اردو
Monday 22nd of July 2024
0
نفر 0

ظہور کی شرط، وحدت

ظہور کی شرط، وحدت

لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۔ [سورہ حديد، آیہ 25]
ترجمہ: "بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں" آیہ شریفہ میں انبیاء کے اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد بیان ہو رہا ہے کہ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ انصاف کیلئے قیام کریں۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی کا اس سارے ہدایت کے نظام کو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش سے انصاف اور عدالت کے نظام کو طلب کرے اور ولایت الہی کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ اور اس نکتہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک انسان خود سے ایسا نہیں چاہے گا، اللہ تعالی کا ہدایت کا نظام اس دنیا پر حاکم نہیں ہوگا۔

اب آئیں اس آیہ شریفہ پر غور کریں:
وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعا۔ [سورہ آلعمران، آیہ 103]
ترجمہ، "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو"
"حبل" عربی زبان میں اس رسی کو کہا جاتا ہے کہ جس کی مدد سے کسی چیز کو اٹھایا جاتا ہے۔ مثلا جس رسی کو کنویں میں پانی نکالنے کیلئے ڈالا جائے اسکو "حبل" کہا جائیگا۔ اب پانی کا ڈول تو چھوٹا ہوتا ہے تو اسکو تو ایک شخص آسانی سے اٹھا سکتا ہے لیکن اگر کوئی چیز بھاری ہو مثلا ایک بہت وزنی الماری کہ جسکو سیڑھیوں سے اوپر کی منزل پر لیجانا ممکن نہ ہو تو اسکو رسی کے ذریعے بالکونی سے گھر میں لایا جاتا ہے اور جب نیچے والا شخص رسی کو الماری کے گرد باندھ لیتا ہے تو پھر نیچے سے اوپر والوں سے کہتا ہے کہ چونکہ الماری بہت بھاری ہے تو سب ملکر اسکو اٹھائیں۔ خدا کے دین کا وزن بھی اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ سب ملکر اٹھائو۔ یعنی اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے دین کو اس دنیا میں نافذ کریں تو یہ کام سب کے ساتھ ملکر ہی ممکن ہے۔

روایات میں "حبل اللہ" سے مراد آئمہ علیھم السلام نے اپنے آپ کو کہا ہے۔ جیسے اس روایت کو ملاحظہ کریں، مَا رَوَاهُ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع قَالَ: نَحْنُ حَبْلُ اللَّهِ الَّذِي قَالَ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً۔ [بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج 24 ؛ ص83]،۔ ترجمہ: "ابان بن تغلب امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہم وہ اللہ کی رسی ہیں کہ جو وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً میں ذکر ہوئی ہے۔ یعنی جب تک مسلمان سب کے سب مل کر حبل اللہ، جو آج کے دور میں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں، کے گرد جمع نہیں ہونگے، اس دنیا میں دین کا قیام ممکن نہیں۔ اب تاریخ میں نگاہ ڈالتے ہیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ تمام مسلمانوں نے ملکر اہل بیت علیھم السلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہو اور انکو اپنا پیشوا بنایا ہو تو ہمارے سامنے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی مثال موجود ہے کہ جنکو تمام امت مسلمہ نے ملکر اپنے وقت کا خلیفہ منتخب کیا اور یہ بات تاریخ میں محفوظ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کو خلیفہ بنانے میں تمام مکتب فکر کے افراد موجود تھے اور اسی وجہ سے امیرالمومنین علیہ السلام کو ظاہری اقتدار ملا تھا۔ اس وقت کے زمانے کی اگر تحلیل کریں تو ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے مسلمان ایک ایسے راہنما چاہتے تھے کہ جو اس الٰہی دین کو معاشرے میں نافذ کرے جس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رکھی تھی اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کام صرف ایک ہی شخص کر سکتا ہے جسے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جان کہا ہے اور جس کا کردار انکے سامنے عیاں تھا۔

آج کا انسان عمومی طور پر اور مسلمان خصوصی طور پر سرگردان تو ہے کہ اس بارے میں کسی کو شک نہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ جھوٹے منجیوں کے پاس بھٹک رہا ہے کہ جو اسکے لئے مزید تباہی کی نوید کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے۔ صدر اسلام کے زمانے میں تو اس وقت کا مسلمان اپنے سامنے ایک جیتا جاگتا کردار امیرالمومنین علیہ السلام کی شکل میں دیکھ رہا تھا لیکن آج یہ مشکل بھی ہے کہ وہ اس نعمت سے ظاہری طور پر محروم ہے تو اس کے نتیجہ میں امام زمان (عج) کے شیعوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اپنے کردار کو ایسا بنائیں کہ انکے کردار سے باقی مسلمانوں کو اس اصلی راہنما کی اہمیت کا اندازہ ہو اور یہ امام صادق علیہ السلام کی حدیث شریف کہ جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسنّتكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ قَبِيحِ الْقَوْلِ۔ [محمد بن على، ابن بابويه، الأمالي (للصدوق)، النص ؛ ص400]۔
ترجمہ: "ہمارے لئے زینت کا باعث بنو اور ہمارے لئے ذلت کا باعث نہ بنو۔ لوگوں سے اچھی طرح بات کرو، اپنی زبانوں کو روک کر رکھو اور انکو بیہودہ گوئی اور قبیح باتوں سے بچاو"۔ ان جیسی بے شمار احادیث کی اہمیت آج کے زمانہ میں اور بڑھ جاتی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر تمام مسلمانوں کو اس حقیقی منجی کے ظہور کیلئے آمادہ کیا جا سکتا ہے اور جب سب ملکر اس اللہ کی رسی "حبل اللہ" کو تھامیں گے تو اس وقت اللہ تعالی کا دین اس دنیا میں حقیقی بنیادوں پر قائم ہوگا۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسمانی ادیان میں انتظار فرج کا عقیده
حکومت مهدي پر طايرانه نظر
حضرت زھرا (س) اور حضرت مہدی (عج)
عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
زمانہٴغیبت میں ہماری ذمہ داریاں
امام حسین علیہ السلام اورامام زمانہ(عج)کےاصحاب ...
معرفت امام کے بغیر موت جاہلیت کی موت/ ایک مناظرہ ...
ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے
حضرت امام مہدی کی معرفت کی ضرورت
کیا غیر معصوم کو امام کہنا جائز نہیں ہے؟

 
user comment