ازل سے خاتم (ص) تک تمام انبیاء (ع) کی جانب سے حضرت حجت کے بارے میں نہایت اونچے درجے کی تعبیرات وارد ہوئی ہیں اور تقریباً الہی اور ابراہیمی ادیان میں سب سے زیادہ سماجی موضوع، موعود کی بشارت اور نجات دہندہ کا وعدہ ہے۔ اور سارے انبیاء عظام نے کہا ہے کہ انبیاء اور ادیان کا کار ناتمام اس عظیم انسان کے ہاتھوں مکمل ہوگا. انہوں نے کہا ہے کہ تاریخ کا سب سے عظیم فریضہ سرانجام دینا تاریخ کے سب سے بڑے انسان کا کام ہے۔ حتی جن مکاتب کو غیر الہی بنایا گیا ہے اور ان کے اندر سے الوہیت اور الہیت کا عقیدہ تک نکال دیا گیا ہے وہ بھی کسی نہ کسی انداز سے اس موضوع کے بارے میں سوچتے اور بولتے رہے ہیں؛ گوکہ ان مکاتب نے امام موعود کا نام نہیں لیا ہے مگر ان کے آنے کی بشارت میں دوسروں سے پیچھے بھی نہیں رہے ہیں؛ حتی مارکسزم جیسے الحادی مکاتب بھی آخرالزمان کے مسئلے میں خاموش نہیں رہ سکے ہیں. بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت بھی ـ جو انسانوں کے سب سے بڑے مجموعے کو اپنے زیر نگین لائی ہوئی ہیں ـ اس بارے میں اپنے اپنے موقف کا اعلان کرتی رہی ہیں. یہودی اب بھی حضرت مسیح (ع) کا انتظار کررہے ہیں اور مسیحی حضرت مسیح (ع) کے دوبارہ ظہور کے منتظر ہیں. تمام مذاہب و ادیان اور تمام فرقے اور مکاتب مستقبل میں اور تاریخ کے خاتمے پر "بڑی فراخی" کے منتظر ہیں.
میں اس مضمون میں بتانا چاہوں گا کہ آج کئی عشروں سے تاریخ کے خاتمے اور مقصد وغایت کی نفی کے لئے سرتوڑ کوششیں کرنے والے عناصر بھی، جو دعوی کیا کرتے تھے کہ اصولی طور پر انسانی حیات اور اس کی تاریخ کی کوئی روشن و واضح ابتداء نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی واضح انتہا ہے اور یہ کہ انسانی حیات کی کوئی بھی اصولی اور بنیادی سمت نہیں ہے، اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو ئے۔ لبرلزم کے حامیوں نے تقریباًَ پچاس ساٹھ برسوں سے نظریئے بگھارے کہ تاریخ کی کوئی غایت ہی نہیں اور لبرلزم کا آخری نظریہ پرداز سیموئل فوکویاما ہے جس نے نظریہ «تاریخ کا خاتمہ» پیش کیا [حال ہی میں یہ شخص اپنی نظریئے سے تائب ہؤا اور بش کے ولچرز گروپ سے الگ ہوکر اوباما کے گروپ میں آگیا] مگر ان کی تاریخ کے خاتمے کا نظریہ در حقیقت ان کے اپنے مقصد کے لئے ہے اور مقصد دنیا میں لبرل سرمایہ داری نظام کو دوام و استحکام بخشنا ہے۔
روایات میں حضرت مہدی (عج) کو زمانوں کی بہار سے موسوم کیا گیا ہے اور جو سلام حضرت مہدی (عج) کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ ہے: "السلام علی یا ربیعالانام و نضرة الایام" سلام ہو آپ پر اے بہار انسانیت؛ اے زمانوں کی رونق اور اے تاریخ کی طروات.
جو لوگ آپ کی خدمت میں شرف دیدار سے مستفیض ہوئے ہیں انہوں نے آپ (عج) کے ظاہری شمائل کے بارے میں توصیفات پیش کی ہیں اور نبی اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) نے بھی آپ کی بعض توصیفات بیان کی ہیں اور محققین کے قلمی آثار میں یوں بیان ہؤا ہے کہ: گندمی چہرہ، ہلالی اور کشیدہ ابرو، سیاہ اور موٹی آنکھیں، جاذب نظر اور نافذ البصر، چوڑے شانے، چمکتے دانت، لمبی اور خوبصورت ناک، اونچی اور دمکتی پیشانی، بدن کی ساخت چٹانوں کی مانند مضبوط، رخسار کم گوشت اور شب بیداری کی وجہ سے زردی مائل، دائیں رخسار پر خال کا نشان، پیچیدہ اور مضبوط عضلات، سر کے بال کانوں پر شانوں تک لٹکے ہوئے، خوبصورت اور متناسب و متوازن اعضاء جسمانی، خوش سیما قیافہ، رخسار پر کرامت و بزرگواری کے زیر اثر حیاء کے مخفی اور شکوہمند آثار، ہیئت، قیادت و سیادت کی حشمت و شکوہ سے سرشار، نگاہ دگرگوں کردینے والی اور گرج ہمہ گیر اور بحر و قلزم کی مانند ہے۔
میں اپنے اس مضمون کی ابتداء میں دو نظریات، انسانی تاریخ کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر اور حیات و مدنیت کے بارے میں دو فلسفہ ہائے حیات کا موازنہ اور تقابلی جائزہ پیش کرتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کون سا نظریہ اور نقطہ نظر مہدویت سے جوڑ رکھتا ہی اورکون سا جوڑ نہیں رکھتا اور دوسرے حصے میں آپ (عج) کے بارے میں یا آپ (عج) سے ہی منقولہ روایات کا ذکر کروں گا اور یہ بیان کرنا چاہوں گا کہ آپ (عج) کس قسم کے معاشری کی تشکیل کریں گے اور کس قسم کی حکومت کی داغ بیل ڈالیں گے اور انسانی روابط اور البتہ انسانی حقوق کی تعریف آپ (عج) کی حکومت میں کیسی ہوگی. فہرست وار اور مختصر لکھنا چاہوں گا گو کہ ہر روایت اپنی جگہ ایک مستقل اور مفصل علمی کانفرنس کا موضوع ہوسکتی ہے۔
کہا گیا ہے کہ "انتظار" "واقعیت" (Reality) اور "حقیقت" (Truth or Fact) کا آمیزہ یا ترکیب ہے. واقعیت وہ ہے جو موجود ہے اور حقیقت وہ ہے جو موجود نہیں ہے مگر اسے موجود ہونا چاہئے. [بالفاظ دیگر واقعیت وہ ہے جو واقع ہؤئی ہے چاہے وہ حق ہو یا باطل ہو اور حقیقت حق ہے چاہے واقع ہوئی ہو یا واقع نہ ہؤئی ہو] کہا گیا ہے کہ انتظار واقعیت اور حقیقت کے درمیان تضاد سے وجود میں آتا ہے۔ "جو ہے" سے حرکت کرکے « ہونا چاہئے» کے مرحلے کی طرف چلنا. پس پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کی تفسیر کے لئے دو زاویۂ نگاہ آج موجود ہیں: اوّل: وہ نظریہ جو مسیانزم Messianism یا انتظار مسیح موعود کے بارے میں ہے اور یہاں مسیح سے مراد موعود ہے اور مسیانزم موعود کے انتظار کی دعوت ہے۔ انسانیت کی سطح پر ظہور موعود کا انتظار اور حال موجود پر تنقید ـ جو تاریخ کے خاتمے پر حق و عدل کی قطعی فتح و نصرت کی بشارت کے ہمراہ ہے ـ اور اس کو فوٹورزم Futurism [مستقبل کی طرف میلان] بھی کہا گیا ہے۔ فوٹورزم مستقبل پسندی یا مستقبل کی طرف نگاہ رکھنے کو کہا جاتا ہے؛ یعنی وہ عقیدہ یا آئیڈیالوجی جس کا رخ آئندہ کل کی طرف ہے؛ جس کے مطابق ساری چیزیں مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں؛ دنیا کا ابھی خاتمہ نہیں ہؤا؛ محرومین کو مأیوس نہیں ہونا چاہئے؛ آزادی و عدل و آگہی کی راہ میں جدوجہد کرنے والے مجاہدین اپنے جہاد اور جدوجہد سے نادم نہ ہوں؛ جن لوگوں کو دو بار چار بار نفاذ عدل و آگہی کی راہ میں شکست ہوئی ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ سب کچھ ختم ہؤا ہے۔؛ مستقبل کی طرف دیکھیں؛ سر اپنا اونچا رکھیں. آپ کے شہیدوں نے قربانیاں دی ہے؛ آپ کو صدمے اور نقصانات پہنچے ہیں؛ آپ کو ضرر و زیاں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔؛ آپ کو بعض محاذوں پر پسپا ہونا پڑا ہے مگر اپنا سر اونچا رکھیں. فوٹورزم یعنی یہ کہ آپ اپنی نظر قطعی اور یقینی طور پر امید کے ساتھ مستقبل پر رکھیں اور آج کے غروب کے عقب میں کل کا طلوع تصور کریں؛ شادماں ہوجائیں. یہ نظریہ رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے نہیں ہے۔
بعض مصلحت پسند اور اپنے عقائد کے اثبات میں تعصب پسند Pragmatist عناصر کہتے ہیں کہ خواہ امام زمانہ (عج) کا حقیقت میں وجود نہ ہی ہو، ان پر عقیدہ رکھنا مفید ہے !
ہمیں ان عناصر کے جواب میں کہنا چاہئے کہ نہیں! امام زمانہ (عج) حقیقت بھی ہے اور ان پر عقیدہ رکھنا مفید بھی ہے یعنی مہدویت حقیقت بھی ہے اور مفید بھی ہے۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مہدویت کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس عقیدے کا ادراک کرسکتے ہیں اور باور کرسکتے ہیں مگر قطعیت پسندی Dogmatism اور اپنے عقیدے پر بغیر دلیل کے اصرار کرنے ، تجربہ پسندی Positivism اور عالم حس کی جزمیات میں مبتلا ہوئے اور انبیاء کے ہاتھوں مادہ اور طبیعت کے ماوراء حقائق کی طرف کھلنے والے دریچے سے جھانکنے پر آمادہ نہیں ہوئے وہ شاید امام زمانہ کے عقیدے کو حقیقت اور اعتبار سے عاری سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اس عقیدے کو مفید قرار دیں [جو لوگوں میں امید و نشاط کا جذبہ زندہ رکھتا ہے] حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام زمانہ (عج) کا قصہ ایک افسانہ نہیں ہے اور اس عقیدے پر کسی صورت میں بھی افسانویت کا الزام نہیں لگنا چاہئے. امام زمانہ کے قصے میں "حقیقت" اور "فائدہ" دونوں ایک ساتھ موجود ہیں.
پس ایک تفکر میں انسان کے مسقبل اور تاریخ کی طرف نگاہ رکھی جاتی ہے جنہیں مغرب میں مسینزم اور فوٹورزم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی وسیلے سے اس تفکر پر وار کیا گیا، کیونکہ تاریخ زندہ ہے اور فعال ہے اور ایک ذی شعور موجود کی طرف سے اس کو آگے کی طرف چلایا جارہا ہے؛ اور انسان کی عاقبت دلدل اور ابہام پر منتج نہ ہوگی؛ یہ تفکر تاریخ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ تمام مظالم و جرائم اور بےانصافیوں اور انسان کو بولے جانے والے جھوٹ کے پیچھے سے "حقیقت و عدل" کا سورج طلوع کرےگا اور خدا انسانوں کو تاریخ کے ستمگروں کے سپرد نہیں کرے گا مگر اس کے مقابلے میں دوسرا تفکر آکھڑا ہوتا ہے؛ یہ تفکر آج لبرل سرمایہ داری اور مغربی تسلط پسندی کی جانب سے دنیا کی جامعات اور اکیڈمیوں کی طرف پمپ کیا جاتا ہے اور دنیا کی رائے عامہ کی سطح پر پروپیگنڈا مہم کی طاقت سے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھادیا جاتا ہے اور یہ تفکر تاریخ کی غایت و مقصد کی نفی سے تعلق رکھتا ہے۔ [مغربی طاقتیں غایت تاریخ کی نفی کرکے لوگوں کو موعود کے انتظار سے ناامید کرکے اپنے تسلط کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں اور ان کا تصور یہ ہے کہ اگر لوگ موعود کا انتظار چھوڑ دیں تو ان کے تسلط کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر آمادہ ہو ہی جائیں گے جبکہ موعود کی عالمی فرمانروائی کا تفکر رکھنے والے لوگ کسی بھی جعلی عالمگیریت کو حقیقی اور مہدوی عالمگیریت کے نعم البدل کے طور پر تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے]۔
ہم جب مغرب کا نام لیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مغربی دنیا کے عوام نہیں ہوتے. مغربی عوام میں جو عیسائی ہیں وہ موعود آخرالزمان کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کی فطرت کے اوپر مسلسل بمباریاں ہونےکے با وجود وہ اپنی باطنی لطافت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں؛ گو کہ یہ لوگ امریکہ اور یورپ میں نہایت چھوٹا طبقہ تشکیل دیتے ہیں.
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بعض دوستوں کے ہمراہ واشنگتن کے ایک عظیم اور قدیمی گرجا گھر دیکھنے کے لئے گئی تھے۔ اس گرجاگھر کےاحاطے میں ساتھ گرجاگھر تھے اور ایک گرجے سے نکل کر دوسرے گرجے میں داخل ہونا پڑتا تھا. ہم کلیسا کے ہال میں پہنچے تو مجھے ایک نوجوان امریکی طالبہ کھڑی نظر آئی جو بانسری بجارہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔ ہم وہاں سے گذرے اور کلیسا کے مختلف حصے دیکھنے کے بعد تقریبا ایک گھنٹہ بعد واپس لوٹے تو میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی ابھی بانسری بجا رہی ہے۔ یہ اتوار کے روز کی صبح کا وقت تھا. میں لڑکی کے قریب گیا اور اس سے اس کی اس حالت کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگی: «میں نے نذر مانی ہے کہ جب تک زندہ ہوں ہر اتوار کو موعود کے انتظار اور اس کے عشق میں کلیسا کے دروازے بانسری بجاتی رہوں گی». یہ امریکی معاشرہ ہے جہاں معنویت و روحانیت اور عدل و انسانیت کو ہر روز پروپیگنڈا بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر وہ اپنی عظیم پروپیگنڈا پاور کے باوجود واشنگٹن کے قلب میں رہنے والی اس نوجوان اور مذہبی طالبہ کی فطرت کو مات دینے سے قاصر ہیں. پس میں جب مغرب کا ذکر کرتا ہوں تو میری مراد مغرب میں رہنے والے سادہ دل اور ناآگاہ شہری، عام لوگ، خاص طور پر محرومین ـ جن میں حتی فساد و فحشاء میں مبتلا افراد بھی کسی نہ کسی طور پر مظلوم اور جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ـ نہیں ہیں بلکہ مغرب سے مراد لبرل سرمایہ داری کی تسلط پسندی اور یہودیوں کی سرمایہ داری سیلز کی حاکمیت ہے جو آج امریکہ پر اور امریکہ کے توسط سے پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں. وہی لوگ جنہوں نے حالیہ انتخابات ـ جو دھاندلی سے بھرپور تھی ـ میں ـ سرمایہ داری سیلز کی دو محافظوں ہی میں سے ـ ایک نامزد کو منتخب کرنے کے لئے رائے عامہ کی مغز شوئی پر اربوں ڈالر خرچ کئے اور یہ اربوں ڈالر در حقیقت ان ہی کمپنیوں کی طرف سے خرچ ہوئے اور یہ مغرب اور آج کی دنیا کے آقاؤں کی سرمایہ کاری کے زمرے میں آتے ہیں. اور جدید دور کی غلام پروری Modern Slaveholding کی قیادت ان ہی کے ہاتھوں میں ہے اور پوری انسانی تاریخ میں اقتدار کا سب سے زیادہ قدامت پسندConservative سیل بھی یہی لبرل فکری سیل ہے جو امریکہ اور مغرب کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ قدامت پسند کیوں ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ دنیا کی موجودہ حالت ان کے ہی فائدے میں قائم و دائم ر ہے۔ یہ حالت کیونکر قائم رہے گی؟ اس کے لئے انہیں سب سے پہلے دنیا والوں کو یہ باور کرانا پڑےگا کہ دنیا کی موجودہ حالت اور حالیہ عشروں میں رونما ہونے والے واقعات اور عالمی سرمایہ داری اور صہیونیت کے مفادات کے ذیل میں لبرلزم کی آئیڈیالوجی "طاقت اور دولت" کے فارمولے کی تعریف پیش کرتی ہے اور باور کرانا چاہتی ہے کہ یہ منطق و عقل کے عین مطابق ہے اور سب کو باور کرنا چاہئے کہ جس واقعے کا نام جدیدیت اور ماڈرنزم رکھا جاتا ہے درحقیقت تاریخ کا بالکل آخری نقطہ ہے۔
وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی مدینہ فاضلہ اور کوئی بھی آئیڈیل سوسائٹی، جو ہماری قیادت میں چلنے والے آج کے معاشرے سے زیادہ ترقی یافتہ اور برتر و بالاتر ہو، نہ صرف واقعیت کی دنیا میں موجود نہیں ہے بلکہ ایسے کسی معاشرے کا ذہنی وجود بھی نہیں ہے۔ پوپر پاپر Pooper نے اپنی موت سے چند سال قبل جرمن روزنامے "اشپیگل" کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: "پوری انسانی تاریخ میں آج «مدینۂ فاضلہ» ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا معاشرہ ہے". اشپیگل کے نمائندے نے ان سے پوچھا: "جس معاشرے میں ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک انسان کا قتل ہوتا ہے؛ ہر 9 سیکنڈ میں ایک خاتون کی عصمت دری ہوتی ہے اور جس معاشرے کا ذریعۂ آمدنی منشیات اور اجتماعی قتل میں استعمال ہونے والے کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیار ہیں وہ معاشرہ کیونکر مدینۂ فاضلہ اور تاریخ کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟"؛ اور وہ جواب دیتے ہیں: "درحقیقت مدینۂ فاضلہ کے تصور کی ضرورت ـ جو ہمیں دیا گیا ہے ـ ایک بڑا جھوٹ ہے؛ انتہائے تاریخ میں کسی بھی مدینۂ فاضلہ اور آئیڈیل سوسائٹی کا وجود ہی نہیں ہے اور اس کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہئے اور یہ گمراہ کن سوچ انسانی ذہن میں ایک افسانوی عقیدہ ہے". یا پھر [جاپانی نژاد] امریکی سرمایہ داری کا نظریہ پرداز «سیموئل فوکویاما» نے کہا: "اگر تاریخ کا خاتمہ کہیں ہے تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہی اس کا خاتمہ ہے [اور انسان اس سے زیادہ ترقی نہیں کرسکتا]؛ یہ تصور اور عقیدہ در حقیقت ایک قدامت پسندانہ تصور و تفکر ہے".
قدامت پسندی "کانزرویٹوزم Conservatism" دنیا کی موجودہ حالت کی حفاظت اور دنیا پر حکومت کرنے والے سلسلۂ حکمرانی Chain of Command کی حفاظت ہے جس کے فوقانی نقطے پر سرمایہ دار ہیں اور دیگر تمام اقوام، مشرقی اقوام، جنوبی اقوام سب کے سب اس سلسلے کی نچلی سطح پر واقع ہیں اور درحقیقت یہ اقوام اس قاعدے کے مطابق وہ غلام ہیں جو طاقت اور حکمرانی کے اہرام کے فوقانی حصے کو اپنے کندھوں پر لادی ہوئی ہیں. آج دنیا میں دولت کی تقسیم کس طرح ہوئی ہے؟ کتنے فیصد انسانوں کے پاس زمین کے کتنے فیصد وسائل اور دولت و ثروت ہے؟ [بالفاظ دیگر زمین کے کتنی فیصد وسائل سے کتنے فیصد لوگ مستفید ہورہے ہیں؟] اور اگر کوئی اصرار کرے کہ یہی حالت پھر بھی برقرار رہے تو اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے۔
روایت میں ہی کہ امام زمانہ (عج) انسانی معاشروں میں طبقاتی فاصلوں کا خاتمہ کریں گی؛
روایت میں ہے کہ ہمارے امام مہدی (عج) کے دور میں روئے زمین پر کوئی بھی بھوکا انسان نہ رہے گا؛
یہ وہ مہدویت ہے جس پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں مگر کسی نے بھی اہل تشیع کی مانند آخرالزمان کے معاشرے اور عظیم مہدوی انقلاب کے بارے میں صاف گوئی اور شفاف گوئی سے کام نہیں لیا ہے۔ اور شاید دوسرے اس حالت کے بارے میں شفاف آگہی نہیں رکھتے. اہل تشیع حتی اس عالمی انقلاب کے رہبر عالی قدر کا اسم گرامی تک بھی جانتے ہیں؛ اہل تشیع نے اس رہبر عظیم الشأن کی روش حکمرانی تک کی توصیف بیان کی ہے؛ آپ اپنشدوں، ویدوں، انجیل و تورات اور مغرب و مشرق کے تمام منابع میں آخرالزمان کی بشارتیں دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں مگر کہیں بھی اہل تشیع کے منابع کی طرح مہدی آخرالزمان (عج) ـ حتی کہ آپ (عج) کے چہرے کے خد و خال، باتوں، نعروں اور انقلاب کی روش اور حاکمیت کی روش و کیفیت ـ کے بارے میں وضاحتیں نہیں ملتیں۔
لبرل سرمایہداری نظام کی اصلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہم آئیڈیل معاشرہ تراش کر مسیانزم کے ذریعے دینی بنیادپرستی اور آئیڈیالوجی کے مخالف ہیں. یہ نظام حتی غیر دینی بنیادپرستی اور اصول پرستی کے خلاف بھی لڑتا نظر آتا ہے؛ اس کا ہدف یہ ہے کہ بنی نوع بشر کی رائے عامہ ـ خاص طور پر مشرقی اور اسلامی جامعات Universities [اور جامعاتی حلقوں Academic Circles] میں طالبعلم ـ کے ذہن میں اور اس کے بعد عام لوگوں کے ذہن میں موجودہ حالت کے بارے میں شک و تردد اور بہتر حالت کے انتظار کی صورت پیش نہ آئے اور یہ سوال نہ ابھرے کہ تو پھر کیا جدیدیت Modernity دنیا کا سب سے اونچا نقطہ اور تاریخ کا سب سے آخری مرحلہ نہیں ہے؟ کیا بہتر صورت حال کا انتظار کرنا چاہئے؟ لبرل سرمایہ داری نظام کی کوشش ہے کہ یہ سوال کسی صورت میں بھی بنی نوع انسان کی رائے عامہ اور رائے خاصہ میں جڑ نہ پکڑ سکے. وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ "دنیا کی موجودہ حالت سے آگی کوئی بھی بہتر حالت نہیں ہے اور جو کچھ بھی ہے علم و سائنس اور منطقیت و معقولیت کے عین مطابق ہے اور یہ تاریخ کے خاتمے کا آخری مرحلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی آخری اسٹیشن ہے اور ب بنی نوع انسان کو گاڑی سے اترنا چاہئے [یا پھر انسانیت کو بہتر حالت اور آئیڈیل سوسائٹی کی طرف جانے والی گاڑی سے زبردستی اتار دیتے ہیں].
اس بات کی طرف خصوصی توجہ دینا ضروری ہے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے تمام انسان ہماری سطح پر زندگی گذاریں اور ان کے پاس وہی وسائل ہوں جو امریکی شہریوں کو میسر ہیں؛ کیونکہ اگر وہ یہ بات زبان پر لائیں گے تو انہیں عالمی ستمگری اور نا انصافیوں اور عدم مساوات کا راستہ ترک کرنا پڑے گا؛ کیونکہ عالمگیریت Globalization کا مطلب اگر یہ ہو کہ دولت، طاقت، آگہی اور حرمت و احترام کی تقسیم دنیا میں برابری کی بنیاد پر اور یکسان و مساوی ہو تو یہ ہمارے لئے بھی قبول قبول ہوگا مگر جس گلوبلائزیشن کی وہ بات کرتے ہیں اس کا مطلب امریکہ کا عالمگیر ہوجانا ہے اور گلوبلائزیشن اور عالمگیریت اس طرح سے ہونی چاہئے کہ اس کے فوقانی نقطے پر امریکہ پر مسلط سرمایہ دار طبقہ براجمان ہو اور دیگر تمام انسان ان کے اس تخت روان کو اپنے کندھوں پر لادے رہیں.
مغربی گلوبالیزیشن در حقیقت دنیا پر مغرب کے ستم کی توجیہ کا نام ہے۔ وہ مہدوی عالمگیریت کے مخالف ہیں اور دنیا کو امریکی گلوبلائزیشن کی طرف بلاتے ہیں. اگر گلوبلائزیشن کا مطلب یہ ہو کہ امریکی آمریت، امریکہ، صہیونزم اور برطانیہ پر فرمانروائی کرنے والی سرمایہ داری کو عالمگیر کردیا جائے تو یہ گلوبلائزیشن ان ہی کے فائدے میں ہے اور وہ اسی گلوبلائزیشن کی ترویج کررہے ہیں. اس قسم کی گلوبلائزیشن مزاحمت کرنے والی تمام تہذیبوں اور مکاتب کو ہڑپ لے کر ہضم کردیتی ہے، لیکن اگر ہم کہیں کہ ہم گلوبلائزیشن کو قبول کرتے ہیں مگر اس کے یہودی سرمایہ دارانہ معیاروں کو قبول نہیں کرتے بلکہ ہم گلوبلائزیشن کو امام مہدی (عج) کے معیار کے ساتھ قبول کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی انسان بھوکا نہ رہے؛ افریقہ کے کسی گوشے میں گیارہ سالہ بچوں کا وزن واشنگٹن اور نیویارک کے شش ماہہ بچوں کے وزن جتنا نہیں ہونا چاہئے اور ایسا ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ بھوکے افریقی بچوں کی پسلیوں کی تیزی ان کے بدن کی کھال تک کو کاٹ ڈالے اور پسلیاں بدن سے باہر آجائیں تو آپ خود ہی دیکھیں گے کہ وہ اس مہدوی عالمگیریت ـ یعنی عالمی عدل و انصاف ـ کے سامنے مزاحمت کرتے ہیں اور اس کو قابل قبول نہیں سمجھتے اور اس کو ایک «توہم» اور یوٹوپیا Utopia گردانتے ہیں گردانتے ہیں؛ کیونکہ امام مہدی (عج) سارے انسانوں کے لئے امن و استحکام کے خواہاں ہیں نہ صرف مغربی سرمایہ داروں کے لئے.
روایت ہے کہ امام مہدی (عج) کی حکومت میں دنیا پر امن و امان کی حاکمیت کا حال یہ ہوگا کہ ایک اکیلی نوجوان لڑکی کسی بھی قسم کی توہین اور خطرات کا سامنا کئے بغیر مشرق سے مغرب تک سفر کرسکے گی. یہ ہماری روایات و احادیث میں ہے۔
مہدوی گلوبلائزیشن یعنی امن و امان سب کے لئے، امن و امان صرف نیویارک کے سرمایہ داروں کی لڑکیوں کے لئے نہیں بلکہ افریقہ، میکسیکو، گھانا اور افغانستان کی لڑکیوں کے لئے بھی؛ لیکن وہ گلوبلائزیشن جو لبرل سرمایہ داری کا مطمع نظر ہے اور لبرل سرمایہ داری اس کے نعرے اٹھا رہی ہے در حقیقت بعینہ کانزرویٹوزم اور قدامت پسندی ہے۔ لہذا اس قسم کی گلوبلائزیشن دنیا کی سطح پر اصول پرستی، مدینہ فاضلہ کا قیام عمل میں لانے اور آئیڈیالوجی اور اقدار کی حاکمیت کی سخت خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقدار اصولی طور پر غیر علمی اور غیر سائنسی مفاہیم اور غیر منطقی اور نامعقول مقولات اور موضوعات ہیں چنانچہ یہ ذاتی مسائل ہیں بلکہ ذاتی ساز و سامان کا جزو ہیں!! اور اقدار شخصی اور نِسبی Relative اور [اعتباری Respective] ہیں؛ پس اقدار کا حکومت اور امور عامہ Public Affairs سے کوئی تعلق نہیں ہے اور علمانیت Secularism یہی ہے [جس میں دین ایک ذاتی امر ہے اور اس کا سیاست اور امور عامہ سے کوئی تعلق نہیں ہے].
ان کی پروپیگنڈا مہم کی سمت و جہت یہی ہے کہ "مہدویت اور گلوبلائزیشن" اور "عالمی عدل کا وعدہ" خیال پردازی ہے اور اس کا امکان موجود نہیں ہے۔ وہ اپنے جامعاتی مباحث میں بھی اسی کا پرچار کرتے ہیں تا کہ کانزرویٹزم کے نظریئے کو عالمگیر کرسکیں؛ نیز وہ کہتے ہیں کہ مہدوی گلوبلائزیشن اور عالمی عدل بنیادی طور پر مکتب Idealogy، استبداد Despotism، توٹلیٹرینزم Totalitarianism اور آمریت پر مبنی ہے اور یہ کہ اس بات کا مطلب کیا ہوسکتا ہے کہ بفرض مثال مہدی (عج) کے نام سے ایک فرد واحد پوری دنیا پر حکومت کرے؟!
چونکہ ہماری روایات و احادیث میں ہے کہ مہدی (عج) برہان و شمشیر کے ذریعے عالمی انقلاب برپا کریں گے اور عالمی حاکمیت اور عالم عدل کا ہدف حاصل کریں گے؛ عیسائیوں کے ساتھ حقیقی انجیل کی روشنی میں اور یہودیوں کے ساتھ حقیقی تورات کی روشنی میں بحث و استدلال کریں گے؛ اور کسی کے لئے کوئی بھی عذر و بہانہ باقی نہیں چھوڑیں گے اور لوگوں کی اکثریت منطق وبرہان اور موعظہ اور لطف و رحمت کے ذریعے قائل ہوجائے گی لیکن جو لوگ ضد اور ہٹ دھرمی دکھائیں گے ان کی اصلاح شمشیر کے ذریعے ہوگی اور دنیا کے انسانوں کے درمیان کوئی بھی غیر مسلم نہیں رہے گا. [یا کم از کم تمام انسان اسلام قبول کریں گے گو کہ ممکن ہے کہ بعض لوگ دل ہی دل میں اسلام نہ بھی لائیں اور یہ مسئلہ بھی بعض روایات میں ہے کہ بعض لوگ کافر رہیں گے جو بظاہر مسلمان ہونگے مگر قلباً نہیں!].
source : www.abna.ir