کی رپورٹ کے مطابق نو جنوری کو سعودی عرب کے شہر جدہ کی ایک مسجد کے باہر سینکڑوں افراد کا مجمع رائف بداوی کو کوڑے لگتے دیکھ رہا تھا، رائف ایک سعودی بلاگر ہے جس نے اپنی ویب سائٹ پر حکومت کی بعض پالیسیوں اور کچھ سرکاری مفتیوں پر تنقید کی تھی۔
آزادی اظہار رائے کے اس مظاہرے پر پہلے اسے مرتد کہا گیا لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی، پھر حکمرانوں کی اطاعت نہ کرنے اور توہین مذہب کے الزامات کے تحت دھر لیا گیا۔ ان 'جرائم‘ کی پاداش میں اسے دس برس قید، ایک ہزار کوڑوں اور کوئی ساڑھے تین کروڑ روپوں کے لگ بھگ جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ نو جنوری کو برسائے گئے پچاس کوڑے سزا کی پہلی قسط تھی۔
دو دن بعد گیارہ جنوری کو پیرس میں لاکھوں افراد نے عالمی رہنماؤں کی قیادت میں آزادی اظہار رائے کے تحفظ کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مارچ کیا ۔ یہ مارچ فرانسیسی ہجویہ رسالے 'چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر ہوئی دہشتگردی کے بعد یہ بتانے کے لیے نکلا تھا کہ اس واقعہ سے ان کا اظہار رائے کا حق چھینا نہیں جا سکتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی اظہار کے حق میں نکالے گئے اس عظیم الشان جلوس کی پہلی صف میں فرانس میں سعودی عرب کے سفیر محمد اسماعیل الشیخ بھی موجود تھے جن کے اپنے ملک میں دو روز قبل ہی تین بچوں کے باپ کو اظہار رائے کی پاداش میں کوڑے مارے گئے تھے۔ رائف بداوی کو ہر ہفتے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور یہ سلسلہ بیس ہفتوں تک جاری رہے گا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے سزا پر اس لیے عملدرآمد نہیں ہوسکا کیونکہ ابھی پہلی قسط کے زخم مندمل نہیں ہوئے۔
رائف کے وکیل ولید ابوالخیر بھی جیل میں ہیں۔ ان پر حکمرانوں کی نافرمانی اور 'انتشار‘ پھیلانے جیسے الزامات ہیں۔ صرف رائف اور ولید ہی نہیں کئی اور لوگ بھی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے پر سعودی بادشاہت کے ظلم کا شکار ہیں۔
انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے سعودی عرب کا شمار دنیا کے جابر ملکوں میں ہوتا ہے،جہاں عوامی اجتماعات میں سزا کے طور پر سرعام گردن زدنی، ہاتھ پاؤں کاٹنے اور کوڑے مارنے کا آج بھی رواج ہے۔ خواتین مردوں کی مرضی کے بغیر پاسپورٹ نہیں بنوا سکتی، شادی نہیں کر سکتی، سفر پر نہیں جا سکتیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔خواتین اگر گاڑی چلانے کی کوشش کریں تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف رائے کی بنیاد پر بیسیوں لوگ پابند سلاسل ہیں۔ بدترین لیبر لاز ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے سعودی عرب اور شمالی کوریا کو ایک ہی خانے میں رکھتے ہیں۔
لیکن جب شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نوے برس کی عمر میں فوت ہوتے ہیں تو دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے اور اسی کا بول بالا کرنے کے لیے دوسرے ملکوں پر پابندیاں لگانے اور فوج کشی کرنے والے امریکہ اور برطانیہ جیسے طاقتور ممالک کی حکومتیں سوگ میں چلی جاتی ہیں۔
برطانیہ نے تو حد ہی کر دی ہے۔ شاہ عبداللہ کی وفات پر وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ، پارلیمان، سرکاری دفاتر ، ویسٹ منسٹر ایبی اور بکنگم پیلس پر برطانوی پرچم سر نگوں رہا، اور تازہ خبر یہ ہے کہ برطانوی وزارت انصاف کاکاروباری شعبہ سعودی جیل سٹاف کی تربیت کا چھ ملین پاؤنڈ کا ٹھیکہ لینے کی کوشش میں بھی لگا ہوا ہے۔
تاج برطانیہ کے ولی عہد پرنس چارلز اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون افسوس کے بہانے نئے سعودی حکمران سے راہ ورسم بڑھانے سینچر کو ریاد میں تھے۔ آزادی اظہار رائے کے موجودہ چیمپئن فرانس کے صدر فرانسواں ہولان بھی شرف باریابی کے لیے تشریف لے جاچکے ہیں جبکہ امریکہ کے صدر اوبامہ منگل کو اپنے وفد کے ساتھ ریادپہنچ رہے ہیں۔یہ تمام وہ سیاسی یا حکومتی ہاتھی ہیں مغرب میں جن کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہے۔
انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ فرانس کی کرسٹین لیگارڈ نے یہ بیان دے کر سب کو حیران کر رکھا ہے کہ 'مرحوم شاہ عبداللہ خواتین کے حقوق کے علمبردار تھے‘۔
یہ وہ منافقت ہے جس کی بنیاد معاشی مفادات پر مبنی ہے۔ سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ صنعتی ممالک کو اپنی گاڑی چلانے کے لیے اس تیل کی ضرورت ہے جس پر السعود خانوادہ بیٹھا ہوا ہے۔خالص اسلام کے نام پر وہابیت کی مشینری بھی اسی تیل سے رواں دواں ہیں جس کی پیداوار پشاور سے پیرس تک اپنا لوہا منوا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے بان کیمون سے لیکر امریکہ کے جان کیری تک مرحوم شاہ عبداللہ کو بین المذاہب ہم آہنگی کا چیمپئن قرار دے رہے ہیں جبکہ سعودی عرب میں اسلام کے علاوہ کسی عقیدے کی پیروی کی اجازت نہیں۔ پورے ملک میں کوئی چرچ یا مندر نہیں، حالانکہ دوسرے ممالک سے آئے دس لاکھ کے لگ بھگ ایسے محنت کش ہیں جو عیسائی ہیں اور کم و بیش اتنے ہی ہندو ہونگے۔ دوسرے مذاہب، عقائد اور نظریات کے لیے اسی عدم برداشت کا مظاہرہ وہابی اسلام کو ماننے والے اب دنیا کے ہر کونے میں کرتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی شاہ عبداللہ بین المذاہب ہم آہنگی کے چیمپئن تھے۔
آمرانہ اور جابرانہ حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے دنیا بھر کے رائف اور ولید جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں لیکن وہاں کے حکمرانوں کی نظر تیل کی دھار پر ہے.
source : www.abna.ir