آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وہی عبوری حیثیت رکھتا تھا جس میں شہادت حضرت امام حسین(ع) سے پیداشدہ اثرات کی بنا پر بنی امیہ کی سلطنت کو ہچکولے پہنچتے رہتے تھے مگر تقریباً ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا بلکہ فتوحات کے اعتبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔
حضرت امام محمد باقر(ع) خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گو طفولیت کا دور تھا یعنی تین چار برس کے درمیان عمر تھی مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ ان تاثرات سے علیحدہ نہیں رہ سکتا تھا۔ چہ جائیکہ یہ نفوس جو مبداء فیض سے غیرمعمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینہ(ع) کے ساتھ ساتھ یقیناً قید وبند کی صعوبت میں بھی شریک تھے اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کے خلاف جتنی بھی برہمی ہوتی ظاہر ہے چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی بن الحسین(ع) نے ایک وقت ایسا آیاکہ
بنی امیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی اسی طرح سادات حسنی (ع)میں سے متعدد حضرات وقتاً فوقتاً بنی امیہ کے خلاف کھڑے ہوتے رہے حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام محمد باقر(ع) کو رہا تھا۔ اتنا جناب زید کو بھی نہ تھا چہ جائیکہ حسنی سادات جو نسبتاً دوسری شاخ میں تھے۔ مگر یہ آپ کا وہی جذبات سے بلند ہونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نہیں ہوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفادِ اسلامی کے تحفظ کے لئے اسی طرح مشورے دیئے جس طرح آپ کے جد امجد حضرت علی بن ابی طالب(ع) اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رہے تھے۔ چنانچہ رومی سکوں کے بجائے اسلامی سکہ آپ ہی کے مشورہ سے رائج ہوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نہیں رہے۔
باوجودیکہ زمانہ آپکو والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین(ع) کے زمانہ سے بہتر ملا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دہشت اہل بیت(ع) کے ساتھ وابستگی میں کچھ کم ہو گیا تھا اور ان میں علوم اہل بیت سے گرویدگی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ہو گئی تھی کوئی دوسرا ہوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام باقر(ع) مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ہونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم بہ قدم ہی رہے۔
بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظام کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے۔ امام زین العابدین(ع) کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب و تحریص بھی کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ نشر علوم آل محمد(ع) کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا۔ اور دنیا کے دل پر علمی جلالت کا سکہ بٹھا دیا گیا۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی آپ کو ”باقرالعلوم“ ماننے پر مجبور ہوئے جس کا مفہوم ہی ہے ”علوم کے اسرار و رموز کو ظاہرکرنے والے“۔ اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ اپنے کردار میں انہی علی بن ابی طالب(ع) کے صحیح جانشین ہیں جنہوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ہاتھ سے جانے پر صبر کرتے ہوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وہی ورثہ تھا جو سینہ بسینہ حضرت محمد باقر(ع) تک پہنچا تھا۔ نہ امتداد زمانہ ن ےاس میں کہنگی پیدا کی تھی اور نہ اس رنگ کو مدھم بنایا تھا۔ نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات سے غافل کیا۔