حضرت امام حسين (ع) کے يار و دوستوں کي ايک اور روشن اور ممتاز خصوصيت " ايثار اور قرباني " ہے - يعني فداركاري ، دوسروں کو خود پر ترجيح دينا اور اپنا جان و مال اپنے سے بلند و برتر چيز کے نام فدا کرنا - کربلا ميں ايثار و فداکاري اپنے اوج پر پرواز کر رہي تھي - امام عالي مقام اپني جان دين کے نام فدا کرتے نظر آرہے ہيں - ان کے باوفا اصحاب جب تک خود زندہ رہيں ، خاندان نبوت کے احترام اورعظمت و منزلت کے خاطر يہ بات ان کے لئے گوارا نہيں تھي کہ بني ہاشم سے کوئي ميدان جنگ ميں چلا جائے - شب عاشورا ميں جس وقت امام عالي مقام ان سب سے اپني بيعت واپس اٹھاتے ہيں اور انہيں آزاد جھوڑتے ہيں تاکہ وہ اپني جان بچا سکيں ، ليکن وہ سب ايک ہوکر کھڑا ہوجاتے ہيں اور ايثار و فداکاري کا اعلان کرتے ہيں اور يہ کہتے ہيں :
" ہم تمہارے بعد والي زندگي نہيں چاہتے ہيں اور اپنے آپ کو تم پر فدا کرتے ہيں " ، يعني وہ زندگي جس ميں ہم لوگ آپ کے کام نہ آسکيں اورپھراس ميں آپ موجود بھي نہ ہوں اور ہم باقي عمر گذار رہے ہوں ، اس زندگي ميں ہمارے لئے ذلت و نفرت کے سوا کچھ اور نہيں ملے گا !-
نماز ظهر کے وقت ، بعض اصحاب ، خود کو دشمن کے تيروں کے سامنے سپر بن کر کھڑے ہوتے ہيں تا کہ امام عالي مقام نماز ادا کر سکے - حضرت ابوالفضل عباس (ع) پياسے لب درياے فرات ميں داخل ہوتے ہے ليکن امام حسين (ع) اور خيموں ميں موجود بچوں کے پياسے لبوں کي ياد ميں ، پاني کا ايک قطرہ بھي نہيں پيتے ہے - ام المصائب جناب زينب (س) ، امام سجاد (ع) کو نجات دينے کے لئے جلتے خيمہ ميں کھود جاتي ہے - يزيد کي مجلس ميں بھي جب وہ امام سجاد (ع) کو مارنے کا حکم ديتا ہے ، تو حضرت زينب (س) اس مصيبت سے انہيں بچانے کے لئے اپني جان سپر بنا ديتي ہے ... !-
يہ واقعات اور اسي طرح کے دوسرے دسيوں حادثات جو ايک سے ايک بڑھکر خوبصورت اور نرالے ہے ، وہ آزاد انسانوں کو ايثار اور فداکاري کے الف ب سکھا رہے ہے - يہي ايثار و فداکاري کي تعليم اور ثقافت باعث بني ہے کہ حضرت قاسم (ع) جيسا جوان ، اپنے امام عالي مقام سے مخاطب ہوکر کہتا ہے :
" روحي لِروحِكَ الفِداء وَ نَفسي لِنَفسِكَ الوَقا ؛ ميري جان تمہاري جان پر فدا و قربان ہو " ! -
زيارت عاشورا ميں بھي امام حسين (ع) کے يار و دوستوں کي جانفشاني اور فداكاري کي طرف اشاره ہوا ہے ؛ اس ميں ہم پڑھتے ہيں :
" الذينَ بَذَلوا مُهَجَهم دُون الحُسَين (ع) ؛ وہ افراد جنہوں نے حسين (ع) کي راه ميں اپني جان اور اپنا خون کا نذرانہ پيش کيا "! -
حضرت مهدي (عج) کے حقيقي يار و دوستوں اور ساتھيوں کي بھي ايک روشن اور ممتاز خصوصيت " ايثار اور قرباني " ہے - وہ لوگ ايک دوسرے کے خاطر اپنے آپ کو سختي اور مصيبت ميں ڈالتے ہيں اور زندگي کي نعمتوں اور خوبصورتيوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے ، دوسروں کو خود پر ترجيح ديتے ہيں - البتہ انہيں ايسے ہي حسين زيور سے مزين ہونا چاہيے ، اس لئے کہ جو شخص خود پختہ اور تربيت يافتہ نہ ہو وہ کسي دوسرے کي بھي تربيت نہيں کر سکتا !- حضرت امام باقر(ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں :
" قائم کے قيام کے زمانے ميں ، رفاقت (برادري ، اتحاد و اتفاق) کا دور آجائے گا - لوگ اپنے بھائيوں کے مال کي تلاش ميں جائے گے ، اپني ضرورت (کے مطابق اس ميں اتنا مال ) اٹھائے گے اور کوئي بھي انہيں نہيں روکے گا " !-
روايات ميں ، امام زمان (عج) کے يار و دوستوں کو " مزامله " کے علاوہ ، انہيں " رفقاء " کے نام سے بھي بلايا گيا ہے ؛ يعني ہمدل اور ہمراز دوست ، قريبي اور پاکيزہ دوست ، ميدان جنگ ميں بھي اور زندگي کے دوسرے شعبوں ميں بھي ايک دوسرے کے حامي و ناصر دوست ، اور --- - ان کي دوستي اتني مضبوط ہے جيسے کہ وہ سارے آپس ميں اصلي بھائي ہيں اور سارے ايک ہي ماں باپ سے تعلق رکھتے ہيں ! -
" كَاَنَّما رَبَّاهُم أَبٌ واحدٌ وَ أُمٌّ واحدهٌ قُلوبُهُم مُجتَمِعَهٌ بِالمَحَبَّهِ وَ النَّصيحَه ؛ گويا کہ انہيں ايک ماں باپ نے پالا ہے ، اس لئے کہ ان کے دل ايک دوسرے کي محبت اور خيرخواہي سے لبريز ہے !- "
اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ يقيناً حضرت امام حسين (ع) اور حضرت مهدي (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي ايک روشن اور ممتاز خصوصيت " ايثار اور قرباني " ہے - جس کا زندگي کے ميدان عمل ميں مظاہرہ کيا گيا ہے اور آئندہ بھي اس عظيم صفت کے مالک يہ کردار پيش کرے گے ! -
source : tebyan