادیا کہ خبردار کسی بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی زخمی کو مارا نہ جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اسلحہ رکھدے یا میرے لشکر کی پناہ میں آجائے اسے پناہ دیدی جائے، مال غنیمت پر قبضہ نہ کیا جائے، بچوں کو اسیر نہ کیا جائے، حالانکہ آپ کو یہ سب کچھ کرنے کا حق اور اختیار حاصل تھا لیکن آپ نے عفو و درگذر کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا اور روز فتح مکہ پیغمبر اسلام کی سیرت کو زندہ کردیا کہ آپ نے بھی عفو و درگذر سے کام لیا تھا حالانکہ عداوتیں سرد نہیں ہوئی تھیں اور زیادتیاں بھلائی نہیں جاسکی تھیں۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 1 ص 22 /23)۔
305۔ امام حسن (ع)! ابن ملجم کو گرفتار کرکے امیر المومنین (ع) کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے باقاعدہ کھانے اور آرام کرنے کا انتظام کیا جائے اس کے بعد میں زندہ رہ گیا تو میں خود صاحب اختیار ہوں چاہے معاف کروں یا بدلہ لوں / لیکن اگر میں نہ بچ سکا تو اسے بھی میرے پاس پہنچا دینا تا کہ خدا کی بارگاہ میں فیصلہ کرایا جاسکے۔( اسدالغابہ 4 ص 113، تاریخ دمشق حالات امام علی 3 ص 300 /1400 ، روایت محمد بن سعد، انساب الاشراف 2 ص495 /529 ، الامامة والسیاسة 1 ص 181۔
source : www.tebyan.net